الذین ھم فی غمرۃ ساھون :” غمر یغمر غمراً “ (ن)” المائ “ کا معنی ” پانی کا کسی چیز کو ڈھانپ لینا “ ہے، اسلئے گہرے پانی کو ” غمرۃ “ کہتے ہیں۔ سختی اور موت کو اور جہالت و غفلت کو بھی ” غمرۃ “ کہتے ہیں، کیونکہ وہ بھی آدمی کی عقل کو ڈھانپ لیتی ہیں۔” غمرۃ “ پر تنوین تعظیم کے لئے ہے، اس لئے ترجمہ ” بڑی غفلت “ کیا گیا ہے۔ ” ساھون “ ’ سھا یسھو سھواً “ (ن) سے اسم فاعل کی جمع ہے، بھولے ہوئے۔ یعنی انہوں نے آخرت کا انکار محض خیال اور اندازے ک بنا پر کیا ہے، جس کی وجہ سے وہ اس کی تیاری سے بہت بڑی غفلت میں مبتلا ہو کر اپنے خوفناک انجام کو بھولے ہوئے ہیں۔
الَّذِيْنَ ہُمْ فِيْ غَمْرَۃٍ سَاہُوْنَ ١١ ۙ- غمر - أصل الغَمْرِ : إزالة أثر الشیء، ومنه قيل للماء الکثير الذي يزيل أثر سيله، غَمْرٌ وغَامِرٌ ، قال الشاعر :- 342-- والماء غَامِرُ جدّادها - «1» .- وبه شبّه الرّجل السّخيّ ، والفرس الشّديد العدو، فقیل لهما : غَمْرٌ كما شبّها بالبحر، والغَمْرَةُ : معظم الماء الساترة لمقرّها، وجعل مثلا للجهالة التي تَغْمُرُ صاحبها، وإلى نحوه أشار بقوله : فَأَغْشَيْناهُمْ [يس 9] ، ونحو ذلک من الألفاظ قال : فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ [ المؤمنون 54] ، الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ ساهُونَ [ الذاریات 11] ، وقیل للشَّدائِد :- غَمَرَاتٌ. قال تعالی: فِي غَمَراتِ الْمَوْتِ [ الأنعام 93] ، ورجل غَمْرٌ ، وجمعه : أَغْمَارٌ.- والغِمْرُ : الحقد المکنون «2» ، وجمعه غُمُورٌ والْغَمَرُ : ما يَغْمَرُ من رائحة الدّسم سائر الرّوائح، وغَمِرَتْ يده، وغَمِرَ عِرْضُهُ : دنس، ودخل في غُمَارِ الناس وخمارهم، أي : الذین يَغْمُرُونَ.- والْغُمْرَةُ : ما يطلی به من الزّعفران، وقد تَغَمَّرْتُ بالطّيب، وباعتبار الماء قيل للقدح الذي يتناول به الماء : غُمَرٌ ، ومنه اشتقّ : تَغَمَّرْتُ : إذا شربت ماء قلیلا، وقولهم : فلان مُغَامِرٌ: إذا رمی بنفسه في الحرب، إمّا لتوغّله وخوضه فيه کقولهم يخوض الحرب، وإمّا لتصوّر الغَمَارَةِ منه، فيكون وصفه بذلک کو صفه بالهوج «3» ونحوه .- ( غ م ر ) الغمر ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کے اثر کو زائل کردینے کے ہیں ۔ اسی سے غمرۃ غامر اس زیادہ پانی کو کہتے ہیں جس کا سیلاب ہر قسم کے اثرات کو چھپا کر زائل کردے شاعر نے کہا ہے ( المتقاریب ( 330 ) والماء غامر خدا دھا اور پانی اپنے گڑھوں کو چھپانے والا تھا ۔ اسی مناسبت سے فیاض آدمی اور تیز رو رگھوڑی کو بھی غمر کہا جاتا ہے جس طرح کہ تشبیہ کے طور پر اسے بحر کہہ دیا جاتا ہے اور غمرۃ اس پانی کثیر کو کہتے ہیں جس کی اتھا ہ نظڑ نہ آئے ۔ اور یہ اس جہالت کے لئے ضرب المثل ہے جو آدمی پر چھا جاتی ہے اور قرآن پاکنے وغیرہ الفاظ سے اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ [ المؤمنون 54] تو ان کو ۔۔۔۔ ان کی غفلت ہی میں رہنے دو ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ ساهُونَ [ الذاریات 11] جو بے خبر ی میں بھولے ہوئے ہیں ۔ اور غمرات کے معنی شدائد کے ہیں ( کیونکہ وہ بھی انسان پر ہجوم کر کے اسے بد حواس کردیتے ) ہیں فرمایا : ۔ فِي غَمَراتِ الْمَوْتِ [ الأنعام 93]( جب موت کی سختی میں ۔ اور نا تجربہ کار آدمی کو بھی غمر کہا جاتا ہے والجمع اغمار نیز غمر کے معنی پوشیدہ کینہ کے بھی آتے ہیں ۔ والجمع غمور اور غمر کے معنی چربی کی بدبو کے آتے ہیں جو تمام چیزوں کی بو پر غالب آجاتی ہے غمرت یدہ اس کا ہاتھ میلا ہوگیا غمر عر ضہ اس کی عزت پر بٹہ لگ گیا محاورہ ہے ۔ وہ لوگوں کے ہجوم میں داخل ہوگیا ۔ الغمرۃ زعفران سے تیار کیا ہوا طلا جو چہرے پر ملتے ہیں تغمرت باالطیب میں نے ( اپنے چہرہ پر ) زعفرانی خوشبو اور پانی پینے کے چھوٹے پیا لے کو غمر کہا جاتا ہے اسی سے تغمرت ہے جس کے معنی تھوڑا سا پانی پینے کے ہیں اور کسی شخص کو مغافر اس وقت کہتے ہیں جب کہ وہ اپنے آپ کو لڑائی کی آگ میں جھونک دے اور یہ یا تو دشمن کی صفوں میں گھسنے کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ فلان یخوض الحرب کا محاورہ ہے اور یا نا تجربہ کاری کی وجہ سے اور اس صؤرت میں اسے مغافر کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ اناڑی آدمی کو ھوج وغیرہ کہا جاتا ہے ۔- ساهون - السَّهْوُ : خطأ عن غفلة، وذلک ضربان :- أحدهما أن لا يكون من الإنسان جو البه ومولّداته، کمجنون سبّ إنسانا، والثاني أن يكون منه مولّداته، كمن شرب خمرا، ثم ظهر منه منکر لا عن قصد إلى فعله . والأوّل معفوّ عنه، والثاني مأخوذ به، وعلی نحو الثاني ذمّ اللہ تعالیٰ فقال : فِي غَمْرَةٍ ساهُونَ [ الذاریات 11] ، عَنْ صَلاتِهِمْ ساهُونَ [ الماعون 5] .- ( س ھ و ) السھو ( ن ) وہ غلطی جو غفلت کی وجہ سے سروز ہو اس کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کے اسباب اور موارات انسان کے اپنے اختیار سے پیدا کردہ نہ ہوں جیسے مجنوں ادمی کا کسی انسان کو گالی دینا ۔ دوم یہ کہ اس کے مولدات انسان کے خود پیدا کردہ ہوں جسیے کوئی شخص شراب نوشی کرے اور پھر اس سے ( نشہ میں ) بغیر ارادہ کے کوئی برائی سادر ہو پہلی قسم کی خطا تو عفو کے حکم میں ہے لیکن دوسری قسم کی خطا پر ہو اخذہ ہوگا ۔ اور اس دوسری قسم کے سہو کی اللہ تعالیٰ نے مذمت فرمائی ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فِي غَمْرَةٍ ساهُونَ [ الذاریات 11] بیخبر ی میں بھولے ہوئے ہیں ۔ عَنْ صَلاتِهِمْ ساهُونَ [ الماعون 5] نماز کی طرف سے غافل رہتے ہیں ۔
آیت ١ ١ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ غَمْرَۃٍ سَاہُوْنَ ۔ ” جو اپنی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ “- انہیں نہ تو اپنے مقصد تخلیق کی خبر ہے اور نہ اپنے انجام کی فکر۔ حتیٰ کہ وہ اپنے اس عہد کو بھی بھولے ہوئے ہیں جو عالم ارواح میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا۔ سورة الاعراف کی آیت ١٧٢ میں اس عہد کا ذکر اس طرح ہوا ہے :- وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْم بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّـتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْج اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْط قَالُوْا بَلٰیج شَہِدْنَاج - ” اور یاد کرو جب نکالا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے تمام بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی نسل کو اور ان کو گواہ بنایا خود ان کے اوپر ‘ (اور سوال کیا) کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں ہم اس پر گواہ ہیں۔ “- انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس عہد کا ” عرفان “ اس کی روح کے اندر موجود ہوتا ہے ۔ لیکن دنیوی زندگی کے دوران بعض لوگوں کی ارواح غفلت میں اس قدر ڈوب جاتی ہیں کہ انہیں اپنے رب سے کیا ہوا یہ عہد یاد ہی نہیں رہتا۔ زیر مطالعہ آیت میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :9 یعنی انہیں کچھ پتہ نہیں ہے کہ اپنے ان غلط اندازوں کی وجہ سے وہ کس انجام کی طرف چلے جا رہے ہیں ۔ ان اندازوں کی بنا پر جو راستہ بھی کسی نے اختیار کیا ہے وہ سیدھا تباہی کی طرف جاتا ہے ۔ جو شخص آخرت کا منکر ہے وہ سرے سے کسی جوابدہی کی تیاری ہی نہیں کر رہا ہے اور اس خیال میں مگن ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہو گی ، حالانکہ اچانک وہ وقت آجائے گا جب اس کی توقعات کے بالکل خلاف دوسری زندگی میں اس کی آنکھیں کھلیں گی ، اور اسے معلوم ہو گا کہ یہاں اس کو اپنے ایک ایک عمل کی جواب دہی کرنی ہے ۔ جو شخص اس خیال میں ساری عمر کھپا رہا ہے کہ مر کر پھر اسی دنیا میں واپس آؤں گا اسے مرتے ہی معلوم ہو جائے گا کہ اب واپسی کے سارے دروازے بند ہیں ، کسی نئے عمل سے پچھلی زندگی کے اعمال کی تلافی کا اب کوئی موقع نہیں ، اور آگے ایک اور زندگی ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے اپنی دنیوی زندگی کے نتائج دیکھنے اور بھگتنے ہیں ۔ جو شخص اس امید میں اپنے آپ کو ہلاک کیے ڈالتا ہے کہ نفس اور اس کی خواہشات کو جب پوری طرح مار دونگا تو فنائے محض کی شکل میں مجھے عذاب ہستی سے نجات مل جائے گی ، وہ موت کے دروازے سے گزرتے ہی دیکھ لے گا کہ آگے فنا نہیں بلکہ بقا ہے اور اسے اب اس امر کی جوابدہی کرنی ہے کہ کیا تجھے وجود کی نعمت اسی لیے دی گئی تھی کہ تو اسے بنانے اور سنوارنے کے بجائے مٹانے میں اپنی ساری محنتیں صرف کر دیتا ؟ اسی طرح جو شخص کسی ابن اللہ کے کفارہ بن جانے یا کسی بزرگ ہستی کے شفیع بن جانے پر بھروسہ کر کے عمر پھر خدا کی نافرمانیاں کرتا رہا اسے خدا کے سامنے پہنچتے ہی پتہ چل جائے گا کہ یہاں نہ کوئی کسی کا کفارہ ادا کرنے والا ہے اور نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اپنے زور سے یا اپنی محبوبیت کے صدقے میں کسی کو خدا کی پکڑ سے بچا لے ۔ پس یہ تمام قیاسی عقیدے در حقیقت ایک افیون ہیں جس کی پینگ میں یہ لوگ بے سدھ پڑے ہوئے ہیں اور انہیں کچھ خبر نہیں ہے کہ خدا اور نبیاء کے دیے ہوئے صحیح علم کو نظر انداز کر کے اپنی جس جہالت پر یہ مگن ہیں وہ انہیں کدھر لیے جا رہی ہے ۔