صالح اولاد انمول اثاثہ اللہ تعالیٰ جل شانہ اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم اپنے احسان اور انعام کا بیان فرماتا ہے کہ جن مومنوں کی اولاد بھی ایمان میں اپنے باپ دادا کی راہ میں لگ جائے لیکن اعمال صالحہ میں اپنے بڑوں سے کم ہو پروردگار ان کے نیک اعمال کا بدلہ بڑھا چڑھا کر انہیں ان کے بڑوں کے درجے میں پہنچا دے گا تاکہ بڑوں کی آنکھیں چھوٹوں کو اپنے پاس دیکھ کر ٹھنڈی رہیں اور چھوٹے بھی اپنے بڑوں کے پاس ہشاش بشاش رہیں ان کے عملوں کی بڑھوتری ان کے بزرگوں کے اعمال کی کمی سے نہ کی جائے گی بلکہ محسن و مہربان اللہ انہیں اپنے معمور خزانوں میں سے عطا فرمائے گا حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر یہی فرماتے ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث بھی اس مضمون کی مروی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ جب جنتی شخص جنت میں جائے گا اور اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو نہ پائے گا تو دریافت کرے گا کہ وہ کہاں ہیں جواب ملے گا کہ وہ تمہارے مرتبہ تک نہیں پہنچے یہ کہے گا باری تعالیٰ میں نے تو اپنے لئے اور انکے لئے نیک اعمال کئے تھے چنانچہ حکم دیا جائے گا اور انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دیا جائے گا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جنتیوں کے بچوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے وہ تو ان کے ساتھ ملا دئیے جائیں گے لیکن ان کے جو چھوٹے بچے چھٹ پن ہی میں انتقال کر گئے تھے وہ بھی ان کے پاس پہنچا دئیے جائیں گے ۔ حضرت ابن عباس ، شعبی ، سعید بن جبیر ابراہیم قتادہ ابو صالح ربیع بن انس ضحاک بن زید بھی یہی کہتے ہیں امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت خدیجہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دو بچوں کی نسبت دریافت کیا جو زمانہ جاہلیت میں مرے تھے تو آپ نے فرمایا وہ دونوں جہنم میں ہیں ، پھر جب مائی صاحبہ کو غمگین دیکھا تو فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تمہارے دل میں ان کا بغض پیدا ہو جاتا مائی صاحبہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بچہ جو آپ سے ہوا وہ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ جنت میں ہے مومن مع اپنی اولاد کے جنت میں ہیں ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی یہ تو ہوئی ماں باپ کے اعمال صالحہ کی وجہ سے اولاد کی بزرگی اب اولاد کی دعا خیر کی وجہ سے ماں باپ کی بزرگی ملاحظہ وہ مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں دفعۃً بڑھاتا ہے وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ میرا یہ درجہ کیسے بڑھ گیا ؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تیری اولاد نے تیرے لئے استغفار کیا اس بنا پر میں نے تیرا درجہ بڑھا دیا اس حدیث کی اسناد بالکل صحیح ہیں گو بخاری مسلم میں ان لفظوں سے نہیں آئی لیکن اس جیسی ایک روایت صحیح مسلم میں اسی طرح مروی ہے کہ ابن آدم کے مرتے ہی اس کے اعمال موقوف ہو جاتے ہیں لیکن تین عمل کہ وہ مرنے کے بعد بھی ثواب پہنچاتے رہتے ہیں ۔ صدقہ جاریہ علم دین جس سے نفع پہنچتا ہے نیک اولاد جو مرنے والے کے لئے دعائے خیر کرتی رہے چونکہ یہاں بیان ہوا تھا کہ مومنوں کی اولاد کے درجے بےعمل بڑھا دئیے گئے تھے تو ساتھ ہی ساتھ اپنے اس فضل کے بعد اپنے عدل کا بیان فرماتا ہے کہ کسی کو کسی کے اعمال میں پکڑا نہ جائے گا بلکہ ہر شخص اپنے اپنے عمل میں رہن ہو گا باپ کا بوجھ بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر نہ ہو گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ 38ۙ ) 74- المدثر:38 ) ، ہر شخص اپنے کئے ہوئے کاموں میں گرفتار ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پہنچے وہ جنتوں میں بیٹھے ہوئے گنہگاروں سے دریافت کرتے ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان