Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] آخرت سے انکار بلادلیل ہے اور محض وہم و قیاس ہے :۔ یعنی جو لوگ عقیدہ آخرت کے منکر ہیں ان کے پاس کوئی علمی بنیاد نہیں۔ آخرت کا علم نہ انسان کو مشاہدہ سے حاصل ہوسکتا ہے اور نہ محسوسات اور ادراکات سے۔ اس کے متعلق علمی بات جو کہی جاسکتی ہے وہ یہی ہے کہ اس کے ہونے اور نہ ہونے کے یعنی دونوں طرح کے امکانات موجود ہیں۔ آخرت کے قائم ہونے کے متعلق تو بہت سے دلائل بھی موجود ہیں۔ سب پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کی یہی تعلیم رہی ہے پھر کائنات کا نظام بھی اس پر قوی دلیل ہے تو کیوں نہ اس احتمال کو تسلیم کیا جائے جس کی تائید میں بیشمار دلائل مل جاتے ہیں۔ اور اس کے نہ ہونے کے لیے اگر کوئی دلیل موجود نہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ محض ان کا وہم و گمان ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قتل الخرصون :” خرص یخرص خرصاً “ (ن) اندازہ لگانا، اٹکل لگانا، جیسا کہ فرمایا :(ان ھو الا یخرصون) (الزخرف : ٢٠)” وہ تو صرف اٹکلیں دوڑا رہے ہیں۔ “ (خراص “ مبالغے کا فیغہ ہے، بہت اٹکل لگانے والا۔ کفار کے پاس آسمانی ہدایت کی روشنی نہیں اس لئے وہ علم اور یقین سے محروم ہیں ان کا سارا دار و مدار ظن وتخمین اور وہم پر گمان پر ہے ۔ چناچہ شرک کی بنیاد سراسر گمان اور اندازوں کا انجام ہلاکت کے سوا کچھ نہیں، اسلئے فرمایا، اٹکل لگانے والے مارے گئے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) قُتِلَ الْخَــرّٰصُوْنَ ، خراص کے لفظی معنی اندازہ لگانے والے اور ظن و تخمینہ سے بات کرنے والے کے ہیں مراد اس سے وہ قول مختلف والے کفار و منکرین ہیں جو بغیر کسی دلیل اور وجہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں متضاد باتیں کہتے ہیں، اس لئے یہاں خراصون کا ترجمہ کذابون سے بھی کردیا جائے تو بعید نہیں ان کے لئے اس جملے میں بد دعا ہے جو درحقیقت لعنت کے معنے میں ہے (مظہری) کفار کے ذکر کے بعد مومنین متقین کا ذکر کئی آیتوں میں آیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُتِلَ الْخَــرّٰصُوْنَ۝ ١٠ ۙ- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- خرص - الخَرْص : حرز الثّمرة، والخَرْص : المحروز، کالنّقض للمنقوض، وقیل : الخَرْص الکذب في قوله تعالی: إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ [ الزخرف 20] ، قيل : معناه يکذبون . وقوله تعالی: قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ [ الذاریات 10] ، قيل : لعن الکذّابون، وحقیقة ذلك : أنّ كلّ قول مقول عن ظنّ وتخمین يقال : خَرْصٌ ، سواء کان مطابقا للشیء أو مخالفا له، من حيث إنّ صاحبه لم يقله عن علم ولا غلبة ظنّ ولا سماع، بل اعتمد فيه علی الظّنّ والتّخمین، کفعل الخارص في خرصه، وكلّ من قال قولا علی هذا النحو قد يسمّى کاذبا۔ وإن کان قوله مطابقا للمقول المخبر عنه۔ كما حكي عن المنافقین في قوله عزّ وجلّ : إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ، وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ لَكاذِبُونَ [ المنافقون 1] .- ( خ ر ص ) الخرض پھلوں کا اندازہ کرنا اور اندازہ کئے ہوئے پھلوں کو خرص کہا جاتا ہے یہ بمعنی مخروص ہے ۔ جیسے نقض بمعنی منقوض بعض نے کہا ہے کہ خرص بمعنی کذب آجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛۔ یہ تو صرف اٹکلیں دوڑار ہے ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یعنی وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ [ الذاریات 10] اٹکل کرنے والے ہلاک ہوں ۔ کے معنی بقول بعض یہ ہیں کہ جھولوں پر خدا کی لعنت ہو ، اصل میں ہر وہ بات جو ظن وتخمین سے کہی جائے اسے خرص کہا جاتا ہے ۔ عام اس سے کہ وہ انداز غلط ہو یا صحیح ۔ کیونکہ تخمینہ کرنے والا نہ تو علم یا غلبہ ظن سے بات کرتا ہے اور نہ سماع کی بنا پر کہتا ہے ۔ بلکہ اس کا اعتماد محض گمان پر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ تخمینہ کرنیوالا پھلوں کا تخمینہ کرتا ہے اور اس قسم کی بات کہنے والے کو بھی جھوٹا کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ واقع کے مطابق ہی کیوں نہ بات کرے جیسا کہ منافقین کے بارے میں فرمایا :۔ إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ، وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ لَكاذِبُونَ [ المنافقون 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو ( ازراہ انفاق ) کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بیشک خدا کے پیغمبر ہیں ۔ اور خدا جانتا ہے کہ درحقیقت تم اس کے پیغمبر ہو لیکن خدا ظاہر کئے دیتا ہے کہ منافق ( دل سے نہ اعتقاد رکھنے کے لحاظ سے ) جھوٹے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠۔ ١١) اور ولید بن مغیرہ، ابو جہل، ابی بن خلف، امیہ بن خلف، نبیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج ہے کہ انہوں نے لوگوں کو والے جھوٹی قسمیں کھا کھا کر رسول اکرم اور قرآن کریم کی تصدیق سے ہٹایا۔- جھوٹ بولنے والے یعنی بنی مخزوم ولید بن صغیرہ اور اس کے ساتھی غارت اور ملعون ہوجائیں گے جو کہ جہالت میں آخرت سے اندھے اور رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لانے سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ قُتِلَ الْخَرّٰصُوْنَ ۔ ” ہلاک ہوجائیں یہ اٹکلیں دوڑانے والے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :8 ان الفاظ میں قرآن مجید ایک اہم حقیقت پر انسان کو متنبہ کر رہا ہے ۔ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی اندازہ کرنا یا تخمینہ لگانا ، دنیوی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں تو کسی حد تک چل سکتا ہے ، اگرچہ علم کا قائم مقام پھر بھی نہیں ہو سکتا ، لیکن اتنا بڑا بنیادی مسئلہ کہ ہم اپنی پوری زندگی کے اعمال کے لیے کسی کے سامنے ذمہ دار و جواب دہ ہیں یا نہیں ، اور ہیں تو کس کے سامنے ، کب اور کیا جوابدہی ہمیں کرنی ہو گی ، اور اس جوابدہی میں کامیابی و ناکامی کے نتائج کیا ہوں گے ، یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس کے متعلق آدمی محض اپنے قیاس و گمان کے مطابق ایک اندازہ قائم کر لے اور پھر اسی جوئے کے داؤں پر اپنا تمام سرمایہ حیات لگا دے ۔ اس لیے کہ یہ اندازہ اگر غلط نکلے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آدمی نے اپنے کو بالکل تباہ و برباد کر لیا ۔ مزید براں یہ مسئلہ سرے سے ان مسائل میں سے ہے ہی نہیں جن کے بارے میں آدمی محض قیاس اور ظن و تخمین سے کوئی صحیح رائے قائم کر سکتا ہو ۔ کیونکہ قیاس ان امور میں چل سکتا ہے جو انسان کے دائرہ محسوسات میں شامل ہوں ، اور یہ مسئلہ ایسا ہے جس کا کائی پہلو بھی محسوسات کے دائرے میں نہیں آتا ۔ لہٰذا یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کے بارے میں کوئی قیاسی اندازہ صحیح ہو سکے ۔ اب رہا یہ سوال کہ پھر آدمی کے لیے ان ماورائے حس و ادراک مسائل کے بارے میں رائے قائم کرنے کی صحیح صورت کیا ہے ، تو اس کا جواب قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ دیا گیا ہے ، اور خود اس سورہ سے بھی یہی جواب مترشح ہوتا ہے کہ ( 1 ) انسان براہ راست خود حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ، ( 2 ) حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی ذریعہ سے دیتا ہے ، اور ( 3 ) اس علم کی صحت کے متعلق آدمی اپنا اطمینان اس طریقہ سے کر سکتا ہے کہ زمین اور آسمان اور خود اس کے اپنے نفس میں جو بے شمار نشانیاں موجود ہیں ان پر غائر نگاہ ڈال کر دیکھے اور پھر بے لاگ طرز پر سوچے کہ یہ نشانیاں آیا اس حقیقت کی شہادت دے رہی ہیں جو نبی بیان کر رہا ہے ، یا ان مختلف نظریات کی تائید کرتی ہیں جو دوسرے لوگوں نے اس کے بارے میں پیش کیے ہیں؟ خدا اور آخرت کے متعلق علمی تحقیق کا یہی ایک طریقہ ہے جو قرآن میں بتایا گیا ہے ۔ اس سے ہٹ کر جو بھی اپنے قیاسی اندازوں پر چلا وہ مارا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani