42۔ 1 یعنی ہمارے پیغمبر کے ساتھ، جس سے اس کی ہلاکت واقع ہوجائے۔ 42۔ 1 یعنی کید ومکر ان پر ہی الٹ پڑے گا اور سارا نقصان انہیں کو ہوگا جیسے فرمایا ولا یحیق المکر السیء الا باھلہ چناچہ بدر میں یہ کافر مارے گئے اور بھی بہت سی جگہوں پر ذلت و رسوائی سے دوچار ہوئے۔
[٣٦] اگر یہ سب باتیں نہیں تو لامحالہ یہ ان کی فریب کا رانہ چالیں ہیں کہ آپ پر طرح طرح کے الزامات لگا کر لوگوں کو آپ سے بدظن کردیں اور آپ کی ہمت توڑ دیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عنقریب یہ اپنی چالبازیوں، شاطرانہ چالوں اور سازشوں کے جال میں خود پھنس جائیں گے۔ واضح رہے کہ کافروں کے حق میں یہ پیشین گوئی مکی زندگی کے اس دور میں کی گئی جب بیچارے مسلمان کافروں کے ظلم و جور کی چکی میں بری طرح پس رہے تھے اور کسی کو یہ خیال تک بھی نہ آسکتا تھا کہ یہ سارا معاملہ الٹ بھی سکتا ہے۔
(ام یریدون کیداً ، فالذین کفروا …:” المکیدون “ کاد یکید کیدا “ سے اسم مفعول ہے، جو کسی کی چال میں آچکے ہوں۔ یعنی یا وہ آپ کے خلاف کوئی چال چلنا چاہتے ہیں تو سن لیں کہ وہ لوگ جو حق کا انکار کر رہے ہیں، یا اس کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور کئی طرح کی چالیں چل رہے ہیں وہ خود ہی چال میں آنے والے ہیں۔ چناچہ کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے وقت یا کسی بھی موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جو بھی سازش کی وہ ناکام ہوئی اور ان کی ہر چال انھی پر الٹی پڑی اور کفر پر اڑنے والے بدر اور دوسرے مواقع پر بری طرح قتل ہوئے۔ سعید روحوں نے اسلام قبول کرلیا اور پورا جزیرہ عرب اسلام کے زیر نگیں آگیا۔
اَمْ يُرِيْدُوْنَ كَيْدًا ٠ ۭ فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا ہُمُ الْمَكِيْدُوْنَ ٤٢ ۭ- راود - والمُرَاوَدَةُ : أن تنازع غيرک في الإرادة، فترید غير ما يريد، أو ترود غير ما يرود، ورَاوَدْتُ فلانا عن کذا . قال : هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف 26] ، وقال : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] ، أي : تصرفه عن رأيه، - ( ر و د ) الرود - المراودۃ ( مفاعلہ ) یہ راود یراود سے ہے اور اس کے معنی ارادوں میں باہم اختلاف اور کشیدگی کے ہیں ۔ یعنی ایک کا ارداہ کچھ ہو اور دوسرے کا کچھ اور راودت فلان عن کزا کے معنی کسی کو اس کے ارداہ سے پھسلانے کی کوشش کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ هِيَ راوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي[يوسف 26] اس نے مجھے میرے ارداہ سے پھیرنا چاہا ۔ تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] وہ اپنے غلام سے ( ناجائز ) مطلب حاصل کرنے کے درپے ہے ۔ یعنی اسے اس کے ارادہ سے پھسلانا چاہتی ہے ۔- كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
بلکہ یہ لوگ آپ کے قتل کی سازش کرتے ہیں تو ان کفار مکہ میں سے جو لوگ اس سازش میں شریک ہیں یعنی ابوجہل وغیرہ وہ خود ہی بدر کے مقتول ہوں گے۔
آیت ٤٢ اَمْ یُرِیْدُوْنَ کَیْدًاط فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہُمُ الْمَکِیْدُوْنَ ۔ ” کیا یہ لوگ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں ؟ اصل میں تو یہ کافر خود ہی چال کا شکار ہوگئے ہیں۔ “- یہ لوگ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلا رہے ہیں تاکہ عوام ان سے متاثر نہ ہوں۔ لیکن ان کی یہ باتیں اس قدر بودی ہیں کہ خود ان کے اپنے دل بھی ان کو نہیں مانتے۔ ان کی سازشوں کو اللہ تعالیٰ اسی طرح ناکام کرتا رہتا ہے ‘ جیسا کہ سورة الطارق میں فرمایا گیا : اِنَّھُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا - وَّاَکِیْدُ کَیْدًا ۔ ” یہ لوگ تو اپنی تدبیروں میں لگے ہوئے ہیں اور میں اپنی تدبیر کر رہا ہوں۔ “
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :33 اشارہ ہے ان تدبیروں کی طرف جو کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زک دینے اور آپ کو ہلاک کرنے کے لیے آپس میں بیٹھ بیٹھ کر سوچا کرتے تھے ۔ سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :34 یہ قرآن کی صریح پیشن گوئیوں میں سے ایک ہے ۔ مکی دور کے ابتدائی زمانے میں ، جب مٹھی بھر بے سر و سامان مسلمانوں کے سوا بظاہر کوئی طاقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ تھی ، اور پوری قوم آپ کے خلاف برسر پیکار تھی ، اسلام اور کفر کا مقابلہ ہر دیکھنے والے کو انتہائی نامساوی مقابلہ نظر آ رہا تھا ۔ کوئی شخص بھی اس وقت یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ چند سال کے بعد یہاں کفر کی بساط بالکل الٹ جانے والی ہے ۔ بلکہ ظاہر میں نگاہ تو یہ دیکھ رہی تھی کہ قریش اور سارے عرب کی مخالفت آخر کار اس دعوت کا خاتمہ کر کے چھوڑے گی ۔ مگر اس حالت میں پوری تحدی کے ساتھ کفار سے یہ صاف صاف کہہ دیا گیا کہ اس دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے جو تدبیریں بھی تم کرنا چاہو کر کے سیکھ لو ۔ وہ سب الٹی تمہارے ہی خلاف پڑیں گی اور تم اسے شکست دینے میں ہرگز کامیاب نہ ہو سکو گے ۔
12: اس سے ان سازشوں کی طرف اشارہ ہے جو یہ لوگ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کے خلاف کیا کرتے تھے۔