Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 یعنی جنت کے گھر، لباس، کھانے، سواریاں، حسین جمیل بیویاں (حورعین) اور دیگر نعمتیں، ان سب پر وہ خوش ہونگے، کیونکہ یہ نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے بدرجہا بڑھ کر ہوں گی۔ اور ما لا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر کا مصداق۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] جنت میں داخلہ محض اللہ کی مہربانی سے ہوگا :۔ جنت میں پرہیزگاروں کے داخلہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس فرمان، کہ انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیا جائے گا، سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں داخلہ اللہ تعالیٰ کی الگ نعمت ہے۔ اور دوزخ کے عذاب سے بچا لینا الگ نعمت ہے۔ اور بعض مقامات پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر فرمایا کہ دوزخ کے عذاب سے بچ جانا ہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ گویا کامیابی کا اصل معیار دوزخ کے عذاب سے بچنا ہے۔ رہا جنت میں داخلہ تو یہ محض اللہ کے فضل اور مہربانی سے ہوگا۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا کہ کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ کیا آپ کے اعمال بھی ؟ آپ نے فرمایا : میرے اعمال بھی مجھ کو جنت میں نہیں لے جائیں گے الا یہ کہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی مجھے ڈھانپ لے (بخاری، کتاب المرضیٰ ۔ باب تمنی المریض الموت)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١)” فکھین “” فکہ یف کہ فکھا و فکاھۃ “ (ع) سے اسم فاعل ہے، خوش ہونا، لطف اٹھانا، لذت لینا، ظریف الطبع ہونا۔- (٢) بما انتھم ربھم : اس کی وضاحت کے لئے دیکھیے سورة ذاریات (١٦) کی تفسیر۔- (٣) ووقھم ربھم عذاب الجحیم : اس کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة دخان (٥٦) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فٰكِہِيْنَ بِمَآ اٰتٰىہُمْ رَبُّہُمْ۝ ٠ ۚ وَوَقٰىہُمْ رَبُّہُمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ۝ ١٨- فكه - الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ- [ الواقعة 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] ، والفُكَاهَةُ :- حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل :- تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] .- ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔- آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان 56] ، وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد 34] ، ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد 37] ، قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم 6]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان 56] اور خدا ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالے گا ۔ وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد 34] اور ان خدا کے عذاب سے کوئی بھی بچانے والا نہیں ۔ ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد 37] تو خدا کے سامنے نہ کوئی تمہارا مدد گار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا ۔ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم 6] اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش جہنم سے بچاؤ ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - جحم - الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما .- ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم ( ف ) الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨۔ ٢١) اور ان کو عیش و آرام کی جو چیزیں جنت میں ان کے پروردگار نے دی ہوں گی ان سے خوش ہوں گے اور ان کا پروردگار ان کو عذاب دوزخ سے محفوظ رکھے گا اور ان سے فرمائے گا جنت کے پھلوں کو خوب کھاؤ اور اس کی نہروں سے خوب پیو کسی قسم کی کوئی تکلیف و گرانی نہ ہوگی اور نہ موت آئے گی۔- اپنے ان نیک اعمال کے بدلے میں جو دنیا میں کیا کرتے تھے ایسے تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جو برابر ترتیب وار بچھائے ہوئے ہیں۔- اور جنت میں ہم ان کی گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت حوروں سے شادی کریں گے۔- اور جو لوگ رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کامل اور سچے رہے اور ان کی اولاد نے بھی دنیا میں ایمان میں ان کا ساتھ دیا تو ہم آخرت میں ان کی اولاد کو بھی ان کے آباء کے درجہ میں شامل کردیں گے۔- یا یہ کہ جو لوگ ایمان لائے ہم ان کو جنت میں داخل کریں گے اور ان کی کمسن نابالغ اولاد کو بھی ایمان کی وجہ سے ان ہی کے درجہ میں داخل کردیں گے یعنی اس ایمان کی وجہ سے جو یوم المیثاق میں لیا تھا یا یہ کہ جبکہ آباء کا درجہ جنت میں بلند ہوگا اور اولاد کا کم تو ہم ان کی مومن اولاد کو ان کے آباء ہی کے درجہ میں داخل کردیں گے اور ہم اس داخل کرنے میں ان کے عمل میں سے کوئی چیز کم نہیں کریں گے یعنی یہ نہیں کریں گے کہ آباء کے درجہ اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی کر کے اور ان کی اولاد کو دے کر دونوں کو برابر کردیں ہر ایک اپنے گناہوں میں محبوس رہے گا اللہ تعالیٰ جو چاہے گا ان کے ساتھ معاملہ فرمائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ فٰـکِہِیْنَ بِمَآ اٰتٰـہُمْ رَبُّہُمْ ج ” وہ مزے کر رہے ہوں گے ان نعمتوں کے ساتھ جو ان کے رب نے انہیں عطا کی ہوں گی۔ “- وَوَقٰـہُمْ رَبُّہُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ۔ ” اور بچا لے گا انہیں ان کا ربّ جہنم کے عذاب سے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :12 کسی شخص کے داخل جنت ہونے کا ذکر کر دینے کے بعد پھر دوزخ سے اس کے بچائے جانے کا ذکر کرنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی ۔ مگر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ دونوں باتیں الگ الگ اس لیے بیان کی گئی ہیں کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جانا بجائے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ اور یہ ارشاد کہ اللہ نے ان کو عذاب دوزخ سے بچا لیا دراصل اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جانا اللہ کے فضل و کرم ہی سے ممکن ہے ، ورنہ بشری کمزوریاں ہر شخص کے عمل میں ایسی ایسی خامیاں پیدا کر دیتی ہیں کہ اگر اللہ اپنی فیاضی سے ان کو نظر انداز نہ فرمائے اور سخت محاسبے پر اتر آئے تو کوئی بھی گرفت سے نہیں چھوٹ سکتا ۔ اسی لیے جنت میں داخل ہونا اللہ کی جتنی بڑی نعمت ہے اس سے کچھ کم نعمت یہ نہیں ہے کہ آدمی دوزخ سے بچا لیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: یہ ترجمہ اس تفسیر پر مبنی ہے جو علامہ آلوسی نے ان الفاظ میں نقل فرمائی۔ ’’ وَ وَقٰھُمْ رَبُّھُمْ عَذَابَ الْجَحِیْم عطف علی آتا ھم ان جعلت ما مصدریة، ای فاکھین بایتائھم ربھم و وقایتھم عذاب الجحیم۔