Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 کہ ضرور ان سے پہلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرجائیں گے اور ان کو موت اس کے بعد آئیگی

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٥] جس کی بنا پر انہیں یقین ہوچکا ہے کہ آپ اپنے دعوائے رسالت میں جھوٹے ہیں اور اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ام عندھم الغیب فہم یکتبون :)” عندھم “ پہلے لانے سے حصر پیدا ہوگیا ہے، اس لئے ترجمہ ” یا انھی کے پاس غیب ہے “ کیا گیا ہے۔ یعنی یا پھر انہیں آپ کے اتباع کی ضرورت اس لئے نہیں کہ سارا غیب انھی کے پاس ہے اور وہ اپنے معاملتا کے فیصلے خود ہی وہاں سے لکھ لیتے ہیں، اسلئے انہیں اس کتاب کی ضرورت ہی نہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آئے ہیں۔ یہاں بھی سوال ہی پر اکتفا فرمایا ہے، کیونکہ اس کا جواب ظاہر ہے کہ سارے غیب کا بلاشرکت کغیرے مالک ہونا تو بہت ہی دور ہے۔ یہ تو غیب کے ایک ذرے سے بھی آگاہ نہیں۔ پھر یہ اللہ کی کتابا ور اس کے رسول سے کس طرح مستغنی ہوسکتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ عِنْدَہُمُ الْغَيْبُ فَہُمْ يَكْتُبُوْنَ۝ ٤١ ۭ- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے کہ یہ دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے یا ان کے پاس کوئی ایسی کتاب ہے کہ اس میں اپنے اعمال و اقوال میں سے جو چاہتے ہیں لوح محفوظ سے لکھ لیتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ اَمْ عِنْدَہُمُ الْـغَیْبُ فَہُمْ یَکْتُـبُوْنَ ۔ ” کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہیں ؟ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :32 یعنی رسول تمہارے سامنے جو حقائق پیش کر رہا ہے ان کو جھٹلانے کے لیے آخر تمہارے پاس وہ کون سا علم ہے جسے تم اس دعوے کے ساتھ پیش کر سکو کہ پردۂ ظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کو تم براہ راست جانتے ہو؟ کیا واقعی تمہیں یہ علم ہے کہ خدا ایک نہیں ہے بلکہ وہ سب بھی خدائی صفات و اختیارات رکھتے ہیں جنہیں تم نے معبود بنا رکھا ہے؟ کیا واقعی تم نے فرشتوں کو دیکھا ہے کہ وہ لڑکیاں ہیں اور نعوذ باللہ ، خدا کے ہاں پیدا ہوئی ہیں ؟ کیا واقعی تم یہ جانتے ہو کہ کوئی وحی نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ہے نہ خدا کی طرف سے کسی بندے کے پاس آسکتی ہے؟ کیا واقعی تمہیں اس بات کا علم ہے کہ کوئی قیامت برپا نہیں ہونی ہے اور مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہو گی اور کوئی عالم آخرت قائم نہ ہو گا جس میں انسان کا محاسبہ ہو اور اسے جزا و سزا دی جائے؟ اگر اس طرح کے کسی علم کا تمہیں دعویٰ غیب کے پیچھے جھانک کر تم نے یہ دیکھ لیا ہے کہ حقیقت وہ نہیں جو رسول بیان کر رہا ہے؟ اس مقام پر ایک شخص یہ شبہ ظاہر کر سکتا ہے کہ اس کے جواب میں اگر وہ لوگ ہٹ دھرمی کی بنا پر وہ لکھ بھی دیتے تو جس معاشرے میں یہ چیلنج برسر عام پیش کیا گیا تھا اس کے عام لوگ اندھے تو نہ تھے ۔ ہر شخص جان لیتا کہ یہ لکھا سراسر ہٹ دھرمی کے ساتھ دیا گیا ہے اور در حقیقت رسول کے بیانات کو جھٹلانے کی بنیاد یہ ہرگز نہیں ہے کہ کسی کو ان کے خلاف واقعہ ہونے کا علم حاصل ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: مشرکین کے جن عقائد کا ذکر پچھلے حاشیہ میں کیا گیا ہے، وہ سب عالم غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ فرمایا جارہا ہے کہ کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے جس کی باتیں انہوں نے لکھ کر محفوظ کر رکھی ہوں؟