7۔ 1 دوسرا ترجمہ، حسن جمال اور زینت و رونق والا کیا گیا ہے چاند، سورج ستارے و سیارے، روشن ستارے، اس کی بلندی اور وسعت، یہ سب چیزیں آسمان کی رونق وزینت اور خوب صورتی کا باعث ہیں
[٣] حَبَکَ کا لغوی معنی :۔ حبک (الثوب) بمعنی کپڑا بننا اور حباک بمعنی جولاہا اور حبک حابک الثوب بمعنی جولا ہے کا کپڑے کو کاریگری سے بننا۔ عمدہ بننا ہے (المنجد) اور کپڑا بنتے وقت ایک دھاگا طول کی طرف جاتا ہے اور دوسرا عرض کی طرف۔ پھر حبک کا معنی راستہ بھی ہے۔ (مفردات القرآن۔ منجد) اور اس کی جمع حُبُک ہے۔ گویا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس آسمان کی قسم جس کے طول و عرض دونوں اطراف میں بیشمار راہیں ہیں جو ایک دوسرے کو کر اس کرتی اور چوک بناتی چلی جاتی ہیں۔ اسی لحاظ سے اس کا ترجمہ بعض مترجمین نے جال دار یا جالی دار آسمان بھی کیا ہے۔ یعنی اس آسمان کی قسم جو سیاروں اور فرشتوں کی لا تعداد گزر گاہوں اور راستوں کی وجہ سے جالی دار بن گیا ہے۔
(والسمآء ذات الحبک :” حبک یحبک حبکا “ (ن، ض ) کسی چیز کو باندھنا، مضبوط بنانا، جو لا ہے کا کپڑے کو مضبوطی اور خوبصورتی کے ساتھ بننا۔” الحبک “ ” حبیکۃ “ کی جمع ہے۔ ” حبک الرمل والماء والشعر “ ٹھہرے ہوئے پانی یا ریت پر ہوا سے جو لہریں سی بن جاتی ہیں، گھونگھر یا لے بالوں کی لہریں۔ ” حبک السمآئ “ آسمان میں ستاروں کے راستے ۔ (قاموس)
(آیت) وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْحُبُكِ ، اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ، حبک، حبیکہ کی جمع ہے، کپڑے کی بناوٹ میں جو دھاریاں ہوجاتی ہیں ان کو حبک کہا جاتا ہے، وہ چونکہ راستہ اور سڑک کے مشابہ ہوتی ہیں اس لئے راستوں کو بھی حبک کہہ دیا جاتا ہے، بہت سے حضرات مفسرین نے اس جگہ یہی معنی مراد لئے ہیں کہ قسم ہے آسمان کی جو راستوں والا ہے، راستوں سے وہ راستے بھی مراد ہو سکتے ہیں جن سے فرشتے آتے جاتے ہیں اور اس سے مراد ستاروں اور سیاروں کے راستے اور ان کے مدار بھی ہو سکتے ہیں جو دیکھنے والوں کو آسمان میں نظر آتے ہیں - اور چونکہ یہ بناوٹ کی دھاریاں کپڑے کی زینت اور حسن بھی ہوتی ہیں، اس لئے بعض حضرات مفسرین نے یہاں حبک کے معنی زینت اور حسن کیلئے ہیں کہ قسم ہے آسمان کی جو حسن وزینت والا ہے، یہ قسم جس مضمون کے لئے آئی ہے وہ (اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ) میں مذکور ہے، بظاہر اس کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق مختلف اور متضاد باتیں کہا کرتے تھے، کبھی مجنون، کبھی جاو و گر، کبھی شاعر وغیرہ کے لغو خطابات دیتے تھے اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اس کے مخاطب عام امت کے لوگ مسلم و کافر سب ہوں اور قول مختلف سے مراد یہ ہو کہ بعض تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتے اور تصدیق کرتے ہیں، بعض انکار و مخالفت سے پیش آتے ہیں (ذکرہ فی المظہری )
وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْحُبُكِ ٧ ۙ- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- حبك - قال تعالی: وَالسَّماءِ ذاتِ الْحُبُكِ [ الذاریات 7] ، هي ذات الطرائق فمن الناس من تصوّر منها الطرائق المحسوسة بالنجوم والمجرّة، ومنهم من اعتبر ذلک بما فيه من الطرائق المعقولة المدرکة بالبصیرة، وإلى ذلك أشار بقوله تعالی: الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنا ما خَلَقْتَ هذا باطِلًا سُبْحانَكَ فَقِنا عَذابَ النَّارِ [ آل عمران 191] . وأصله من قولهم : بعیر مَحْبُوک القرا أي : محكمه، والاحتباک : شدّ الإزار .- ( ح ب ک ) ( الحبیکۃ والحباک کے معنی راستہ کے ہیں الحبک ) آیت کریمہ : وَالسَّماءِ ذاتِ الْحُبُكِ [ الذاریات 7] اور آسمان کی قسم جس میں رستے ہیں ۔ میں بعض نے الحبک سے ستاروں اور کہکشاں کے محسوس راستے مراد لئے ہیں اور بعض نے عقلی راستے مراد لئے ہیں ۔ جن کا تعلق بصیرت سے ہے چناچہ آیت کریمہ ؛۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنا ما خَلَقْتَ هذا باطِلًا سُبْحانَكَ فَقِنا عَذابَ النَّارِ [ آل عمران 191] میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اصل میں یہ بعیر محبوک القویٰ ۔ کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی وہ اونٹ جس کے جوڑ بند نہایت مضبوط ہوں ۔ الاحتباک ( افتعال ) کس کر اور مضبوطی سے باندھنا۔
اور قسم ہے آسمان کی جو کہ حسن و جمال درستگی اور فرشتوں کے چلنے کے لیے رستوں والا ہے یا یہ کہ جو چاند و سورج اور ستاروں والا ہے یا یہ کہ وہ پانی کی طرح رستوں والا ہے جیسا کہ پانی میں ہوا کی وجہ سے رستے بن جاتے ہیں یا یہ کہ وہ ریت کے اڑنے کی طرح ہے جبکہ اسے ہوا اڑاتی ہے یا یہ کہ وہ گھنگریالے بالوں کی طرح ہے یا یہ کہ وزر ہوں کے خانوں کی طرح ہے یا ذات الحبک سے ساتواں آسمان مراد ہے غرض کہ یہ آخری قسم ہے۔
آیت ٧ وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْحُبُکِ ۔ ” اور قسم ہے جالی دار آسمان کی ۔ “- یہ اس منظر کی طرف اشارہ ہے جو رات کے وقت تاروں بھرا آسمان پیش کرتا ہے۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :5 اصل میں لفظ ذَاتِ الْحُبُکِ استعمال ہوا ہے ۔ حبُک راستوں کو بھی کہتے ہیں ۔ ان لہروں کو بھی کہتے ہیں جو ہوا کے چلنے سے ریگستان کی ریت اور ٹھرے ہوئے پانی میں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اور گھونگھر والے بالوں میں جو لٹیں سے بن جاتی ہیں ان کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ یہاں آسمان کو حُبک والا یا تو اس لحاظ سے فرمایا گیا ہے کہ آسمان پر اکثر طرح طرح کی شکلوں والے بادل چھائے رہتے ہیں جن میں ہوا کے اثر سے بار بار تغیر ہوتا ہے اور کبھی کوئی شکل نہ خود قائم رہتی ہے ، نہ کسی دوسری شکل سے مشابہ ہوتی ہے ۔ یا اس بنا پر فرمایا گیا ہے کہ رات کے وقت آسمان پر جب تارے بکھرے ہوتے ہیں تو آدمی دیکھتا ہے کہ ان کی بہت سی مختلف شکلیں ہیں اور کوئی شکل دوسری شکل سے نہیں ملتی ۔
2: یہاں راستوں سے مراد بظاہر وہ راستے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتے، لیکن فرشتوں کی آمد و رفت ان راستوں سے ہوتی ہے، اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ آسمان کا لفظ بعض اوقات ہر اوپر والی چیز کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اور یہاں اوپر کی وہ فضا مراد ہے جس میں ستاروں کے متعین راستے بنے ہوئے ہیں۔