26۔ 1 یعنی اللہ کے عذاب سے۔ اس لئے اس عذاب سے بچنے کا اہتمام بھی کرتے رہے، اس لئے کہ انسان کو جس چیز کا ڈر ہوتا ہے، اس سے بچنے کے لئے وہ تگ و دو کرتا ہے۔
[٢١] یعنی دنیا میں بیتے ہوئے ایام کی یاد تازہ کرنا چاہیں گے اور کہیں گے ہمیں تو ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ہم سے کوئی ایسا فعل سرنہ زد ہوجائے جس کی پاداش میں اللہ کے حضور ہماری جواب طلبی اور گرفت ہوجائے۔ اور گھر والوں کا ذکر اس لیے کریں گے کہ انسان دنیا میں بہت سے گناہ کے کام محض اہل و عیال کی خاطر کرتا ہے۔ مال و دولت کی ہوس کی وجہ سے اسے مال کمانے میں حرام و حلال کی تمیز نہیں رہتی۔
(قالوا انا کنا قبل فی اھلنا مشفقین : یعنی وہ کہیں گے کہ ہم اس سے پہلے دنیا میں اپنے گھر والوں میں رہتے ہوئے ہر قسم کی آسائشو کے باوجود ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں ہم سے اللہ کی نافرمانی نہ ہوجائے، ہماری نیکیاں نامقبول نہ ہوجائیں اور ہمارے اعمال کی شامت سے ہمارا خاتمہ خراب نہ ہوجائے۔” فی اھلنا “ (اپنے گھروالوں میں) کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنے گھر والوں کے بارے میں ڈرتے رہتے تھے کہ وہ اللہ کے نافرمان نہ بن جائیں اور نافرمانی کے نتیجے میں جہنم کا ایندھن نہ بن جائیں، اور یہ بھی کہ ان کی وجہ سے کہیں ہم راہ راست سے نہ بھٹک جائیں، ان کی خاطر کمائی کرتے کرتے حرام کاموں کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں ، انہیں نمازی اور رب تعالیٰ کا فرماں بردار بنانے کی کوشش میں کوتاہی نہ کر بیٹھیں اور ان کی محبت اللہ کی اطاعت پر غالب نہ آجائے۔
قَالُوْٓا اِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِيْٓ اَہْلِنَا مُشْفِقِيْنَ ٢٦- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- شفق - الشَّفَقُ : اختلاط ضوء النّهار بسواد اللّيل عند غروب الشمس . قال تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ- [ الانشقاق 16] ، والْإِشْفَاقُ : عناية مختلطة بخوف، لأنّ الْمُشْفِقَ يحبّ المشفق عليه ويخاف ما يلحقه، قال تعالی: وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء 49] ، فإذا عدّي ( بمن) فمعنی الخوف فيه أظهر، وإذا عدّي ب ( في) فمعنی العناية فيه أظهر . قال تعالی:- إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور 26] ، مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری 18] ، مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری 22] ، أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة 13] .- ( ش ف ق ) الشفق - غروب آفتاب کے وقت دن کی روشنی کے رات کی تاریکی میں مل جانے کو شفق کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق 16] ہمیں شام کی سرخی کی قسم ۔ الاشفاق ۔ کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا کیونکہ مشفق ہمیشہ مشفق علیہ کو محبوب سمجھتا ہے اور اسے تکلیف پہنچنے سے ڈرتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء 49] اور وہ قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں ۔ اور جب یہ فعل حرف من کے واسطہ سے متعدی تو اس میں خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے اور اگر بواسطہ فی کے متعدی ہو تو عنایت کے معنی نمایاں ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور 26] اس سے قبل ہم اپنے گھر میں خدا سے ڈرتے رہتے تھے ۔ مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری 18] وہ اس سے ڈرتے ہیں ۔ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری 22] وہ اپنے اعمال ( کے وبال سے ) ڈر رہے ہوں گے ۔ أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة 13] کیا تم اس سے کہ ۔۔۔ پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے ہو ۔
اور جنتی آپس میں ملاقات کے وقت دنیا کا بھی تذکرہ کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تو جنت میں داخل ہونے سے پہلے دنیا میں اپنے گھر والوں کے ساتھ عذاب خداوندی سے بہت ڈرا کرتے تھے۔
آیت ٢٦ قَالُوْٓا اِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِیْٓ اَہْلِنَا مُشْفِقِیْنَ ۔ ” وہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے اہل و عیال میں ڈرتے ہوئے رہتے تھے۔ “- دنیا میں اپنے اہل و عیال اور عزیز و اقارب کے درمیان معمول کی زندگی بسر کرتے ہوئے ہمیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ نہ معلوم ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر بھی پائیں گے یا نہیں۔ نہ معلوم نیک اعمال کی قبولیت کے لیے مطلوبہ معیار کا اخلاص ہمارے دلوں میں ہے بھی یا نہیں۔ کہیں ہم سے کوئی ایسی غلطی سرزد نہ ہوجائے جو ہماری ساری محنت کو بھی اکارت کر دے ۔ ایسے اندیشے اور خدشے ہر لمحہ ہمیں دامن گیر رہتے تھے۔
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :20 یعنی ہم وہاں عیش میں منہمک اور اپنی دنیا میں مگن ہو کر غفلت کی زندگی نہیں گزار رہے تھے ، بلکہ ہر وقت ہمیں یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں ہم سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جس پر خدا کے ہاں ہماری پکڑ ہو ۔ یہاں خاص طور پر اپنے گھر والوں کے درمیان ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ آدمی سب سے زیادہ جس وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے بال بچوں کو عیش کرانے اور ان کی دنیا بنانے کی فکر ہے ۔ اسی کے لیے وہ حرام کماتا ہے ، دوسروں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا ہے ، اور طرح طرح کی ناجائز تدبیریں کرتا ہے ۔ اسی بنا پر اہل جنت آپس میں کہیں گے کہ خاص طور پر جس چیز نے ہمیں عاقبت کی خرابی سے بچایا وہ یہ تھی کہ اپنے بال بچوں میں زندگی بسر کرتے ہوئے ہمیں ان کو عیش کرانے اور ان کا مستقبل شاندار بنانے کی اتنی فکر نہ تھی جتنی اس بات کی تھی کہ ہم ان کی خاطر وہ طریقے نہ اختیار کر بیٹھیں جن سے ہماری آخرت برباد ہو جائے ، اور اپنی اولاد کو بھی ایسے راستے پر نہ ڈال جائیں جو ان کو عذاب الہیٰ کا مستحق بنا دے ۔