Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یعنی اے اہل مکہ تمہارا کسی بات میں آپس میں اتفاق نہیں ہے۔ ہمارے پیغمبر کو تم میں سے کوئی جادو گر، کوئی شاعر، کوئی کاہن اور کوئی جھوٹا کہتا ہے۔ اسی طرح کوئی قیامت کی بالکل نفی کرتا ہے، کوئی شک کا اظہار، علاوہ ازیں ایک طرف اللہ کے خالق اور رازق ہونے کا اعتراف کرتے ہو، دوسری طرف دوسروں کو بھی معبود بنا رکھا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

انکم لفی قول مختلف : یعنی یہ آسمان جو نہایت مضبوط و مسحتکم اور بےحد خوبصورت ہے، جس میں ستاروں کے راستے میں اور جو بادلوں کی لہروں سے آراستہ ہے، شاہد ہے کہ تم ایسی بات میں پڑے ہوئے ہو جس میں تمہارا بہت اختلاف ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس میں آسمان کی شہادت کیسے ہے اور یہ کہنے سے حاصل کیا ہے کہ تم ایسی بات میں پڑے ہوئے ہو جس میں بہت اختلاف ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اتنا مستحکم و مضبوط ، بلند و بالا، خوبصورت اور مزین آسمان شاہد ہے کہ اس کے بنانے والے کے لئے قیامت برپا کرنا اور تمہیں دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں، جیسا کہ فرمایا :(ء انتم اشد خلقاً ام السمآء بنھا) (النازعات : ٢٨)” کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان ؟ اس نے اسے بنایا۔ “ رہا یہ سوال کہ جواب قسم ” انکم لفی قول مختلف “ کی مناسبت قسم کے ساتھ کیا ہے ؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ دراصل یہاں بات مختصر کی گئی ہے، تفصیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مضبوط و مسحتکم آسمان کی قسم کھا کر فمایا ہ اے گروہ کفار اس آسمان کی قسم یعہ کہ قیامت کے متعلق اللہ کا قول حق اور تمہارا قول باطل ہے، کیونکہ تم ایسے قول میں پڑے ہوئے ہو جو باہم مختلف اور متناقض ہے، جب کہ حق میں اختلاف نہیں ہوتا، جیسا کہ فرمایا :(ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً (النسائ : ٨٢)” اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔ “ چناچہ تم میں سے کوئی تو کہتا ہے کہ یہ دنیا ایسے ہی چلی آئی ہے، کچھ لوگ مرتے ہیں اور دوسرے پیدا ہوتے ہیں، نہ آج تک کوئی دوبارہ آیا نہ کوئی دوبارہ زندگی ہے۔ کوئی تناسخ کا قائل ہے اور کہتا ہے کہ اچھے اور برے اعمال کا بدلا تو لازم ہے مگر اس کیلئے کوئی دن مقرر نہیں، بلکہ انسان دنیا میں بار بار اچھی یا بری مخلوق کی صورت میں جنم لیتا رہتا ہے۔ کوئی آخرت کو تو مانتا ہے مگر کچھ ہستیوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ ایسی زور آور ہیں کہ اپنی شفاعت کے ساتھ اس دن اپنے نام لیواؤں کو زبردستی چھڑا لیں گی۔ یہ اختلاف دلیل ہے کہ قیامت کے متعلق تمہارا قول باطل ہے ۔ قیامت کے متعلق کفار کے اختلاف کا ذکر سورة نبا کے شرع میں بھی فرمایا :” عم یتسآء لون، عن النبا العظیم ، الذی ھم فیہ مختلفون ) (النبیا : ١ تا ٣) ” کس چیز کے بارے میں وہ آپ س میں سوال کر رہے ہیں ؟ (کیا) اس بڑی خبر کے بارے میں ؟ وہ کہ جس میں وہ اختلاف کرنے والے ہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ۝ ٨ ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨۔ ٩) قسم کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مکہ والو تم رسول اکرم اور قرآن کریم کے بارے میں مختلف باتیں کرتے ہو کہ تم میں سے بعض تصدیق کرتے ہیں اور بعض تکذیب۔ رسولا کرم اور قرآن سے وہی پھرتا ہے جسے حق و ہدایت ہی سے پھرنا ہوتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ اِنَّـکُمْ لَـفِیْ قَـوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ۔ ” یقینا تم لوگ ایک جھگڑے کی بات میں پڑگئے ہو۔ “- یعنی آخرت کے بارے میں تم ایک اختلاف میں پڑگئے ہو اور تمہاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :6 اس اختلاف اقوال پر متفرق شکلوں والے آسمان کی قسم تشبیہ کے طور پر کھائی گئی ہے ۔ یعنی جس طرح آسمان کے بادلوں اور تاروں کے جھرمٹوں کی شکلیں مختلف ہیں اور ان میں کوئی مطابقت نہیں پائی جاتی اسی طرح آخرت کے متعلق تم لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہو اور ہر ایک بات دوسرے سے مختلف ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ دنیا ازلی و ابدی ہے اور کوئی قیامت برپا نہیں ہو سکتی ۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ نظام حادث ہے اور ایک وقت میں یہ جا کر ختم بھی ہو سکتا ہے ، مگر انسان سمیت جو چیز بھی فنا ہو گئی ، پھر اس کا اعادہ ممکن نہیں ہے ۔ کوئی اعادے کو ممکن مانتا ہے ، مگر اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کے اچھے اور برے نتائج بھگتنے کے لیے بار بار اسی دنیا میں جنم لیتا ہے ۔ کوئی جنت اور جہنم کا بھی قائل ہے ، مگر اس کے ساتھ تناسُخ کو بھی ملاتا رہتا ہے ، یعنی اس کا خیال یہ ہے کہ گناہ گار جہنم میں بھی جا کر سزا بھگتتا ہے اور پھر اس دنیا میں بھی سزا پانے کے لیے جنم لیتا رہتا ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ دنیا کی زندگی خود ایک عذاب ہے جب تک انسان کے نفس کو مادی زندگی سے لگاؤ باقی رہتا ہے اس وقت تک وہ اس دنیا میں مر مر کر پھر جنم لیتا رہتا ہے ، اور اس کی حقیقی نجات ( نِروان ) یہ ہے کہ وہ بالکل فنا ہو جائے ۔ کوئی آخرت اور جنت و جہنم کا قائل ہے ، مگر کہتا ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو صلیب پر موت دے کر انسان کے ازلی گناہ کا کفارہ ادا کر دیا ہے ، اور اس بیٹے پر ایمان لا کر آدمی اپنے اعمال بد کے برے نتائج سے بچ جائے گا ۔ کچھ دوسرے لوگ آخرت اور جزا و سزا ، ہر چیز کو مان کر بعض ایسے بزرگوں کو شفیع تجویز کر لیتے ہیں جو اللہ کے ایسے پیارے ہیں ، یا اللہ کے ہاں ایسا زور رکھتے ہیں کہ جو ان کا دامن گرفتہ ہو وہ دنیا میں سب کچھ کر کے بھی سزا سے بچ سکتا ہے ۔ ان بزرگ ہستیوں کے بارے میں بھی اس عقیدے کے ماننے والوں میں اتفاق نہیں ہے ، بلکہ ہر ایک گروہ نے اپنے الگ الگ شفیع بنا رکھے ہیں ۔ یہ اختلاف اقوال خود ہی اس امر کا ثبوت ہے وحی و رسالت سے بے نیاز ہو کر انسان نے اپنے اور اس دنیا کے انجام پر جب بھی کوئی رائے قائم کی ہے ، علم کے بغیر قائم کی ہے ۔ ورنہ اگر انسان کے پاس اس معاملہ میں فی الواقع براہ راست علم کا کوئی ذریعہ ہوتا تو اتنے مختلف اور متضاد عقیدے پیدا نہ ہوتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: یعنی ایک طرف اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کا خالق مانتے ہو، اور دوسری طرف اس کی یہ قدرت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو کہ وہ مرنے کے بعد انسانوں کو دوبارہ زندگی دے سکتا ہے۔