Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 کہ یہ جس کو چاہیں روزی دیں جس کو چاہیں نہ دیں یا جس کو چاہیں نبوت سے نوازیں۔ 37۔ 2 مصیطر یا مسیطر سَطْرً سے ہے، لکھنے والا، جو محافظ و نگران ہو، وہ چونکہ ساری تفیصلات لکھتا ہے، اس لئے یہ محافظ اور نگران کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کیا اللہ کے خزانوں یا اس کی رحمتوں پر ان کا تسلط ہے کہ جس کو چاہیں دیں یا نہ دیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣١] یہ کافروں کے ایک اعتراض کا جواب ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر اللہ نے کسی بشر کو رسول بنانا تھا تو کیا اسے یہی شخص اس کام کے لیے پسند آیا تھا۔ مکہ اور طائف کے سردار مرگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ کیا اللہ کی رحمت کے خزانوں کے مالک یہ ہیں ؟ یا اللہ نے اپنے خزانوں کی تقسیم کا اختیار ان کو دے رکھا ہے کہ جونسی نعمت جسے چاہیں دے دیں ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ام عندھم خزآئن ربک …: یہ کفار کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو کیوں رسول بنایا گیا، مکہ اور طائف کے سرداروں میں سے کسی کو رسالت کے لئے کیوں نہ چنا گیا ؟ فرمایا، یہ فیصلہ کرنا کہ کس کو رسول بنا کر بھیجا اجئے مالک کا کام ہے۔ اب یہ لوگ اگر اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے رسول کا انکار کرتے ہیں تو اس کا مطلق یہ ہے کہ یا تو تیرے رب کے خزانوں کے مالک یہ ہیں، جسے چاہیں دیں جسے چاہیں نہ دیں، یا یہ کہ مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر اس پر حکم انہی کا چلتا ہے۔ اب یہ خود ہی بتائیں کہ ان دونوں میں سے ان کا دعویٰ کیا ہے ؟ مزید دیکھیے سورة ص (٨ تا ١٠) اور سورة زخرف (٣١، ٣٢) ، خلاصہ یہ کفار کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے انکار کی کوئی عقلی دلیل نہیں۔- (٢) آیت کی تفسیر اس طرح بھی ہوسکتی ہے کہ یا یہ لوگ اس لئے اکیلے رب کی عبادت نہیں کرتے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول نہیں مانتے کہ تیرے رب کے خزانوں کے مالک ویہ ہیں، یا ان پر انھی کا حکم چلتا ہے، اس لئے وہ اپنی مرضی کے ملاک ہیں جو چاہیں کرتے پھریں ؟ ظاہر ہے ایسا بھی ہرگز نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ عِنْدَہُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ ہُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ۝ ٣٧ ۭ- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- خزن - الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21]- ( خ زن ) الخزن - کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ - صطر - صَطَرَ وسَطَرَ واحدٌ. قال تعالی: أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ [ الطور 37] ، وهو مفیعل من السَّطْرِ ، والتَّسْطِيرُ أي : الکتابة، أي : أهم الذین تولّوا کتابة ما قدّر لهم قبل أن خلق، إشارة إلى قوله : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] ، وقوله : فِي إِمامٍ مُبِينٍ [يس 12] ، وقوله : لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ [ الغاشية 22] ، أي : متولّ أن تکتب عليهم وتثبت ما يتولّونه، وسَيْطَرْتُ ، وبَيْطَرْتُ لا ثالث لهما في الأبنية، وقد تقدّم ذلک في السّين - ( ص ط ر ) صطر وسطر ( ن ) کے ایک ہی معنی ہیں یعنی لکھنا ( سیدھی لائنوں میں اور آیت : ۔ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ [ الطور 37] یا یہ ( کہیں کہ ) داروغہ ہیں ۔ میں المصیطرون سطر سے مفعیل کے وزن پر ہے ۔ اور التسطیر جس کے معنی لکھنے کے ہیں اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ کیا تخلیق سے قبل یہ اپنے نوشتہ تقدیر کے لکھنے پر مقرر تھے ( کہ انہیں ہر بات کا علم ہوچکا ہے یعنی نہیں ) اس میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] یہ سب کچھ کتاب میں لکھا ہوا ہے بیشک یہ سب خدا کو آسان ہے ۔ اور آیت فِي إِمامٍ مُبِينٍ [يس 12] اور ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن ( یعنی لوح محفوظ ) میں لکھ رکھا ہے ۔ کے معنی کی طرف اشارہ ہے اور آیت : لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ [ الغاشية 22] تم ان پر دراوغہ نہیں ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ان پر لکھنے کے لئے مقرر نہیں ہوا اور نہ ہی اس چیز کو ثابت کرنے کے ذمہ دار ہو جس کے یہ متولی بنتے ہیں اور عربی میں سیطرت و یبطرت کے علاوہ تیسرا لفظ اس وزن پر نہیں آتا تشریح کے لئے دیکھئے ( س ط ر)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧۔ ٣٨) کیا ان کے پاس تمہارے رب کی نعمتوں اور رحمتوں یعنی بارش رزق نبوت کے خزانوں کی کنجیاں ہیں یا یہ لوگ اس محکمہ نبوت کے حاکم ہیں کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر چڑھ کر آسمان کی باتیں سن لیا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ اَمْ عِنْدَہُمْ خَزَآئِنُ رَبِّکَ اَمْ ہُمُ الْمُصَیْطِرُوْنَ ۔ ” کیا ان کے قبضہ قدرت میں آپ کے رب کے خزانے ہیں یا یہ داروغہ ہیں ؟ “ - اس آیت کو پڑھتے ہوئے مشرکین مکہ کا وہ اعتراض بھی ذہن میں تازہ کرلیں جس کا ذکر سورة الزخرف کی آیت ٣١ میں ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اگر وحی بھیجنا تھی اور اپنا کلام دنیا میں نازل کرنا ہی تھا تو اس کے لیے اس کی نظر بنوہاشم کے ایک یتیم شخص ہی پر کیوں پڑی ‘ جو نہ تو سرمایہ دار ہے اور نہ ہی مکہ کے قبائلی نظام کے اعلیٰ عہدوں ( ) میں سے کوئی عہدہ اس کے پاس ہے عرب کے قبائلی معاشرے میں کسی شخصیت کے ” بڑے “ ہونے کا ایک معیار یہ بھی تھا کہ وہ کسی بڑے عہدے پر فائز ہو۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق (رض) اس زمانے میں مقدماتِ قتل کے فیصلے کرنے پر مامور تھے۔ یہ قبائلی نظام کا بہت بڑا اور انتہائی حساس نوعیت کا عہدہ تھا جس پر حضرت ابوبکر (رض) اس زمانے میں فائز تھے۔ اس کے علاوہ آپ (رض) بہت بڑے تاجر اور سرمایہ دار بھی تھے۔ اس زمانے میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے سرمائے کی مالیت چالیس ہزار درہم کے لگ بھگ تھی۔ اس حوالے سے یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد آپ (رض) نے یہ سارا سرمایہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لٹا دیا اور جب آپ (رض) ہجرت کے لیے مدینہ روانہ ہوئے تو پیچھے گھر والوں کے لیے کچھ بھی نہ تھا ۔- بہرحال مشرکین مکہ بار بار یہ اعتراض کرتے تھے کہ آخر اللہ تعالیٰ نے اس منصب کے لیے ان دو بڑے شہروں (مکہ اور طائف) میں سے کسی بڑی شخصیت کو کیوں منتخب نہیں کیا : وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ۔ (الزخرف) ” اور کہنے لگے کہ کیوں نہیں اتارا گیا یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی عظیم شخص پر ؟ “ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : اَھُمْ یَـقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَط (الزخرف : ٣٢) ” کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ لوگ تقسیم کریں گے ؟ “ آیت زیر مطالعہ میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اسی نوعیت کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے خزانے کیا ان لوگوں کے قبضہ قدرت میں ہیں ؟ اور کیا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے فیصلے کرنے میں ان لوگوں کی مرضی و منشا کا پابند ہے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :29 یہ کفار مکہ کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ آخر محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی کیوں رسول بنائے گئے ۔ اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو عبادت غیر اللہ کی گمراہی سے نکالنے کے لیے بہرحال کسی نہ کسی کو تو رسول مقرر کیا جانا ہی تھا ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنا کس کا کام ہے کہ خدا اپنا رسول کس کو بنائے اور کس کو نہ بنائے؟ اگر یہ لوگ خدا کے بنائے ہوئے رسول کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یا تو خدا کی خدائی کا مالک یہ اپنے آپ کو سمجھ بیٹھے ہیں ، یا پھر ان کا زعم یہ ہے کہ اپنی خدائی کا مالک تو خدا ہی ہو مگر اس میں حکم ان کا چلے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: مکہ مکرمہ کے کافر لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو پیغمبر بھیجنا ہی تھا تو مکہ مکرمہ یا طائف کے کسی بڑے سردار کو پیغمبر کیوں نہیں بنایا گیا ؟ (دیکھئے سورۂ زخرف ٤٣۔ ٣١) اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے، جن میں کسی کو پیغمبر بنانے کا اختیار بھی شامل ہے، ان کی خواہشات کے تابع ہیں کہ وہ جسے چاہیں اسے پیغمبر بنادیا جائے؟۔