Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کاہن کی پہچان اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ اللہ کی رسالت اللہ کے بندوں تک پہنچاتے رہیں ساتھ ہی بدکاروں نے جو بہتان آپ پر باندھ رکھے تھے ان سے آپ کی صفائی کرتا ہے کاہن اسے کہتے ہیں جس کے پاس کبھی کبھی کوئی خبر جن پہنچا دیتا ہے تو ارشاد ہوا کہ دین حق کی تبلیغ کیجئے ۔ الحمد اللہ آپ نہ تو جنات والے ہیں نہ جنوں والے ۔ پھر کافروں کا قول نقل فرماتا ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک شاعر ہیں انہیں کہنے دو جو کہہ رہے ہیں ان کے انتقال کے بعد ان کی سی کون کہے گا ؟ ان کا یہ دین ان کے ساتھ ہی فنا ہو جائے گا پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا جواب دینے کو فرماتا ہے کہ اچھا ادھر تم انتظار کرتے ہو ادھر میں بھی منتظر ہوں دنیا دیکھ لے گی کہ انجام کار غلبہ اور غیر فانی کامیابی کسے حاصل ہوتی ہے ؟ دارالندوہ میں قریش کا مشورہ ہوا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی مثل اور شاعروں کے ایک شعر گو ہیں انہیں قید کر لو وہیں یہ ہلاک ہو جائیں گے جس طرح زہیر اور نابغہ شاعروں کا حشر ہوا ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ پھر فرماتا ہے کیا ان کی دانائی انہیں یہی سمجھاتی ہے کہ باوجود جاننے کے پھر بھی تیری نسبت غلط افواہیں اڑائیں اور بہتان بازی کریں حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑے سرکش گمراہ اور عناد رکھنے والے لوگ ہیں دشمنی میں آکر واقعات سے چشم پوشی کر کے آپ کو مفت میں برا بھلا کہتے ہیں کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خود آپ بنا لیا ہے ؟ فی الواقع ایسا تو نہیں لیکن ان کا کفر ان کے منہ سے یہ غلط اور جھوٹ بات نکلوا رہا ہے اگر یہ سچے ہیں تو پھر یہ خود بھی مل جل کر ہی ایک ایسی بات بنا کر دکھا دیں یہ کفار قریش تو کیا ؟ اگر ان کیساتھ روئے زمین کے جنات وانسان مل جائیں جب بھی اس قرآن کی نظیر سے وہ سب عاجز رہیں گے اور پورا قرآن تو بڑی چیز ہے اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی قیامت تک بنا کر نہیں لا سکتے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ وعظ و تبلیغ اور نصیحت کا کام کرتے رہیں اور یہ آپ کی بابت جو کچھ کہتے رہتے ہیں، ان کی طرف کان نہ دھریں، اس لئے کہ آپ اللہ کے فضل سے کاہن ہیں نہ دیوانہ (جیسا کہ یہ کہتے ہیں) بلکہ آپ پر باقاعدہ ہماری طرف سے وحی آتی ہے جو کہ کاہن پر نہیں آتی آپ جو کلام لوگوں کو سناتے ہیں وہ دانش و بصیرت کا آئینہ دار ہوتا ہے ایک دیوانے سے اس طرح گفتگو کیوں کر ممکن ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] کفار کا آپ کو کاہن دیوانہ اور شاعر کے القابات سے نوازنا :۔ یہاں سے پھر کفار مکہ کے آپ پر تبصروں اور القابات کی طرف رخ مڑ گیا ہے۔ ان آیات میں اگرچہ روئے سخن آپ کی طرف ہے مگر حقیقت میں یہ خطاب کفار مکہ کی طرف ہے۔ یعنی اگر آپ کے یہ دشمن بغض وعناد کی بنا پر آپ کو کاہن یا مجنوں کہتے ہیں تو ان کی اس بکواس سے آپ کاہن یا مجنوں بن نہیں جائیں گے۔ انہیں ایسی بکواس کرتے رہنے دیجئے اور آپ اپنے کام میں مصروف رہیے اور لوگوں کو قرآن سنا سنا کر نصیحت کرتے جائیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) فذکر فما انت بنعمت ربک بکاھن ولا مجنون :” کاہن “ وہ شخص جو شیاطین سے تعلق رکھتا ہے اور ان سے سن کر غیب کی خبریں یدتا ہے، جن میں ایک آدھ وہ سچی خبر بھی ہوتی ہے جو انہوں نے آسمان کے نیچے فرشتوں کی باہمی گفتگو سے چرائی ہوتی ہے، پھر اس کے ساتھ سو باتیں جھوٹی ملا کر اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں۔- (٢) سورت کے شروع سے قیامت، جزا و سزا اور جنت و جہنم کی تفصیل اور دلائل ذکر کرنے کے بعد فرمایا :” فذکر “ (پس نصیحت کر) یعنی جب ہم نے یہ سب کچھ آپ کو وحی کے ذریعے سے بتادیا تو اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کے ساتھ تمام لوگوں کو صنیحت کریں اور کفار و مشرکین کی بےہودہ باتوں اور تہمتوں کی پروا نہ کریں۔ وہ آپ کو کاہن کہیں یا مجنون، آپ اللہ کے فضل سے کسی طرح بھی نہ کاہن ہیں نہ مجنون۔ کہانت یا دیوانگی کی کوئی بھی بات آپ میں ہرگز نہیں پائی جاتی۔ ” فما انت بنعمت ربک بکاھن “ میں ” ما “ نافیہ کے بعد ” بائ “ نفی کی تاکید کے لئے ہے اور ” بکاھن “ پر تنوین تنکیر کے لئے ہے ، اس لئے ترجمہ کیا گیا ہے ” تو اپنے رب کی مہربانی سے ہرگز نہ کسی طرح کاہن ہے اور نہ کوئی دیوانہ۔ “- (٢) اللہ تعالیٰ نے اور مقامات پر بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہانت اور جنون کی نفی فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة حاقہ (٤١، ٤٢) ، قلم (٢) اور سورة تکویر (٢٢) ۔ سورة شعراء میں یہ بات کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاہن نہیں اور یہ کہ کاہن کس طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ تفصیل سے گزر چکی ہے، دیکھیے سورة شعراء کی آیات (٢١٠ تا ٢٢٣) اور ان کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (جب آپ پر مضامین واجب التبلیغ کی وحی کی جاتی ہے جیسے اوپر ہی جنت و دوزخ کے مستحقین کی تفصیل کی گئی ہے) تو آپ ( ان مضامین سے لوگوں کو) سمجھتے رہئے کیونکہ آپ بفضلہ تعالیٰ نہ تو کاہن ہیں اور نہ مجنون ہیں ( جیسا مشرکین کا یہ قول سورة الضحیٰ کی شان نزول میں منقول ہے قد ترکک شیطانک رواہ البخاری، جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ کاہن نہیں ہو سکتے، کیونکہ کاہن شیاطین سے خبریں حاصل کرتا ہے اور آپ کا شیطان سے کوئی واسطہ نہیں اور ایک آیت میں ہے وَيَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ الآیة اس میں آپ سے جنون کی نفی کی گئی ہے، مطلب یہ کہ آپ نبی ہیں اور نبی کا کام ہمیشہ نصیحت کرتے رہنا ہے، گو لوگ کچھ ہی بکیں) ہاں کیا یہ لوگ (علاوہ کاہن اور مجنون کہنے کے آپ کی نسبت) یوں (بھی) کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں (اور) ہم ان کے بارے میں حادثہ موت کا انتظار کر رہے ہیں (جیسا در منثور میں ہے کہ قریش دار الندوہ میں مجتمع ہوئے اور آپ کے بارے میں یہ مشورہ قرار پایا کہ جیسے اور شعراء مر کر ختم ہوگئے آپ بھی ان ہی میں کے ایک ہیں، اسی طرح آپ بھی ہلاک ہوجائیں گے تو اسلام کا قصہ ختم ہوجائے گا) آپ فرما دیجئے (بہتر) تم منتظر رہو سو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں (یعنی تم میرا انجام دیکھو میں تمہارا انجام دیکھتا ہوں، اس میں اشارۃً پیشین گوئی ہے کہ میرا نجام فلاح و کامیابی ہے اور تمہارا انجام خسارہ اور ناکامی ہے اور یہ مقصود نہیں کہ تم مرو گے میں نہ مروں گا، بلکہ ان لوگوں کا جو اس سے مقصود تھا کہ ان کا دین چلے گا نہیں، یہ مر جاویں گے تو دین مٹ جاوے گا، جواب میں اس کا رد مقصود ہے، چناچہ یوں ہی ہوا اور یہ لوگ جو ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں تو) کیا ان کی عقلیں (جس کے یہ بڑے مدعی ہیں) ان کو ان باتوں کی تعلیم کرتی ہیں یا یہ ہے کہ یہ شریر لوگ ہیں ( ان کا مدعی عقل و دانش ہونا ان کے اس قول سے ثابت ہے، لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ ، احقاف۔ اور معالم کی نقل سے اس کی اور تائید ہوتی ہے کہ عظماء قریش لوگوں میں بڑے عقلمند مشہور تھے، پس اس آیت میں ان کی عقل کی حالت دکھلائی گئی ہے کہ کیوں صاحب بس یہی عقل ہے جو ایسی تعلیم دے رہی ہے اور اگر یہ عقل کی تعلیم نہیں ہے تو نری شرارت اور ضد ہے) ہاں کیا وہ یہ (بھی) کہتے ہیں کہ انہوں نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے (سو تحقیقی جواب تو اس کا یہ ہے کہ یہ بات نہیں ہے) بلکہ (یہ بات صرف اس وجہ سے کہتے ہیں کہ) یہ لوگ (بوجہ عناد کے اس کی) تصدیق نہیں کرتے (اور قاعدہ ہے کہ جس چیز کی آدمی تصدیق نہیں کرتا ہزار وہ حق ہو مگر اس کی ہمیشہ نفی ہی کیا کرتا ہے اور دوسرا الزامی جواب یہ ہے کہ اچھا اگر یہ ان کا بنایا ہوا ہے) تو یہ لوگ (بھی عربی اور بڑے فصیح وبلیغ اور قادر الکلام ہیں) اس طرح کا کوئی کلام (بنا کر) لے آئیں اگر یہ ( اس دعوے میں) سچے ہیں (یہ سب مضامین رسالت کے متعلق ہیں آگے توحید کے متعلق گفتگو ہے کہ یہ لوگ جو توحید کے منکر ہیں تو) کیا یہ لوگ بدون کسی خالق کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں یا (یہ کہ نہ اپنے خالق ہیں اور نہ بلا خالق مخلوق ہوئے ہیں لیکن) انہوں نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ( اور اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت میں شریک ہیں، حاصل یہ کہ جو شخص صفت خالقیت صرف حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہونے اور خود اپنے آپ کا بھی محتاج خالق ہونے کا اعتقاد رکھے تو عقلاً اس پر لازم ہے کہ توحید کا بھی قائل ہو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ قرار دے اور توحید کا انکار وہ شخص کرسکتا ہے جو صفت خالقیت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص نہ جانے یا اپنی مخلوقیت کا منکر ہو اور چونکہ یہ لوگ اپنے عدم غور و فکر کی وجہ سے یہ نہیں جانتے تھے کہ خالق جب ایک ہے تو معبود بھی ایک ہی ہونا لازم ہے، اس لئے آگے ان کے اس جہل کی طرف اشارہ ہے کہ واقع میں ایسا نہیں) بلکہ یہ لوگ (بوجہ جہل کے توحید کا) یقین نہیں لاتے (وہ جہل یہی ہے کہ اس میں غور نہیں کرتے کہ خالقیت اور معبودیت میں تلازم ہے، یہ گفتگو توحید کے متعلق ہوئی، آگے رسالت کے متعلق ان کے دوسرے مزعومات کا رد ہے، چناچہ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر نبوت ہی ملنی تھی تو فلاں فلاں رؤسا مکہ و طائف کو ملتی حق تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہیں کہ) کیا ان لوگوں کے پاس تمہارے رب (کی نعمتوں اور رحمتوں) کے ( جن میں نبوت بھی داخل ہے) خزانے ہیں (کہ جس کو چاہو نبوت دیدو، کقولہ تعالیٰ اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ) یا یہ لوگ ( اس محکمہ نبوت کے) حاکم ہیں ، ( کہ جسے چاہیں نبوت دلوا دیں، یعنی دینے دلانے کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ مثلاً خزانہ اپنے قبضہ میں ہو، دوسری یہ کہ قبضہ میں نہ ہو مگر قابضان خزانہ اس کے محکوم ہوں کہ اس کے دستخط دیکھ کردیتے ہوں، یہاں دونوں کی نفی فرما دی، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ جو رسالت محمدیہ کے منکر ہیں اور مکہ و طائف کے رؤسا کو رسالت کا مستحق قرار دیتے ہیں ان کے پاس اس کی کوئی دلیل عقلی تو ہے نہیں بلکہ خود اس کے عکس پر دلائل عقلیہ قائم ہیں اور اسی لئے محض استفہام انکاری پر اکتفاء فرمایا، اب آگے دلیل نقلی کی نفی فرماتے ہیں یعنی) کیا ان لوگوں کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر (چڑھ کر آسمان کی) باتیں سن لیا کرتے ہیں (یعنی دلیل نقلی وحی آسمانی ہے اور اس کے علم کے دو طریقے ہیں یا تو وحی کسی شخص پر آسمان سے نازل ہو، یا صاحب وحی آسمان پر چڑھے اور دونوں کا منتفی ہونا ان لوگوں سے ظاہر ہے، آگے اس کے متعلق ایک احتمال عقلی کا ابطال فرماتے ہیں کہ اگر فرضًا یہ لوگ یہ دعویٰ کرنے لگیں کہ ہم آسمان پر چڑھ جاتے اور وہاں کی باتیں سنتے ہیں) تو ان میں جو (وہاں کی) باتیں سن آتا ہو وہ (اس دعویٰ پر) کوئی صاف دلیل پیش کرے (جس سے ثابت ہو کہ یہ شخص مشرف بہ وحی ہوا ہے، جیسا ہمارے نبی اپنی وحی پر