جنتیوں کو قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کے گوشت دئیے جاتے ہیں جس چیز کو جی چاہے جس پر دل آئے وہ یک لخت موجود ہو جاتی ہے شراب طہور کے چھلکتے ہوئے جام ایک دوسرے کو پلا رہے ہیں جس کے پینے سے سرور اور کیف لطف اور بہار حاصل ہوتا ہے لیکن بد زبانی بےہودہ گوئی نہیں ہوتی ہذیان نہیں بکتے بیہوش نہیں ہوتے سچا سرور اور پوری خوشی حاصل بک جھک سے دور گناہ سے غافل باطل وکذب سے دور غیبت وگناہ سے نفور دنیا میں شرابیوں کی حالت دیکھی ہو گی کہ ان کے سر میں چکر پیٹ میں درد عقل زائل بکواس بہت بو بری چہرے بےرونق اسی طرح شراب کے بد ذائقہ اور بدبو یہاں جنت کی شراب ان تمام گندگیوں سے کوسوں دور ہے یہ رنگ میں سفید پینے میں خوش ذائقہ نہ اس کے پینے سے حواس معطل ہوں نہ بک جھک ہو نہ بہکیں نہ بھٹکیں نہ مستی ہو نہ اور کسی طرح ضرر پہنچائے ہنسی خوشی اس پاک شراب کے جام پلا رہے ہوں گے ان کے غلام کمسن نوعمر بچے جو حسن و خوبی میں ایسے ہیں جیسے مروارید ہوں اور وہ بھی ڈبے میں بند رکھے گئے ہوں کسی کا ہاتھ بھی نہ لگا ہو اور ابھی ابھی تازے تازے نکالے ہوں ان کی آبداری صفائی چمک دمک روپ رنگ کا کیا پوچھنا ؟ لیکن ان غلمان کے حسین چہرے انہیں بھی ماند کر دیتے ہیں اور جگہ یہ مضمون ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے آیت ( يَــطُوْفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ 17ۙ ) 56- الواقعة:17 ) یعنی ہمیشہ نو عمر اور کمسن رہنے والے بچے آبخورے آفتابے اور ایسی شراب صاف کے جام کہ جن کے پینے سے نہ سر میں درد ہو نہ بہکیں اور جس قسم کا میوہ یہ پسند کریں اور جس پرند کا گوشت یہ چاہیں ان کے پاس بار بار لانے کے لئے چاروں طرف کمربستہ چل رہے ہیں اس دور شراب کے وقت آپس میں گھل مل کر طرح طرح کی باتیں کریں گے دنیا کے احوال یاد آئیں گے کہیں گے کہ ہم دنیا میں جب اپنے والوں میں تھے تو اپنے رب کے آج کے دن کے عذاب سے سخت لرزاں و ترساں تھے الحمد اللہ رب نے ہم پر خاص احسان کیا اور ہمارے خوف کی چیز سے ہمیں امن دیا ہم اسی سے دعائیں اور التجائیں کرتے رہے اس نے ہماری دعائیں قبول فرمائیں اور ہمارا قول پورا کر دیا یقینا وہ بہت ہی نیک سلوک اور رحم والا ہے مسند بزار میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتی اپنے دوستوں سے ملنا چاہے گا تو ادھر دوست کے دل میں بھی یہی خواہش پیدا ہو گی اس کا تخت اڑے گا اور راستہ میں دونوں مل جائیں گے اپنے اپنے تختوں پر آرام سے بیٹھے ہوئے باتیں کرنے لگیں گے دنیا کے ذکر کو چھیڑیں گے اور کہیں گے کہ فلاں دن فلاں جگہ ہم نے اپنی بخشش کی دعا مانگی تھی اللہ نے اسے قبول فرمایا ۔ اس حدیث کی سند کمزور ہے حضرت مائی عائشہ نے جب اس آیت کی تلاوت کی تو یہ دعا پڑھی ( اللھم من علینا وقنا عذاب السموم انک انت البر الرحیم ) حضرت اعمش راوی حدیث سے پوچھا گیا کہ اس آیت کو پڑھ کر یہ دعا ام المومنین نے نماز میں مانگی تھی ؟ جواب دیا ہاں ۔
21۔ 1 یعنی جن کے باپ اپنے اخلاص و تقوٰی اور عمل و کردار کی بنیاد پر جنت کے اعلٰی درجوں پر فائز ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کی ایماندار اولاد کے بھی درجے بلند کرکے، ان کو ان کے باپوں کے ساتھ ملا دے گا یہ نہیں کرے گا کہ ان کے باپوں کے درجے کم کرکے ان کی اولاد والے کمتر درجوں میں انہیں لے آئے یعنی اہل ایمان پر دو گونہ احسان فرمائے گا۔ ایک تو باپ بیٹوں کو آپس میں ملا دے گا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، بشرطیکہ دونوں ایماندار ہوں دوسرا یہ کہ کم درجے والوں کو اٹھا کر اونچے درجوں پر فائز فرما دے گا۔ ورنہ دونوں کے ملاپ کا یہ طریقہ بھی ہوسکتا ہے کہ اے کلاس والوں کو بی کلاس دے دے، یہ بات چونکہ اس کے فضل واحسان سے فروتر ہوگی اس لیے وہ ایسا نہیں کرے گا بلکہ بی کلاس والوں کا اے کلاس عطا فرمائے گا۔ یہ تو اللہ کا وہ احسان ہے جو اولاد پر آبا کے عملوں کی برکت سے ہوگا اور حدیث میں آتا ہے کہ اولاد کی دعا واستغفار سے آبا کے درجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے ایک شخص کے جب جنت میں درجے بلند ہوتے ہیں تو وہ اللہ سے اس کا سبب پوچھتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیری اولاد کی تیرے لیے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے (مسند احمد) اس کی تأیید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے البتہ تین چیزوں کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ دوسرا وہ علم جس سے لوگ فیض یاب ہوتے رہیں اور تیسری نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔ (صحیح مسلم) 21۔ 2 رھین بمعنی مرھون (گروی شدہ چیز) ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہوگا۔ یہ عام ہے۔ مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور مطلب ہے کہ جو جیسا اچھا یا برا عمل کرے گا۔ اس کے مطابق اچھی یا بری جزاء پائے گا۔ یا اس سے مراد صرف کافر ہیں کہ وہ اپنے اعمال میں گرفتار ہوں گے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا " كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ" 74 ۔ المدثر :38) ہر شخص اپنے اعمال میں گرفتار ہوگا۔
[١٥] کم درجہ والی اولاد کو والدین سے ملادینا :۔ یعنی والدین نیک اور پرہیزگار تھے۔ اولاد نے اپنے والدین کی پیروی کی کوشش تو کی مگر نیکی اور پرہیزگاری میں اس درجہ تک نہ پہنچے جو والدین کا درجہ تھا تو اللہ تعالیٰ اولاد پر یہ مہربانی فرمائیں گے کہ ان کو بھی ان کے والدین کے درجہ تک پہنچا کر جنت میں ان کے والدین کے ساتھ ملا دیں گے تاکہ والدین اور اولاد جیسے دنیا میں اکٹھے رہے تھے جنت میں بھی اکٹھے رہ سکیں اور والدین اور اولاد دونوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ اس سلسلہ میں یہ نہ ہوگا کہ کچھ والدین کا کچھ درجہ کم کردیا اور کچھ اولاد کا کچھ بڑھا دیا اور دونوں کو ایک درمیانی درجہ کے مقام میں جنت میں ملا دیا بلکہ اولاد کا درجہ ہی بڑھایا جائے گا والدین کا کم نہیں کیا جائے گا۔- [١٦] ہر شخص کے اللہ کے ہاں گروی ہونے کا مفہوم :۔ یعنی ہر شخص پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتیں قرض ہیں اور اس کے بدلے انسان کا نفس اللہ تعالیٰ کے پاس بطور رہن یا مرہونہ چیز ہے۔ قرض کی ادائیگی کی صورت یہ ہے کہ انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے۔ اس کے احکام کی تعمیل کرے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرے۔ جس شخص نے یہ قرض ادا کردیا اس کا نفس عذاب جہنم سے آزاد ہوگیا۔ وہ کامیاب ہوگیا اور بچ نکلا اور جس نے یہ قرض ادا نہ کیا اس کا نفس پہلے ہی اللہ کے پاس رہن رکھا ہوا ہے۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک کہ جنت محض اللہ کے فضل سے ملے گی۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کی نیکی دوسرے کے نفس کو نہ رہا کرا سکے گی اور نہ عذاب جہنم سے بچا سکے گی۔
(١) والذین امنوا واثبعتھم ذریتھم بایمان :” بایمان “ پر تنوین تنکیر و تقلیل کیلئے ہے، اس لئے ترجمہ ” اور ان کی اولاد کسی بھی درجے کے ایمان کے ساتھ ان کے پیچھے چلی “ کیا گیا ہے۔- (٢) الحقنا بھم ذریتم : طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے اس کی تفسیر نقل فرمائی ہے :(ان اللہ تبارک و تعالیٰ یرفع للمومن ذریتہ ، وان کانوا دونہ فی العمل ، لیقر اللہ بھم عینہ) (طبری : ٣٢٦٢٢)” اللہ تعالیٰ مومن کی خاطر اس کی اولاد کو اونچا لے جائے گا، خواہ وہ عمل میں اس سے کم ہوں گے، تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اس کی آنکھ ٹھنڈی کرے۔ “ اس سے پہلے سورة رعد (٢٣) میں بیان فرمایا کہ اہل جنت کے آباء اور بیوی بچوں میں سے جو بھی صالح ہوں گے وہ ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے اور سورة مومن (٨) میں فرمایا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ سے ایمان والوں کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ وہ انہیں اور ان کے آباء ، بیویوں اور اولادوں کو جنت میں داخل کر دے۔