16۔ 1 سدرۃ المنتہیٰ کی اس کیفیت کا بیان ہے جب شب معراج میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا مشاہدہ کیا، سونے کے پروانے اس کے گرد منڈلا رہے تھے، فرشتوں کا عکس اس پر پڑ رہا تھا، اور رب کی تجلیات کا مظہر بھی وہی تھا (ابن کثیر) اس مقام پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین چیزوں سے نوازا گیا، پانچ وقت کی نمازیں، سورة بقرہ کی آخری آیات اور اس مسلمان کی مغفرت کا وعدہ جو شرک کی آلودگیوں سے پاک ہوگا۔
(اذ یغشی السدرۃ مایغشی : سدرۃ المنتہی کے مشاہدے کے وقت اس پر انوار کی بارش، فرشوتں کے ہجوم اور سا کے جلال و جمال کے منظر کی نقشہ کشی کے لئے انسان کے اسعتمال میں آنے والی زبانوں کی تنگ ودامنی کی طرف اشارہ ہے۔ (دیکھیے طہ : ٧٨) حدیث میں اس کے متعلق چند اشارے آئے ہیں، ان میں سے ایک کا ذکر پچھلی آیت کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ (وعشیھا الو ان لا ادری ماھی) (دیکھیے بخاری :339)” اور اسے ایسے رنگوں نے ڈھانپا ہوا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے۔ “ انس (رض) نے حدیث معراج میں سدرۃ المنتہی کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ الفاظ بیان فرماتے : (فلما غشیھا من امر اللہ ما غشی تغیرت فما احد من خلق اللہ یستطیع ان ینع تھا من حسنھا فا وحی اللہ الی ماوخی) (مسلم، الایمان، باب الاسراء برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) …١٦٢)” پھر جب اس کو اللہ کے حکم سے ڈھانکا جس چیز نے ڈھانکا تو اس کی حلات بدل گئی، پھر اس کا یہ حال تھا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کوئی اس کی خوب صورتی بیان نہیں کرسکتا ، اس وقت اس نے میری طرف وحی کی جو وحی کی۔ “ اور عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا :(اذ یغشی السدرۃ ما یشغی) قال فراش من ذھب) (مسلم ، الایمان، باب فی ذکر سدرۃ المنتھی :183)” سدرۃ المنتہی کو ڈھانک رہا تھا جو ڈھانک رہا تھا “ سے مراد سونے کے پروانے ہیں۔ “ اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل (علیہ السلام) کو، جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساتھ لے کر گئے تھے، ان کی اصل صورت میں ایک بار پھر دیکھا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے آیت (ولقد راہ نزلۃ اخری ، عند سدرۃ المنتھی) کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(رایت جبریل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولہ ست مائۃ جناح ینتشر مین ریشہ التھاویل الدروالیاقوت) (مسند احمد، ١ ٣٦٠، ح : ٣٣٨٥)” میں نے جبریل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا، اس کے چھ سو بازو تھے اور اس کے پروں سے حیران کن رنگا رنگ موتی اور یا قوت جھڑ رہے تھے۔ “ مسند کے محقق نے فرمایا ”” اسنادہ حسن “ کہ اس کی سند حسن ہے، اور ابن کثیر (رح) نے فرمایا :” ھذا اسناد جید قوی “ کہ اس کی سند جید قوی ہے۔
اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى، یعنی جبکہ ڈھانپ لیا تھا سدرہ کو ڈھانپنے والی چیز نے، صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے یہ روایت ہے کہ اس وقت سدرة المنتہیٰ پر سونے کے بنے ہوئے پروانے ہر طرف گر رہے تھے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس روز سدرة المنتہیٰ کو خاص طور سے سجایا گیا تھا جس میں آنے والے مہمان حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعزاز تھا۔
اِذْ يَغْشَى السِّدْرَۃَ مَا يَغْشٰى ١٦ ۙ- غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ - سدر - السِّدْرُ : شجر قلیل الغناء عند الأكل، ولذلک قال تعالی: وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ [ سبأ 16] ، وقد يخضد ويستظلّ به، فجعل ذلک مثلا لظلّ الجنة ونعیمها في قوله تعالی:- فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة 28] ، لکثرة غنائه في الاستظلال، وقوله تعالی: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ ما يَغْشى[ النجم 16] ، فإشارة إلى مکان اختصّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فيه بالإفاضة الإلهية، والآلاء الجسیمة، وقد قيل : إنها الشجرة التي بویع النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم تحتها»، فأنزل اللہ تعالیٰ السّكينة فيها علی المؤمنین، والسّدر : تحيّر البصر، والسَّادِرُ : المتحيّر، وسَدَرَ شَعْرَهُ ، قيل : هو مقلوب عن دَسَرَ.- ( س د ر ) السدر ( بیری کا ) درخت جس کا پھل بہت کم غذائیت کا کام دیتا ہے ۔ اسی بنا پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ۔ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ [ سبأ 16] اور جن میں کچھ تو جھاؤ تھا اور تھوڑی سی بیریاں ۔ اور کبھی ( گابھا دے کر ) اسے بےکانٹا کر کے اس سے یہ حاصل کیا جاتا ہے اس لئے اسے جنت کے آرام اور اس کی نعمتوں کے لئے بطور مثال کے ذکر کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة 28] بےخار کی بیریوں میں ( مزے کر رہے ) ہوں گے ۔ کیونکہ ایسا درخت بہت زیادہ سایہ دار ہوتا ہے اور آیت : ۔ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ ما يَغْشى[ النجم 16] جب کہ اس بیری پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا ۔ میں السدرۃ سے اس مقام کی طرف اشارہ ہے جہاں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فیوضات الہیہ اور بھاری انعامات سے خاص طور پر نوازا گیا تھا بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ درخت ہے جس کے نیچے آنحضرت نے بیعت رضوان لی تھی اور وہاں اللہ تعالیٰ نے مومنین پر سکینت الہیہ نازل فرمائی تھی ۔ السدر کے معنی خیرہ چشم ہونے کے ہیں اور خیرہ چشم کو سادر کہا جاتا ہے اور سدر شعرہ کے معنی بال لٹکانے کے ہیں ۔ بعض کے نزدیک یہ ( دسر ) سے مقلوب ہے ۔
آیت ١٦ اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی ۔ ” جبکہ چھائے ہوئے تھا سدرہ پر جو چھائے ہوئے تھا۔ “- یعنی تم انسانوں کو کیا بتایا جائے کہ اس بیری کے درخت کی اس وقت کیا کیفیت تھی۔ تم اس کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے ہو۔ وہ انوار و تجلیاتِ الٰہیہ کے نزول کی ایسی کیفیت تھی جو نہ تو کسی زبان سے ادا ہوسکتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کے الفاظ اس کی تعبیر کرسکتے ہیں۔
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :12 یعنی اس کی شان اور اس کی کیفیت بیان سے باہر ہے ۔ وہ ایسی تجلیات تھیں کہ نہ انسان ان کا تصور کر سکتا ہے اور نہ کوئی انسانی زبان اس کے وصف کی متحمل ہے ۔
8: یہ آیت بھی ایک عربی محاورے کے مطابق ہے جس کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ اس کے صحیح تأ ثر کے ساتھ بہت مشکل ہے، مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں اس بیر کے درخت پر چھائی ہوئی تھیں وہ بیان سے باہر ہیں، احادیث میں حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعہ کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت لاتعداد فرشتے سونے کے پروانے کی شکل میں اس درخت پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کے لئے جمع ہوگئے تھے۔