Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

توحید ربوبیت اور الوہیت توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کا ثبوت دیا جا رہا ہے فرماتا ہے کیا یہ بغیر موجد کے موجود ہوگئے ؟ یا یہ خود اپنے موجد آپ ہی ہیں ؟ دراصل دونوں باتیں نہیں بلکہ ان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے یہ کچھ نہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کر دیا ۔ حضرت جبیر بن مطعم فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورہ والطور کی تلاوت کر رہے تھے میں کان لگائے سن رہا تھا جب آپ آیت ( اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ 37؀ۭ ) 52- الطور:37 ) تک پہنچے تو میری حالت ہوگئی کہ گویا میرا دل اڑا جا رہا ہے ( بخاری ) بدری قیدیوں میں ہی یہ جبیر آئے تھے یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب یہ کافر تھے قرآن پاک کی ان آیتوں کا سننا ان کے لئے اسلام کا ذریعہ بن گیا پھر فرمایا ہے کہ کیا آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے یہ ہیں ؟ یہ بھی نہیں بلکہ یہ جانتے ہوئے کہ خود ان کا اور کل مخلوقات کا بنانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر بھی یہ اپنے بےیقینی سے باز نہیں آتے پھر فرماتا ہے کیا دنیا میں تصرف ان کا ہے ؟ کیا ہر چیز کے خزانوں کے مالک یہ ہیں ؟ یا مخلوق کے محاسب یہ ہیں حقیقت میں ایسا نہیں بلکہ مالک و متصرف صرف اللہ عزوجل ہی ہے وہ قادر ہے جو چاہے کر گذرے پھر فرماتا ہے کیا اونچے آسمانوں تک چڑھ جانے کا کوئی زینہ ان کے پاس ہے ؟ اگر یوں ہے تو ان میں سے جو وہاں پہنچ کر کلام سن آتا ہے وہ اپنے اقوال وافعال کی کوئی آسمانی دلیل پیش کرے لیکن نہ وہ پیش کر سکتا ہے نہ وہ کسی حقانیت کے پابند ہیں یہ بھی ان کی بڑی بھاری غلطی ہے کہ کہتے ہیں فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں کیا مزے کی بات ہے کہ اپنے لئے تو لڑکیاں ناپسند ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کریں انہیں اگر معلوم ہو جائے کہ ان کے ہاں لڑکی ہوئی تو غم کے مارے چہرہ سیاہ پڑ جائے اور اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں کو اس کی لڑکیاں بتائیں اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی پرستش کریں ، پس نہایت ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرماتا ہے کیا اللہ کی لڑکیاں ہیں اور تمہارے لڑکے ہیں ؟ پھر فرمایا کیا تو اپنی تبلیغ پر ان سے کچھ معاوضہ طلب کرتا ہے جو ان پر بھاری پڑے ؟ یعنی نبی اللہ دین اللہ کے پہنچانے پر کسی سے کوئی اجرت نہیں مانگتے پھر انہیں یہ پہنچانا کیوں بھاری پڑتا ہے ؟ کیا یہ لوگ غیب دان ہیں ؟ نہیں بلکہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق میں سے کوئی بھی غیب کی باتیں نہیں جانتا کیا یہ لوگ دین اللہ اور رسول اللہ کی نسبت بکواس کر کے خود رسول کو مومنوں اور عام لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں یاد رکھو یہی دھوکے باز دھوکے میں رہ جائیں گے اور اخروی عذاب سمیٹیں گے پھر فرمایا کیا اللہ کے سوا ان کے اور معبود ہیں ؟ اللہ کی عبادت میں بتوں کو اور دوسری چیزوں کو یہ کیوں شریک کرتے ہیں ؟ اللہ تو شرکت سے مبرا شرک سے پاک اور مشرکوں کے اس فعل سے سخت بیزار ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 یعنی اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ انہیں کسی بات کا حکم دے یا کسی بات سے منع کرے۔ لیکن جب ایسا نہیں ہے بلکہ انہیں ایک پیدا کرنے والے نے پیدا کیا ہے تو ظاہر ہے اس کا انہیں پیدا کرنے کا ایک خاص مقصد ہے، وہ انہیں پیدا کر کے یوں کس طرح چھوڑ دے گا۔ 35۔ 2 یعنی یہ خود بھی اپنے خالق نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ کے خالق ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٨] دہریت ونیچریت کا رد : یعنی اتفاقات کے نتیجہ میں پیدا ہوگئے ہیں جیسا کہ دہری اور نیچری حضرات کا خیال ہے اور ان کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں ؟ یہ خیال اس لیے باطل ہے کہ یہ ایک ایسے بدیہی امر کے خلاف ہے جس کی دلیل یا ثبوت کی ضرورت کوئی بھی نہیں سمجھتا اور وہ بدیہی امر یہ ہے کہ ہر بنی ہوئی چیز کا کوئی بنانے والا ضرور ہوتا ہے از خود نہیں بن جاتی۔- [٢٩] یعنی وہ خود ہی اپنے خالق ہیں۔ سابقہ آیت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ ان کی پیدائش میں ان کا اپنا کچھ عمل دخل نہیں تھا۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اپنے ہی عمل دخل اور ارادہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور یہ خیال بھی ایک بدیہی امر کے خلاف ہے جو یہ ہے کہ کوئی چیز بیک وقت خالق اور مخلوق نہیں ہوسکتی یعنی خود ہی بننے والی ہوا اور خود ہی بنانے والی ہو، پھر جب یہ دونوں باتیں نہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان کو بنانے والا یا پیدا کرنے والا کوئی اور ہے۔ اور بنانے والے کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ جیسے وہ چاہے بنائے اور جس مقصد کے لیے چاہے بنائے۔ بنی ہوئی چیز اپنے بنانے والے کے ہاتھوں بےبس ہوتی ہے وہ اس کے سامنے اکڑ نہیں سکتی، پھر لوگ کیسے اپنے خالق کے حکم سے سرتابی کے مجاز ہوگئے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ام خلفوا من غیر شیء …: اس سے پہلے تین سوال یہ ثابت کرنے کے لئے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول اور قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے، اب یہاں سے اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت اور قدرت کاملہ کو ثابتک رنے کی بات کا آغاز فرمایا۔ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے جو دعوت پیش کی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا خلاق ہے، اس لئے تمہیں اسی کی عبادت کرنی چاہیے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ آخر اس پر ان کے بگڑنے کی کیا کوئی معقول وجہ ہے ؟ اگر یہ رب تعالیٰ کو خلاق نہیں مانتے تو بتائیں کہ کیا وہ کسی بنانے والے کے بغیر ہی بن گئے ہیں ؟ ظاہر ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ہر بنی ہوئی چیز کا کوئی بنانے والا ضرور ہوتا ہے۔ یا پھر انہوں نے اپنے آپ کو خود بن الیا ہے ؟ یہ پہلی بات سے بھی زیادہ ناممکن بات ہے، کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی چیز خلاق بھی ہو اور مخلوق بھی۔ یا پھر یہ بتائیں کہ یہ آسمان و زمین انہوں نے بنائے ہیں ؟ ظاہر ہے ایسا بھی نہیں، کیونکہ یہ کائنات اس وقت کی بنی ہوئی ہے جب ان لوگوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔- ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے تین سوال کئے ہیں جن کا جواب ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ وہ بالکل ظاہر ہے کہ نہ یہ لوگ کسی بنانے والے کے بغیر بنے ہیں، نہ یہ اپنے آپ کو خود بنانے والے ہیں اور نہ کائنات ان کی بنائی ہوئی ہے، بلکہ انہیں اور ساری کائنات کو بنانے والا کوئی اور ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اس حقیقت کو وہ بھی مانتے تھے، جیسا کہ فرمایا :(ولئن سالتھم من خلقھم لیقولن اللہ فانی یوفکون) (الزخرف : ٨٨)” اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ انہیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ، پھر کہاں بہکائے جاتے ہیں۔ “ اور فرمایا :(ولئن سالتھم من خلق السموت والارض لیقولن اللہ) (لقمان : ٢٥)” اور بلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔ “- (٢) بل لایوقنون : یعنی بات یہ نہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنا خلاق نہیں مانتے اور اس کا اقرار نہیں کرتے، بلکہ اصل یہ ہے کہ اقرار کے باوجود انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے، کیونکہ اگر انہی واقعی یقین ہوتا کہ ہمارا خالق اللہ تعالیٰ ہے تو اسی کی عبادت کرتے ، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بناتے اور نہ اس کی طرف دعوت دینے والے کی اس طرح مخالفت کرتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ ہُمُ الْخٰلِقُوْنَ۝ ٣٥ ۭ- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٥۔ ٣٦) کیا یہ لوگ بغیر کسی خالق یا باپ کے خود بخود پیدا ہوگئے یا یہ خود ہی اپنے خالق ہیں یا یہ کہ انہوں نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ایسا بھی نہیں بلکہ اللہ ہی نے پیدا کیا ہے مگر یہ لوگ پھر بھی رسول اکرم اور قرآن حکیم کی تصدیق نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْئٍ اَمْ ہُمُ الْخٰلِقُوْنَ ۔ ” کیا یہ بغیر کسی کے بنائے ہوئے خود بن گئے ہیں یا یہ خود ہی خالق ہیں ؟ “- یہ فلسفے کا بہت گہرا مسئلہ ہے ۔ ظاہر ہے کوئی شے بغیر کسی کے بنائے ہوئے خود بخود تو بنتی نہیں ہے۔ چناچہ کسی بھی چیز کی تخلیق کے حوالے سے دو ہی صورتیں ممکن ہیں ‘ یعنی یا تو اس چیز کو کسی نے تخلیق کیا ہے یا اس چیز نے اپنے آپ کو خود تخلیق کیا ہے۔ چناچہ یہ منطقی سوال ان کے سامنے رکھا گیا کہ اگر تم اس حقیقت سے آگاہ ہو کہ تم نے خود اپنے آپ کو تخلیق نہیں کیا تو پھر خود بخود ثابت ہوجاتا ہے کہ کسی دوسری ہستی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ ہستی اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani