48۔ 1 اس کھڑے ہونے سے کونسا کھڑا ہونا مراد ہے ؟ بعض کہتے ہیں جب نماز کے لئے کھڑے ہوں جیسے آغاز نماز میں سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ پڑھی جاتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جب کسی مجلس میں کھڑے ہوں جیسے حدیث میں آتا ہے جو شخص کسی مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھ لے تو یہ اسکی مجلس کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ سبحانک اللہم وبحمدک اشھد ان لا الہ انت أستغفرک واتوب الیک۔
[٤٠] اس کا ایک مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے کہ ان نامساعد حالات سے نجات کے لیے جب تک اللہ کا حکم آ نہیں جاتا۔ آپ صبر کیجئے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پروردگار کے جو احکام اب تک آپ کو مل چکے ہیں ان کی تعمیل اور بجاآوری میں صبر و استقامت سے ڈٹے رہیے۔- [٤١] ہم آپ کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑیں گے اور جب ہماری حکمت کا تقاضا ہوا آپ کو نجات کی راہ بتادیں گے اور ان کافروں کی تمام سازشوں اور تدبیروں کو ناکام بنادیں گے۔- [٤٢] اس جملہ کے کئی مطلب ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ جب آپ نیند سے بیدار ہوں تو اللہ کی حمد و تسبیح بیان کی جائے۔ دوسرا یہ کہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوں تو حمد و تسبیح بیان کیجئے۔ تیسرا یہ کہ جب آپ تبلیغ اور خطاب کے لیے کھڑے ہوں تو اس کا افتتاح حمد و تسبیح سے کیا کیجئے اور چوتھا یہ کہ جب آپ کسی مجلس سے اٹھنے لگیں تو اس وقت اللہ کی حمد و تسبیح بیان کیجئے اور ایسے تمام مواقع پر رسول اللہ حمد و تسبیح بیان فرمایا کرتے تھے۔
(١) واصبر لحکم ربک : یہاں ” لام “ ” علی “ کے معنی میں ہو تو مطلب یہ ہے کہ اپنے رب کے حکم پر عمل کرنے میں صبر و استقامت اختیار کرو اور دعوت کا کام جاری رکھو، جیسے فرمایا :(واصبر علی مایقولون) المزمل : ١٠) ” اور اس پر صبر کر جو وہ کہتے ہیں۔ “ اور اگر ” الی “ کے معنی میں ہو تو مطلب یہ ہے کہ ان ظالموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک صبر کرو، جیسا کہ فرمایا :(واصبر حتی یحکم اللہ) (یونس : ١٠٩)” اور صبر کر یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے۔ “ اس مقام پر حرف ” لام “ لانے سے ایسا جامع مفہوم پیدا ہو رہا ہے جو کوئی اور حرف لانے سے پیدا نہیں ہوتا۔” واصبر لحکمنا “ (اور ہمارے حکم پر صبر کر) کے بجائے فرمایا :(واصبر لحکم ربک) (اور اپنے رب کے حکم پر صبر کر) مطل یہ ہے کہ اس کے رب ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ تیری نگہداشت اور حفاظت کرے۔- (٢) فانک باعینا : کیونکہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، ہم ہر وقت تھے دیھک رہے ہیں اور تیری نگراین اور حفاظت کر رہے ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ تجھے نقصان پہنچا سکے۔ مزید دیکھیے سورة ہود (٣٧) ۔- (٢) وسبح بحمد ربک : صبر کے ساتھ تسبیح و تحمید یعنی نماز کی تاکید فرمائی، کیونکہ ان دونوں کے ساتھ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا :(واستعینوا بالصبر وا لصلوۃ) (البقرہ : ٣٥)” اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔ “- (٤) ” سبح بحمد ربک “ کا لفظی معنی اگرچہ یہ ہے کہ ” اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر “ مگر اس سے مراد نماز ہے۔ دلیل اور تفصیل کے لئے دیکھیے سورة طہ (١٣٠) کی تفسیر۔- (٥) حین تقوم : اکثر مفسرین نے ” سبح بحمد ربک “ سے ” سبحان اللہ “ اور ” الحمد للہ “ کہنا مراد لیا ہے اور ” حین تقوم “ سے مراد بعض نے یہ لیا ہے کہ نیند کے بعد بستر سے اٹھتے وقت ” سبحان اللہ ، الحمد للہ “ کہو۔ بعض نے اس سے مجلس سے اٹھتے وقت کفارہ مجلس کی دعا ” سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ انت استغفرک و اثوب الیک مراد لی ہے اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز شروع کرتے وقت ” سبحانک اللھم وبحمدک “ (دعائے استفاح) ہے۔ بعض نے کہا کہ ہر خطاب کے لئے کھڑے ہوتے وقت تسبیح و تحمید کرنا مراد ہے۔ مگر انھی مفسرین نے اگلی آیت ” ومن الیل فسبحہ “ میں تسبیح سے مراد نماز تہجد اور ” ادبار النجوم “ سے مراد نماز فجر لی ہے۔ حق یہ ہے کہ ” سبح “ کا جو معنی ” من الیل “ اور ” ادبار النجوم “ کے ساتھ کیا گیا ہے وہی معنی ” حین تقوم “ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ طبری نے یہاں پہلے دو قول ذکر فرمائے ہیں، ایک یہ کہ نیند سے اٹھ کر تسبیح و تحمید کرے، دوسرا یہ کہ جب فرض نماز کے لئے کھڑا ہو تو ” سبحانک اللھم و بحمدک…“ دعا پڑھے۔ پھر فرمایا :” صواب کے سب سے زیادہ قریب ان کا قول ہے جو کہتے ہیں کہ ” سبح بحمد ربک کا معنی ہے ” صل بحمد ربک حین تقوم من منامک و ذلک نوم القائلۃ وانما عنی صلاۃ الظھر “ یعنی اپنے رب کی حمد کے ساتھ نماز پڑھ جب تو اپنی نیند سے اٹھے۔ نیند سے مراد دوپہر کی نیند ہے اور نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ “ فرماتے ہیں :” ہم نے اس قول کو اس لئے ترجیح دی ہے کہ نماز شروع کرتے وقت ” سبحانک اللھم “ پڑھنا کسی کے نزدیک بھی فرض نہیں اور ہم نے دوپہر کی نیند سے اٹھنا اسلئے مراد لیا ہے کہ لوگوں کا معروف نیند سے اٹھنا یا تورات کی نیند کے بعد ہوتا ہے اور وہ نماز فجر کا وقت ہے یا دوپہر کی نیند کے بعد ہوتا ہے اور وہ نماز ظہر کا وقت ہے۔ تو جب ” سبح بحمد ربک حین تقوم “ کے بعد ” ادبار النجوم “ کے وقت تسبیح کا حکم دیا جو رتا کی نیند سے اٹھ کر نماز فجر کی دو رکعتیں ہیں، تو معلوم ہوا کہ ” حین تقوم “ سے مراد وہ نماز ہے جو رات کی نیند سے اٹھنے کے علاوہ ہے او وہ نماز ظہر ہے۔ “ (طبری) بعض حضرت ا نے لکھا ہے کہ طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ ’ حین تقوم “ سے مراد نیند سے اٹھ کر تسبیح و تحمید ہے، لیکن اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ طبری کی ترجیح یہ نہیں ہے۔
معارف و مسائل - فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا، دشمنوں کی دشمنی اور مخالفت و تکذیب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے آخر سورت میں پہلے تو یہ فرمایا کہ " آپ ہماری نظروں میں ہیں " یعنی ہماری حفاظت میں ہیں ہم آپ کو ان کے ہر شر سے بچائیں گے، آپ ان کی کسی بات کی پروا نہ کریں، جیسا کہ دوسری ایک آیت میں ارشاد ہے ( ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) اللہ تعالیٰ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرما دیں گے۔- اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی تسبیع وتحمید میں لگ جانے کا حکم فرمایا جو اصل مقصد زندگی بھی ہے اور ہر مصیبت سے بچنے کا اصلی علاج بھی فرمایا وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَـقُوْمُ ، یعنی اللہ کی حمد کی تسبیح کیا کریں جبکہ آپ کھڑے ہوں، کھڑے ہونے سے مراد سو کر اٹھنا بھی ہوسکتا ہے، ابن جریر نے اسی کو اختیار کیا ہے، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو امام احمد نے حضرت عبادہ بن صامت سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ " جو شخص رات کو بیدار ہوا اور اس نے یہ کلمات پڑھے تو جو دعا کرے گا قبول کی جائے گی وہ کلمات یہ ہیں : لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر، سبحان اللہ والحمد للہ ولآ الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ، پھر اگر اس نے نماز پڑھنے کا رادہ کیا اور وضو کر کے نماز پڑھی تو اس کی نماز قبول کی جائے گی ( ابن کثیر)- کفارہ مجلس :- اور حضرت مجاہد اور ابو الاحوص وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ حین تقوم سے مراد یہ ہے کہ جب آدمی اپنی کسی مجلس سے اٹھے تو یہ کہے کہ سبحانک اللھم وبحمدک، حضرت عطاء بن ابی رباح نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ جب تم اپنی مجلس سے اٹھو تو تسبیح وتحمید کرو، اگر تم نے اس مجلس میں کوئی نیک کام کیا ہے تو اس کی نیکی میں زیادتی اور برکت حاصل ہوگی اور اگر کوئی غلط کام کیا ہے تو یہ کلمات اس کا کفارہ ہوجائیں گے۔- حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں اچھی بری باتیں ہوں تو اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے اگر وہ یہ کلمات پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کی سب خطاؤں کو جو اس مجلس میں ہوتی ہیں معاف فرما دیں گے، وہ کلمات یہ ہیں : سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک، رواہ الترمذی۔- وھذا لفظہ و النسائی فی الیوم و اللیلة و قال الترمذی حدیث حسن صحیح (از ابن کثیر)
وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَـقُوْمُ ٤٨ ۙ- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- عين - ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا - [ القمر 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ- [ الفرقان 74] .- ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة،- واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ- [ الصافات 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] .- ( ع ی ن ) العین - اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کو رہے ۔
خدا کی حمدوثنا کہاں کہاں اور کیسے کیے ہو ؟- قول باری ہے (وسبح بحمد ربک حین تقوم، اور آپ جب اٹھا کیجئے تو اپنے رب کی حمدوتسبیح کیا کیجئے) حضرت ابن مسعود (رض) ، ابوالاحوص اور مجاہد کا قول ہے۔ جس وقت آپ کسی بھی جگہ سے اٹھ کھڑے تو یہ دعا پڑھیں۔ (سبحانک وبحمدک الا الہ الا انت استفرک واتوب الیک)- علی بن ہاشم نے روایت کی ہے کہ اعمش سے پوچھا گیا کہ آیا ابراہیم نخعی جب نشست سے کھڑے ہوتے تو وہ یہ دعا پڑھنا پسند کرتے تھے۔ ” سبحانک اللھم وبحمدک لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک۔ “ اعمش نے جواب دیا کہ ابراہیم کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ اس سنت کا درجہ دے دیا جائے۔ ضحاک نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ اس سے نماز کا افتتاح مراد ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کی اس سے مراد یہ دعا ہے۔ ” سبحانک اللہ وبحمدک و تبارک اسمک الی اخرہ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے آپ تکیہ تحریمہ کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔- ابوالجوزاء کا قول ہے کہ آیت سے مراد یہ ہے کہ ” جب آپ نیند سے بیدار ہوکر اٹھیں۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کی جتنی تاویلیں کی گئی ہیں ان تمام کے لئے عموم کا جواز موجود ہے۔- قول باری (وادبار النجوم۔ اور ستاروں کے پیچھے بھی) صحابہ کرام کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ اس سے فجر کی دو رکعتیں مراد ہیں۔ اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایتیں منقول ہیں۔- سعد بن ہشام نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (رکعتا الفجر خیر من الدنیا ومافیھا۔ فجر کی دو رکعتیں دنیا ومافیہا سے بہتر ہے) عبید بن عمیر نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی نفل نماز کی ادائیگی کے لئے اور نہ ہی مال غنیمت کی تقسیم کے لئے اس قدر سرعت سے کام لیتے دیکھا جس قدر آپ فجر کی دو رکعتیں ادا کرنے میں سرعت سے کام لیتے تھے۔- ایوب نے عطاء بن ابی رباح سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الرکعتان قبل صلوٰۃ الفجر واجبتان علی کل مسلم، ہر مسلمان پر فجر کے فرض سے پہلے دو رکعتیں واجب ہیں)- یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” ان دو رکعتوں کو ہرگز نہ چھوڑ و کیونکہ ان میں رغائب موجود ہیں۔ “ یعنی ان کی ادائیگی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے انعامات ملیں گے۔ “ یہ بھی فرمایا : ” ان دو رکعتوں کو نہ چھوڑو خواہ تم پر گھوڑ سواروں کا دستہ کیوں نہ حملہ آور ہوجائے۔ “
