18۔ 1 جن میں جبرائیل (علیہ السلام) اور سدرۃ المنتہیٰ کا دیکھنا اور دیگر مظاہر قدرت کا مشاہدہ ہے جس کی کچھ تفصیل احادیث معراج میں بیان کی گئی ہے۔
[١١] جبرئیل (علیہ السلام) بھی اللہ کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں :۔ اس آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پروردگار کو نہیں دیکھا تھا بلکہ اس کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی کو دیکھا تھا۔ کیونکہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فی الواقع اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہوتا تو یہ اتنی اہم اور فضیلت والی بات تھی کہ اس کا ذکر صراحت کے ساتھ ہونا ضروری تھا کیونکہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی لَنْ تَرََانِیْ کا جواب ملا تھا۔ یہ بڑی بڑی نشانیاں کیا تھیں ؟ اس کی تفصیل اللہ ہی جانتا ہے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی اللہ تعالیٰ نے (مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ ) دکھائی تھیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ایسے مواقع پر انبیاء (علیہم السلام) کی آنکھوں سے غیب کے کچھ پردے ہٹا دیئے جاتے ہیں جیسے آپ کو جنت اور دوزخ کے بعض مناظر دکھادیئے گئے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
(١) لقد رای من ایت ربہ الکبری :” من “ تبعیض کے لئے ہے، یعنی قسم ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔ ان بہت بڑی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی تو جبریل (علیہ السلام) ہیں، جنہیں دو دفعہ دیکھنے کے ذکر کے لئے یہ آیات نازل ہوئیں، اس کے علاوہ احادیث معراج میں اور بہت سی نشانیوں کا ذکر ہے جنہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر دیکھا۔ ان میں براق، ساتوں آسمانوں کے عجائبات اور ان پر انبیائے کرام کی ملاقات، دجال، سدرۃ المنتہی، جنت و جہنم، جہنم کا خازن مالک، نہر کوثر، بیت المور ، چار دریا، وہ (مستوی) بلند ہموار جگہ جس پر چڑھے تو قلموں کے چلنے کی آواز سنیں اور دوسری نشانیاں شامل ہیں، اختصار کے پیش نظر ان کی تفصیل ترک کی جاتی ہے۔- (٢) یہ آیت واضح دلیل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمراج کی رات اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ ” لقد “ کے تاکیدی الفاظ کے ساتھ یہ نہ فرماتے کہ ” بلاشبہ یقیناً اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں “ بلکہ یہ فرماتے کہ ” بلاشبہ یقیناً اس نے اپنے رب اعلیٰ کو دیکھا۔ “- (٣) جیسا کہ پیچھے گزرا ہے کہ ” شدید القوی “ اور ” ذومرۃ “ سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں اور ”’ نا فتدلی “ اور ” فکان قاب قوسین “ کی ضمیر غائب سے بھی وہی مراد ہیں اور ” ولقد راہ “ میں ضمیر ” ہ “ سے مراد بھی جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ قرآن مجید سے اس کی تائید اور صحیح روایات سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی تفسیر بھی گزر چکی ہے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) اور عائشہ (رض) سے بھی یہی تفسیر مروی ہے۔ (دیکھیے مسلم، الایمان، باب معنی قول اللہ عزوجل :(ولقد راہ نزلۃ اخری)…: ١٨٥، ١٨٨)- مگر بعض مفسرین نے ان الفاظ اور ضمیروں کا مصداق اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دو دفعہ دیکھا ہے اس کی تائید میں انہوں نے ابن عباس (رض) کا قول پیش کیا ہے :(عن ابی العالیہ عن ابن عباس قال :(ماکذب الفواد ما ریا) (ولقد راہ نزلۃ اخری) (قال راہ بفوادہ مرتین) (مسلم، الایمان، باب معنی قول اللہ عزوجل :(ولقد راہ نزلۃ اخری)…١٨٦)” ابوالعالیہ نے ابن عباس (رض) سے ” ما کذب الفوائد ما رای “ اور ” ولقد راہ نزلہ اخری “ کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنے دل کے ساتھ دوبارہ دیکھا۔ “ اس میں شک نہیں کہ آیات کے الفاظ میں ابن عباس (رض) والی تفسیر کی گنجائش موجود ہے، مگر صحیح مسلم میں عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس سے مراد جبریل (رض) ہی۔ ظاہر ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صراحت کے بعد کسی اور تفسیر کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اب آپ حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں، مسروق کہتے ہیں کہ میں عائشہ (رض) کے ہاں ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے فرمایا :(یا ابا عائشۃ ثلاث من تکلم بواحدۃ منھن فقد اعظم علی اللہ الفریۃ ، قلت ماھن ؟ قالت من زعم ان محمداً (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رای ربہ فقد اعظم علی اللہ الفریۃ ، قال وکنت متکفا فجلست فقلت با ام المومنین انظرینی ولا تعجلینی الم یفل اللہ عزوجل :(ولقد راہ بالافق المبین) (التکویر : ٢٣) (ولقد راہ نزلہ اخری) (النجم : ١٣) فقالت انا اول ھذہ الامۃ سال عن ذلک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال انما ھو جبریل لم ارہ علی صورتہ التی خلق علیھا غیر ماتین المرتبین رایتہ منھطا من السمآء سادا عظم خلقہ ما بین السماء الی الارض فقالت او لم تسمع ان اللہ یقول (لاتدر کہ الاصبار، وھو یدرک الابصار، وھو اللطیف الخیر) (الانعام : ١٠٣) او لم تسمع ان اللہ یقول (وما کان لبشر ان یکلمۃ اللہ الا وحیا اومن ورآی حجاب او یرسل رسولاً فیوحی باذنہ ما یشآء انہ علی حکیم) (الشوری : ٥١) (مسلم ، الایمان، باب معنی قول اللہ عزوجل :(ولقدراہ نزلۃ اخری)…١٨٨)- ” اے ابو عائشہ تین باتیں ایسی ہیں کہ جو ان میں سے ایک بات بھی کہے اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ “ میں نے کہا، ” وہ کیا ہیں ؟ “ انہوں نے فرمایا :” جو شخص یہ گمان کر کے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ “ مسروق کہتے ہیں، میں ٹیک لگائے ہوئے تھا، یہ سن کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور میں نے کہا :” ام المنین مجھے کچھ مہلت دیں جلدی نہ کریں، کیا اللہ عزوجل نے یہ نہیں فرمایا :(ولقد راہ بالافق المبین) (التکویر : ٢٣)” اور بلاشبہ یقیناً اس نے اس کو (آسمان کے) روشن کنارے پر دیکھا ہے۔ “ تو انہوں نے فرمایا :” اس امت میں جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق سب سے پہلے پوچھا وہ میں ہوں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” وہ تو جبریل (علیہ السلام) ہیں، میں نے انہیں ان کی اس صورت میں ، جس میں انہیں پیدا کیا گیا ہے، ان دو مرتبہ کے سوا نہیں دیکھا۔ میں نے انہیں آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، ان کے عظیم وجود نے آسمان و زمین کے مابین کو پر کر رکھا تھا۔ “ پھر ام المومنین (رض) نے فرمایا :” کیا تم نے نہیں سنا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :(لاتدر کہ الابصار، وھویدرک الابصار، وھو اللطیف الخبیر) (الانعام : ١٠٣)” اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بین، سب خبر رکھنے والا ہے۔ “ اور کیا تم نے سنا نہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :(وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الاوحیا اومن ورآی حجاب او یرسل رسولاً فیوحی باذنہ ما یشآء انہ علی حکیم) (الشوری : ٥١)” اور کسیب شر کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے ، یا یہ کہ وہ کوئی رسول بھیجے، پھر اپنے حکم کے ساتھ وحی کرے جو چاہے، بیشک وہ بےحد بلند، کمال حکمت والا ہے۔ “- ابن کثیر (رح) نے فرمایا :” ابن عباس (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لد سے دیکھنا مروی ہے، ایک روایت میں مطلق دیکھنے کا بھی ذکر ہے مگر اس سے مراد بھی دل سے دیکھنا ہی ہے اور جنہوں نے ان سے آنکھوں کے ساتھ دیکھنا روایت کیا ہے انہوں نے غریب بات کی ہے، کیونکہ اس (آنکھوں کے ساتھ دیکھنے) کے بارے میں صحابہ کرام (رض) سے کوئی چیز ثابت نہیں اور بغوی نے اپنی تفسیر میں جو فرمایا ہے کہ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو آنکھوں کے ساتھ دیکھا ہے اور یہ انس، حسن اور عکرمہ کا قول ہے، تو بغوی کی اس بات میں نظر ہے۔ “ (ابن کثیر)- المختصر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھنا کسی صحابی سے صحیح سند کے ساتھ مروی نہیں۔ ابن عباس (رض) نے دل کے ساتھ دیکھنے کی جو بات کی ہے اگر ان آیات کے پیش نظر کی ہے تو درست نہیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصریح کے خلاف ہے۔ ہاں، نیند کی حالت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صحیح سندوں کیساتھ ثابت ہے اور یہ دیکھنا دل ہی کے خلاف ہے۔ ہاں ، نیند حالت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صحیح سندوں کے ساتھ ثابت ہے اور یہ دیکھنا دل ہی کے ساتھ تھا، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یاعائشۃ ان عینی تنامان ولا ینامق لبی) (بخاری، صلاۃ التراویح، باب فصل من قام رمضان : ٢٠١٣)” اے عائشہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دلن ہیں سوتا۔ “ یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حالت نیند میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے سے متعلق ایک حدیث درج کی جاتی ہے معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں : ” ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز کے لئے ہمارے پاس آنے سے رکے رہے، یہاں تک کہ قریب تھا کہ ہم سورج کی ٹکیا کو دیکھ لیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلدی ج کے ساتھ آئے ، نماز کی اقامت کہی گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نمازپ ڑھائی اور نماز میں اختصار فرمایا۔ ، جب سلام پھیرا تو ہمیں اونچی آواز کے ساتھ فرمایا :” اپنی اپنی صفوں میں بیٹھے رہو۔ “ پھر فرمایا :(اما انی ساحد تکم ما حبسنی عنکم الغداۃ انی فمت من اللیل فتوضات وصلیت ما قدرلی فنعست فی صلاتی حتی استقک فاذا انا بربی تبارک و تعالیٰ فی من اللیل فتوضات وصلیت ما قدرلی فنعست فی صلاتی حتی استقلت فاذا انا بربی تبارک و تعالیٰ فی احسن صورۃ فقال یا محمد قلت لبیک رب قال فیم یختصم الملا الاعلی ؟ قلت لا اذری رب قالھا ثلاثاً قال فرایتہ وضع کفہ بین کتفی قدو جدت برداناملہ بین ثدیی فتجلی لی کل شیء و عرفت ) (ترمذی، التفسیر، سورة ص : ٣٢٣٥)” سنو میں تمہیں بتاؤں گا کہ آج صبح مجھے تمہارے پاس آنے سے کس چیز نے روکے رکھا۔ آج رات میں اٹا، وضو کی ا اور جتنی میری قسمت میں نماز تھی وہ نماز میں نے پیڑھی، پھر مجدھے نماز میں اونگھ آگئی یہاں تک کہ میں بھایر ہوگیا ۔ اچانک دیکھتا ہوں کہ میرا رب خوبصورت ترین شکلمیں میرے سامنے ہے، تو اس نے فرمایا : ” اے محمد “ میں نے کہا :” میں حاضر ہوں اے میرے رب “ فرمایا :” ملا العیٰ کس بات میں بحثک ر رہے ہیں ؟ “ میں نے کہا، ” میں نہیں جانتا۔ “ تین دفعہ فرمایا۔ (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا) : ” تو میں نے اسے (اپنے رب کو) دیکھنا کہ اس نے اپنی کف میرے کندھوں کے درمیان رکھی، تو میں نیا س کے پوروں کی ٹھنڈک اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان محسوس کی، تو میرے لئے (ملا اعلی کی بحث کے متعلق ) ہر چیز روشن ہوگئی اور میں نے اسے جان لیا۔ “ آگے لمبی حدیث ہے، ترمذی نے فرمایا :” یہ حدیث حسن صحیح ہے اور میں نے محمد بن اسمعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا :” یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ “- امام ترمذی نے ابن عباس (رض) سے بھی نفاق فرق کے ساتھ یہ روایت بیان کی ہے اور شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ مسند احمد (١ ٢٨٥) میں ابن عباس (رض) سے مروی حدیث ” رایت ربی بارک و تعالیٰ “ (میں نے اپنے رب عزو جل کو دیکھا) اسی سند والی حدیث کا اختصار ہے، کیونکہ امام احمد نے ابن عباس (رض) سے خواب میں دیکھنے کی مفصل حدیث بھی روایت کی ہے جو پیچھے ترمذی کے حوالیسے گزری ہے۔- صحیح بخاری میں انس (رض) سے مروی حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر ہے :(ودنا الجبار رب العزۃ قتدلی حتی کان منہ قاب قوسین او ادنی فاوحی اللہ فیما اوخی الیہ حمسین صلاۃ علی امتک قل یوم ولیلۃ) (بخاری، التوحید، باب ماجء فی قولہ عزوجل :(وکلم اللہ موسیٰ تکلیما): ٨٥١٨)” اور جبار رب العزت قریب آیا پھر اتر آیا، یہاں تک کہ اس سے دو کمانوں کے فاصلے پر ہوگیا یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو وحی فرمائی، اس میں آپ کی امت پر دن رات میں پچاس نمازوں کی وحی فرمائی۔ “ یہ لمبی حدیث ہے، اس حدیث کے شروع اور آخر میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ معاملہ نیند کا تھا اور نیند میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں کوئی اختلاف نہیں۔ رہی یہ بات کہ کیا معراج متعدد بار ہوا ہے، تو اعہل علم نے فرمایا کہ بیداری کی حالت میں معراج ایک ہی دفعہ ہوا ہے، اس سے پہلے تمہید کے طور پر پہلے خواب میں آپ کو یہ سب کچھ دکھایا گیا۔ تفصیل کے لئے دیکھیے ابن کثیر میں تفسیر سورة بنی اسرائیل اور فتح الباری میں شرح حدیث مذکور۔ تفسیر ہذا میں سورة انعام کی آیت (١٠٣) کی تفسیر پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
دوسری بات یہ بھی سب کے نزدیک مسلم ہے کہ سورة نجم کی ابتدائی آیات میں کم از کم آیت وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى سے لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى تک سب آیتیں واقعہ معراج کے متعلق ہیں۔- امور مذکورہ کے پیش نظر استاذ محترم حجۃ الاسلام حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہ نے سورة نجم کی ابتدائی آیات کی تفسیر اس طرح فرمائی ہے کہ :- قرآن کریم نے اپنے عام اسلوب کے مطابق سورة نجم کی ابتدائی آیتوں میں دو واقعات کا ذکر فرمایا ہے کہ واقعہ جبرئیل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں اس وقت دیکھنے کا ہے جب کہ آپ فترت وحی کے زمانے میں مکہ مکرمہ میں کسی جگہ جا رہے تھے اور یہ واقعہ اسراء و معراج سے پہلے کا ہے۔- دوسرا واقعہ شب معراج کا ہے جس میں جبرئیل امین کو ان کی اصلی صورت میں دوبارہ دیکھنے سے کہیں زیادہ دوسرے عجائب اور اللہ تعالیٰ کی آیات کبریٰ کا دیکھنا مذکور ہے، ان آیات کبریٰ میں خود حق تعالیٰ سبحانہ کی زیارت و رویت کا شامل ہونا بھی متحمل ہے۔- سورة نجم کی ابتدائی آیات کا اصل مضمون رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ کی وحی میں شبہات نکالنے والوں کا جواب ہے کہ ستاروں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ ارشادات امت کو دیتے ہیں، نہ ان میں کسی غیر اختیاری غلطی کا امکان ہے نہ اختیاری غلطی کا اور یہ آپ جو کچھ فرماتے ہیں اپنی کسی نفسانی غرض سے نہیں کہتے بلکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی وحی ہوتی ہے، پھر چونکہ یہ وحی حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے واسطے سے بھیجی جاتی ہے وہ بحیثیت معلم و مبلغ وحی پہنچاتے ہیں اس لئے جبرئیل امین کی مخصوص صفات اور عظمت شان کا بیان کئی آیتوں میں ذکر فرمایا، اس میں زیادہ تفصیل کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ مشرکین مکہ اسرافیل، میکائیل فرشتوں سے تو واقف تھے، جبرئیل سے واقف نہ تھے، بہرحال جبرئیل کی صفات بیان کرنے کے بعد پھر اصل مضمون وحی کو بیان فرمایا فَاَوْحٰٓى اِلٰى عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى، یہاں تک یہ سب گیارہ آیتیں ہیں جن میں وحی و رسالت کی توثیق کے ضمن میں جبرئیل امین کی صفات کا ذکر ہے اور غور کیا جائے تو یہ سب صفات جبرئیل امین پر بےتکلف صادق آتی ہیں، ان کو اگر اللہ تعالیٰ کی صفت قرار دیا جائے جیسا کہ بعض مفسرین نے کیا ہے تو تکلف و تاویل سے خالی نہیں، مثلاً شَدِيْدُ الْقُوٰى، ذُوْ مِرَّةٍ ، دَنَا فَتَدَلّٰى، ۙفَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى، ان کلمات کو تاویل کے ساتھ تو حق تعالیٰ کے لئے کہا جاسکتا ہے مگر بےتاویل و بےتکلف اس کا مصداق جبرئیل امین ہی ہو سکتے ہیں، اس لئے ان ابتدائی آیات میں جس رویت اور قرب و اتصال کا ذکر ہے وہ سب حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی رویت سے متعلق قرار دینا ہی اقرب و اسلم معلوم ہوتا ہے۔