- زیر تفسیر آیت میں جنت کے داخلے کے ساتھ ایک اور بڑی خوش خبری دی ہے کہ اگر اولاد کسی نہ کسی درجے کا ایمان لا کر اپنے صالح آباء کے نقش قدم پر چلتی رہی ہو تو خواہ وہ ایمان یا عمل کے لحاظ سے اس بلند درجے کے مستحق نہ بھی ہوئے جو ان کے آباء کو حاصل ہوگا، پھر بھی اللہ تعالیٰ انہیں ان کے آباء کے ساتھ ملا دے گا۔- (٣) وما التھم من عملھم من شیء :” التیالت التا “ (ض ) ” الشیئ “ کسی چیز کا کم ہوا۔” الت الرجل حقہ “ ” کسی آدمی کے حق میں کمی کرنا، پورا نہ دینا۔ “ یعنی یہ نہیں ہوگا کہ ہم آباء کو ان کے اعلیٰ درجے سے نیچے لا کر ان کی اولاد کے ساتھ ملا دیں، کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے عمل کا اجر کم کردیا جائے۔ اس لئے ہم ان کے عمل میں کسی طرح کمی نہیں کریں گے ، بلکہ محض اپنے فضل سے اولاد کا درجہ بڑھا کر آباء کے اعلیٰ درجے میں پہنچا دیں گے۔- (٤) جس طرح آباء کے عمل کی برکت سے اولاد کے درجات میں اضافہ ہوگا اسی طرح اولاد کی دعا کی بدولت اللہ تعالیٰ آباء پر بھی فضل فرمائے گا۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اللہ عزو جل لیرفع الدرجۃ للعبد الصالح فی الجنہ فیقول یا رب انی لی ھذہ ؟ فیقول باستغفار ولدلک لک) (مسند احمد : ٢ ٥٠٩ ح : ١٠٦١٠، مسند احمد کے محققین نے اس کی سند کو حسن اور ابن کثیر نے صحیح قرار دیا ہے۔” اللہ عزو جل جنت میں صالح بندے کا درجہ بنلد فرمائے گا تو وہ کہے گا :” اے میرے رب مجھے یہ درجہ کیسے مل گیا ؟ “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا :” تیری اولاد کے تیرے لئے استغفار کی وجہ سے۔ “ اس کی تائید اس مشہور حدیث سے ہوتی ہے جو ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اذا مات الانسان انفطع عنہ عملہ الا من ثلاثۃ الا من صدقۃ جاریۃ او علم ینفع بہ او ولد صالح یدعولہ) (مسلم، الوصیۃ باب ما بلحق الانسان من التواب بعد وفاتہ : ١٦٣١)” جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل اس سے کٹ جاتا ہے، سوائے تین اعمال کے ، صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا رہے یا صالح اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔- (٥) کل امری بما کسب رھین :” رھن برھن رہنا “ (ف) گروی رکھنا۔” رھین “ گروی رکھا ہوا۔ اگر کوئی شخص کسی سے کچھ قرض لے اور قرض دینے والا اپنے حق کی وصولی کے لئے ضمانت کے طور پر اس کی کوئی چیز اپنے پاس رہن (گروی) رکھ لے تو جب تک وہ قرض ادا نہ کرے اس کی گروی رکھی ہوئی چیز چھوڑی نہیں جاتی اور اگر ادا کری ہی نہ سکے تو ضبط کرلی جاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنا فضل بیان فرمایا کہ صالح اولاد کے اعمال ان کے آباء کے درجے کے لائق نہ بھی ہوئے تو انہیں ان کے آباء کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ اب اپنے عدل کا بیان فرمایا کہ کسی شخص کو دوسرے کے گناہ میں نہیں پکڑا جائے گا، بلکہ ہر آدمی اپنے کمائے ہوئے عمل کے بدلے ہی گرفتار ہوگا، خواہ وہ باپ ہو یا بیٹا۔ پھر یا تو آدمی وہ عمل پیش کر کے چھوٹ جائے گا جس کی ادائیگی اس کے ذمے تھی یا پیش نہ کرسکنے کی وجہ سے گرفتار رہے گا۔ مزید دیکھیے سورة انعام (١٦٤) ، فاطر (١٨) اور سورة مدثر (٣٨) ۔
بزرگوں کے ساتھ نسبی تعلق آخرت میں بھی نفع دے گا، بشرط ایمان :- وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ ( یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان میں ان کے تابع رہی یعنی مومن ہوئی تو ہم ان کی اولاد کو بھی جنت میں انہیں کے ساتھ ملحق کردیں گے) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومنین صالحین کی ذریت و اولاد کو بھی ان کے بزرگ آباء کے درجہ میں پہنچا دیں گے اگرچہ وہ عمل کے اعتبار سے اس درجہ کے مستحق نہ ہوں تاکہ ان بزرگوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں (رواہ الحاکم و البیہقی فی سننہ و النبرار وابو نعیم فی الحلیتہ و ابن المنذر و ابن جریر وابن ابی حاتم، از مظہری )- اور طبرانی نے حضرت سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا اور میرا گمان یہ ہے کہ انہوں نے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ جب کوئی شخص جنت میں داخل ہوگا تو اپنے ماں باپ اور بیوی اور اولاد کے متعلق پوچھے گا (وہ کہاں ہی) اس سے کہا جائے گا کہ وہ تمہارے درجہ کو نہیں پہنچے ( اس لئے ان کا جنت میں الگ مقام ہے) یہ شخص عرض کرے گا اے میرے پروردگار میں نے جو کچھ عمل کیا وہ اپنے لئے اور ان سب کے لئے کیا تھا تو حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے حکم ہوگا کہ ان کو بھی اسی درجہ جنت میں ان کے ساتھ رکھا جائے (ابن کثیر)- حافظ ابن کثیر نے روایات مذکورہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ آخرت میں ان روایات سے تو یہ ثابت ہوا کہ آباء صالحین کی برکت سے ان کی اولاد کو فائدہ پہنچے گا اور عمل میں ان کا درجہ کم ہونے کے باوجود اپنے آباء صالحین کے درجے میں پہنچا دیئے جائیں گے، اس کا دوسرا رخ کہ اولاد صالحین کی وجہ سے والدین کو نفع پہنچے یہ بھی حدیث سے ثابت ہے، مسند احمد حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض نیک بندوں کا درجہ جنت میں اس کے عمل کی مناسبت سے بہت اونچا کردیں گے، تو یہ دریافت کرے گا کہ میرے پروردگار مجھے یہ مقام اور درجہ کہاں سے مل گیا (میرا عمل تو اس قابل نہ تھا) تو جواب یہ دیا جائے گا کہ تمہاری اولاد نے تمہارے لئے استغفار و دعا کی اس کا یہ اثر ہے (رواہ الامام احمد وقال ابن کثیر اسنادہ صحیح و لم یخرجوہ ولکن لہ شاہد فی صحیح مسلم عن ابی ہریرہ)- وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ، الت اور ایلات کے لفظی معنی کم کرنے کے ہیں (قرطبی) معنی آیت کے یہ ہیں کہ صالحین کی اولاد کو ان کے درجہ عمل سے بڑھا کر صالحین کے ساتھ ملحق کرنے کے لئے ایسا نہیں کیا گیا کہ صالحین کے عمل میں سے کچھ کم کر کے ان کی اولاد کا عمل پورا کیا جاتا بلکہ اپنے فضل سے ان کے برابر کردیا گیا۔ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ، یعنی ہر انسان اپنے عمل میں محبوس ہوگا ایسا نہیں ہوگا کہ کسی دوسرے کا گناہ اس کے سر ڈال دیا جائے یعنی جس طرح آیت سابقہ میں اولاد صالحین کو صالحین کی خاطر سے درجہ بڑھا دیا گیا یہ عمل حسنات میں تو ہوگا سیئات میں ایک کے گناہ کا کوئی اثر دوسرے پر نہ پڑے گا (ابن کثیر)
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّيَّــتُہُمْ بِـاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِہِمْ ذُرِّيَّتَہُمْ وَمَآ اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ ٠ ۭ كُلُّ امْرِئٍؚ بِمَا كَسَبَ رَہِيْنٌ ٢١- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - لحق - لَحِقْتُهُ ولَحِقْتُ به : أدركته . قال تعالی: بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ [ الجمعة 3] - ( ل ح ق )- لحقتہ ولحقت بہ کے معنی کیس کو پالینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ۔ ( اور شہید ہو کر ) ان میں شامل نہ ہو سکے ۔ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ [ الجمعة 3] اور ان میں سے دوسرے لوگوں کی طرف بھی ( ان کو بھیجا ہے جو ابھی ان مسلمان سے نہیں ملے ۔- الت - ۔ ایلاۃ والاتۃ ( باب ضرب) مصدر۔ حقہ حق کو کم کرکے دینا۔ ہم ان کا حق ان کو کم کرکے نہیں دیں گے۔ ہم ان کے حق میں کوئی کمی نہیں کریں گے۔ اگر ما موصولہ لیا جائے تو ترجمہ ہوگا : بیشک جو پرہیزگار ہیں باغوں میں چین کرتے ہوں گے ان چیزوں سے جو ان کو ان کے رب نے عطا کیں اور ان کا رب ان کو عذاب دوزخ سے بچادے گا - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - رَهِينٌ- الرَّهْنُ : ما يوضع وثیقة للدّين، والرِّهَانُ مثله، لکن يختصّ بما يوضع في الخطاروأصلهما مصدر، يقال : رَهَنْتُ الرَّهْنَ ورَاهَنْتُهُ رِهَاناً ، فهو رَهِينٌ ومَرْهُونٌ. ويقال في جمع الرَّهْنِ : رِهَانٌ ورُهُنٌ ورُهُونٌ ، وقرئ : فَرُهُنٌ مقبوضة وفَرِهانٌ وقیل في قوله : كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر 38] ، إنه فعیل بمعنی فاعل، أي : ثابتة مقیمة . وقیل : بمعنی مفعول، أي : كلّ نفس مقامة في جزاء ما قدّم من عمله . ولمّا کان الرّهن يتصوّر منه حبسه استعیر ذلک للمحتبس أيّ شيء کان، قال : بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر 38] ، ورَهَنْتُ فلانا، ورَهَنْتُ عنده، وارْتَهَنْتُ : أخذت الرّهن، وأَرْهَنْتُ في السِّلْعة، قيل : غالیت بها، وحقیقة ذلك : أن يدفع سلعة تقدمة في ثمنه، فتجعلها رهينة لإتمام ثمنها .- ( ر ھ ن ) الرھن ( گروی رکھی ہوئی چیز ) اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جو قرض میں بطور ضمانت رکھ لی جائے اور یہی معنی رھان کے ہیں لیکن رھان خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی مقابلہ میں شرط کے طور پر رکھ لی جائے اصل میں یہ دونوں لفظ مصدر ہیں جیسے رھنت الرھن وراھنتہ رھانا اور رھین اور مرھون : صیغہ صفت ہیں اور رھن کی جمع رھان رھن اور رھون آتی ہے اور آیت : ۔ فرھن مقبوضۃ : تو کچھ رہن قبضہ میں رکھ لو ۔ میں ایک قراءت فَرُهُنٌ مقبوضة بھی ہے اور آیت كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر 38] ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ رھینۃ فعیل بمعنی فاعل سے ہے اور اس کے معنی ثابت اور قائم رہنے والی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ فعیل بمعنی مفعول سے ہے اور اس کے معنی ہیں کہ ہر شخص اپنے گزشتہ اعمال کی پاداش میں رکا رہے گا ۔ پھر رھن میں چونکہ حبس ( روکنے ) کے معنی پائے جاتے ہیں اس لئے کبھی مجازا رھن یعنی مطلق کسی چیز کو روکنے کے آجاتا ہے ۔ جیسا کہ آیت مذکورہ میں ہے ۔ رھنت فلانا رھنت عنده کے معنی کسی کے پاس گروی رکھنے کے ہیں اور ارتھنت ( افتعال ) کے معنی گروی لینے کے ۔ اور ارھنت ( افعال ) فی السلعۃ کے معنی بعض نے سامان تجارت کو گراں فروخت کرنا کئے ہیں اصل میں اس کے معنی بیعانہ کے طور پر کچھ سامان دے دینے کے ہیں ۔ جو قیمت ادا کرنے تک بطور ضمانت بائع کے پاس رہتا ہے ۔
آیت ٢١ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّـتَہُمْ ” اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی پیروی کی ایمان کے ساتھ ‘ ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اس اولاد کو “- قبل ازیں اس مضمون کا ذکر سورة المومن میں حاملین عرش اور ان کے ساتھی فرشتوں کی دعا کے ضمن میں بھی آچکا ہے۔ وہ اللہ کے حضور مومنین کے لیے یوں دعا کر رہے ہوں گے : رَبَّـنَا وَاَدْخِلْہُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّہُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَـآئِ ہِمْ وَاَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیّٰتِہِمْط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ ” اے ہمارے پروردگار انہیں داخل فرما ناان رہنے والے باغات میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور (ان کو بھی) جو نیک ہوں ان کے آباء و اَجداد ‘ ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے۔ تو یقینا زبردست ہے ‘ کمالِ حکمت والا ہے “۔ اب زیرمطالعہ آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے اس کریمانہ فیصلے کا خود اعلان فرما رہے ہیں کہ ہم اہل جنت کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے۔ یعنی نچلے درجے کی جنت کے مستحق افراد کو بھی ان کے والدین کے برابر لے آئیں گے جو اعلیٰ درجات کی جنتوں میں متمکن ہوں گے۔ - وَمَآ اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ ط ” اور ہم ان کے عمل میں سے کوئی کمی نہیں کریں گے۔ “- یعنی اگر کوئی شخص اعلیٰ درجے کی جنت میں ہے اور اس کے اہل و عیال نسبتاً نچلے درجے میں ہیں تو یہ نہیں ہوگا کہ اس شخص کو اس کے اہل و عیال کے پاس نچلے درجے میں بھیج دیا جائے بلکہ اس کے اہل و عیال کے درجات بلند کر کے اس کے برابر کردیا جائے گا۔ گویا اہل جنت کے اکرام کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل ہوگا کہ ان کے رشتے داروں میں سے جو کوئی کم سے کم درجے کی جنت کا بھی مستحق ہوجائے گا اسے ترقی دے کر ان کے اعلیٰ جنتوں والے رشتے داروں سے ملا دیا جائے گا تاکہ انہیں آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہو۔- کُلُّ امْرِیٍٔ م بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ ۔ ” ہر انسان اپنی کمائی کے عوض رہن ہوگا۔ “
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :15 یہ مضمون اس سے پہلے سورہ رعد آیت 23 ، اور سورہ مومن آیت 8 میں بھی گزر چکا ہے ، مگر یہاں ان دونوں مقامات سے بھی زیادہ ایک بڑی خوش خبری سنائی گئی ہے ۔ سورہ رعد والی آیت میں صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ اہل جنت کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوں میں سے جو جو افراد بھی صالح ہوں گے وہ سب ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے ۔ اور سورہ مومن میں ارشاد ہوا تھا کہ فرشتے اہل ایمان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ان کی اولاد اور ازواج اور آباء میں سے جو صالح ہوں انہیں بھی جنت میں ان سے ملا دے ۔ یہاں ان دونوں آیتوں سے زائد جو بات فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر اولاد کسی نہ کسی درجہ ایمان میں بھی اپنے آباء کے نقش قدم کی پیروی کرتی رہی ہو ، تو خواہ اپنے عمل کے لحاظ سے وہ اس مرتبے کی مستحق نہ ہو جو آباء کا ان کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہو گا ، پھر بھی یہ اولاد اپنے آباء کے ساتھ ملا دی جائے گی ۔ اور یہ ملانا اس نوعیت کا نہ ہو گا جیسے وقتاً فوقتاً کوئی کسی سے جا کر ملاقات کر لیا کرے ، بلکہ اس کے لیے اَلْحَقْنَا بِھِمْ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے معنی یہ ہیں کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ ہی رکھے جائیں گے ۔ اس پر مزید یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ اولاد سے ملانے کے لیے آباء کا درجہ گھٹا کر انہیں نیچے نہیں اتارا جائے گا ، بلکہ آباء سے ملانے کے لیے اولاد کا درجہ بڑھا کر انہیں اوپر پہنچا دیا جائے گا ۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ارشاد اس بالغ اولاد کے بارے میں ہے جس نے سنِ رُشد کو پہنچ کر اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان لانے کا فیصلہ کیا ہو اور جو اپنی مرضی سے اپنے صالح بزرگوں کے نقش قدم پر چلی ہو ۔ رہی ایک مومن کی وہ اولاد جو سن رشد کو پہنچنے سے پہلے ہی مر گئی ہو تو اس کے معاملہ میں کفر و ایمان اور طاعت و معصیت کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اسے تو ویسے ہی جنت میں جانا ہے اور اس کے آباء کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ان ہی کے ساتھ رکھا جانا ہے ۔ سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :16 یہاں رہن کا استعارہ بہت معنی خیز ہے ۔ ایک شخص اگر کسی سے کچھ قرض لے اور قرض دینے والا اپنے حق کی ادائیگی کے لیے ضمانت کے طور پر اس کی کوئی چیز اپنے پاس رہن رکھ لے تو جب تک وہ قرض ادا نہ کر دے اس وقت تک فکِّ رہن نہیں ہو سکتا ، اور اگر مدت مقررہ گزر جانے پر بھی وہ فکِّ رہن نہ کرائے تو شئے مرہونہ ضبط ہو جاتی ہے ۔ انسان اور خدا کے درمیان معاملہ کی نوعیت کو یہاں اسی صورت معاملہ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ خدا نے انسان کو جو سرو سامان ، جو طاقتیں اور صلاحیتیں اور جو اختیارات دنیا میں عطا کیے ہیں وہ گویا ایک قرض ہے جو مالک نے اپنے بندے کو دیا ہے ، اور اس قرض کی ضمانت کے طور پر بندے کا نفس خدا کے پاس رہن ہے ۔ بندہ اس سرو سامان اور ان قوتوں اور اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے اگر وہ نیکیاں کمائے جن سے یہ قرض ادا ہو سکتا ہو تو وہ شئے مرہونہ ، یعنی اپنے نفس کو چھڑا لے گا ، ورنہ اسے ضبط کر لیا جائے گا ۔ پچھلی آیت کے معاً بعد یہ بات اس لیے ارشاد فرمائی گئی ہے کہ مومنین صالحین خواہ بجائے خود کتنے ہی بڑے مرتبے کے لوگ ہوں ، ان کی اولاد کا فکِّ رہن اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ وہ خود اپنے کسب سے اپنے نفس کو چھڑائے ۔ باپ دادا کی کمائی اولاد کو نہیں چھڑا سکتی. البتہ اولاد اگر کسی درجے کے بھی ایمان اور اتباع صالحین سے اپنے آپ کو چھڑا لے جائے تو پھر یہ اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے کہ جنت میں وہ اسکو نیچے کے مرتبوں سے اٹھا کر اونچے مراتب میں باپ دادا کے ساتھ لے جا کر ملا دے ۔ باپ دادا کی نیکیوں کا یہ فائدہ تو اولاد کو مل سکتا ہے ، لیکن اگر وہ اپنے کسب سے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنا لے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ باپ دادا کی خاطر اسے جنت میں پہنچا دیا جائے ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اس آیت سے نکلتی ہے کہ کم درجے کی نیک اولاد کا بڑے درجے کے نیک آباء سے لے جا کر ملا دیا جانا دراصل اس اولاد کے کسب کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان آباء کے کسب کا نتیجہ ہے ۔ وہ اپنے عمل سے اس فضل کے مستحق ہوں گے کہ ان کے دل خوش کرنے کے لیے ان کی اولاد کو ان سے لا ملایا جائے ۔ اسی وجہ سے اللہ ان کے درجے گھٹا کر انہیں اولاد کے پاس نہیں لے جائے گا بلکہ اولاد کے درجے بڑھا کر ان کے پاس لے جائے گا ، تاکہ ان پر خدا کی نعمتوں کے اتمام میں یہ کسر باقی نہ رہ جائے کہ اپنی اولاد سے دوری ان کے لیے باعث اذیت ہو ۔
3: یعنی نیک لوگوں کی اولاد اگر مؤمن ہو تو اگرچہ وہ اپنے اعمال کے لحاظ سے جنت میں اُس اُونچے درجے کی مستحق نہ ہو جو اُس کے والد کو ملا ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ والد کو خوش کرنے کے لئے اولاد کو بھی وہی درجہ دے دیں گے، اور والد کے درجے میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ 4: ’’رہن‘‘ اُس سامان کو کہتے ہیں جو کسی اُدھار دینے والے نے اپنے اُدھار کی ادائیگی کی ضمانت کے طور پر مقروض سے لے کر اپنے پاس رکھ لیا ہو۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر اِنسان کو جو صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، وہ اِنسان کے پاس اُدھار ہیں۔ یہ اُدھار اُسی صورت میں اُترسکتا ہے جب اِنسان اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان صلاحیتوں کو استعمال کرے جس کا مظاہرہ دُنیا میں اِیمان لانے اور نیک عمل کرنے سے ہوتا ہے۔ اس اُدھار کے لئے ہر اِنسان کی جان اس طرح رہن رکھی ہوئی ہے کہ اگر وہ ایمان اور نیک عمل کے ذریعے اپنا اُدھار اُتاردے گا تو آخرت میں اُس کی جان کو آزادی حاصل ہوگی، اور وہ جنت میں اطمینان سے خوش حالی کے ساتھ رہے گا، اور اگر اُس نے یہ قرض نہ اُتارا تو پھر اُس کو دوزخ میں قید رہنا ہوگا۔ اس فقرے کو یہاں لانے کا مطلب یہ ہے کہ جن ایمان والوں کے متعلق اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ُانہیں ثواب ملے گا، اور اُن کی مؤمن اولاد بھی اُن کے ساتھ ہوگی، اُنہوں نے اﷲ تعالیٰ کا حکم پورا کرکے اپنااُدھار اُتاردیا، اور اپنی جان کو آزاد کرالیا ہے، لیکن اگر کسی کی اولاد مؤمن ہی نہ ہو تو اُسے اپنے ماں باپ کا اِیمان لانا کوئی فائدہ نہیں دے گا، کیونکہ اس نے وہ مطالبہ پورا نہیں کیا جس کے لئے اُس کی جان رہن رکھی ہوئی تھی۔ اس لئے اُسے دوزخ میں جاکر قید رہنا ہوگا۔ نیز اس فقرے کا یہاں ایک اور مطلب بھی ہوسکتا ہے، اور وہ یہ کہ باپ کی نیکی کی وجہ سے اُس کی مؤمن اولاد کا درجہ تو بڑھادیا جائے گا، لیکن اولاد کی بدعملی کی کوئی سزا باپ کو نہیں ملے گی، کیونکہ ہر شخص کی جان خود اپنی کمائی کے لئے رہن ہے، دوسرے کی کمائی کے لئے نہیں۔