(٤٨۔ ٤٩) اور آپ اپنے پروردگار کے احکام کی تبلیغ پر جمے رہیے یا یہ کہ اطاعت خداوندی میں جو آپ کو ان کفار کی طرف سے تکالیف پہنچیں آپ ان پر صبر سے بیٹھے رہیے، کیونکہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں اور سونے سے اٹھتے وقت اپنے پروردگار کی نماز پڑھتے رہیے۔- مثلا صبح سے رات تک بھی اور رات کے آنے کے بعد بھی نماز پڑھتے رہیے یعنی ظہر عصر مغرب اور ستاروں کے غائب ہونے کے بعد بھی یعنی صبح کی دو سنتیں۔
آیت ٤٨ وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ ” (اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے ربّ کے فیصلے کا انتظار کیجیے۔ “- ابتدائی مکی دور کی سورتوں میں یہ حکم بار بار آیا ہے ۔ خصوصاً زیر مطالعہ گروپ کی سورتوں اور ٢٩ ویں پارے کی سورتوں میں تو فَاصْبِرْ یا وَاصْبِرْکے صیغے کی بہت تکرار ملتی ہے۔ سورة النحل میں فرمایا گیا : وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلاَّ بِاللّٰہِ (آیت ١٢٧) ” آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر تو اللہ ہی کے سہارے پر ہے “۔ سورة الاحقاف میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا گیا : فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ (آیت ٣٥) ” پس آپ بھی صبر کیجیے جیسے ہمارے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا تھا “۔ مثلاً حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کی زیادتیاں برداشت کیں۔ سورة المزمل میں ارشاد ہوا : وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَـقُوْلُوْنَ (آیت ١٠) ” اور اس پر صبر کیجیے جو یہ لوگ آپ کے خلاف باتیں بنا رہے ہیں “۔ سورة المدثر میں فرمایا گیا : وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ۔ ” اور آپ اپنے رب کے لیے صبر کریں “۔ غرض ابتدائی مکی دور کی سورتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست مخاطب کر کے بار بار ہدایت کی جاتی رہی کہ آپ صبر کا دامن مضبوطی سے تھا میں رہیں۔ عربی میں ” صبر “ کے بعد اگر ” ل “ آجائے جیسے کہ آیت زیر مطالعہ میں ہے ‘ تو اس کے معنی انتظار کرنے کے ہوتے ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کا ترجمہ اسی مفہوم کے پیش نظر کیا گیا ہے۔- فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا ” بیشک آپ ہماری نگاہوں میں ہیں۔ “- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل ہماری نظروں کے سامنے ہیں ‘ ہم آپ کے حالات سے پوری طرح باخبر ہیں ۔ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگہبانی کر رہے ہیں ‘ آپ کو آپ کے حال پر نہیں چھوڑ دیا۔ بالکل یہی مضمون سورة یونس کی آیت ٦١ میں بھی آیا ہے :- وَمَا تَـکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلاَ تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ ط - ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہیں ہوتے آپ کسی بھی کیفیت میں اور نہیں پڑھ رہے ہوتے آپ قرآن میں سے کچھ اور (اے مسلمانو ) تم نہیں کر رہے ہوتے کوئی بھی (اچھا) عمل مگر یہ کہ ہم تمہارے پاس موجود ہوتے ہیں جب تم اس میں مصروف ہوتے ہو۔ “- وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ۔ ” اور آپ تسبیح کرتے رہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ جب آپ کھڑے ہوں۔ “- اس بارے میں عام رائے یہی ہے کہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تہجد کی نماز کی طرف اشارہ ہے ‘ کیونکہ آغاز میں تو وہی ایک نماز تھی۔ جیسا کہ سورة المزمل کی ان آیات میں قیام اللیل کا ذکر ہے :- یٰٓــاَیـُّـھَا الْمُزَمِّلُ ۔ قُمِ الَّــیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا ۔ نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا ۔ اَوْ زِدْ عَلَـیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا ۔ - ” اے کپڑا اوڑھنے والے رات کو قیام کیا کرو مگر (ساری رات نہیں بلکہ) کم۔ (یعنی) نصف رات یا اس سے کچھ کم کرلو۔ یا اس پر کچھ زیادہ کرلو ‘ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔ “
سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :38 دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی تعمیل پر ڈٹے رہو ۔ سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :39 یعنی ہم تمہاری نگہبانی کر رہے ہیں ۔ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے ۔ سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :40 اس ارشاد کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں ، اور بعید نہیں کہ وہ سب ہی مراد ہوں ۔ ایک مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم کسی مجلس سے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح کر کے اٹھو ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس پر عمل فرماتے تھے ، اور آپ نے مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی مجلس سے اٹھتے وقت اللہ کی حمد و تسبیح کر لیا کریں ، اس سے ان تمام باتوں کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے جو اس مجلس میں ہوئی ہوں ۔ ابوداؤد ، ترمذی نسائی اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ کے واسطے سے حضور کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور اس میں خوب قیل و قال ہوئی ہو ، وہ اگر اٹھنے سے پہلے یہ الفاظ کہے تو اللہ ان باتوں کو معاف کر دیتا ہے جو وہاں ہوں : سبحانک اللہم و بحمدک ، اشھد ان لا اِلٰہ الا انت ، استغفرک و اتوب الیک ۔ خداوندا ، میں تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں ۔ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نیند سے بیدار ہو کر اپنے بستر سے اٹھو تو اپنے رب کی تسبیح کے ساتھ اس کی حمد کرو ۔ اس پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود عمل فرماتے تھے اور اپنے اصحاب کو آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ نیند سے جب بیدار ہوں تو یہ الفاظ کہا کریں : لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شیءٍ قدیر ۔ سبحان اللہ والحمد لِلہ ولا اِلہ الا اللہ ، واللہ اکبر ، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔ ( مسند احمد ، بخاری بروایت عبادہ بن الصامت ) تیسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو ۔ اسی حکم کی تعمیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی کہ نماز کی ابتدا تکبیر تحریمہ کے بعد ان الفاظ سے کی جائے سبحانک اللہم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الٰہ غیرک ۔ چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھو تو اللہ کی حمد و تسبیح سے اس کا آغاز کرو ۔ یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول تھا کہ آپ ہمیشہ اپنے خطبوں کا آغاز حمد و ثنا سے فرمایا کرتے تھے ۔ مفسر ابن جریر نے اس کا ایک اور مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جب تم دوپہر کو قیلولہ کر کے اٹھو تو نماز پڑھو ، اور اس سے مراد نماز ظہر ہے ۔
15: یہ بڑی پیار بھری تسلی ہے جو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی جا رہی ہے کہ آپ اپنے کام میں لگے رہئے، ہم ہر آن آپ کی نگرانی اور حفاظت کر رہے ہیں۔ 16: اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جب آپ تہجد کے لیے اٹھیں، اس وقت تسبیح فرمائیں اور یہ بھی کہ جب آپ اپنی کسی مجلس سے اٹھیں تو تسبیح پر اس کا اختتام ہونا چاہئے، چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ کسی مجلس کے آخر میں اگر سبحانک اللہم و بحمدک لا الہ الا انت استغفرک و اتوب الیک۔ پڑھ لیا جائے تو یہ اس مجلس کا کفارہ ہوجاتا ہے (ابو داود، حدیث نمبر :4216) یعنی اگر اس مجلس میں دینی اعتبار سے کوئی بھول چوک یا غلطی ہوگئی ہو، تو اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