Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی نبی کی نگاہیں دائیں بائیں ہوئیں اور نہ حد سے بلند اور متجاوز ہوئیں جو آپ کے لئے مقرر کردی گئی تھی۔ (ایسر التفاسیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠] بیری کے اس درخت پر اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات پڑ کر انتہائی خوشنما منظر پیش کر رہے تھے جس سے آنکھیں چکا چوند ہوتی جاتی تھیں لیکن اتنے انوار و تجلیات کے باوجود جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل کو دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھیں چندھیائیں اور نہ ہی نگاہ ایک طرف ہٹ کر، یعنی اس نظارہ کے مقابلہ کی تاب نہ لاتے ہوئے ادھر ادھر چلی گئی۔ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٹھیک طرح سے جبریل کو دیکھا تھا اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ دکھانا منظور تھا، وہی کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تھا۔ اسی پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظریں جمی رہیں ادھر ادھر نہیں گئیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(مازاع البصر وما طغی :“” زاغ یزیغ زیغاً “ ٹیڑھا ہونا اور ” طغی یطغی طغیاناً “ حد سے بڑھنا۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کمال ادب، تجمل اور استقامت کا بیان ہے کہ جبریل علیہ السلم کو اور اللہ تعالیٰ کی دوسری آیات کبریٰ کو دیکھتے ہوئے آپ کی نگاہ اٹھی پر مرکوز ہی ، نہ دائیں یا بائیں طرف گئی اور نہ ان سے آگے بڑھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى، زاغ، زیغ سے مشتق ہے، جس کے معنی ٹیڑھا یا بےراہ ہوجانا اور طغیٰ طغیان سے مشتق ہے، جس کے معنی حد سے تجاوز کر جانے کے ہیں، مراد ان دونوں لفظوں سے یہ بیان کرنا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ دیکھا اس میں نظر نے کوئی خطا یا غلطی نہیں کی، یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ بعض اوقات انسان کی نظر بھی خطا کر جاتی ہے، خصوصاً جبکہ وہ کوئی عجیب غیر معمولی واقعہ دیکھ رہا ہو اس شبہ کے جواب میں قرآن کریم نے دو لفظ استعمال فرمائے کیونکہ نظر کی غلطی دو وجہ سے ہو سکتی ہے، ایک یہ کہ جس چیز کو دیکھنا چاہتا تھا نظر اس سے ہٹ کر دوسری طرف چلی گئی، لفظ ما زاغ سے اس قسم کی غلطی کی نفی کی گئی ہے کہ آپ کی نظر کسی دوسری چیز پر نہیں، بلکہ جس کو دیکھنا تھا ٹھیک اسی پر پڑی، دوسری وجہ نظر کی غلطی یہ ہو سکتی ہے کہ نظر پڑی تو اسی چیز پر جس کو دیکھنا مقصود تھا، مگر اس کے ساتھ وہ ادھر ادھر کی دوسری چیزوں کو بھی دیکھتی رہی، اس میں بھی بعض اوقات التباس ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے، اس قسم کی غلطی کے ازالہ کے لئے وماطغیٰ فرمایا۔- جن حضرات نے آیات سابقہ کی تفسیر رویت جبرئیل (علیہ السلام) سے کی ہے، وہ اس آیت کا بھی یہی مفہوم قرار دیتے ہیں کہ جبرئیل امین کے دیکھنے میں آنکھ نے کوئی غلطی نہیں کی، اس کے بیان کی ضرورت اس وجہ سے ہوئی کہ جبرئیل (علیہ السلام) واسطہ وحی ہیں، اگر آپ ان کو اچھی طرح نہ دیکھیں اور نہ پہچانیں تو وحی شبہ سے خالی نہیں رہتی۔- اور جن حضرات نے آیات سابقہ کی تفسیر رویت حق سبحانہ سے کی ہے وہ یہاں بھی یہی فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ سبحانہ کے دیدار میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں نے کوئی غلطی نہیں کی، بلکہ صحیح صحیح دیکھا، البتہ اس آیت نے اس بات کو اور مزید واضح کردیا کہ یہ رویت بچشم سر ہوئی ہے، صرف دل کی رویت نہیں تھی۔- آیات مذکورہ کی تفسیر میں ایک اور تحقیق مفید :- نمونہ اسلاف محدثین حضرت استاذ مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری قدس اللہ سرہ جو بلاشبہ اس زمانہ میں آیة من آیات اللہ اور جحۃ اللہ فی الارض تھے، ان کے علوم بلاشبہ حافظ ابن حجر اور ذہبی جیسے ائمہ حدیث کے علوم کا نمونہ تھے اور مشکلات القرآن پر آپ کی ایک مستقل تصنیف نہایت دقیق علوم و معارف کا خزانہ ہے، سورة نجم کی آیات میں چونکہ صحابہ وتابعین سے لے کر ائمہ مجہتدین اور محدثین و مفسرین کے مختلف اقوال اور ان میں علمی اشکالات معروف و مشہور ہیں مشکلات القرآن میں آپ نے ان آیات کی تفسیر اس طرح فرمائی کہ بیشتر روایات میں تطبیق ہوجائے۔