31۔ 1 یعنی دیکھو موت پہلے کسے آتی ہے ؟ اور ہلاکت کس کا مقدر ہے۔
[٢٤] وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح شاعر لوگ وقتی طور پر اپنے سامعین کو متاثر کرلیتے ہیں لیکن ان کا کوئی قابل ذکر کارنامہ باقی نہیں رہتا۔ ان کے مرنے کے ساتھ ہی ان کی شخصیت بھی دنیا سے ختم ہوجاتی ہے۔ اسی صورت حال کی توقع وہ آپ سے بھی رکھتے ہیں اور آپ کی موت کے منتظر بیٹھے ہیں کہ کب آپ کو موت آلیتی ہے اور ان کی اس مصیبت سے جان چھوٹتی ہے۔ آپ ان سے کہیے کہ تم میرے متعلق گردش ایام کا انتظار کرو اور میں اس انتظار میں ہوں کہ تمہیں تمہاری ان کرتوتوں کی سزا کب اور کس طرح ملتی ہے ؟
(قل تربصوا فانی معکم من المتربصین : اس کا یہ مطلب نہیں کہ انتظار کر کے دیکھ لو، تم ہی مرو گے میں نہیں مروں گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ تم میرا انجام دیکھو میں تمہارا انجام دیکھتا ہوں۔ تمہارا انجام ناکامی اور ہلاکت ہے، میرا انجام کامیابی اور نجات ہے۔
قُلْ تَرَبَّصُوْا فَاِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُتَرَبِّصِيْنَ ٣١ ۭ- ربص - التّربّص : الانتظار بالشیء، سلعة کانت يقصد بها غلاء، أو رخصا، أو أمرا ينتظر زواله أو حصوله، يقال : تربّصت لکذا، ولي رُبْصَةٌ بکذا، وتَرَبُّصٌ ، قال تعالی: وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ- [ البقرة 228] ، قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ [ الطور 31] ، قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ [ التوبة 52] ، وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَ [ التوبة 98] .- ( ر ب ص ) التربص - کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ خواہ وہ انتظار سامان تجارت کی گرانی یا ارزانی کا ہو یا کسی امر وا قع ہونے یا زائل ہونیکا انتظار ہو ۔ کسی چیز کا انتظار کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة 228] عورتوں کو چاہئے کہ انتظار کریں ۔ قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ [ الطور 31] ان سے کہو کہ ( بہت اچھا ) تم ( بھی ) انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ [ التوبة 52] اے پیغمبر ان لوگوں سے کہو کہ تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ( خواہ نخواہ ) ایک نہ ایک کا انتظار کرتے ہو اور ہم تمہارے حق میں انتظار کرتے ہیں ۔
(٣١۔ ٣٢) آپ ابوجہل اور ولید بن مغیرہ وغیرہ سے فرما دیجیے کہ تم میری موت کا انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ تمہارے عذاب کا منتظر ہوں، چناچہ بدر کے دن یہ سب مارے گئے کیا ان کی عقلیں ان کو اس تکذیب اور سب و شتم اور نبی اکرم کو تکلیف پہنچانے کی تعلیم کرتی ہیں کیونکہ یہ تو اپنی عقل مندی کے بڑے مدعی ہیں یا یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی معصیت و نافرمانی میں بڑے ماہر لوگ ہیں۔
آیت ٣١ قُلْ تَرَبَّصُوْا فَاِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُتَرَبِّصِیْنَ ۔ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ اچھا تم انتظار کرو ‘ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔ “
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :24 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ میں بھی دیکھتا ہوں کہ تمہاری یہ آرزو پوری ہوتی ہے یا نہیں ۔ دوسرے یہ کہ میں بھی منتظر ہوں کہ شامت میری آتی ہے یا تمہاری ۔