[٨] اس کے مخاطب قریش مکہ ہیں اور انہیں کہا یہ جارہا ہے کہ تم اپنے رفیق ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خود سچا اور راست باز انسان تسلیم کرتے ہو۔ اور وہ اپنے ذاتی اور عینی مشاہدہ کی بنا پر تم سے ایک بات کہتا ہے جو اسے دن کی روشنی میں اور عالم بیداری میں پیش آئی۔ پھر تم اس کی بات کا انکار کرتے۔ اور اس سے جھگڑا کرتے ہو تو آخر تمہارے پاس اس کو جھٹلانے اور اس پر جھگڑا کرنے کے لیے کیا دلیل ہے ؟ واضح رہے کہ اس بارے میں صحابہ میں بھی اختلاف تھا کہ آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت جبریل کو دیکھا تھا یا اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا تو اس کے متعلق صحابہ کی اکثریت کا یہ قول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل کو دیکھا تھا۔ لے دے کے ایک سیدنا ابن عباس (رض) ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا مگر وہ بھی اس بات کی پابندی لگاتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو ان ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ دل یا دل کی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔- ١۔ کیا رسول اللہ نے جبرئیل کو دیکھا تھا یا اللہ کو ؟ مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین سیدہ عائشہ (رض) سے پوچھا : امی کیا محمد نے اپنے پروردگار کو دیکھا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا : تیری اس بات پر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ تین باتیں کیا تو سمجھ نہیں سکتا جو شخص تجھ سے وہ بیان کرے وہ جھوٹا ہے۔ جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ محمد نے اپنے پروردگار کو دیکھا تھا اس نے جھوٹ بولا پھر انہوں نے یہ آیت پڑھیـ۔ ( لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ١٠٣۔ ) 6 ۔ الانعام :103) اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل کو ہونے والی بات جانتے تھے اس نے بھی جھوٹ بولا۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ (وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 34 ) 31 ۔ لقمان :34) اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی سے کچھ چھپا رکھا وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی (يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 67) 5 ۔ المآئدہ :67) بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل کو ان کی اصلی صورت میں دو بار دیکھا تھا۔ (بخاری، کتاب التفسیر)- ٢۔ شعبی کہتے ہیں کہ عرفات میں کعبص کی ابن عباس (رض) سے ملاقات ہوئی اور ان سے کوئی بات پوچھی۔ پھر کعب نے اتنے زور سے اللہ اکبر کہا کہ پہاڑ گونج اٹھے۔ ابن عباس (رض) نے کہا : ہم بنو ہاشم ہیں (یعنی ہم پر اتنا غصہ نہ کیجئے) کعبص کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار اور کلام کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور موسیٰ (علیہ السلام) میں تقسیم کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دو بار کلام کیا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو بار اللہ کو دیکھا مسروق کہتے ہیں کہ پھر میں نے سیدہ عائشہ (رض) کے پاس جاکر پوچھا کہ : کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ : تم نے ایسی بات کہی جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میں نے کہا : ذرا سوچ لیجئے پھر میں نے یہ آیت پڑھی۔ ( لَقَد رَایٰ مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی) سیدہ عائشہ (رض) مجھے کہنے لگیں : تیری عقل کہاں گئی وہ تو جبریل تھے جو شخص تجھے یہ بتائے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا یا کچھ حصہ چھپایا جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا یا وہ پانچ باتیں جانتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 34 ) 31 ۔ لقمان :34) میں بتائیں۔ اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل کو اس کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا۔ ایک دفعہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اور ایک دفعہ (مکہ کے محلہ) جیاد میں، اس کے چھ سو پر تھے اور اس نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) سیدنا ابن عباس (رض) نے یہ آیت پڑھی ( مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى 11 ) 53 ۔ النجم :11) اور کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل (کی آنکھ) سے دیکھا تھا۔ (حوالہ ایضاً )- ٣۔ سیدنا ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا : وہ تو نور ہے میں اسے کہاں سے دیکھ سکتا ہوں (حوالہ ایضاً )- اور میرے خیال کے مطابق سیدنا ابن عباس (رض) کی اس پابندی کے بعد وجہ اختلاف از خود ختم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ قرآن میں جس بات کی صراحت ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں ان ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ اور عالم آخرت میں اہل جنت کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صراحت کے ساتھ احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔
(١) افتمرونہ :” تم اورن “ ماری یماری مراء و مماراۃ “ (مفاعلہ) سے فعل مضارع معلوم جمع مذکر حاضر ہے، جھگڑا کرنا۔ یہ مشرکین مکہ سے خطاب ہے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بتایا کہ میرے پاس کوئی شیطان نہیں بلکہ جبریل فرشتہ آتا ہے اور میں اسے دیکھتا ہوں، اس کی اصل صورت میں بھی میں نے اسے دیکھا ہے تو انہوں نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا اور جھگڑنے لگے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم اپنے صاحب کو خود صادق و امین تسلیم کرتے ہو، جب وہ تم سے کہتا ہے کہ اس کے پاس جبریل فرشتہ آتا ہے اور وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو تم اس سے جھگڑنے لگتے ہو، آخر تمہاریپ اس اسے جھٹلانے اور اس پر جھگڑا کرنے کی کیا دلیل ہے ؟۔- اذا لم تر الھلال فسلم لاناس راوہ بالابصار - ” جب تمہیں چاند نظر نہیں آیا تو ان لوگوں کیب ات مان لو جنہوں نے اسے آنکھوں سے دیکھا ہے۔ “- (٢) علی مایری : واضح رہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ” افتم اور نہ علی ما رای “” پھر کیا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو جو اس نے دیکھا “ بلکہ فرمایا :(افتمرونہ علی مایری)” پھر کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو وہ دیکھتا ہے “ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جس بات کو وہ جھٹلاتے تھے وہ یہ تھی کہ میں جبریل فرشتے کو دیکھتا ہوں جب وہ میرے پاس آتا ہے اور حقیقت بھی یہی تھی کہ پہلی دفعہ جب جبریل علیہ السام غار حرا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ائٓے تو اگرچہ اصل صورت میں نہ تھے، مگر بعد میں جب وہ اپنی اصل صورت میں اس شان سے سامنے آئے کہ زمین سی آسمان تک اور دائیں سے بائیں تک پورا افق ان سے بھرا ہوا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوراً پہچان گئے کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا۔ دیکھیے اسی سورت کی آیت (٦ تا ٩) کے آخری فائدہ میں مذکور حدیث ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جبریل (علیہ السلام) کے آنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں پہچان لیتے تھے، خواہ کسی حالت میں آئیں۔
اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰي مَا يَرٰى ١٢- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- مری - المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] ، فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هؤُلاءِ [هود 109] ، فَلا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقائِهِ [ السجدة 23] ، أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ [ فصلت 54] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] ، بِما کانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر 63] ، أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم 12] ، فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] وأصله من : مَرَيْتُ النّاقةَ : إذا مسحت ضرعها للحلب .- ( م ر ی) المریۃ - کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص - قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں بما کانوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر 63] جس میں لوگ شک کرتے تھے ۔ أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم 12] کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو ۔ فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] تو تم ان کے معاملے میں گفتگو نہ کرنا ۔ مگر سرسری سی گفتگو ۔ دراصل مریت الناقۃ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں اونٹنی کے تھنوں کو سہلانا تاکہ دودھ دے دے ۔ ( مریم ) علیماالسلام ۔ یہ عجمی لفظ ہے اور حضرت عیسیٰ اعلیہ السلام کی والدہ کا نام ( قرآن نے مریم بتایا ہے
آیت ١٢ اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ۔ ” تو کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس چیز پر جسے وہ دیکھتا ہے “- اس بارے میں جو تفصیل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کر رہے ہیں تم لوگ اس میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہو۔ لیکن وہ تو یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور وہ تم سے آنکھوں دیکھا واقعہ ہی بیان کر رہے ہیں۔ بقول اقبال : ع ” قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید “ کہ قلندر جو بھی بیان کرتا ہے اپنا مشاہدہ ہی بیان کرتا ہے۔