9۔ 1 یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے، یا حق سے یعنی بعث و توحید سے یا مطلب ہے مذکورہ اختلاف سے وہ شخص پھیر دیا گیا جسے اللہ نے اپنی توفیق سے پھیر دیا، پہلے مفہوم میں ذم ہے اور دوسرے میں مدح۔
[٤] آسمان کے نظم ونسق سے معاد پر دلیل :۔ یعنی ایسے جال دار راستوں والے آسمان کی قسم کہ تم لوگ جو قیامت اور آخرت کے بارے میں بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہو تو بہت سے لوگ اس قیامت اور آخرت پر ایمان لے آئیں گے اور اس عقیدہ سے انکار صرف وہی شخص کرے گا جس نے خیر وسعادت کی تمام راہیں اپنے آپ پر بند کردی ہوں۔ ایسا ہی شخص ان باتوں کو تسلیم کرنے سے باز رہ سکتا ہے۔ ورنہ اگر وہ آسمان کے نظم و نسق میں ہی غور کرے تو اسے یقین ہوجائے کہ اس مسئلہ میں جھگڑنا محض حماقت ہے۔
(یوفک عنہ من افک :” عنہ “ کی ضمیر کا مرجع یا تو ” ان الذین لواقع “ میں لفظ ” الدین “ ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہے کہ اس (قیامت) سے وہی بہکایا جاتا ہے جو ) پہلے ہی) بہکایا گیا ہو، کسی صحیح الدماغ آدمی کو اس سے پھیرا اور بہکایا انہیں جاسکتا۔ یا ” عنہ “ کی ضمیر کا مرجع ” قولم ختلف “ ہے، اس صورت میں ” عن “ تعلیل کے معنی میں ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ یقینا تم ایک اختلاف والی بات میں پڑے ہوئے ہو جس کی وجہ سے وہی آدمی بہکایا جاتا ہے جو (پہلے ہی) بہ کیا ا گیا ہو، ایسی مختلف باتوں کی وجہ سے کسی صحیح دماغ والے کو بہ کیا انہیں جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ ” عن “ کے معانی میں سے تعلیل مسلم معنی ہے، اس معنی کی مثال یہ آیت ہے :(وما نحن بتارکی الھتنا عن قولک) (ھود : ٥٣) ” اور ہم اپنے معبودوں کو تیرے کہنے کی وجہ سے ہرگز چھوڑنے والے نہیں۔ “
(آیت) يُّؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ اُفِكَ ، افک کے لفظی معنی پھرجانے، منحرف ہوجانے کے ہیں اور عنہ کی ضمیر میں دو احتمال ہیں، دونوں کے معنی الگ الگ ہیں، ایک احتمال تو یہ ہے کہ ضمیر قرآن اور رسول کی طرف راجع ہو اور معنی یہ ہوں کہ قرآن اور رسول سے وہی بدنصیب منحرف ہوتا ہے جس کے لئے محرومی مقدر ہوچکی ہے۔- اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ ضمیر قول مختلف کی طرف راجع ہو اور معنی یہ ہوں کہ تمہارے مختلف اور متضاد اقوال کی وجہ سے وہی شخص قرآن و رسول کا منکر ہوتا ہے جو بدنصیب محروم ہی ہو۔
يُّؤْفَكُ عَنْہُ مَنْ اُفِكَ ٩ ۭ- أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات 86] فيصح أن يجعل تقدیره :- أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20-- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1»- وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل .- ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔
آیت ٩ یُّـؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ ۔ ” اس سے وہی پھیرا جاتا ہے جو پھیر دیا گیا ہے۔ “- تم میں سے بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو وحی کے اس پیغام کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے اور جزا و سزا کے متعلق مختلف باتیں بناتے رہتے ہیں۔ حالانکہ جزاو سزا کا معاملہ ایک بدیہی حقیقت ہے اور اس کو تسلیم کرنے سے وہی شخص باز رہے گا جو راندئہ درگاہ ہے اور خیر وسعادت کے راستوں سے پھیر دیا گیا ہے۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :7 اصل الفاظ ہیں یُؤْفَکْ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ اس فقرے میں عَنْہُ کی ضمیر کے دو مرجع ہو سکتے ہیں ۔ ایک جزائے اعمال ۔ دوسرے قول مختلف ۔ پہلی صورت میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جزائے اعمال کو تو ضرور پیش آنا ہے ، تم لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے مختلف عقیدے رکھتے ہو ، مگر اس کو ماننے سے وہی شخص برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے ۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ ان مختلف اقوال سے وہی شخص گمراہ ہوتا ہے جو دراصل حق سے برگشتہ ہے
4: جو شخص حق کی طلب رکھتا ہو، اس کے لیے آخرت کو ماننا ہرگز مشکل نہیں ہے، لیکن اس حقیقت سے وہی انکار کرتا ہے جو حق کی طلب رکھنے کے بجائے اس سے برگشتہ ہو۔