Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یہ لیلۃ المعراج کو جب اصل شکل میں جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا، اس کا بیان ہے۔ یہ سدرۃ المنتہیٰ ، ایک بیری کا درخت ہے جو چھٹے یا ساتویں آسمان پر ہے اور یہ آخری حد ہے، اس کے اوپر کوئی فرشتہ نہیں جاسکتا۔ فرشتے اللہ کے احکام بھی یہیں سے وصول کرتے ہیں

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(عند سدرۃ الم تھی :” سدرۃ “ بیری کا درخت ۔” المنتھی “” انتھی ینتھی ان تھا “ (افتعال) سے ظرف مکان ہے، انتہا کی جگہ۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے اس نام کی وجہ بیان فرمائی ہے، انہوں نے فرمایا :(لما اسری برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتھی بہ الی سدرۃ المنتھی وھی فی السماء السادسۃ : الیھا ینتھی ما یعرج بہ من الارض فیقص منھا والیھا ینتھی ما یھبط بہ من فوقھا فیقبض منھا) (مسلم، الایان، باب فی ذکر سدرۃ المنتھی : ١٨٣)” جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات (معراج کے لئے) لے جایا گیا تو آپ کو سدرۃ المنتی تک پہنچایا گیا اور وہ چھٹی آسمان میں ہے۔ زمین سے اوپر جو کچھ چڑھتا ہے اس کی انتہا وہاں تک ہوتی ہے، پھر اسے وہاں سے لے لیا جاتا ہے اور اس کے اوپر سے جو کچھ اترتا ہے اس کی انتہا بھی وہیں تک ہوتی ہے، پھر اسے وہاں سے لے لیا جاتا ہے۔ “ مسلم کی شرح میں نووی (رح) نے فرمایا کہ صحیح مسلم کے تمام نسخوں میں اسی طرح چھٹے آسمان ہی کا ذکر ہے، جب کہ انس (رض) سے مروی دوسری روایات میں گزر چکا ہے کہ وہ ساتویں آسمان کے اوپر ہے۔ قاضی ٍ (عیاض) نے فرمایا، اس کا ساتویں آسمان پر ہونا ہی زیادہ صحیح اور اکثر کا قول ہے۔ یہی سدرۃ المنتہی کے معنی اور نام کا تقاضا ہے کہ وہ ساتویں آسمان پر ہو۔ نوو فرماتے ہیں کہ دونوں اقوال کو جمع کرنا ممکن ہے کہ اس کی جڑ چھٹی آسمان میں ہے اور زیادہ تر حصہ ساتویں آسمان میں ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وہ بہت بڑی ہے۔- اس آیت سے جبریل (علیہ السلام) کو دیکھنے کا وقت اور مقام بھی معلوم ہوگیا ، کیونکہ سدرۃ المنتہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی رات دیجھی ہے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آسمانوں کی سیر کروائی گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ثم رفعت الی سدرۃ المنتھی فاذا نبفھا مثل قلال ھجر، واذا ورقھا مثل اذان القیلۃ قال ھذہ سدرۃ المنتھی) (بخاری المناقب، باب المعراج، 3888، عن مالک بن صعصعۃ (رض) )” پھر سدرۃ المنتہی میرے سامنے ظاہر ہوئی، دیکھا تو اس کے بیر (پھل) ہجر شہر کے مٹکوں کی طرح اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح تھے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰى۝ ١٤- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- سدر - السِّدْرُ : شجر قلیل الغناء عند الأكل، ولذلک قال تعالی: وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ [ سبأ 16] ، وقد يخضد ويستظلّ به، فجعل ذلک مثلا لظلّ الجنة ونعیمها في قوله تعالی:- فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة 28] ، لکثرة غنائه في الاستظلال، وقوله تعالی: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ ما يَغْشى[ النجم 16] ، فإشارة إلى مکان اختصّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فيه بالإفاضة الإلهية، والآلاء الجسیمة، وقد قيل : إنها الشجرة التي بویع النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم تحتها»، فأنزل اللہ تعالیٰ السّكينة فيها علی المؤمنین، والسّدر : تحيّر البصر، والسَّادِرُ : المتحيّر، وسَدَرَ شَعْرَهُ ، قيل : هو مقلوب عن دَسَرَ.- ( س د ر ) السدر ( بیری کا ) درخت جس کا پھل بہت کم غذائیت کا کام دیتا ہے ۔ اسی بنا پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ۔ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ [ سبأ 16] اور جن میں کچھ تو جھاؤ تھا اور تھوڑی سی بیریاں ۔ اور کبھی ( گابھا دے کر ) اسے بےکانٹا کر کے اس سے یہ حاصل کیا جاتا ہے اس لئے اسے جنت کے آرام اور اس کی نعمتوں کے لئے بطور مثال کے ذکر کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة 28] بےخار کی بیریوں میں ( مزے کر رہے ) ہوں گے ۔ کیونکہ ایسا درخت بہت زیادہ سایہ دار ہوتا ہے اور آیت : ۔ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ ما يَغْشى[ النجم 16] جب کہ اس بیری پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا ۔ میں السدرۃ سے اس مقام کی طرف اشارہ ہے جہاں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فیوضات الہیہ اور بھاری انعامات سے خاص طور پر نوازا گیا تھا بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ درخت ہے جس کے نیچے آنحضرت نے بیعت رضوان لی تھی اور وہاں اللہ تعالیٰ نے مومنین پر سکینت الہیہ نازل فرمائی تھی ۔ السدر کے معنی خیرہ چشم ہونے کے ہیں اور خیرہ چشم کو سادر کہا جاتا ہے اور سدر شعرہ کے معنی بال لٹکانے کے ہیں ۔ بعض کے نزدیک یہ ( دسر ) سے مقلوب ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی ۔ ” سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ “- یہ ساتویں آسمان پر وہ مقام ہے جس سے آگے کسی مخلوق کو جانے کی اجازت نہیں۔ اس انتہائی حد کی علامت بیری کا وہ درخت ہے جسے آیت میں ” سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی “ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس مقام کی کیفیت اور نوعیت ہمارے تصور سے ماوراء ہے۔ معراج کے موقع پر ” سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی “ پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اپنی اصل ملکوتی شکل میں ظاہر ہوئے اور آگے جانے سے معذرت کرلی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani