15۔ 1 اسے جنت الماویٰ ، اس لئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا ماویٰ و مسکن یہی تھا، بعض کہتے ہیں کہ روحیں یہاں آکر جمع ہوتی ہیں (فتح القدیر)
[٩] سدرۃ المنتہیٰ کا محل وقوع اور اہمیت :۔ ( سِدْرَۃُ ) بمعنی بیری کا درخت جس پر بیر کا پھل لگتا ہے۔ اور منتہیٰ بمعنی انتہائی سرحد۔ یعنی انتہائی سرحد پر واقع بیری کا درخت جو ساتویں آسمان پر واقع ہے۔ جہاں عالم سفلی کے معلومات ختم ہوجاتے ہیں اور عالم علوی کے افاضات بھی وہیں سے نیچے نازل ہوتے ہیں۔ فرشتے بھی اس مقام سے آگے نہیں جاسکتے۔ اسی مقام پر معراج کی رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیدنا جبریل کو اپنی اصلی شکل میں دیکھا تھا (م۔ ق) اور بمعنی عرش الٰہی کی داہنی جانب بیری کا درخت جو ملائکہ وغیرہ کی پہنچ کی آخری حد ہے (منجد) نیز وہ مقام جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فیوضات الٰہیہ اور بھاری انعامات سے نوازا گیا تھا۔ (مفردات) اسی آیت سے بعض علماء نے استنباط کیا ہے کہ متقین کو آخرت میں جو جنت ملے گی وہ آسمانوں پر ہے۔
(عندھا جنۃ الماوی :’ الماوی “” اوی یاوی اویاً “ (ض) ” البیت والی البیت “ سے مصدر میمی ہے، گھر میں قیام کرنا، رہائش رکھنا۔ یعنی وہ جنت جو متقی لوگوں کے قیام اور ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ جنت جس میں ایمان والوں کا دائمی قیام ہوگا آسمانوں کے اوپر سدرۃ المنتہی کے پاس ہے۔ ابو ذر غفاری (رض) سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سدرۃ المنتہی کے بعد جنت میں لے جایا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(حتی انتھی بن الی سدرۃ المنتھی وغشیھا الو ان لا ادری ماھی ثم ادخلت الجنۃ فاذا فیھا حبایل اللولو، و اذا ترابھا المسک) (بخاری، الصلوۃ باب کیف فرضت الصلاۃ فی الاسرائ ١:339)” پھر مجھے سدرۃ المنتہی تک پہنچایا گیا اور اسے ایسے رنگوں نے ڈھانپا ہوا تھا کہ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے۔ پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں موتیوں کی لڑیاں ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے۔ “
عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى، ماوی کے معنی ٹھکانا اور آرام کی جگہ، جنت کو ماوی اس لئے فرمایا کہ انسان کا اصل ٹھکانا اور مقام یہی ہے، یہیں آدم و حوا (علیہما السلام) کی تخلیق ہوئی ہے، یہیں سے ان کو زمین پر اتارا گیا اور پھر یہیں اہل جنت کا مقام ہوگا۔- جنت و دوزخ کا موجودہ مقام :- اس آیت نے یہ بھی بتلا دیا کہ جنت اس وقت بھی موجود ہے جیسا کہ جمہور امت کا عقیدہ یہی ہے کہ جنت و دوزخ قیامت کے بعد پیدا نہیں کی جائی گی، یہ دونوں مقام اس وقت بھی موجود ہیں، اس آیت نے جنت کا محل وقوع بھی بتلا دیا کہ وہ ساتویں آسمان کے اوپر، عرش رحمن کے نیچے ہے، گویا ساتواں آسمان جنت کی زمین اور عرش رحمن اس کی چھت ہے، دوزخ کا محل وقوع کسی آیت قرآن یا روایت حدیث میں صراحۃً نہیں بتلایا، سورة طور کی آیت والْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ سے بعض مفسرین نے یہ مفہوم نکالا ہے کہ دوزخ سمندر کے نیچے زمین کے قعر میں ہے جس پر اس وقت کوئی بھاری اور سخت غلاف چڑھا ہوا ہے، جو قیامت میں پھٹ جائے گا اور اس کی آگ پھیل کر پورے سمندر کو آگ میں تبدیل کر دے گی۔- زمانہ حال میں یورپ کے بہت سے ماہرین نے جو زمین کو برما کر ایک طرف سے دوسری طرف جانے کا راستہ بنانے کی کوشش سالہا سال جاری رکھی اور بڑی سے بڑی مشینیں اس کام کے لئے ایجاد کیں، مختلف جماعتوں نے اس پر محنت خرچ کی، سب سے زیادہ جو جماعت کامیاب ہوئی وہ مشینوں کے ذریعہ زمین کی گہرائی میں چھ میل تک پہنچ سکی، مگر چھ میل کے بعد سخت پتھر نے ان کو عاجز کردیا تو پھر دوسری جگہ سے کھدائی شروع کی، مگر وہی چھ میل کے بعد سخت پتھر سے سابقہ پڑا، متعدد جگہوں میں اس کا تجربہ کرنے کے بعد ان کی تحقیق یہ قرار پائی کہ چھ میل کی گہرائی کے بعد کوئی غلاف حجری پوری زمین پر چڑھا ہوا ہے، جس میں کوئی مشین کام نہیں کرسکتی، زمین کا قطر جو ہزاروں میل کا ہے اس میں سے سائنس کے اس عروج کے زمانہ میں سائنس کی رسائی صرف چھ میل تک ہوسکی، آگے غلاف حجری کا اقرار کر کے اپنی کوشش چھوڑنا پڑی، اس واقعہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ زمین پوری کسی غلاف حجری سے بند کی ہوئی ہے، اگر کسی روایت صحیحہ سے جہنم کا محل وقوع اس غلاف کے اندر ہونا ثابت ہوجائے تو کچھ بعید نہیں، واللہ سبحانہ، و تعالیٰ اعلم۔
عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰى ١٥ ۭ- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔
(١٥۔ ١٨) یہ ایسا مقام ہے جہاں تک ہر مقرب فرشتہ اور نبی منتہی ہوجاتا ہے یا یہ کہ ہر ایک مقرب فرشتہ اور نبی مرسل اور عالم راسخ کا علم اس مقام پر پہنچ کر منتہی ہوجاتا ہے اس سدرۃ المنتہی کے قریب جنت الماوی ہے جہاں شہداء کی روحیں ٹھہرتی ہیں جب اس سدرۃ المنتہی کو لپٹ رہی تھیں جو چیزیں لپٹ رہی تھیں یعنی سونے کے پروانے یا یہ کہ نور اور کہا گیا ہے کہ وہ لپٹنے والے فرشتے تھے۔- اور رسول اکرم کی نگاہ ان چیزوں کے دیکھنے سے دائیں بائیں نہ ہٹی اور جبریل امین کو جو اس وقت ان کی اصلی صورت میں چھ سو پروں کے ساتھ دیکھا تو نہ اس سے آپ کی نگاہ آگے بڑھی۔- اور اس وقت رسول اکرم نے اپنے پروردگار کی قدرت کے بڑے بڑے عجائبات دیکھے۔
آیت ١٥ عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی ۔ ” جنت الماویٰ بھی اس کے پاس ہی ہے۔ “- ” جنت الماویٰ “ سب سے اونچے درجے کی جنت ہے ‘ جو ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتہیٰ کے قریب ہے۔ قیامت کے دن اہل جنت کو جہاں ” نزل “ پیش کیا جائے گا وہ جنت تو زمین پر واقع ہوگی۔ اس کے بعد ان میں سے ہر شخص کے اپنے اپنے ایمان و خلوص کی گہرائی اور انفاقِ جان و مال کے تناسب کے حساب سے درجہ بدرجہ ترقی ہوتی جائے گی۔ حتیٰ کہ کچھ خوش قسمت لوگ جنت الماویٰ میں پہنچ جائیں گے۔
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :11 یہ جبریل علیہ السلام سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ملاقات کا ذکر ہے جس میں وہ آپ کے سامنے اپنی اصلی صورت میں نمودار ہوئے ۔ اس ملاقات کا مقام سدرۃ المنتہیٰ بتایا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا گیا ہے کہ اس کے قریب جنت الماویٰ واقع ہے ۔ سدرہ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں ، اور منتہیٰ کے معنی ہیں آخری سرا ۔ سدرۃ المنتہیٰ کے لغوی معنی ہیں وہ بیری کا درخت جو آخری یا انتہائی سرے پر واقع ہے ۔ علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اس کی تشریح یہ کی ہے کہ: الیھا ینتہی علم کل عالم وما وراءھا لا یعلمہ الا اللہ ۔ اس پر ہر عالم کا علم ختم ہو جاتا ہے ، آ گے جو کچھ ہے اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ قریب قریب یہی تشریح ابن جریر نے اپنی تفسیر میں ، اور ابن اَثیر نے النِّہایہ فی غریب الحدیث والاثر میں کی ہے ۔ ہمارے لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ اس عالم مأویٰ کی آخری سرحد پر وہ بیری کا درخت کیسا ہے اور اس کی حقیقی نوعیت و کیفیت کیا ہے ۔ یہ کائنات خداوندی کے وہ اسرار ہیں جن تک ہمارے فہم کی رسائی نہیں ہے ۔ بہرحال وہ کوئی ایسی ہی چیز ہے جس کے لیے انسانی زبان کے الفاظ میں سدرہ سے زیادہ موزوں لفظ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور کوئی نہ تھا ۔ جنتُ الماویٰ کے لغوی معنی ہیں وہ جنت جو قیام گاہ بنے ۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ یہ وہی جنت ہے جو آخرت میں اہل ایمان و تقویٰ کو ملنے والی ہے ، اور اسی آیت سے انہوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ جنت آسمان میں ہے ۔ قَتادہ کہتے ہیں کہ یہ وہ جنت ہے جس میں شہداء کی ارواح رکھی جاتی ہیں ، اس سے مراد وہ جنت نہیں ہے جو آخرت میں ملنے والی ہے ۔ ابن عباس بھی یہی کہتے ہیں اور اس پر وہ یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ آخرت میں جو جنت اہل ایمان کو دی جائے گی وہ آسمان میں نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ یہی زمین ہے ۔
7: یہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنے کا دوسرا واقعہ ہے جو معراج کے سفر میں پیش آیا، اس موقع پر بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ان کی اصلی صورت میں دیکھا، سدرۃ المنتہی عالم بالا میں ایک بیر کا بہت بڑا درخت ہے اور اسی کے پاس جنت واقع ہے جسے جنت المأوی اس لئے کہا گیا ہے کہ مأوی کے معنی ہیں ٹھکانا اور وہ مومنوں کا ٹھکانا ہے۔