- پھر احقر کے دوسرے استاذ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے جب صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم تحریر فرمائی اور اسراء و معراج کے بیان میں سورة نجم کی ان آیات کا حوالہ آیا تو مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر ان آیات کی تفسیر خود حضرت انور الاساتذہ قدس سرہ کے قلم سے لکھوا کر اس کو اپنی کتاب فتح الملہم کا جز بنایا اور اپنے فوائد القرآن میں بھی اسی کو اختیار فرمایا، اس طرح یہ تحقیق احقر کے دو بزرگ اساتذہ کی متفقہ تحقیق ہوگئی اس کے دیکھنے سے پہلے چند باتیں پیش نظر رہنا چاہئے جو تقریباً سب علماء و ائمہ کے نزدیک مسلم ہیں، اول یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل امین کو ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا اور ان دونوں مرتبہ دیکھنے کا ذکر سورة نجم کی آیات مذکورہ میں موجود ہے، دوسری مرتبہ کس جگہ کس زمانہ میں دیکھا، اس کو تو انہی آیات میں متعین کر کے بتلا دیا ہے کہ یہ رویت ساتویں آسمان پر سدرة المنتہیٰ کے پاس ہوئی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ساتویں آسمان پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تشریف لے جانا صرف لیلتہ المعراج میں ہوا ہے، اس سے اس رویت کی جگہ بھی معلوم ہوگئی اور وقت بھی کہ وہ شب معراج میں ہوئی، پہلی رویت کے محل وقوع اور وقت کا تعین ان آیات میں نہیں ہے، مگر صحیح بخاری باب بدء الوحی میں حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث ذیل سے یہ دونوں چیزیں متعین ہوجاتی ہیں۔- قال وھو یحدث عن فترة الوحی فقال فی حدیثہ بینا انا امشی اذ سمعت صوتا من السمآء فرفعت بصری فاذا الملک الذی جاءنی بحراء جالس علیٰ کرسی بین السمآء والارض فرعبت منہ فرجعت فقلت زملونی فانزل اللہ تعالیٰ یا ایھا المدثر قم فانذر الیٰ قولہ والرجز فاھجر فحمی الوحی وتتابع۔- " رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی میں فترت یعنی وقفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ( ایک روز) جبکہ میں چل رہا تھا اچانک آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، میں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جو حراء میں میرے پاس آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان (معلق) ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے، میں اس سے مرعوب ہو کر گھر لوٹ آیا اور کہا کہ مجھے ڈھانپ دو ، اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورة مدثر کی آیات والرجز فاہجر تک نازل فرمائیں، اور اس کے بعد وحی آسمان مسلسل آنے لگی "۔- اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جبرئیل امین کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنے کا پہلا واقعہ فترة وحی کے زمانہ میں مکہ معظمہ کے اندر اس وقت پیش آیا جب کہ آپ شہر مکہ میں کہیں جا رہے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ پہلا واقعہ معراج سے پہلے زمین مکہ پر اور دوسرا واقعہ ساتویں آسمان پر شب معراج میں پیش آیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى۝ ١٧- زيغ - الزَّيْغُ : المیل عن الاستقامة، والتَّزَايُغُ : التمایل، ورجل زَائِغٌ ، وقوم زَاغَةٌ ، وزائغون، وزاغت الشمس، وزَاغَ البصر، وقال تعالی: وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى ما يداخلهم من الخوف حتی اظلمّت أبصارهم، ويصحّ أن يكون إشارة إلى ما قال : يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] ، وقال : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] ، مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] ، فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ- [ الصف 5] ، لمّا فارقوا الاستقامة عاملهم بذلک .- ( ز ی غ ) الزیغ کے معنی حالت استقامت سے ایک جانب مائل ہوجانا کے ہیں اور التزایغ کے معنی تمایل یعنی بہت زیادہ مائل ہوجانا ایک دوسرے سے مائل ہونا رجل زائغ مائل ہونے والا ۔ اس کی جمع زاغۃ وزائغون آتی ہے ۔ زاغت الشمس ۔ سورج مائل بزوال ہوگیا زاغ البصر نگاہ نے غلطی کی ، ایک طرف ہٹ گئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ خوف و ہراس کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیں آئے گا اور یہ بھی کہ یہ آیت :۔ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] کے ہم معنی ہو یعنی نگاہیں صحیح طور پر کسی چیز کا ادارک نہیں کرسکیں گی ۔ نیز فرمایا : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] نظر نہ تو حقیقت سے ایک طرف ہٹی اور نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا ۔ مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] اس کے بعد کہ ۔۔۔۔ پھرجانے کو تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف 5] کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ از خود صحیح راہ سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو اسی طرف جھکا دیا ۔- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی ۔ ” (اُس وقت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ) آنکھ نہ تو کج ہوئی اور نہ ہی حد سے بڑھی۔ “- یہاں پر دونوں انتہائی کیفیات کی نفی کردی گئی۔ انسان کی فطری اور طبعی کمزوری ہے کہ اگر اسے اچانک بہت تیز روشنی کا سامنا کرنا پڑے تو وہ نظروں کو اس سے پھیرنے اور ہٹانے کی کوشش کرتا ہے یا پلک جھپک لیتا ہے۔ اس حوالے سے یہاں بتایا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انوار و تجلیاتِ اِلٰہیہ کا کھلی آنکھوں سے براہ راست مشاہدہ کیا اور نگاہ جما کر دیکھا۔ لیکن اس مشاہدے میں حد ادب سے تجاوز بھی نہیں کیا۔ - واقعہ یہ ہے کہ اس آیت کو اکثر و بیشتر لوگ سمجھ نہیں سکے۔ جبکہ میں نے اس کے مفہوم کو علامہ اقبال ؔکے اس شعر کی مدد سے سمجھا ہے : ؎- عین ِوصال میں مجھے حوصلہ نظر نہ تھا - گرچہ بہانہ ُ جو رہی میری نگاہ بےادب - یہ بالِ جبریل کی نظم ” ذوق و شوق “ کا شعر ہے۔ یہ نظم بلاشبہ علامہ اقبال کی شاعرانہ استعداد کی معراج ہے ‘ اگرچہ امت ِمسلمہ کے لیے پیغام کے اعتبار سے ان کی آخری عمر (١٩٣٦ ئ) کی نظم ” ابلیس کی مجلس شوریٰ “ نقطہ عروج کا درجہ رکھتی ہے۔ اس شعر میں علامہ کہتے ہیں کہ میں وصال کے دوران ادب کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر محبوب کے حسن کا مشاہد کرنا چاہتا تھا مگر نظریں جما کر براہ راست دیکھنے کا مجھ میں حوصلہ نہ تھا۔ یہاں اقبالؔ اپنی نظر کی ” بےادبی “ کو خود تسلیم کر رہے ہیں اور حد ادب سے تجاوز کرنے کی شدید خواہش کا بھی اعتراف کر رہے ہیں ‘ لیکن ساتھ ہی وہ اپنی معذوری کا بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ ایسا کرنے کا حوصلہ ان میں نہیں تھا۔ گویا صرف وہ حوصلے کے فقدان کی وجہ سے ” بےادبی “ کے ارتکاب سے بچے رہے۔ اب اس شعر میں پیش کیے گئے تصور کی روشنی میں غور کریں تو آیت کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تحمل اور حوصلے کا یہ عالم تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان انوار و تجلیات کو براہ راست دیکھا اور جم کر مشاہدہ کیا۔ لیکن دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ضبط اور ” ادب “ کا کمال یہ تھا کہ ” حوصلہ “ ہوتے ہوئے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ایک خاص حد سے سرموتجاوز نہ ہوا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :13 یعنی ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال تحمل کا حال یہ تھا کہ ایسی زبردست تجلیات کے سامنے بھی آپ کی نگاہ میں کوئی چکا چوند پیدا نہ ہوئی اور آپ پورے سکون کے ساتھ ان کو دیکھتے رہے ۔ دوسری طرف آپ کے ضبط اور یکسوئی کا کمال یہ تھا کہ جس مقصد کے لیے آپ نے ایک تماشائی کی طرح ہر طرف نگاہیں دوڑانی نہ شروع کر دیں ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو ایک عظیم و جلیل بادشاہ کے دربار میں حاضری کا موقع ملتا ہے اور وہاں وہ کچھ شان و شوکت اس کے سامنے آتی ہے جو اس کی چشم تصور نے بھی نہ دیکھی تھی ۔ اب اگر وہ شخص کم ظرف ہو تو وہاں پہنچ کر بھونچکا رہ جائے گا ، اور اگر آداب حضوری سے ناآشنا ہو تو مقام شاہی سے غافل ہو کر دربار کی سجاوٹ کا نظارہ کرنے کے لیے ہر طرف مڑ مڑ کر دیکھنے لگے گا ۔ لیکن ایک عالی ظرف ، ادب آشنا اور فرض شناس آدمی نہ تو وہاں پہنچ کر مبہوت ہو گا اور نہ دربار کا تماشا دیکھنے میں مشغول ہو جائے گا ، بلکہ وہ پورے وقار کے ساتھ حاضر ہو گا اور اپنی ساری توجہ اس مقصد پر مرتکز رکھے گا جس کے لیے دربار شاہی میں اس کو طلب کیا گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی خوبی ہے جس کی تعریف اس آیت میں کی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: یعنی نہ تو نگاہ نے دیکھنے میں کوئی دھوکا کھایا، اور نہ وہ اس حد سے آگے بڑھی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر فرمادی تھی کہ اس سے آگے نہ دیکھے۔