Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 یعنی میری عبادت و اطاعت سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ مجھے کما کر کھلائیں، جیسا کہ دوسرے آقاؤں کا مقصود ہوتا ہے، بلکہ رزق کے سارے خزانے تو خود میرے ہی پاس ہیں میری عبادت و اطاعت سے تو خود ان ہی کا فائدہ ہوگا کہ ان کی آخرت سنور جائے گی نہ کہ مجھے کوئی فائدہ ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٩] اہل عرب غلاموں کی کمائی کھاتے تھے اور اللہ اپنے بندوں کو کھلاتا ہے :۔ دور نبوی کے عرب معاشرہ میں غلام رکھنے کا رواج تھا اور مالک ان سے اپنی خدمت ہی نہیں لیتے تھے بلکہ انہیں کمائی کے لیے بھیجتے اور ان کی کمائی کھاتے تھے۔ گویا غلام ہی ان کا سرمایہ تھے۔ جس کے پاس جتنے زیادہ غلام ہوتے اتنا ہی وہ زیادہ مالدار سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں اس کی مثال فیکٹری سے دی جاسکتی ہے۔ ایک فیکٹری میں اگر دس ملازم ہیں اور دوسری میں سو ہیں تو سو ملازموں کی فیکٹری کا مالک یقیناً زیادہ سرمایہ دار اور مالدار سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمام انسان اور جن میرے بندے اور غلام ہیں۔ لیکن میں ان کی کمائی نہیں کھاتا نہ ہی مجھے اس کی حاجت ہے، بلکہ رزق تو میں خود سب کو دے رہا ہوں میں لے کیسے سکتا ہوں ؟ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ایک اہم نکتہ معلوم ہوتا ہے جو یہ ہے کہ معبود حقیقی کی شان یہ ہے کہ وہ رزق دیتا ہے لیتا نہیں۔ جبکہ دوسرے معبود اپنے عبادت گزاروں سے رزق اور پیسے لیتے ہیں۔ اگر عبادت گزار اور مرید حضرات اپنے نذرانے اور نیازیں دینا بند کردیں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہ چل سکے۔ یہی دلیل ان کے باطل ہونے کے لیے کافی ہے۔- رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے اگر دوسروں کو عبادت سے منع کیا ہے تو اپنی عبادت کا کیوں حکم دیا ہے ؟ کیا اسے اس کی احتیاج ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے کوئی احتیاج نہیں کیونکہ وہ بےنیاز ہے۔ کسی کے عبادت کرنے یا نہ کرنے سے نہ اس کا کچھ بگڑتا ہے اور نہ سنورتا ہے۔ بلکہ اللہ کی عبادت کرنے اور خالق ومالک کا حق پہچاننے میں ان کا اپنا ہی بھلا ہے جیسا کہ بیشمار آیات و احادیث سے واضح ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(مار ارید منھم من رزق …: یہ کلام انسان کی عام عادت کے مطابق کیا گیا ہے، کیونکہ انسان جو کچھ بناتا ہے اپنے کسی فائدے کے لئے بناتا ہے اور جو غلام خریدتا اور پانی ملکیت میں رکھتا ہے اس سے مقصد اپنی ضروریات کے لئے ان سے کام لینا اور ان کی کمائی کھانا ہوتا ہے۔ فرمایا جن و انس سے نہ میں کسی طرح کا رزق چاہتا ہوں اور نہ میرا یہ مقصد ہے کہ وہ مجھے کھانے کو کچھ دیں۔ ان کے پیدا کرنے سے میرا اپنا کوئی نفع مقصود نہیں، میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ میری بندگی کریں، میرے غلام بن کر رہیں اور اس میں انھی کا فائدہ ہے۔ آیت میں اپنے لئے پہلے رزق کی نفی کی جس میں انسان کی ہر ضورت آتی ہے۔ اس کے بعد رقز میں سے انسان کے لئے سب ضروری چیزک ھانے کی نفی فرمائی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مَآ اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ الایة۔ یعنی میں جن و انس کو پیدا کر کے ان سے عام انسانوں کی عادت کے مطابق اپنا کوئی نفع نہیں چاہتا، کہ وہ رزق پیدا کریں، میرے لئے یا اپنے لئے یا میری دوسری مخلوق کے لئے اور یا یہ کہ وہ مجھے کما کر کھلائیں، یہ سب کلام انسان کی عام عادت پر کیا گیا ہے کیونکہ بڑے بڑے انسان جو غلام خریدتا اور اس پر خرچ کرتا ہے تو اس کا مصداق ان غلاموں سے اپنے کام لینا اپنی ضروریات اور کاموں میں مدد لینا اور کمائی کر کے آقا کو دینا ہوتا ہے، حق تعالیٰ ان سب چیزوں سے پاک اور بالا و برتر ہیں، اس لئے فرمایا کہ ان کو پیدا کرنے سے میرا اپنا کوئی نفع مقصود نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَآ اُرِيْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ۝ ٥٧- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ- [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا - [ الأحزاب 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا - [ المائدة 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله :- فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ- [ الحج 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ- [يس 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ- [ الأنعام 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام :- «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ.- ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

میں نے ان کو اس چیز کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ اپنی روزیوں کا انتظام کیا کریں یا ان ہی کو رزق رسانی میں وہ میری مدد کیا کریں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ مَــآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ ” میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا “- وَّمَــآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ ۔ ” اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ مجھے کھلائیں ‘ پلائیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :54 یعنی میری کوئی غرض جِنوں اور انسانوں سے اٹکی ہوئی نہیں ہے کہ یہ میری عبادت کریں گے تو میری خدائی چلے گی اور یہ میری بندگی سے منہ موڑ لیں گے تو میں خدا نہ رہوں گا ۔ میں ان کی عبادت کا محتاج نہیں ہوں بلکہ میری عبادت کرنا خود ان کی اپنی فطرت کا تقاضا ہے ، اسی کے لیے یہ پیدا کیے گئے ہیں ، اور اپنی فطرت سے لڑنے میں ان کا اپنا نقصان ہے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ، اس میں ایک لطیف تعریض ہے ۔ خدا سے برگشتہ لوگ دنیا میں جن جن کی بندگی بجا لا رہے ہیں ، وہ سب در حقیقت اپنے ان بندوں کے محتاج ہیں ۔ یہ ان کی خدائی نہ چلائیں تو ایک دن بھی وہ نہ چلے ۔ وہ ان کے رازق نہیں بلکہ الٹے یہ ان کو رزق پہنچاتے ہیں ۔ وہاں ان کو نہیں کھلاتے بلکہ الٹے یہ ان کو کھلاتے ہیں ۔ وہ ان کی جان کے محافظ نہیں بلکہ الٹے یہ ان کی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ان کے لشکر یہ ہیں جن کے بل پر ان کی خدائی چلتی ہے ۔ جہاں بھی ان جھوٹے خداؤں کی حمایت کرنے والے بندے نہ رہے ، یا بندوں نے ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا وہاں ان کے سب ٹھاٹھ پڑے رہ گئے اور دنیا کی آنکھوں نے ان کی کسمپرسی کا حال دیکھ لیا ۔ سارے معبودوں میں اکیلا ایک اللہ جل شانہ ہی وہ حقیقی معبود ہے جس کی خدائی اپنے بل بوتے پر چل رہی ہے ، جو اپنے بندوں سے کچھ لیتا نہیں بلکہ وہی اپنے بندوں کو سب کچھ دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani