32۔ 1 یعنی یہ تیرے بارے میں جو اناپ شناپ جھوٹ اور غلط سلط باتیں کرتے رہتے ہیں، کیا ان کی عقلیں ان کو یہی سجھاتی ہیں۔ 32۔ 2 نہیں بلکہ یہ سرکش اور گمراہ لوگ ہیں، اور یہی سرکشی اور گمراہی انہیں ان باتوں پر بڑھکاتی ہے۔
[٢٥] قریش مکہ کا حقیقت حال سے پوری طرح واقف ہونا :۔ آپ کی زندگی بھر کی پاکیزہ سیرت اور کردار ان کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ لہذا وہ جو کچھ الزامات آپ پر لگا رہے ہیں خود ان کی عقلیں ان چیزوں کو تسلیم کرنے سے ابا کرتی ہیں۔ چناچہ سرداران قریش اپنی نجی محفلوں میں متعدد بار اس بات کا اعتراف کرچکے تھے کہ آپ نہ شاعر ہیں نہ کاہن ہیں، نہ جادوگر ہیں اور نہ دیوانہ ہیں۔ وہ دل سے یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ آپ واقعی اللہ کے رسول اور قرآن واقعی اللہ کا کلام ہے لیکن اگر وہ اس بات کا اعتراف کرلیتے تو خود مرتے تھے۔ ان کی سرداریاں ختم ہوتی تھیں اور انہیں رسول کا تابع فرمان بن کر رہنا پڑتا تھا اور یہ باتیں انہیں کسی قیمت پر گوارا نہ تھیں۔ لہذا خوئے بدرا بہانہ بسیار، کے مصداق آپ پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کرتے اور ایسے غیر معقول القابات سے پکارتے تھے۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ انہوں نے کبھی کسی شاعر، کسی کاہن، کسی جادوگر یا کسی مجنوں کی اس طرح مخالفت نہیں کی۔ جس طرح آپ کی کر رہے ہیں ؟ نہ کسی شاعر، کسی کاہن، کسی جادوگر یا مجنوں کا کلام سننے پر ایسی پابندی لگائی ہے جس طرح کی پابندی یہ قرآن سنانے، سننے اور بلند آواز سے پڑھنے پر لگا رہے ہیں ؟ انہیں کسی شاعر، کسی کاہن، کسی جادوگر یا کسی مجنوں سے ایسا خطرہ کیوں لاحق نہیں ہوتا جیسا آپ سے انہیں لاحق ہے ؟ یہ سب باتیں اس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ وہ دل سے یہ جان چکے ہیں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول اور قرآن اللہ کا کلام ہے۔ ان کی عقلیں صحیح حکم لگاتی ہیں لیکن ان کی سرکش طبیعتیں انہیں راہ حق کی طرف آنے میں مزاحم ہورہی ہیں۔
(ام تامرھم احلامھم بھذآ…:” احلام “” حلم “ کی جمع ہے، جو دراصل غصہ بھڑکنے کے وقت ضبط نفس کو کہتے ہیں۔ عقل کو ” حلم “ اس لئے کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں وہی طبیعت پر ضبط کا باعث ہوتی ہے۔ مشرکین اپنے آپ کو بڑا عقل مند باور کرواتے تھے، اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ان کی تین باتیں ذکر فرمائیں، کاہن، مجنون اور شاعر پھر ان کی عقولں پر چوٹ فرمائی کہ کیا کوئی عاقل ایسی بات کہہ سکتا ہے ؟ اول تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری زندگی اور آپ کا لایا ہوا قرآن سب کے سامنے ہے، کوئی شخص جس کی عقل قائم ہو وہ آپ کے متعلق یا قرآن کے متعلق ان میں سے کوئی بات بھی نہیں کہہ سکتا، کیو کہ قرآن کریم کا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہانت، جنون یا شعر کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جو باتیں کہہ رہے ہیں وہ آپ س میں اتنی متضاد ہیں کہ ایک شخص میں جمع ہو ہی نہیں سکتیں۔ یہ بھی ؟ پھر یہ کون سی عقل مندی ہے کہ کسی شاعر یا کاہن یا دیوانے سے اتنے شدید خوف زدہ ہوجاؤ کہ کسی کو اس کی بات نہ سننے دو ؟ بھلا آج تک کسی شاعر، کاہن یا دیوانے کی اتنی شدید مخالفت کی گئی ہے جتنی یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کر رہے ہیں۔ فرمایا گیا ان کی عقلیں انہیں اس کا حکم دیتی ہیں ؟ جواب ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ وہ خود بخود ظاہر ہے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ان کی عقلوں کا فیصلہ نہیں بلکہ بات کچھ اور ہے اور وہ یہ ہے کہ دراصل یہ سرکش لوگ ہیں اور ان کی سرکشی انہیں حق قبول نہیں کرنے دیتی۔