- البتہ اس کے بعد بارہویں آیت مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى، سے لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى، تک جن میں واقعہ اسراء و معراج کا بیان ہو رہا ہے، اس میں بھی جبرئیل امین کا دوبارہ بصورت اصلیہ دیکھنا اگرچہ مذکور ہے، مگر دوسری آیات کبریٰ کے ضمن میں ہے، جن میں رویت باری تعالیٰ کے شامل ہونے کا احتمال بھی جو موید بالاحادیث الصحیحہ و اقوال صحابہ وتابعین ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس لئے مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى کی تفسیر یہ ہے کہ جو کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آنکھ سے دیکھا آپ کے قلب مبارک نے اس کی تصدیق کی کہ صحیح دیکھا، اس تصدیق میں قلب مبارک نے کوئی غلطی نہیں کی، اسی کو ماکذب کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس میں " جو کچھ دیکھا " کے الفاظ عام ہیں، ان میں جبرئیل امین کا دیکھنا بھی شامل ہے اور جو کچھ شب معراج میں آپ نے دیکھا وہ سب شامل ہے اور اس میں سب سے اہم خود حق تعالیٰ کی رویت و زیارت ہے، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اگلی آیت میں ارشاد ہے اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰي مَا يَرٰى، جس میں مشرکین مکہ کو خطاب ہے کہ آپ نے جو کچھ دیکھا یا آئندہ دیکھیں گے وہ جھگڑا اور اختلاف کرنے یا شک و شبہ میں پڑنے کی چیز نہیں عین حق و حقیقت ہے، اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰي مَا قَد رَاٰى، بلکہ عَلٰي مَا يَرٰى بصیغہ مستقبل فرمایا، جس میں اگلی رویت جو لیلتہ المعراج میں ہونے والی تھی اس کی طرف اشارہ اور اس کے بعد کی آیت وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى میں اس کی تصریح ہے اور اس آیت میں بھی دونوں رویتوں کا احتمال ہے، یعنی رویت جبرئیل (علیہ السلام) اور رویت حق تعالیٰ ، جبرئیل (علیہ السلام) کی رویت تو ظاہر ہے اور حق تعالیٰ کی رویت کی طرف اشارہ اس طرح پایا جاتا ہے کہ رویت کے لئے قرب عادةً ضروری ہے، جیسا کہ حدیث میں حق تعالیٰ کا نزول سماء دنیا کی طرف آخر شب میں مذکور ہے عند سدرة المنتھیٰ کا مفہوم یہ ہے کہ جس وقت آپ سدرة المنتہیٰ کے پاس تھے جو مقام قرب ہے حق تعالیٰ کے ساتھ اس وقت دیکھا، اس میں حق تعالیٰ کی زیارت بھی مراد ہونے پر یہ حدیث شاہد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔- و اتیت سدرة المنتھیٰ فغشیتنی ضبابة خررت لھا ساجدا وھذہ الضبابة ھی الظلل من الغمام التی یاتی فیھا اللہ ویتجلی۔- " میں سدرة المنتہیٰ کے پاس پہنچا تو مجھے بادل کی طرح کی کسی چیز نے گھیر لیا، میں اس کے لئے سجدہ میں گر پڑا، قیامت کے روز محشر میں حق تعالیٰ کا ظہور قرآن کریم کی ایک آیت میں اسی طرح مذکور ہے کہ بادلوں کے سایہ کی طرح کی کوئی چیز ہوگی اس میں حق تعالیٰ نزول اجلال فرمائیں گے "۔- اسی طرح اگلی آیت مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى کا مفہوم بھی دونوں رویتوں کو شامل ہے اور اس سے یہ مزید ثابت ہوا کہ یہ رویت حالت بیداری میں آنکھوں سے ہوئی ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ جن آیات میں لیلتہ المعراج کا ذکر ہے ان میں رویت کے بارے میں جتنے الفاظ آئے ہیں ان سب میں رویت جبرئیل اور رویت حق سبحانہ دونوں محتمل ہیں اور بھی حضرات نے ان کی تفسیر رویت حق تعالیٰ سے کی ہے، اس کی گنجائش الفاظ قرآن میں موجود ہے۔- رویت باری کا مسئلہ :- تمام صحابہ وتابعین اور جمہور امت اس پر متفق ہیں کہ آخرت میں اہل جنت و عام مومنین حق تعالیٰ کی زیارت کریں گے، جیسا کہ احادیث صحیحہ اس پر شاہد ہیں، اس سے اتنا معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رویت و زیارت کوئی امر محال یا ناممکن نہیں، البتہ عام دنیا میں انسانی نگاہ میں اتنی قوت نہیں جو اس کو برداشت کرسکے اس لئے دنیا میں کسی کو رویت و زیارت حق تعالیٰ کی نہیں ہو سکتی، آخرت کے معاملہ میں خود قرآن کریم کا ارشاد ہے فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ، یعنی آخرت میں انسان کی نگاہ تیز اور قوی کردی جائے گی اور پردے ہٹا دیئے جائیں گے، حضرت امام مالک نے فرمایا کہ دنیا میں کوئی انسان اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا کیونکہ اس کی نگاہ فانی ہے اور اللہ تعالیٰ باقی، پھر جب آخرت میں انسان کو غیر فانی نگاہ عطا کردی جائے گی تو حق تعالیٰ کی رویت میں کوئی مانع نہ رہے گا، تقریباً یہی مضمون قاضی عیاض سے بھی منقول ہے اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس کی تقریباً تصریح ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : واعلموا انکم لن تروا ربکم حتی تموتوا (فتح الباری، ص 493 ج 8) اس سے امکان تو اس کا بھی نکل آیا کہ عالم دنیا میں بھی کسی وقت خصوصی طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگاہ میں وہ قوت بخش دی جائے جس سے وہ حق تعالیٰ کی زیارت کرسکیں، لیکن اس عالم سے باہر نکل کر جبکہ شب معراج میں آپ کو آسمانوں اور جنت و دوزخ اور اللہ تعالیٰ کی خاص آیات قدرت کا مشاہدہ کرانے ہی کے لئے امتیازی حیثیت سے بلایا گیا، اس وقت تو حق تعالیٰ کی زیارت اس عام ضابطہ سے بھی مستثنیٰ ہے کہ اس وقت آپ اس عالم دنیا میں نہیں ہیں، ثبوت امکان کے بعد مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ کیا رویت واقع ہوئی یا نہیں ؟ اس معاملہ میں روایات حدیث مختلف اور آیات قرآن محتمل ہیں، اسی لئے صحابہ وتابعین اور ائمہ دین میں یہ مسئلہ ہمیشہ زیر اختلاف ہی رہا، ابن کثیر نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے رویت حق سبحانہ و تعالیٰ کو ثابت فرماتے ہیں اور سلف صالحین کی ایک جماعت نے ان کا اتباع کیا ہے اور صحابہ وتابعین کی بہت سی جماعتوں نے اس سے اختلاف کیا ہے، آگے دونوں جماعتوں کے دلائل وغیرہ بیان کئے ہیں۔