Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 بلکہ اللہ کے وعدوں اور وعیدوں کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٠] یعنی اگر اس کائنات کے خالق یہ ہیں تو پھر اس میں ان کا تصرف بھی چلنا چاہئے۔ اور آزادانہ زندگی بسر کرنے کے بھی مجاز ہوسکتے تھے۔ لیکن جب خود انہیں اس بات کا اعتراف ہے کہ کائنات کا خالق اللہ ہے تو پھر یہ اس کے آگے کیوں اکڑنے لگے ہیں ؟ اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ لوگ زبانی تو اعتراف کرلیتے ہیں کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے۔ لیکن اس اعتراف کے تقاضوں کو اس لیے پورا نہیں کرتے کہ اپنے اس اعتراف پر خود بھی پورا یقین نہیں رکھتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۝ ٠ ۚ بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ۝ ٣٦ ۭ- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - يقن - اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما .- ( ی ق ن ) الیقین - کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ - إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَ ۔ ” کیا آسمانوں اور زمین کو انہوں نے بنایا ہے ؟ بلکہ ( اصل بات یہ ہے کہ) یہ یقین نہیں رکھتے۔ “- چلو اپنی تخلیق کی بحث کو چھوڑو ‘ تم ذرا یہ بتائو کہ زمین و آسمان تم نے بنائے ہیں ؟ اگر تم تسلیم کرتے ہو کہ تم نے نہیں بنائے تو پھر مان کیوں نہیں لیتے کہ خود تمہارا خالق اور تمام مخلوق سمیت پوری کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو دو اور دو چار کی طرح مسلم ہیں ‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ یقین سے محروم ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :28 اس سے پہلے جو سوالات چھیڑے گئے تھے وہ کفار مکہ کو یہ احساس دلانے کے لیے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے رسالت کو جھٹلانے کے لیے جو باتیں وہ بنا رہے ہیں وہ کس قدر غیر معقول ہیں ۔ اب اس آیت میں ان کے سامنے یہ سوال رکھا گیا ہے کہ جو دعوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں آخر اس میں وہ بات کیا ہے جس پر تم لوگ اس قدر بگڑ رہے ہو ۔ وہ یہی تو کہہ رہے ہیں کہ اللہ تمہارا خالق ہے اور اسی کی تم کو بندگی کرنی چاہیے ۔ اس پر تمہارے بگڑنے کی آخر کیا معقول وجہ ہے ؟ کیا تم خود بن گئے ہو ، کسی بنانے والے نے تمہیں نہیں بنایا ؟ یا اپنے بنانے والے تم خود ہو؟ یا یہ وسیع کائنات تمہاری بنائی ہوئی ہے ؟ اگر ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے اور تم خود مانتے ہو کہ تمہارا خالق بھی اللہ ہی ہے اور اس کائنات کا خلاق بھی وہی ہے ، تو اس شخص پر تمہیں غصہ کیوں آتا ہے جو تم سے کہتا ہے کہ وہی اللہ تمہاری بندگی و پرستش کا مستحق ہے ؟ غصے کے لائق بات یہ ہے یا یہ کہ جو خالق نہیں ہیں ان کی بندگی کی جائے اور جو خالق ہے اس کی بندگی نہ کی جائے؟ تم زبان سے یہ اقرار تو ضرور کرتے ہو کہ اللہ ہی تمہارا اور کائنات کا خالق ہے ، لیکن اگر تمہیں واقعی اس بات کا یقین ہوتا تو اس کی بندگی کی طرف بلانے والے کے پیچھے اس طرح ہاتھ دھو کر نہ پڑ جاتے ۔ یہ ایسا زبردست چبھتا ہوا سوال تھا کہ اس نے مشرکین کے عقیدے کی چولیں ہلا دیں ۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ جبیر بن مطعم جنگ بدر کے بعد قریش کے قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کرنے کے لیے کفار مکہ کی طرف سے مدینہ آئے ۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز پڑھا رہے تھے اور اس میں سورہ طور زیر تلاوت تھی ۔ ان کا اپنا بیان یہ ہے کہ جب حضور اس مقام پر پہنچے تو میرا دل سینے سے اڑا جاتا تھا ۔ بعد میں ان کے مسلمان ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس روز یہ آیات سن کر اسلام ان کے دل میں جڑ پکڑ چکا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani