Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 رَیْب کے معنی ہیں حوادث، موت کے ناموں سے ایک نام۔ مطلب ہے قریش مکہ اس انتظار میں ہیں کہ زمانے کے حوادث سے شاید اس (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موت آجائے اور ہمیں چین نصیب ہوجائے، جو اس کی دعوت توحید نے ہم سے چھین لیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ام یقولون شاعر نتربص بہ ریب المنون :” نربص یتربص “ (تفغل) ” آنے والے کسی شر یا خیر کا انتظار کرنا۔ “” المنون “” من یمن منا “ (ن) کا معنی ” قطع کرنا “ ہے۔ ” المنون “ بروزن ” فعول “ (کاٹنے والا) موت کو کہتے ہیں، کیونکہ وہ زندگی کی رسی کو کاٹ دیتی ہے اور زمانے کو بھی، کیونکہ وہ بھی زندگی کے ایام کو کاٹتا چلا جاتا ہے۔ ” ریب “ کا اصل معنی شک اور بےچینی ہے، لیکن جب اس کا استعمال زمانے کے ساتھ ہو تو مراد زمانے کے حوادث ہوتے ہیں، کیونکہ وہ آدمی کو بےچین رکھتے ہیں۔- یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انکار اور تعجب کے انداز میں ان مشرکین کی جہالت کی باتوں کا پندرہ (١٥) دفعہ لفظ ” ام “ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور ہر ” ام “ کے بعد سوال کرتے ہوئے ان پر الزام قائم کیا ہے، جس کا جواب ان میں سے کسی کے پاس نہیں۔ چناچہ اس آیت میں فرمایا :(ام یقولون شاعر)” یا وہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے۔ “ کفار یہ قول نقل فرما کر تردید کی ضرورت نہیں سمجھی، کیونکہ قرآن مجید کا وجود ہی اس کی تردید کے لئے کافی ہے۔ البتہ ان کی اس بات کا جواب دیا ہے ہے کہ ہم اس پر زمانے کے حوادث کا انتظار کرتے ہیں کہ اس پر کوئی آفت آجائے، یا اس کی موت کا وقت آجائے، جس کے ساتھ اس کی دعوت کا سلسلہ ختم ہوجائے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ يَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ۝ ٣٠- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- شعر ( شاعر)- الشَّعْرُ معروف، وجمعه أَشْعَارٌ قال اللہ تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل 80] ، وشَعَرْتُ : أصبت الشَّعْرَ ، ومنه استعیر : شَعَرْتُ كذا، أي علمت علما في الدّقّة كإصابة الشَّعر، وسمّي الشَّاعِرُ شاعرا لفطنته ودقّة معرفته، فَالشِّعْرُ في الأصل اسم للعلم الدّقيق في قولهم : ليت شعري، وصار في التّعارف اسما للموزون المقفّى من الکلام، والشَّاعِرُ للمختصّ بصناعته، وقوله تعالیٰ حكاية عن الکفّار : بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] ، وقوله : لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] ، شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور 30] ، وكثير من المفسّرين حملوه علی أنهم رموه بکونه آتیا بشعر منظوم مقفّى، حتی تأوّلوا ما جاء في القرآن من کلّ لفظ يشبه الموزون من نحو : وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] ، وقوله : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد 1] . وقال بعض المحصّلين : لم يقصدوا هذا المقصد فيما رموه به، وذلک أنه ظاهر من الکلام أنّه ليس علی أسالیب الشّعر، ولا يخفی ذلک علی الأغتام من العجم فضلا عن بلغاء العرب، وإنما رموه بالکذب، فإنّ الشعر يعبّر به عن الکذب، والشَّاعِرُ : الکاذب حتی سمّى قوم الأدلة الکاذبة الشّعريّة، ولهذا قال تعالیٰ في وصف عامّة الشّعراء : وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] ، إلى آخر السّورة، ولکون الشِّعْرِ مقرّ الکذب قيل : أحسن الشّعر أكذبه . وقال بعض الحکماء : لم ير متديّن صادق اللهجة مفلقا في شعره . - ( ش ع ر )- الشعر بال اس کی جمع اشعار آتی ہے قرآن میں ہے ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل 80] اون اور ریشم اور بالوں سے شعرت کے معنی بالوں پر مارنے کے ہیں ۔ اور اسی سے شعرت کذا مستعار ہے جس کے معنی بال کی طرح باریک علم حاصل کرلینے کے ہیں اور شاعر کو بھی اس کی فطانت اور لطافت نظر کی وجہ سے ہی شاعر کہا جاتا ہے تو لیت شعری کذا کے محاورہ میں شعر اصل میں علم لطیف کا نام ہے پھر عرف میں موزوں اور مقفیٰ کلام کو شعر کہا جانے لگا ہے اور شعر کہنے والے کو شاعر کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء 5] بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے ۔ نہیں بلکہ ( یہ شعر ہے جو اس ) شاعر کا نتیجہ طبع ہے ۔ نیز آیت کریمہ : ۔ لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے ۔ اور آیت شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور 30] شاعر ہے اور ہم اس کے حق میں ۔۔۔ انتظار کر رہے ہیں ۔ بہت سے مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ انہوں نے آنحضرت پر شعر بمعنی منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے کی تہمت لگائی تھی ۔ حتی کہ وہ قران میں ہر اس آیت کی تاویل کرنے لگے جس میں وزن پایا جاتا ہے جیسے وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] لیکن بعض حقیقت شناس لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے ان کا مقصد منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے تہمت لگانا نہیں تھا ۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ قرآن اسلوب شعری سے مبرا ہے اور اس حقیقت کو عوام عجمی بھی سمجھ سکتے ہیں پھر فصحاء عرب کا کیا ذکر ہے ۔ بلکہ وہ آپ پر ( نعوذ باللہ ) جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے کیونکہ عربی زبان میں شعر بمعنی کذب اور شاعر بمعنی کاذب استعمال ہوتا ہے ۔ حتی کہ جھوٹے دلائل کو ادلۃ شعریۃ کہا جاتا ہے اسی لئے قرآن نے شعراء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اور شعر چونکہ جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے ۔ اس لیے مقولہ مشہور ہے کہ احسن الشعر اکذبہ سب سے بہتر شعروہ ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ پر مشتمل ہوا اور کسی حکیم نے کہا ہے کہ میں نے کوئی متدین اور راست گو انسان ایسا نہیں دیکھا جو شعر گوئی میں ماہر ہو ۔ المشاعر حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے - ربص - التّربّص : الانتظار بالشیء، سلعة کانت يقصد بها غلاء، أو رخصا، أو أمرا ينتظر زواله أو حصوله، يقال : تربّصت لکذا، ولي رُبْصَةٌ بکذا، وتَرَبُّصٌ ، قال تعالی: وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ- [ البقرة 228] ، قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ [ الطور 31] ، قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ [ التوبة 52] ، وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَ [ التوبة 98] .- ( ر ب ص ) التربص - کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ خواہ وہ انتظار سامان تجارت کی گرانی یا ارزانی کا ہو یا کسی امر وا قع ہونے یا زائل ہونیکا انتظار ہو ۔ کسی چیز کا انتظار کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة 228] عورتوں کو چاہئے کہ انتظار کریں ۔ قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ [ الطور 31] ان سے کہو کہ ( بہت اچھا ) تم ( بھی ) انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ [ التوبة 52] اے پیغمبر ان لوگوں سے کہو کہ تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ( خواہ نخواہ ) ایک نہ ایک کا انتظار کرتے ہو اور ہم تمہارے حق میں انتظار کرتے ہیں ۔- ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - مَنُون - وقیل معناه : لا تعط مبتغیا به أكثر منه، وقوله : لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ [ الانشقاق 25] قيل : غير معدود کما قال : بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر 10] وقیل : غير مقطوع ولا منقوص . ومنه قيل :- المَنُون للمَنِيَّة، لأنها تنقص العدد وتقطع المدد .- وقیل : إنّ المنّة التي بالقول هي من هذا، لأنها تقطع النّعمة وتقتضي قطع الشّكر،- بعض نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے زیادہ کی طلب کے لئے احسان نہ کر اور آیت کریمہ : ۔ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ [ الانشقاق 25] ان کے لئے بےانتہا اجر ہے ۔ میں بعض نے غیر ممنون کے معنی غیر محدود یعنی ان گنت کئے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ بغیر حساب فرمایا ہے : ۔ بعض نے اس معنی غیر مقطوع ولا منقوص کئے ہیں یعنی ان کا اجر نہ منقطع ہوگا اور نہ سہی کم کیا جائے گا ۔ اسی سے المنون بمعنی موت ہے کیونکہ وہ تعداد کو گھٹاتی اور عمر کو قطع کردیتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

شان نزول : اَمْ يَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ (الخ)- ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ قریش جب رسول اکرم کی ذات اقدس کے بارے میں دار الندوہ میں مشورہ کے لیے جمع ہوئے تو ان میں سے کسی نے کہا کہ ان کو نعوذب اللہ مضبوط زنجیروں میں باندھ دو پھر ان کی موت کا انتظار کرو تاکہ یہ بھی اسی طرح ہلاک ہوجائیں جیسا کہ پہلے شعراء میں سے زہیر اور نابغہ ہلاک ہوگئے کیونکہ یہ بھی ان ہی کی طرح ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ ۔ ” کیا ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک شاعر ہے ‘ جس کے لیے ہم منتظر ہیں گردش زمانہ کے ؟ “- مشرکین مکہ آپس میں ایک دوسرے کو یہ کہہ کر تسلی دیتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محض ایک شاعر ہیں۔ ان کے شاعرانہ کلام سے متاثر ہونے میں جلدی مت کرو ‘ کچھ دیر انتظار کرو گے ( ) ‘ تو ان کے دعو وں کی اصل حقیقت خود بخود کھل کر سامنے آجائے گی۔ ہمیں قوی امید ہے کہ بہت جلد یہ خود ہی گردش زمانہ کی لپیٹ میں آجائیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :23 یعنی ہم منتظر ہیں کہ اس شخص پر کوئی آفت آئے اور کسی طرح اس سے ہمارا پیچھا چھوٹے ۔ غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ہمارے معبودوں کی مخالفت اور ان کی کرامات کا انکار کرتے ہیں ، اس لیے یا تو معاذ اللہ ، ان پر ہمارے کسی معبود کی مار پڑے گی ، یا کوئی دل چلا ان کی یہ باتیں سن کر آپے سے باہر ہو جائے گا اور انہیں قتل کر دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: عربی لغت کے اعتبار سے اس جملے کا یہ ترجمہ بھی ہوسکتا ہے کہ : یہ صاحب شاعر ہیں جن کے بارے میں ہم موت کے حادثے کا انتظار کر ہے ہیں۔ علامہ سیوطی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ قریش کے کچھ لیڈروں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ کہا تھا کہ یہ تو ایک شاعر ہیں۔ اور جس طرح دوسرے شاعر ہلاک ہوگئے، اور ان کی شاعری بھی انہی کے ساتھ دفن ہوگئی، اسی طرح یہ بھی انتقال کر جائیں گے تو پھر ان کی باتیں انہی کے ساتھ ختم ہوجائیں گی۔ اس کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