- اسی طرح حافظ نے فتح الباری تفسیر سورة نجم میں اس اختلاف صحابہ وتابعین کے ذکر کرنے کے بعد بعض اقوال ایسے بھی نقل کئے جن سے ان دونوں مختلف اقوال میں تطبیق ہو سکے اور فرمایا کہ قرطبی نے مفہم میں اس بات کو ترجیح دی ہے کہ ہم اس معاملہ میں کوئی فیصلہ نہ کریں، بلکہ توقف اور سکوت اختیار کریں، کیونکہ یہ مسئلہ کوئی عملی مسئلہ نہیں جس کے کسی ایک رخ پر عمل کرنا ناگزیر ہو، بلکہ یہ مسئلہ عقیدہ کا ہے جس میں جب تک قطعی الثبوت دلائل نہ ہوں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا اور جب تک کسی امر میں قطعی بات نہ معلوم ہو حکم ثبوت اور توقف کا ہے (فتح الباری، ص 494 ج 8) احقر کے نزدیک یہی اسلم و احوط ہے، اس لئے اس مسئلہ کے دو طرفہ دلائل و وجوہات کو ذکر نہیں کیا، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّہِ الْكُبْرٰى ١٨- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- تَّكْبِيرُ ، اکبر، کبار - والتَّكْبِيرُ يقال لذلک، ولتعظیم اللہ تعالیٰ بقولهم : اللہ أَكْبَرُ ، ولعبادته واستشعار تعظیمه، وعلی ذلك : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة 185] ، وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء 111] ، وقوله : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر 57] فهي إشارة إلى ما خصّهما اللہ تعالیٰ به من عجائب صنعه، وحکمته التي لا يعلمها إلّا قلیل ممّن وصفهم بقوله : وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران 191] فأمّا عظم جثّتهما فأكثرهم يعلمونه . وقوله : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] فتنبيه أنّ كلّ ما ينال الکافر من العذاب قبل ذلک في الدّنيا وفي البرزخ صغیر في جنب عذاب ذلک الیوم .- والْكُبَارُ أبلغ من الْكَبِيرُ ، والْكُبَّارُ أبلغ من ذلك . قال تعالی: وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح 22] .- التکبیر ( تفعیل ) اس کے ) ایک معنی تو کسی کو بڑا سمجھنے کے ہیں ۔ اور دوم اللہ اکبر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی عظمت کا احساس ر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة 185] اور اس احسان کے بدلے کو خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو ۔۔ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء 111] اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو ۔ اور آیت : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر 57] آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کر نا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے ۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ میں اکبر کا لفظ سے قدرت الہی کی کاریگری اور حکمت کے ان عجائب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ جو آسمان اور زمین کی خلق میں پائے جاتے ہیں ۔ اور جن کو کہ وہ خاص لوگ ہی جان سکتے ہیں ۔ جن کی وصف میں فرمایا ۔ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران 191] اور آسمان اور زمین پیدا ئش میں غور کرتے ہیں ۔ ور نہ ان کی ظاہری عظمت کو تو عوام الناس بھی سمجھتے ہیں ( اس لئے یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں ) اور آیت : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ روز قیامت سے پہلے دنیا یا علم برزخ میں کافر کو جس قد ر بھی عذاب ہوتا ہے عذاب آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ۔ الکبار ۔ اس میں کبیر کے لفظ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اور کبار ( بتشدید یاء ) اس سے بھی زیادہ بلیغ ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح 22] اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے ۔
آیت ١٨ لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی ۔ ” انہوں نے اپنے رب کی عظیم ترین آیات کو دیکھا۔ “- معراج کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشاہدے سے متعلق صحابہ کرام میں بھی دو آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ صحابہ (رض) کا خیال ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کو دیکھا ‘ جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کو نہیں دیکھا بلکہ انوارِالٰہیہ کا مشاہدہ کیا۔ حضرت عائشہ (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اس بات کے قائل تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ حضرت عائشہ (رض) تو یہاں تک فرمایا کرتی تھیں کہ ” جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا افترا کرتا ہے “۔ صحیح مسلم (کتاب الایمان) میں حضرت ابوذر غفاری (رض) سے عبداللہ بن شفیق (رح) کی دو روایتیں منقول ہیں۔ ایک روایت میں حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : ھَلْ رَاَیْتَ رَبَّکَ ” کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : (نُوْرٌ اَنّٰی اَرَاہُ ؟ ) ” ایک نور تھا ‘ میں اسے کیسے دیکھتا ؟ “ دوسری روایت میں حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میرے اس سوال کا جواب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیا کہ (رَاَیْتُ نُوْرًا) ” میں نے ایک نور دیکھا تھا “۔ علامہ ابن القیم (رح) نے ” زاد المعاد “ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلے ارشاد کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ” میرے اور رویت باری تعالیٰ کے درمیان نور حائل تھا “۔ جبکہ دوسرے ارشاد کا مطلب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ” میں نے اپنے رب کو نہیں بلکہ بس ایک نور دیکھا “۔ البتہ حضرت عبداللہ بن عباس سے منسوب روایات میں رویت ِباری تعالیٰ کا اثبات ملتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ اس حوالے سے یہ واضح کرتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی عظیم آیات کا مشاہدہ کیا ۔ چناچہ یہ آیت اول الذکر کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا مشاہدہ کیا نہ کہ خود اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں سفر معراج کے پہلے حصے (مسجد حرام تا مسجد اقصیٰ ) کا ذکر ہوا ‘ وہاں بھی یہ ارشاد ہوا ہے کہ ہم اپنے بندے کو اس لیے لے گئے تھے لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ” تاکہ اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں “۔ لیکن وہاں ” زمینی آیات “ کے مشاہدے کی بات ہوئی ہے ‘ جبکہ ان آیات میں سفر معراج کے دوسرے مرحلے کے دوران سدرۃ المنتہیٰ کے مقام کی آیات و تجلیات کے مشاہدے کا ذکر ہے۔ یہ مقام کسی مخلوق کی رسائی کی آخری حد ہے۔ اس سے آگے ” حریم ذات “ ہے ‘ جہاں کسی غیر کا کوئی دخل ممکن نہیں۔ اس مقام خاص اور اس آخری حد پر لے جا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاص الخاص آیات الٰہیہ کا مشاہدہ کرایا گیا جنہیں آیت زیر مطالعہ میں ” آیات الکبریٰ “ کہا گیا ہے ۔
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :14 یہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ اس کی عظیم الشان آیات کو دیکھا تھا ۔ اور چونکہ سیاق و سباق کی رو سے یہ دوسری ملالات ( ملاقات ) بھی اسی ہستی سے ہوئی تھی جس سے پہلی ملاقات ہوئی ، اس لیے لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ افق اعلیٰ پر جس کو آپ نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا وہ بھی اللہ نہ تھا ، اور دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جس کو دیکھا وہ بھی اللہ نہ تھا ۔ اگر آپ نے ان مواقع میں سے کسی موقع پر بھی اللہ جل شانہ کو دیکھا ہوتا تو یہ اتنی بڑی بات تھی کہ یہاں ضرور اس کی تصریح کر دی جاتی حضرت موسیٰ کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی درخواست کی تھی اور انہیں جواب دیا گیا تھا لَنْ تَرَانِیْ ، تم مجھے نہیں دیکھ سکتے ( المائدہ:143 ) ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اگر یہ شرف ، جو حضرت موسیٰ کو عطا نہیں کیا گیا تھا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کر دیا جاتا تو اس کی اہمیت خود ایسی تھی کہ اسے صاف الفاظ میں بیان کر دیا جاتا ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ حضور نے اپنے رب کو دیکھا تھا ، بلکہ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے سورہ بنی اسرائیل میں بھی یہ ارشاد ہوا ہے کہ ہم اپنے بندے کو اس لیے لے گئے تھے کہ اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں ۔ ( لِنُرِیَہ مِنْ ایَٰاتِنَا ) ، اور یہاں سدرۃ المنتہیٰ پر حاضری کے سلسلے میں بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں ( لَقَدْ رَایٰ مِنْ ایٰتِ رَبِّہِ الْکُبْریٰ ) ۔ ان وجوہ سے بظاہر اس بحث کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں مواقع پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا یا جبریل علیہ السلام کو؟ لیکن جس وجہ سے یہ بحث پیدا ہوئی وہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر احادیث کی روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ذیل میں ہم ترتیب وار ان احادیث کو درج کرتے ہیں جو اس سلسلے میں مختلف صحابہ کرام سے منقول ہوئی ہیں ۔ ( 1 ) ۔ حضرت عائشہ کی روایات: بخاری ، کتاب التفسیر میں حضرت مَسْروق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے عرض کیا ، اماں جان ، کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا تمہاری اس بات سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ تم یہ کیسے بھول گئے کہ تین باتیں ایسی ہیں جن کا اگر کوئی شخص دعویٰ کرے تو جھوٹا دعویٰ کرے گا ۔ ( ان میں سے پہلی بات حضرت عائشہ نے یہ فرمائی کہ ) جو شخص تم سے یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹ کہتا ہے ۔ پھر حضرت عائشہ نے یہ آیتیں پڑھیں: لا تُدْرِکُہ الْاَبْصَارُ ( نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں ) ، اور مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْیاً اَوْ مِنْ وَّرَائٍ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوْحِیْ بِاِذْنِہ مَا یَشآءُ ( کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر ، یا پردے کے پیچھے سے ، یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ وہ چاہے ) ۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا اس حدیث کا ایک حصہ بخاری ، کتاب التوحید ، باب 4 میں بھی ہے ۔ اور کتاب بدءالخلق میں مسروق کی جو روایت امام بخاری نے نقل کی ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کی یہ بات سن کر عرض کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہو گا ثُمَّ دَنیٰ فَتَدَلّیٰ ، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ؟ اس پر انہوں نے فرمایا اس سے مراد جبریل ہیں ۔ وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے ، مگر اس موقع پر وہ اپنی اصلی شکل میں آپ کے پاس آئے اور سارا افق ان سے بھر گیا ۔ مُسلم ، کتاب الایمان ، باب فی ذکر سدرۃ المنتہیٰ میں حضرت عائشہ سے مسروق کی یہ گفتگو زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ یہ ہے : حضرت عائشہ نے فرمایا جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا افترا کرتا ہے ۔ مسروق کہتے ہیں کہ میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔ یہ بات سن کر میں اٹھ بیٹھا اور میں نے عرض کیا ، ام المومنین جلدی نہ فرمایئے ۔ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ وَلَقَدْ رَاٰہُ بالْاُفُقِ الْمْبِیْنِ؟ اور لَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْریٰ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے کو دریافت کیا تھا ۔ حضور نے فرمایا انما ھو جبریل علیہ السلام ، لم ارہ علیٰ صورتہ التی خلق علیھا غیرھاتین المرتین ، رایتہ منھبطا من السمآء سادّا عظم خلقہ ما بین السماء والارض ۔ وہ تو جبریل علیہ السلام تھے ۔ میں نے ان کو ان کی اس اصلی صورت میں جس پر اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے ، ان دو مواقع کے سوا کبھی نہیں دیکھا ۔ ان دو مواقع پر میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا ، اور ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی ۔ ابن مَرْدُوْیہ نے مسروق کی اس روایت کو جن الفاظ میں نقل کیا ہے وہ یہ ہیں : حضرت عائشہ نے فرمایا : سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ حضور نے جواب دیا نہیں ، میں نے تو جبریل کو آسمان سے اترتے دیکھا تھا ۔ ( 2 ) حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایات: بخاری ، کتاب التفیسر ، مسلم کتاب الایمان اور ترمذی ابواب التفسیر میں زِرّ بن حُبَیش کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ کی تفسیر یہ بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو اس صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے ۔ مسلم کی دوسری روایات میں مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَایٰ اور لَقَدْ رَایٰ مِنْ ایَٰاتِ رَبِّہَ الْکُبْریٰ کی بھی یہی تفسیر زر بن حُبیش نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کی ہے ۔ مسند احمد میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ تفسیر زرّ بن حبیش کے علاوہ عبد الرحمٰن بن یزید اور ابو وائل کے واسطہ سے بھی منقول ہوئی ہے اور مزید برآں مسند احمد میں زِرّ بن حبیش کی دو روایتیں اور نقل ہوئی ہیں جن میں حضرت عبد اللہ بن مسعود وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخریٰ ، عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہیٰ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رأیت جبریل عند سدرۃ المنتہیٰ علیہ ستمائۃ جناح ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جبریل کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا ، ان کے چھ سو بازو تھے ۔ اسی مضمون کی روایت امام احمد نے شقیق بن سلَمہ سے بھی نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود کی زبان سے یہ سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ فرمایا تھا کہ میں نے جبریل علیہ السلام کو اس صورت میں سدرۃ المنتہیٰ پر دیکھا تھا ۔ ( 3 ) ۔ حضرت ابو ہریرہ سے عطاء بن ابی رباح نے آیت لَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخریٰ کا مطلب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ رایٰ جبریل علیہ السلام ۔ حضور نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا تھا ۔ ( مسلم ، کتاب الایمان ) ۔ ( 4 ) حضرت ابو ذر غفاری سے عبداللہ بن شقیق کی دو روایتیں امام مسلم نے کتاب الایمان میں نقل کی ہیں ۔ ایک روایت میں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ حضور نے جواب دیا : نورٌ اَنّیٰ اراہ ۔ اور دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ میرے اس سوال کا جواب آپ نے یہ دیا کہ رأیتُ نوراً ۔ حضور کے پہلے ارشاد کا مطلب ابن القیم نے زادالمعاد میں یہ بیان کیا ہے کہ میرے اور رؤیت رب کے درمیان نور حائل تھا ۔ اور دوسرے ارشاد کا مطلب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے رب کو نہیں بلکہ بس ایک نور دیکھا ۔ نسائی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابوذر کا قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دل سے دیکھا تھا ، آنکھوں سے نہیں دیکھا ۔ ( 5 ) حضرت ابو موسیٰ اشعری سے امام مسلم کتاب الایمان میں یہ روایت لائے ہیں کہ حضور نے فرمایا ما انتھیٰ الیہ بصر من خلقہ ۔ اللہ تعالیٰ تک اس کی مخلوق میں سے کسی کی نگاہ نہیں پہنچی ۔ ( 6 ) حضرت عبداللہ بن عباس کی روایات: مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس سے مَا کَذَبَ الْفُؤادُ مَا رأی ، وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْریٰ کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا ۔ یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے ۔ ابن مردُویہ نے عطاء بن ابی رَباح کے حوالہ سے ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے نہیں بلکہ دل سے دیکھا تھا ۔ نسائی میں عکرمہ کی روایت ہے کہ ابن عباس نے فرمایا اتعجبون ان تکون الخلۃ لابراہیم والکلام لموسیٰ والرؤیۃُ لمحمد؟ ۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے خلیل بنایا ، موسیٰ علیہ السلام کو کلام سے سر فراز کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤیت کا شرف بخشا ۔ حاکم نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ ترمذی میں شعبی کی روایت ہے کہ ابن عباس نے ایک مجلس میں فرمایا اللہ نے اپنی رؤیت اور اپنے کلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اس کو دیکھا ۔ ابن عباس کی اسی گفتگو کو سن کر مسروق حضرت عائشہ کے پاس گے تھے اور ان سے پوچھا تھا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ انہوں نے فرمایا تم نے وہ بات کہی ہے جسے سن کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ اس کے بعد حضرت عائشہ اور مسروق کے درمیان وہ گفتگو ہوئی جسے ہم اوپر حضرت عائشہ کی روایات میں نقل کر آئے ہیں ۔ ترمذی ہی میں دوسری روایات جو ابن عباس سے منقول ہوئی ہیں ان میں سے ایک میں وہ فرماتے ہیں کہ حضور نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا ۔ دوسری میں فرماتے ہیں دو مرتبہ دیکھا تھا ۔ اور تیسری میں ان کا ارشاد یہ ہے کہ آپ نے اللہ کو دل سے دیکھا تھا ۔ مسند احمد میں ابن عباس کی ایک روایت یہ ہے کہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رأیت ربی تبارک و تعالیٰ ۔ میں نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو دیکھا ۔ دوسری روایت میں وہ کہتے ہیں ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اتانی ربی اللیلۃ فی احسن صورۃ ، احسبہ یعنی فی النوم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج رات میرا رب بہترین صورت میں میرے پاس آیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضور کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ خواب میں آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ۔ طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ، ایک مرتبہ آنکھوں سے اور دوسری مرتبہ دل سے ۔ ( 7 ) ۔ محمد بن کعب القرظی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ نہ پوچھا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ حضور نے جواب دیا میں نے اس کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا ( ابن ابی حاتم ) ۔ اس روایت کو ابن جریر نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: میں نے اس کو آنکھ سے نہیں بلکہ دل سے دو مرتبہ دیکھا ہے ۔ ( 8 ) ۔ حضرت انس بن مالک کی ایک روایت جو قصہ معراج کے سلسلے میں شریک بن عبداللہ کے حوالہ سے امام بخاری نے کتاب التوحید میں نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ آتے ہیں: حتّیٰ جَاءَ سِدْرَۃَ الْمُنْتَھیٰ و دَنَا الجبار رب العزۃ فتدلّیٰ حتّیٰ کَان منہ قاب قوسین او ادنیٰ فاوحی اللہ فیما اوحیٰ الیہ خمسین صلوٰۃ ۔ یعنی جب آپ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے تو اللہ رب العزۃ آپ کے قریب آیا اور آپ کے اوپر معلّق ہو گیا یہاں تک کہ آپ کے اور اس کے درمیان بقدر دو کمان یا اس سے بھی کچھ کم فاصلہ رہ گیا ، پھر اللہ نے آپ پر جو امور وحی فرمائے ان میں سے ایک 50 نمازوں کا حکم تھا ۔ لیکن علاوہ ان اعتراضات کے جو اس روایت کی سند اور مضمون پر امام خطابی ، حافظ ابن حَجر ، ابن حَزم اور حافظ عبدالحق صاحب الجمع بین الصحیحین نے کیے ہیں ، سب سے بڑا اعتراض اس پر یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ صریح قرآن کے خلاف پڑتی ہے ۔ کیونکہ قرآن مجید دو الگ الگ رؤیتوں کا ذکر کرتا ہے جن میں سے ایک ابتداءً اُفُقِ اعلیٰ پر ہوئی تھی اور پھر اس میں دَنَا فَتَدَلّیٰ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ کا معاملہ پیش آیا تھا ، اور دوسری سدرۃ المنتہیٰ کے پاس واقع ہوئی تھی ۔ لیکن یہ روایت ان دونوں رؤیتوں کو خلط ملط کر کے ایک رؤیت بنا دیتی ہے ۔ اس لیے قرآن مجید سے متعارض ہونے کی بنا پر اس کو تو کسی طرح قبول ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ اب رہیں وہ دوسری روایات جو ہم نے اوپر نقل کی ہیں ، تو ان میں سب سے زیادہ وزنی روایتیں وہ ہیں جو حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عائشہ سے منقول ہوئی ہیں ، کیونکہ ان دونوں نے بالاتفاق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ ان دونوں مواقع پر آپ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل علیہ السلام کو دیکھا تھا ، اور یہ روایات قرآن مجید کی تصریحات اور اشارات سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہیں ۔ مزید براں ان کی تائید حضور کے ان ارشادات سے بھی ہوتی ہے جو حضرت ابوذر اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ( رضی اللہ عنہم ) نے آپ سے نقل کیے ہیں ، اس کے برعکس حضرت عبداللہ بن عباس سے جو روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں ان میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے ۔ کسی میں وہ دونوں رؤیتوں کو عینی کہتے ہیں ، کسی میں دونوں کو قلبی قرار دیتے ہیں ، کسی میں ایک کو عینی اور دوسری کو قلبی بتاتے ہیں ، اور کسی میں عینی رؤیت کی صاف صاف نفی کر دیتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی روایت بھی ایسی نہیں ہے جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کوئی ارشاد نقل کر رہے ہوں ۔ اور جہاں انہوں نے خود حضور کا ارشاد نقل کیا ہے ، وہاں اول تو قرآن مجید کی بیان کردہ ان دونوں رؤیتوں میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں ہے ، اور مزید برآں ان کی ایک روایت کی تشریح دوسری روایت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضور نے کسی وقت بحالت بیداری نہیں بلکہ خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا ۔ اس لیے درحقیقت ان آیات کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس سے منسوب روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح محمد بن کعب القرظی کی روایات بھی ، اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کرتی ہیں ، لیکن ان میں ان صحابہ کرام کے ناموں کی کوئی تصریح نہیں ہے جنہوں نے حضور سے یہ بات سنی ۔ نیز ان میں سے ایک میں بتایا گیا ہے کہ حضور نے عینی رویت کی صاف صاف نفی فرما دی تھی ۔