اَمْ تَاْمُرُہُمْ اَحْلَامُہُمْ بِھٰذَآ اَمْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ ٣٢ ۚ- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - حلم - الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم «5» ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل «6» ، وقد حَلُمَ «7» وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء «8» ، قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ- [هود 75] ، وقوله تعالی: فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات 101] ، أي : وجدت فيه قوّة الحلم، وقوله عزّ وجل : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ- [ النور 59] ، أي : زمان البلوغ، وسمي الحلم لکون صاحبه جدیرا بالحلم، ويقال : حَلَمَ «1» في نومه يَحْلُمُ حُلْماً وحُلَماً ، وقیل : حُلُماً نحو : ربع، وتَحَلَّمَ واحتلم، وحَلَمْتُ به في نومي، أي : رأيته في المنام، قال اللہ تعالی: قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف 54] ، والحَلَمَة : القراد الکبير، قيل : سمیت بذلک لتصوّرها بصورة ذي حلم، لکثرة هدوئها، فأمّا حَلَمَة الثدي فتشبيها بالحلمة من القراد في الهيئة، بدلالة تسمیتها بالقراد في قول الشاعر :- 125-- كأنّ قرادي زوره طبعتهما ... بطین من الجولان کتّاب أعجمي - «2» وحَلِمَ الجلد : وقعت فيه الحلمة، وحَلَّمْتُ البعیر : نزعت عنه الحلمة، ثم يقال : حَلَّمْتُ فلانا : إذا داریته ليسكن وتتمکّن منه تمكّنک من البعیر إذا سكّنته بنزع القراد عنه «3» .- ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات 101] تو ہم نے ان کو ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اس غلام ہیں قوت برداشت ۔۔۔۔۔۔ تھی اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ [ النور 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں میں حلم کے معنی سن بلوغت کے ہیں اور سن بلوغت کو حلم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس عمر میں طور عقل وتمیز آجاتی ہے کہا جاتا ہے ۔ حلم ( ن ) فی نومہ خواب دیکھنا مصدر حلم اور حلم مثل ربع بھی کہا گیا ہے ۔ اور ۔ یہی معنی تحلم واحتلم کے ہیں ۔ حلمت بہ فی نومی ۔ میں نے اسے خواب میں دیکھا ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف 54] انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔ الحلمۃ بڑی چیچڑی ۔ کیونکہ وہ ایک جگہ پر جمے رہنے کی وجہ سے حلیم نظر آتی ہے اور سر پستان کو حلمۃ الثدی کہنا محض ہیت میں چیچڑی کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اس مجاز کی دلیل یہ ہے کہ سر پستان کو قراد بھی کہہ دیتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) اس کے سینے پر پستانوں کے نشانات اسطرح خوشمنا نظر اتے ہیں کہ گویا کسی کاتب لے مٹی کی مہریں لگادیں ہیں چمڑے کو کیڑا الگ جانا ۔ حلمت البعیر میں نے اونٹ سے خیچڑ نکالے حلمت فلانا کسی پر قدرت حاصل کے لئے اس کے ساتھ مدارات سے پیش آنا تاکہ وہ مطمئن رہے جیسا کہ اونٹ سے چیچڑ دور کرنے سے اسے سکون اور راحت محسوس ہوتا ہے اور انسان اس پر پوری طرح قدرت پالیتا ہے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔
آیت ٣٢ اَمْ تَاْمُرُہُمْ اَحْلَامُہُمْ بِہٰذَآ اَمْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ ۔ ” کیا ان کی عقلیں انہیں یہی کچھ سکھا رہی ہیں یا یہ ہیں ہی سرکش لوگ ؟ “- مشرکین کے ایمان نہ لانے کی یہ دو ہی ممکنہ وجوہات تھیں۔ یا تو واقعتا انہیں بات سمجھ نہیں آرہی تھی اور ان کی عقلیں انہیں یہی سکھاتی تھیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ محض شاعری اور ان کا من گھڑت کلام ہے۔ دوسرا امکان یہ تھا کہ بات ان کی سمجھ میں بھی آتی تھی اور ان کے دل گواہی بھی دیتے تھے کہ یہ سب کچھ درست ہے مگر وہ اپنی سرکشی ‘ ضد اور عناد کی وجہ سے انکار پر جمے رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں یہ ساری باتیں وہ عقل سے نہیں بلکہ سراسر ضد ‘ عناد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر کر رہے تھے۔ دراصل نفس انسانی کی سرکشی بھی دریا کی طغیانی کی طرح ہے جس کے سامنے منطق ‘ تدبیر ‘ کوشش وغیرہ کسی کی نہیں چلتی۔ بقول الطاف حسین حالی : ؎- دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام - کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :25 ان دو فقروں میں مخالفین کے سارے پروپیگنڈے کی ہوا نکال کر انہیں بالکل بے نقاب کر دیا گیا ہے ۔ استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قریش کے سردار اور مشائخ بڑے عقلمند بنے پھرتے ہیں ، مگر کیا ان کی عقل یہی کہتی ہے کہ جو شخص شاعر نہیں ہے اسے شاعر کہو ، جسے ساری قوم ایک دانا آدمی کی حیثیت سے جانتی ہے اسے مجنون کہو ، اور جس شخص کا کہانت سے کوئی دور دراز کا تعلق بھی نہیں ہے اسے خواہ مخواہ کاہن قرار دو ۔ پھر اگر عقل کی بنا پر یہ لوگ حکم لگاتے تو کوئی ایک حکم لگاتے ۔ بہت سے متضاد حکم تو ایک ساتھ نہیں لگا سکتے تھے ۔ ایک شخص آخر بیک وقت شاعر ہے تو کاہن نہیں ہو سکتا ، کیونکہ شعر کی زبان اور اس کے موضوعات بحث الگ ہوتے ہیں اور کہانت کی زبان اور اس کے مضامین الگ ۔ ایک ہی کلام کو بیک وقت شعر بھی کہنا اور کہانت بھی قرار دینا کسی ایسے آدمی کا کام نہیں ہو سکتا جو شعر اور کہانت کا فرق جانتا ہو ۔ پس یہ بالکل کھلی ہوئی بات ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں یہ متضاد باتیں عقل سے نہیں بلکہ سراسر ضد اور ہٹ دھرمی سے کی جا رہی ہیں ، اور قوم کے یہ بڑے بڑے سردار عناد کے جوش میں اندھے ہو کر محض بے سر و پا الزامات لگا رہے ہیں نہیں کوئی سنجیدہ انسان قابل اعتنا نہیں سمجھ سکتا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 104 ، یونس ، حاشیہ 3 ۔ بنی اسرائیل ، حواشی 53 ۔ 54 ۔ جلد سوم ، الشعراء ، حواشی 130 ، 131 ، 140 ، 142 ، 143 ۔ 144 ۔ )
7: یعنی یہ لوگ تو بڑے عقل کے دعوے دار ہیں، کیا ان عقلوں کا یہی حال ہے کہ انہیں بالکل سامنے کی باتیں بھی سمجھ میں نہیں آتیں، اور وہ اس قسم کی بے ہودہ باتیں کرتے رہتے ہیں؟ یا پھر حق بات ان کی عقل میں تو آجاتی ہے لیکن اپنی سرکشی کی وجہ سے اسے مانتے نہیں ہیں؟