دلائل خارقہ یقینیہ رکھتے ہیں، آگے پھر توحید کے بارے میں ایک خاص مضمون کے متعلق کلام ہے، یعنی منکرین توحید جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر شرک کرتے ہیں تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ) کیا خدا کے لئے بیٹیاں (تجویز کی جاویں) اور تمہارے لئے بیٹے (تجویز ہوں یعنی اپنے لئے تو وہ چیز پسند کرتے ہو جس کو اعلیٰ درجہ کا سمجھتے ہو اور خدا کے لئے وہ چیز تجویز کرتے ہو جس کو ادنیٰ درجہ کی سمجھتے ہو، جس کا بیان سورة صافات کے اخیر میں مفصل مدلل گزرا ہے، آگے پھر رسالت کے متعلق کلام ہے کہ ان کو جو باوجود آپ کی حقانیت ثابت ہوجانے کے آپ کا اتباع اس قدر ناگوار ہے تو) کیا آپ ان سے کچھ معاوضہ (تبلیغ احکام کا) مانگتے ہیں کہ وہ تاوان ان کو گراں معلوم ہوتا ہے (وہذا کقولہ تعالیٰ ام تسئلہم خرجا الخ آگے قیامت اور جزاء کے متعلق کلام ہے کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اول تو قیامت ہوگی نہیں اور اگر بالفرض ہوگی تو ہم وہاں بھی اچھے رہیں گے، کما فی قولہ (آیت) تعالیٰ وما اظن الساعة قائمتہ ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی، تو ہم اس کے متعلق ان سے پوچھتے ہیں کہ) کیا ان کے پاس غیب (کا علم) ہے کہ یہ ( اس کو محفوظ رکھنے کے واسطے) لکھ لیا کرتے ہیں ( یہ احقر کے نزدیک کنایہ ہے یحفظون سے کیونکہ کتابت طریقہ ہے حفظ کا، پس حاصل یہ ہوا کہ جس امر پر اثباتاً یا نفیاً کوئی دلیل عقلی قائم نہ ہو وہ غیب محض ہے، اس کا دعویٰ اثباتاً یا نفیاً وہ کرے جس کو کسی واسطہ سے اس غیب پر مطلع کیا جاوے اور پھر مطلع ہونے کے بعد وہ اس کو محفوظ بھی رکھے، اس لئے کہ اگر معلوم ہونے کے بعد محفوظ نہ ہو تب بھی حکم اور دعویٰ بلا علم ہوگا، پس تم جو قیامت کی نفی اور اپنے لئے حسنیٰ کے قائل ہو تو کیا تم کو غیب پر کسی واسطہ سے اطلاع دی گئی ہے جیسا کہ ہمارے نبی کو اثبات قیامت اور تم سے اچھی حالت کی نفی کی خبر غیبی وحی دی گئی ہے اور وہ اس کو محفوظ رکھ کر اوروں کو پہنچا رہے ہیں، آگے رسالت کے متعلق ایک اور کلام ہے وہ یہ کہ وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ ) سو یہ کافر خود ہی ( اس) برائی (کے وبال) میں گرفتار ہوں گے (چنانچہ اس قصد میں ناکام ہوئے اور بدر میں مقتول ہوئے، آگے پھر توحید کے متعلق کلام ہے کہ) کیا ان کا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے اور (آگے پھر رسالت کے متعلق ایک کلام ہے وہ یہ کہ یہ لوگ نفی رسالت کے لئے ایک بات یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ ہم تو آپ کو اس وقت رسول جانیں جب ہم پر ایک آسمان کا ٹکڑا گرا دو ، کما قال تعالیٰ (آیت) وقالوا لن نومن الی قولہ او تسقط السمآء کما زعمت علینا کسفا، سو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو دعویٰ پر خواہ وہ دعویٰ رسالت ہو یا اور کچھ ہو مطلق دلیل کا بشرطیکہ صحیح ہو قائم کردینا کافی ہے جو کہ دعویٰ رسالت ہی کے وقت سے بلا کسی قدح و جرح کے قائم اور کسی خاص دلیل کا قائم ہونا ضروری نہیں اور نہ اس سے دعویٰ نبوت میں قدح لازم آتا ہے، تبرعاً کوئی فرمائشی دلیل قائم کی جاوے تو یہ اس وقت ہے جب اس میں کوئی مصلحت ہو، مثلاً درخواست کنندہ طالب حق ہو، تو یہی سمجھا جاوے کہ خیر اسی ذریعہ سے اس کو ہدایت ہوجاوے گی اور کوئی معتدبہ حکمت ہو اور یہاں یہ مصلحت بھی نہیں، کیونکہ ان کی یہ فرمائش حق کے لئے نہیں بلکہ محض تعنت وعناد کی راہ سے ہے اور وہ ایسے ضدی ہیں کہ) اگر ( ان کا یہ فرمائشی معجزہ واقع بھی ہوجاوے اور) وہ آسمان کے ٹکڑے کو دیکھ ( بھی لیں) کہ گرتا ہوا آ رہا ہے تو ( اس کو بھی) یوں کہہ دیں کہ یہ تو تہ بتہ جما ہوا بادل ہے (کقولہ تعالیٰ (آیت) ولو انا فتحنا علیہم بابا من السمآء فظلوا فیہ یعرجون، پس جب مصلحت بھی نہیں ہے اور دوسری مصلتحوں کی نفی کا بھی ہم کو علم ہے بلکہ ان فرمائشی معجزات کا وقوع خلاف حکمت ہے پس جب ضرورت نہیں مصلحت نہیں بلکہ خلاف مصلحت ہے پھر کیوں واقع کیا جاوے اور نہ اس کے عدم وقوع سے نبوت کی نفی ہوتی ہے، آگے ان کے غلو فی الکفر پر جو اوپر کی آیتوں سے اور شدت عناد پر جو کہ آخر کی آیت سے معلوم ہوتا ہے بطور تفریع کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے، فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ ایسے طاغی اور باغی اور غالی ہیں) تو ( ان سے توقع ایمان کر کے رنج میں نہ پڑیئے بلکہ) ان کو (انہی کی حالت پر) رہنے دیجئے یہاں تک کہ ان کو اپنے اس دن سے سابقہ (واقع) ہو جس میں ان کے ہوش اڑ جاویں گے (مراد قیامت کا دن ہے، اور اس صعق کی تفصیل سورة زمر کی آخری آیت ونفخ الخ کی تفسیر میں گزری ہے اور معنیٰ حتیٰ کی تحقیق سورة زخرف کے آخر میں جہاں حتی یلاقو آیا ہے گزری ہے، آگے اس دن کا بیان ہے یعنی) جس دن ان کی تدبیریں ( جو دنیا میں اسلام کی مخالفت اور اپنی کامیابی کے بارے میں کا کرتے تھے) ان کے کچھ بھی کام نہ آویں گی اور نہ ( کہیں سے) ان کو مدد ملے گی ( نہ تو مخلوق کی طرف سے کہ اس کا امکان ہی نہیں اور نہ خالق کی طرف سے کہ اس کا وقوع نہیں، یعنی اس روز ان کو حقیقت معلوم ہوجاوے گی، باقی اس سے ادھر ایمان لانے والے نہیں) اور (آخرت میں تو یہ مصیبت ان پر آوے ہی گی لیکن) ان ظالموں کے لئے قبل اس (عذاب) کے بھی عذاب ہونے والا ہے (یعنی دنیا میں جیسے قحط اور غزوہ بدر میں قتل ہونا) لیکن ان میں اکثر کو معلوم نہیں (اکثر شاید اس لئے فرمایا ہو کہ بعضوں کے لئے ایمان مقدر تھا اور ان کا عدم علم بوجہ اس کے کہ علم سے مبدل ہونے والا تھا اس لئے وہ عدم علم نہیں قرار دیا گیا) اور ( جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ ہم ان کی سزا کے لئے ایک وقت معین کرچکے ہیں تو) آپ اپنے رب کی ( اس) تجویز پر صبر سے بیٹھے رہئے ( اور ان لوگوں کیلئے انتقام الٰہی کی جلدی نہ کیجئے جس کو آپ مسلمانوں کی خواہش اور ان کی امداد کی حیثیت سے چاہتے تھے اور نہ اس خیال سے انتقام میں جلدی کیجئے کہ یہ لوگ مدت مہلت میں آپ کو کوئی ضرر پہنچا سکیں گے سو اس کا بھی اندیشہ نہ کیجئے کیوں) کہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں ( پھر کا ہے کا ڈر، چناچہ یونہی واقع ہوا) اور ( اگر ان کے کفر کا غم دل پر آوے تو اس کا علاج یہ ہے کہ توجہ الی اللہ رکھا کیجئے، مثلاً یہ کہ) اٹھتے وقت (یعنی مجلس سے یا سونے سے اٹھتے وقت، مثلا تہجد میں) اپنے رب کی تسبیح وتحمید کیا کیجئے اور رات (کے کسی حصہ) میں بھی اس کی تسبیح کیا کیجئے (مثلاً عشاء کے وقت) اور ستاروں ( کے غروب ہونے) سے پیچھے بھی (مثلاً نماز صبح اور مطلق ذکر بھی اس میں آ گیا اور تخصیص ان اوقات کی بوجہ خاصہ اہتمام کے لئے ہے، حاصل یہ کہ اپنے دل کو ادھر مشغول رکھئے پھر فکر و غم کا غلبہ نہ ہوگا) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَذَكِّرْ فَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاہِنٍ وَّلَا مَجْنُوْنٍ۝ ٢٩ ۭ- ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- كهن - الْكَاهِنُ : هو الذین يخبر بالأخبار الماضية الخفيّة بضرب من الظّنّ ، والعرّاف الذي يخبر بالأخبار المستقبلة علی نحو ذلك، ولکون هاتین الصّناعتین مبنيّتين علی الظّنّ الذي يخطئ ويصيب قال عليه الصلاة والسلام : «من أتى عرّافا أو كَاهِناً فصدّقه بما قال فقد کفر بما أنزل علی أبي القاسم». ويقال : كَهُنَ فلان كهَانَةً :إذا تعاطی ذلك، وكَهَنَ : إذا تخصّص بذلک، وتَكَهَّنَ : تكلّف ذلك . قال تعالی: وَلا بِقَوْلِ كاهِنٍ قَلِيلًا ما تَذَكَّرُونَ [ الحاقة 42] .- ( ک ہ ن ) الکاھن اس شخص کو کہتے ہیں جو تخمینے سے ماضی کے خفیہ واقعات کی خبر دیتا ہواو ر عراف اسے جو آئندہ کے متعلق خبر دیتا ہو ان دونوں پیشوں کی بناچون کہ ظن پر ہے جس میں صواب وخطا کا احتمال پایا جاتا ہے ۔ اس لئے آنحضرت نے فرمایا (104) من اتی اعرا قا او کاھنا فصدتہؤ کہ جو شخص عراف یا کاہن کے پاس جاکر ان کے قول کی تصدیق کرے تو اس نے جو کچھ ابوالقاسم ض ( یعنی مجھ پر ) اتارا گیا ہے اس کے ساتھ کفر کیا کھن فلان کھناۃ کہانت کرنا۔ اور جب کوئی شخص اس پیشہ کے ساتھ مختص ہو تو اس کے متعلق کھن کہتے ہیں ۔ تکھن ۔ بتکلف کہانت کرنا قرآن میں ہے : وَلا بِقَوْلِ كاهِنٍ قَلِيلًا ما تَذَكَّرُونَ [ الحاقة 42] اور نہ کسی کاہن کے مذخرفات ہیں لیکن تم لوگ بہت ہی کم دھیان دیتے ہو ۔- جُنون - : حائل بين النفس والعقل، وجُنَّ فلان قيل : أصابه الجن، وبني فعله کبناء الأدواء نحو : زکم ولقي «1» وحمّ ، وقیل : أصيب جنانه، وقیل : حيل بين نفسه وعقله، فجن عقله بذلک وقوله تعالی: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان 14] ، أي : ضامّة من يعلمه من الجن، وکذلک قوله تعالی: أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36]- جنون - ( ایضا ) جنوں ۔ دیوانگی ۔ قرآن میں سے : ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] کہ ان کے - رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کا بھی ) جنون ۔۔ نہیں ہے ۔ اور دیوانگی کو جنون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ جن فلان ۔ اسے جن لگ گیا ۔ امراض کے معانی میں دوسرے افعال کی طرح یہ بھی فعل مجہول ہی استعمال ہوتا ہے جیسے زکم ( اسے زکام ہوگیا ) لقی ( اے لقوہ ہوگیا ) حم ( اے بخار ہوگیا ) وغیرہ ۔ بعض نے کہا ہے جن فلان کے معنی ہیں ۔ اس کے قلب کو عارضہ ہوگیا اور بعض نے کہا کہ دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپالیا اور آیت کریمہ :۔ مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان 14] کے معنی ہیں کہ اسے وہ جن چمٹا ہوا ہے جو اسے تعلیم دیتا ہے اور یہی معنی آیت :۔ أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] کو بھلاک ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ۔ میں شاعر مجنون کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٩۔ ٣٠) تو آپ لوگوں کو سمجھاتے رہیے کیوں کہ آپ نبوت اور اسلام کی دولت سے سرفراز ہونے کی وجہ سے نہ تو کاہن ہیں کہ کل کی خبریں دیں اور نہ مجنوں ہیں۔ بلکہ کفار مکہ یعنی ابو جہل، ولید بن مغیرہ وغیرہ آپ کے بارے میں یوں بھی کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں اور ہم ان کی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ فَذَکِّرْ فَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَّلَا مَجْنُوْنٍ ۔ ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ تذکیر کرتے رہیے ‘ پس آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون۔ “- یہ خطاب اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن اصل میں سنانا ان لوگوں کو مقصود ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایسے نام رکھتے تھے۔ ان لوگوں کو نظر انداز کر کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی فضول باتوں پر بالکل توجہ نہ دیں اور لوگوں کو مسلسل تذکیر اور یاد دہانی کرتے رہیں۔ اس سے ملتا جلتا مضمون قبل ازیں گزشتہ سورت (الذاریات ) میں بھی آچکا ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا : - فَتَوَلَّ عَنْہُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ - وَّذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ - ” پس (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ ان سے رخ پھیر لیں ‘ آپ پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اور آپ تذکیر کرتے رہیے ‘ کیونکہ یہ تذکیر اہل ایمان کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ “- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تذکیر و تبلیغ کا عمل مسلسل جاری رکھیے۔ کیا خبر کسی دل میں ایمان کی کوئی کلی کھلنے والی ہو ‘ کیا خبر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی دشمن کا دل بھی موم ہونے والا ہو۔ حضرت عمر فاروق (رض) کے ایمان لانے کا واقعہ اس حقیقت کا گواہ ہے کہ تذکیر آہستہ آہستہ دلوں کو متاثر کرتی رہتی ہے اور پھر کسی وقت اچانک وہ گھڑی آپہنچتی ہے جب دل میں ایمان کی کلی کھل اٹھتی ہے۔ حضرت عمر (رض) اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں ہر وقت پیش پیش رہتے تھے لیکن چونکہ سخن شناس تھے اس لیے کلام الٰہی سننے کے لیے متجسس ّبھی رہتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو صحن ِکعبہ میں قیام اللیل کے دوران قرآن مجید کی تلاوت فرمایا کرتے تو کبھی کبھی حضرت عمر (رض) چھپ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے تلاوت سنتے اور کلام الٰہی کی تاثیر کو اپنی روح کی گہرائیوں میں محسوس کرتے تھے۔ گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تذکیر اور قرآن کی تاثیر تدریجاً ان کے دل میں گھر کر رہی تھی۔ اسی تدریجی عمل کے باعث آپ (رض) کے خیالات و جذبات میں اندر ہی اندر ایک مثبت تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ اس کے بعد مشیت الٰہی سے وہ واقعہ رونما ہوا جس کے باعث اس خاموش تبدیلی کو اظہار کا موقع ملا اور آپ (رض) کو ایمان کی دولت نصیب ہوگئی۔ اس دن تو آپ (رض) گھر سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تھے۔ راستے میں اپنی بہن فاطمہ (رض) بنت خطاب اور اپنے بہنوئی حضرت سعید (رض) بن زید سے الجھ پڑے۔ آپ (رض) کے تشدد کا سامنا کرتے ہوئے بہن نے جب ڈٹ کر کہا کہ عمر تم جو چاہے کرلو ‘ اب ہم اپنے دین کو چھوڑنے والے نہیں تو آپ (رض) اپنی بہن کے اس غیر معمولی عزم اور حوصلے کے سامنے ڈھیر ہوگئے ۔ پھر کیا تھا ‘ آپ (رض) کے دل کا ” بند “ یکدم کھل گیا اور آپ (رض) نے حق کو اعلانیہ قبول کرلیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :22 اوپر آخرت کی تصویر پیش کرنے کے بعد اب تقریر کا رخ کفار مکہ کی ان ہٹ دھرمیوں کی طرف پھر رہا ہے جس سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ یہاں خطاب بظاہر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر دراصل آپ کے واسطے سے یہ باتیں کفار مکہ کو سنانی مقصود ہیں ۔ ان کے سامنے جب آپ قیامت ، اور حشر و نشر ، اور حساب و کتاب ، اور جزا و سزا اور جنت و جہنم کی باتیں کرتے تھے ، اور ان مضامین پر مشتمل قرآن مجید کی آیات اس دعوے کے ساتھ ان کو سناتے تھے کہ یہ خبریں اللہ کی طرف سے میرے پاس آئی ہیں اور یہ اللہ کا کلام ہے جو مجھ پر وحی کے ذریعہ سے نازل ہوا ہے ، تو ان کے سردار اور مذہبی پیشوا اور اوباش لوگ آپ کی ان باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ نہ خود غور کرتے تھے ، نہ یہ چاہتے تھے کہ عوام ان کی طرف توجہ کریں ۔ اس لیے وہ آپ کے اوپر کبھی یہ فقرہ کستے تھے کہ آپ کاہن ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ مجنون ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ شاعر ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ خود اپنے دل سے یہ نرالی باتیں گھڑتے ہیں اور محض اپنا رنگ جمانے کے لیے انہیں خدا کی نازل کردہ وحی کہہ کر پیش کرتے ہیں ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح کے فقرے کس کر وہ لوگوں کو آپ کی طرف سے بدگمان کر دیں گے اور آپ کی ساری باتیں ہوا میں اڑ جائیں گی ۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی ، واقعی حقیقت تو وہی کچھ ہے جو سورۃ کے آغاز سے یہاں تک بیان کی گئی ہے ۔ اب اگر یہ لوگ ان باتوں پر تمہیں کاہن اور مجنون کہتے ہیں تو پروا نہ کرو اور بندگان خدا کو غفلت سے چونکانے اور حقیقت سے خبردار کرنے کا کام کرتے چلے جاؤ ، کیونکہ خدا کے فضل سے نہ تم کاہن ہو نہ مجنون ۔ کاہن عربی زبان میں جوتشی ، غیب گو اور سیانے کے معنی میں بولا جاتا تھا ۔ زمانہ جاہلیت میں یہ ایک مستقل پیشہ تھا ۔ کاہنوں کا دعویٰ تھا ، اور ان کے بارے میں ضعیف الاعتقاد لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ وہ ستارہ شناس ہیں ، یا ارواح اور شیاطین اور جنوں سے ان کا خاص تعلق ہے جس کی بدولت وہ غیب کی خبریں معلوم کر سکتے ہیں ۔ کوئی چیز کھوئی جائے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں پڑی ہوئی ہے ۔ کسی کے ہاں چوری ہو جائے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ چور کون ہے ۔ کوئی اپنی قسمت پوچھے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے ۔ انہی اغراض کے لیے لوگ ان کے پاس جاتے تھے ۔ اور وہ کچھ نذر نیاز لے کر انہیں غیب کی باتیں بتایا کرتے تھے ۔ وہ خود بھی بسا اوقات بستیوں میں آواز لگاتے پھرتے تھے تاکہ لوگ ان کی طرف رجوع کریں ان کی ایک خاص وضع قطع ہوتی تھی جس سے وہ الگ پہچانے جاتے تھے ۔ ان کی زبان بھی عام بول چال سے مختلف ہوتی تھی وہ مقفّیٰ اور مسجّع فقرے خاص لہجے میں ذرا ترنم کے ساتھ بولتے تھے اور بالعموم ایسے گول مول فقرے استعمال کرتے تھے جن سے ہر شخص اپنے مطلب کی بات نکال لے ۔ قریش کے سرداروں نے عوام کو فریب دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کاہن ہونے کا الزام صرف اس بنا پر لگا دیا کہ آپ ان حقائق کی خبر دے رہے تھے جو لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں ، اور آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ خدا کی طرف سے ایک فرشتہ آ کر آپ پر وحی نازل کرتا ہے ، اور خدا کا جو کلام آپ پیش کر رہے تھے وہ بھی مقفّیٰ تھا ۔ لیکن عرب میں کوئی شخص بھی ان کے اس الزام سے دھوکا نہ کھا سکتا تھا ۔ اس لیے کہ کاہنوں کے پیشے اور ان کی وضع قطع اور ان کی زبان اور ان کے کاروبار سے کوئی بھی ناواقف نہ تھا ۔ سب جانتے تھے کہ وہ کیا کام کرتے ہیں ، اور کن مضامین پر وہ مشتمل ہوتے ہیں ۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی کاہن کا سرے سے یہ کام ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ قوم کے رائج الوقت عقائد کے خلاف ایک عقیدہ لے کر اٹھتا اور شب و روز اس کی تبلیغ میں اپنی جان کھپاتا اور اس کی خاطر ساری قوم کی دشمنی مول لیتا ۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہانت کا یہ الزام برائے نام بھی کوئی مناسبت نہ رکھتا تھا کہ یہ پھبتی آپ پر چسپاں ہو سکتی اور عرب کا کوئی کند ذہن سے کند ذہن آدمی بھی اس سے دھوکا کھا جاتا ۔ اسی طرح آپ پر جنون کا الزام بھی کفار مکہ محض اپنے دل کی تسلی کے لیے لگاتے تھے جیسے موجودہ زمانے کے بعض بے شرم مغربی مصنفین اسلام کے خلاف اپنے بغض کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے یہ دعوے کرتے ہیں کہ معاذ اللہ حضور پر صرع ( ) کے دورے پڑتے تھے اور انہی دوروں کی حالت میں جو کچھ آپ کی زبان سے نکلتا تھا اسے لوگ وحی سمجھتے تھے ۔ ایسے بیہودہ الزامات کو کسی صاحب عقل آدمی نے نہ اس زمانے میں قابل اعتنا سمجھا تھا ، نہ آج کوئی شخص قرآن کو پڑھ کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و رہنمائی کے حیرت انگیز کارنامے دیکھ کر یہ باور کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ صرع کے دوروں کا کرشمہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani