Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ولقد راہ نزلۃ اخری :” لام “ اور ” قد “ کے ساتھ تاکید قسم کے مفہوم کا فائدہ دیتی ہے۔ مشرکین کے انکار کی وجہ سے اتنی تاکید کے ساتھ بات کی ہے۔ یعنی تم زمین پر اس کے جبریل علیہ لاسلام کو دیکھنے کا انکار کرتے ہو ، قسم ہے کہ اس نے تو اسے ایک اور بار آسمانوں کے اوپر بھی اس کی اصل صورت میں اترتے ہوئے دیکھا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى، عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى، یہاں بھی رَاٰهُ کی ضمیر میں وہی دو قول ہیں کہ حق تعالیٰ مراد ہیں، یا جبرئیل امین نَزْلَةً اُخْرٰى کے معنی دوسری مرتبہ کا نزول ہے، راجح تفسیر کے مطابق یہ نزول بھی جبرئیل امین کا ہے اور جیسا کہ پہلی رویت کا مقام قرآن کریم نے اسی عالم دنیا میں مکہ مکرمہ کا افق اعلیٰ بتلایا تھا، اسی طرح اس دوسری رویت کا مقام ساتویں آسمان میں سدرة المنتہیٰ بتلایا اور یہ ظاہر ہے کہ ساتویں آسمان پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تشریف لے جانا شب معراج میں ہوا ہے، اس سے اس دوسری رویت کا وقت بھی فی الجملہ متعین ہوجاتا ہے، سدرہ لغت میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں اور منتہیٰ کے معنی انتہا کی جگہ، ساتویں آسمان پر عرش رحمن کے نیچے یہ بیری کا درخت ہے، مسلم کی روایت میں اس کو چھٹے آسمان پر بتلایا اور دونوں روایتوں کی تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر اور شاخین ساتویں آسمان پر پھیلی ہوئی ہیں (قرطبی) اور عام فرشتوں کی رسائی کی یہ آخری حد ہے، اسی لئے اس کو منتہیٰ کہتے ہیں، بعض روایات میں ہے احکام الٰہیہ اول عرش رحمن سے سدرة المنتہیٰ پر نازل ہوتے ہیں، یہاں سے متعلقہ فرشتوں کے سپرد ہوتے ہیں اور زمین سے آسمان پر جانے والے اعمال نامے وغیرہ بھی فرشتے یہیں تک پہنچاتے ہیں، وہاں سے حق تعالیٰ کے سامنے پیش کی اور کوئی صورت ہوتی ہے، مسند احمد میں یہ مضمون حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰى۝ ١٣ ۙ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

جبرئیل (علیہ السلام) کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مرتبہ اصلی حالت میں دیکھا - قول باری ہے (ولقد راہ نزلۃ اخری عند سدرۃ المنتھیٰ ۔ اور انہوں نے اس فرشتہ کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے سدرۃ المنتہیٰ کے قریب) حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت عائشہ (رض) ، مجاہد اور ربیع کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دل کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ بات علم کے معنی کی طرف راجع ہے۔- حضرت ابن مسعود (رض) اور ضحاک سے مروی ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ چھٹے آسمان میں ہے۔ آسمان کی طرف جانے والی ہر چیز کے صعود کی اس پر انتہا ہوجاتی ہے۔ ایک قول کے مطابق اس مقام کا نام اس لئے سدرۃ المنتہیٰ ہے کہ شہیدوں کی روحیں یہاں تک پہنچتی ہیں۔- حسن کا قول ہے کہ جنت الماویٰ اس جگہ کا نام ہے جہاں اہل جنت پہنچیں گے۔ اس آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان نیز جنت تک تشریف لے گئے تھے کیونکہ قول باری ہے (راہ نزلۃ اخری عند سدرۃ المنتھیٰ عندھا جنۃ الماوی)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی ۔ ” اور انہوں نے تو اس کو ایک مرتبہ اور بھی اترتے دیکھا ہے۔ “- یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دو مرتبہ اصلی شکل و صورت میں دیکھا ہے۔ دوسری مرتبہ کہاں دیکھا ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani