بتکدے کیا تھے؟ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ مشرکین کو ڈانٹ رہا ہے کہ وہ بتوں کی اور اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کرتے ہیں اور جس طرح خلیل اللہ نے بحکم اللہ بیت اللہ بنایا ہے یہ لوگ اپنے اپنے معبودان باطل کے پرستش کدے بنا رہے ہیں ۔ لات ایک سفید پتھر منقش تھا جس پر قبہ بنا رکھا تھا غلاف چڑھائے جاتے تھے مجاور محافظ اور جاروب کش مقرر تھے اس کے آس پاس کی جگہ مثل حرم کی حرمت و بزرگی والی جانتے تھے اہل طائف کا یہ بت کدہ تھا قبیلہ ثقیف اس کا پجاری اور اس کا متولی تھا ۔ قریش کے سوا باقی اور سب پر یہ لوگ اپنا فخر جتایا کرتے تھے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں ان لوگوں نے لفظ اللہ سے لفظ لات بنایا تھا گویا اس کا مؤنث بنایا تھا اللہ کی ذات تمام شریکوں سے پاک ہے ایک قرأت میں لفظ لات تاکہ تشدید کے ساتھ ہے یعنی گھولنے والا اسے لات اس معنی میں اس لئے کہتے تھے کہ یہ ایک نیک شخص تھا موسم حج میں حاجیوں کو ستو گھول گھول کر پلاتا تھا اس کے انتقال کے بعد لوگوں نے اس کی قبر پر مجاورت شروع کر دی رفتہ رفتہ اسی کی عبادت کرنے لگے ۔ اسی طرح لفظ عزیٰ لفظ عزیر سے لیا گیا ہے مکے اور طائف کے درمیان نخلہ میں یہ ایک درخت تھا اس پر بھی قبہ بنا ہوا تھا چادریں چڑھی ہوئی تھیں قریش اس کی عظمت کرتے تھے ۔ ابو سفیان نے احد والے دن بھی کہا تھا ہمارا عزیٰ ہے اور تمہارا نہیں جس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہلوایا تھا اللہ ہمارا والی ہے اور تمہاری کوئی نہیں صحیح بخاری میں ہے جو شخص لات عزیٰ کی قسم کھابیٹھے اسے چاہیے کہ فورا لا الہ الا للہ کہہ لے اور جو اپنے ساتھی سے کہہ دے کہ آ جوا کھیلیں اسے صدقہ کرنا چاہیے ، مطلب یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں چونکہ اسی کی قسم کھائی جاتی تھی تو اب اسلام کے بعد اگر کسی کی زبان سے اگلی عادت کے موافق یہ الفاظ نکل جائیں تو اسے کلمہ پڑھ لینا چاہیے حضرت سعد بن وقاص ایک مرتبہ اسی طرح لات و عزیٰ کی قسم کھا بیٹھے جس پر لوگوں نے انہیں متنبہ کیا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے آپ نے فرمایا دعا ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر ) پڑھ لو اور تین مرتبہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر اپنی بائیں جانب تھوک دو اور آئندہ سے ایسا نہ کرنا مکے اور مدینے کے درمیان قدید کے پاس مثلل میں مناۃ تھا ۔ قبیلہ خزاعہ ، اوس ، اور خزرج جاہلیت میں اس کی بہت عظمت کرتے تھے یہیں سے احرام باندھ کر وہ حج کعبہ کے لئے جاتے تھے اسی طرح ان تین کی شہرت بہت زیادہ تھی اس لئے یہاں صرف ان تین کا ہی بیان فرمایا ۔ ان مقامات کا یہ لوگ طواف بھی کرتے تھے قربانیوں کے جانور وہاں لے جاتے تھے ان کے نام پر جانور چڑھائے جاتے تھے باوجود اس کے یہ سب لوگ کعبہ کی حرمت و عظمت کے قائل تھے اسے مسجد ابراہیم مانتے تھے اور اس کی خاطر خواہ توقیر کرتے تھے ۔ سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ قریش اور بنو کنانہ عزیٰ کے پجاری تھے جو نخلہ میں تھا ۔ اس کا نگہبان اور متولی قبیلہ بنو شیبان تھا جو قبیلہ سلیم کی شاخ تھا اور بنو ہاشم کے ساتھ ان کا بھائی چارہ تھا اس بت کے توڑنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالد بن ولید کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہتے جاتے تھے یا عزی کفرانک لا سبحانک انی رایت اللہ قد اھانک اے عزیٰ میں تیرا منکر ہوں تیری پاکی بیان کرنے والا نہیں ہوں میرا ایمان ہے کہ تیری عزت کو اللہ نے خاک میں ملا دیا ۔ یہ ببول کے تین درختوں پر تھا کاٹ ڈالے گئے اور قبہ ڈھا دیا اور واپس آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی آپ نے فرمایا تم نے کچھ نہیں کیا لوٹ کر پھر دوبارہ جاؤ حضرت خالد کے دوبارہ تشریف لے جانے پر وہاں کے محافظ اور خدام نے بڑے بڑے مکرو فریب کئے اور خوب غل مچا مچا کر یا عزیٰ یا عزیٰ کے نعرے لگائے حضرت خالد نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ننگی عورت ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور اپنے سر پر مٹی ڈال رہی ہے آپ نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کیا اور واپس آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی آپ نے فرمایا عزیٰ یہی تھی ۔ لات قبیلہ ثقیف کا بت تھا جو طائف میں تھا ۔ اس کی تولیت اور مجاورت بنو معتب میں تھی یہاں اس کے ڈھانے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت ابو سفیان صخر بن حرب کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے معدوم کر کے اس کی جگہ مسجد بنا دی ، مناۃ اوس و خزرج اور اس کے ہم خیال لوگوں کا بت تھا یہ مثلل کی طرف سے سمندر کے کنارے قدید میں تھا یہاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سفیان کو بھیجا اور آپ نے اس کے ریزے ریزے کر دئیے ۔ بعض کا قول ہے کہ حضرت علی کے ہاتھوں یہ کفرستان فنا ہوا ۔ ذوالخعلہ نامی بت خانہ دوس اور خشعم اور بجیلہ کا تھا اور جو لوگ اس کے ہم وطن تھے یہ تبالہ میں تھا اور اسے یہ لوگ کعبہ یمانیہ کہتے تھے اور مکہ کے کعبہ کو کعبہ شامیہ کہتے تھے یہ حضرت جریر بن عبداللہ کے ہاتھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے فنا ہوا فلس نامی بت خانہ قبیلہ طے اور ان کے آس پاس کے عربوں کا تھا یہ جبل طے میں سلمیٰ اور اجا کے درمیان تھا اس کے توڑنے پر حضرت علی مامور ہوئے تھے آپ نے اسے توڑ دیا اور یہاں سے دو تلواریں لے گئے تھے ایک رسوب دوسری مخزم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں تلواریں انہی کو دے دیں ، قبیلہ حمیر اہل یمن نے اپنا بت خانہ صنعاء میں ریام نامی بنا رکھا تھا مذکور ہے کہ اس میں ایک سیاہ کتا تھا اور وہ دو حمیری جو تبع کے ساتھ نکلے تھے انہوں نے اسے نکال کر قتل کر دیا اور اس بت خانہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور رضا نامی بت کدہ بنو ربیعہ بن سعد کا تھا اس کو مستوغر بن ربیعہ بن کعب بن اسد نے اسلام میں ڈھایا ۔ ابن ہشام فرماتے ہیں کہ ان کی عمر تین سو تیس سال کی ہوئی تھی جس کا بیان خود انہوں نے اپنے اشعار میں کیا ہے ذوالکعبات نامی صنم خانہ بکر تغلب اور یاد قبیلے کا سنداد میں تھا پھر فرماتا ہے کہ تمہارے لئے لڑکے ہوں اور اللہ کی لڑکیاں ہوں ؟ کیونکہ مشرکین اپنے زعم باطل میں فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں سمجھتے تھے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم آپس میں تقسیم کرو اور کسی کو صرف لڑکیاں اور کسی کو صرف لڑکے دو تو وہ بھی راضی نہ ہوگا اور یہ تقسیم نامنصفی کی سمجھی جائے گی چہ جائیکہ تم اللہ کے لئے لڑکیاں ثابت کرو اور خود تم اپنے لئے لڑکے پسند کرو پھر فرماتا ہے ان کو تم نے اپنی طرف سے بغیر کسی دلیل کے مضبوط ٹھہرا کر جا چاہا نام گھڑ لیا ہے ورنہ نہ وہ معبود ہیں نہ کسی ایسے پاک نام کے مستحق ہیں خود یہ لوگ بھی ان کی پوجا پاٹ پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے صرف اپنے بڑوں پر حسن ظن رکھ کر جو انہوں نے کیا تھا یہ بھی کر رہے ہیں مکھی پر مکھی مارتے چلے جاتے ہیں مصیبت تو یہ ہے کہ دلیل آجانے اللہ کی باتیں واضح ہو جانے کے باوجود بھی باپ دادا کی غلط راہ کو نہیں چھوڑتے ۔ پھر فرماتا ہے کیا ہر انسان تمنا پر تمہارے لئے کیا لکھا جائے گا ؟ تمام امور کا مالک اللہ تعالیٰ ہے دنیا اور آخرت میں تصرف اسی کا ہے جو اس نے جو چاہا ہو رہا ہے اور جو چاہے گا ہو گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بڑے سے بڑا فرشتہ بھی کسی کے لئے سفارش کا لفظ بھی نہیں نکال سکتا ۔ جیسے فرمایا آیت ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَلَهٗٓ اَجْرٌ كَرِيْمٌ 11ۚ ) 57- الحديد:11 ) کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش پیش کر سکے اس کے فرمان کے بغیر کسی کو کسی کی سفارش نفع نہیں دے سکتی ۔ جبکہ بڑے بڑے قریبی فرشتوں کا یہ حال ہے تو پھر اے ناوافقو تمہارے یہ بت اور تھان کیا نفع پہنچا دیں گے ؟ ان کی پرستش سے اللہ روک رہا ہے تمام رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کل آسمانی کتابیں اللہ کے سوا اوروں کی عبادت سے روکنا اپنا عظیم الشان مقصد بتاتی ہیں پھر تم ان کو اپنا سفارشی سمجھ رہے ہو کس قدر غلط راہ ہے ۔
(افرء یتم اللت والعزی …: گزشتہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صراط مستقیم پر استقامت اور آپ کی ہر بات اللہ تعالیٰ کی وحی پر موقوف ہونے کا ذکر ہوا، اس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم دینے والے فرشتے کی قوت و عظمت کا ذکر ہوا، اس کے زمین پر اور آسمانوں پر سدرۃ المنتہی کے پاس نزول اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالکل قریب آکر وحی پہنچانے کا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسے اور اللہ تعالیٰ کی دوسری بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھنے کا ذکر ہوا۔ ان سب باتوں سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت، اس کا جلال اور اس کی وحدانیت خود بخود ظاہر ہو رہی ہے کہ جب اس کے رسول کا، فرشتوں کا اور اس کی زمین و آسمان پر بیشمار نشانیوں کی عظمت کا یہ عالم ہے تو وہ خود کتنی قدرتوں کا مالک ہوگا۔ اس لئے ساتھ ہی اپنی توحید کی طرف توجہ دلانے اور مشرکین کو ان کی حماقت پر متنبہ کرنے کے لئے فرمایا ج کہ جب تم میری قدرتوں کو سن اور دیکھ چکے تو پھر کیا تم نے لات اور عزیٰ کو بھی دیکھا ہے ؟ کیا سوچا بھی جاسکتا ہے کہ یہ معبود ہیں یا اس عظیم الشان کائنات میں ان کا کوئی دخل ہے ؟ یہ انداز بیان ان باتوں کی انتہائی تحقیر اور ان پر طنز کا اظہار ہے، جیسے کوئی انتہائی کمزور اور ہاتھ پاؤں سے معذور شخص بادشاہ ہونے کا دعویٰ کر دے تو سبھی کہیں گے، اسے دیکھو یہ بادشاہ سلامت ہے۔- (٢) طبری نے فرمایا :” مشرکین نے اپنے بتوں اور آستانوں کے نام اللہ تعالیٰ کے ناموں کی مونث بنا کر رکھے ہوئے تھے۔ چناچہ انہوں نے لفظ ” اللہ “ کے ساتھ تائے تانیث ملا کر ” اللات “ بنا لیا، جیسے ” عمرو “ مذکر کے لئے ” عمرۃ “ مونث اور ” عباس “ مذکر کے لئے ” عباسۃ “ مونث بنا لیتے ہیں اور ” عزیز “ سے ” غزی “ بنا لیا (جو ” اعزع “ اسم تفصیل کی مونث ہے۔ “ یہاں ایک سوال ہے کہ لفظ ” اللہ “ کا مونث ” اللات “ کیسے بن گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ اللہ اصل میں ” الا لہ “ ہے، مونث اس کا ” الالھۃ “ بنے گا، مگر انہوں نے تخفیف کے لئے اسے ” اللاث “ بنال یا اور معلوم ہے کہ تخفیف کا کوئی طے شدہ قاعدہ نہیں۔ شیخ عبدالرحمٰن سعدی لکھتے ہیں :” مناۃ “” منان “ کی مونث بنا لی گئی ہے۔ “ ظاہر ہے یہاں بھی تخفیف قاعدہ ہی اسعتمال ہوا ہے۔- طبری نے فرمایا : ” مشرکین نے اپنے اوثان کے نام اللہ تعالیٰ کے نام کی مونث بنا کر رکھے ہوئے تھے اور دعویٰ یہ کرتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ (اللہ تعالیٰ ان کے اس بہتان سے بہت بلند ہے) تو اللہ جل ثناء ہ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ لات و عزیٰ اور تیسرے ایک اور منتا کو اللہ کی بیٹیاں کہنے والو ” الکم الذکر “ کیا تم اپنے لئے اولاد لڑکے پسند اور لڑکیاں ناپسند کرتے ہو اور ” ولہ الانثی “ اس کے لئے لڑکیاں قرار دیتے ہو جنہیں اپنے لئے کسی صورت پسند نہیں کرتے، بلکہ ان سے اتنی شدید نفرت رکھتخ ہو کہ انہیں زندہ درگور کردیتے ہو۔ “- (٣)” اللت “ کی قرأت میں اختلاف ہے۔ اکثر قراء اسے ” تائ “ کی تشدید کے بغیر پڑھتے ہیں، اس مفہم کے مطابق جس کا اوپر ذکر ہوا ہے اور بعض اسے ” اللاث “ (تاء کی تشدید کے ساتھ) پڑھتے ہیں، جو ” لت یلث “ (ن) سے اسم فاعل ہے، جس کا معنی بلونا اور لت پت کرنا ہے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا :(کان اللات رجلا یلث سویق الحاج) (بخاری، التفسیر، سورة النجم : ٣٨٥٩)” لات ایک مرد تھا جو ستوبلو کر حاجیوں کپو لاتا تھا۔ “ پہلی قرأت اس لئے راجح ہے کہ اکثر قراء نے ایسے ہی پڑھا ہے اور اس لئے بھی کہ نص - نے مشرکین کو اس بات پر جھڑکا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ک ے لئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں، جبکہ دوسری قرأت کے مطابق ” لات “ ایک مرد تھا۔” لات “ کے مونث ہونے کی ایک دلیل صحیح بخاری (٢٧٣١، ٢٧٣٢) میں مذکور صلح حدیبیہ والی طوییل حدیث ہے، جس میں ہے کہ جب کفار کے نمائندے سہیل بن عمرو نے کہا کہ تم مختلف لوگ اکٹھے ہوگئے ہو ، جنگ ہوئی تو بھاگ جاؤ گے، تو ابوبکر (رض) نے فرمایا :(امصص بظر اللات انحن نفر عنہ) (” لات کی شرم گاہ کو چوس، کیا ہم آپ (ﷺ) کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ؟ “ واضح رہے ” بظر “ عورت کی شرم گاہ کو کہا جاتا ہے۔- (٤) عرب میں بتوں کے بیشمار آستانے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ان تین کا ذکر اس لئے فرمایا کہ یہ ان کے سب سے مشہور اور بڑے بت تھے۔ مکہ، طائف ، مدینہ اور حجاز کے اکثر علاقوں کے لوگ انہیں سب سے زیادہ پوجتے تھے۔ لات طائف میں تھا، بنو ثقیف اس کے پجاری اور متولی تھے۔ عزیٰ قریش کی خاص دیوی تھی جس کا استہان مکہ اور طائف کے درمیان مقام نخلہ پر تھا۔ وہاں عمارت کے علاوہ درخت بھی تھے جن کی پوجا ہوتی تھی۔ قریش کے ہاں اس کی تعظیم کا اندازہ صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتا ہے جس میں ہے کہ جنگ اد کے موقع پر جب کفار سملمانوں کو کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوئے تو پہاڑ پر چڑھ کر باوسفیان نے فخر سے کہا :” لنا العزی ولا عزی لکم “ (ہمارے پاس عزی ہے تمہارے پاس کوئی عزی نہیں) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اسے جواب دو :(اللہ مولانا ولا مولی لکم)” اللہ ہمارا مولیٰ ہے تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ۔ “ (بخاری، الجھاد والسیر، باب ما یکرہ من التنازع…: ٣٠٢٩) منات کا مندر مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے مشلل کے قریب قدید کے مقام پر تھا۔ (دیکھیے بخاری، التفسیر، سورة النجم :3861) مدینہ کے اوس و خزرج اور ان کے ہمونوا اس کی پوجا کرتے تھے۔ ان تمام بتوں کے مندر تھے اور ان کے باقاعدہ پروہتا اور پجاری بھی تھے۔ کعبہ کی طرح ان پر بھی جانور لا کر قربان کئے جاتے تھے۔ ابن کثیر نے اس مقام پر سیرت ابن اسحاق سے عرب کے بتوں کا تذکرہ تفصیل سے نقل کیا ہے کہ وہ کہاں کہاں تھے، ان کی شکل کیا تھی اور کون کون سے صحابہ نے انہیں منہدم کیا۔ یہ تفصیل ان کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔- (٥) ومنوہ الثالثۃ الاخری : یہاں ایک سوال ہے کہ ” الثالثۃ “ (تیسرا) کہنے کے بعد ” الاخری “ (ایک اور یا بعد والا) کہنے کی کیا ضرورت تھی ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ مشرکین کے ہاں بتوں اور دیویوں کے بھی درجے ہیں، لات اور عزیٰ کو جو مقام حاصل تھا وہ منات کو حاصل نہ تھا۔ اس کا تذکرہ ان الفاظ میں یہ ظاہر کرنے کے لئے فرمایا ہ اس کا نمبر تمہارے ہاں بھی تیسرا اور دونوں کے بعد ہے۔ یہ بھی شرک پر بہت بڑی چوٹ ہے کہ وہ معبود ہی کیا ہوا جو دوسرے معبود کو بردشات کرتا ہے اور متعدد معبود اپنی اپنی حیثیت پر قناعت کرتے اور خوش رہتے ہیں، بھلا معبود برحق ایسا ہونا چاہیے ؟ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کے بتوں میں بھی یہ تقسیم موجود تھی، جیسا کہ فرمایا :(فجعلھم جذذاء الا کبیرا لھم) (الانبیائ : ٥٨)” پس اس نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا، سوائے ان کے ایک بڑے کے۔ “- (٦) اس مقام پر بعض مفسرین نے ایک روایت بیان کی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت پر پہنچے تو شیطان نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر یہ کلمات جایر کردیئے : ” تلک الغرانیق العلی و ان شفاعتھن لترتجی “ اس روایت کی حقیقت کے لئے دیکھیے سورة حج کی آیت (٥٢) کی تفسیر۔
خلاصہ تفسیر - (اے مشرکو بعد اس کے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ناطق بالحق و متبع للوحی ہونا ثابت ہوگیا اور آپ اس وحی سے توحید کا حکم فرماتے ہیں، جو کہ دلائل عقلیہ سے بھی ثابت ہے، اور تم پھر بھی بتوں کی پرستش کرتے ہو تو) بھلا تم نے (کبھی ان بتوں کے مثلاً ) لات اور عزی اور ایک تیسرے منات کے حال میں غور بھی کیا ہے (تاکہ تم کو معلوم ہوتا کہ وہ قابل پرستش ہیں یا نہیں، پس کلمہ فاء سے یہ فائدہ ہوا کہ آپ کی تنبیہ کے بعد متنبہ ہونا چاہئے تھا اور توحید کے متعلق ایک اور بات قابل غور ہے کہ تم جو ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر معبود کہتے ہو تو) کیا تمہارے لئے تو بیٹے (تجویز) ہوں اور خدا کے لئے بیٹیاں ( تجویز ہوں یعنی جن لڑکیوں کو تم عار و ننگ و قابل نفرت سمجھتے ہو وہ خدا کی طرف نسبت کی جاویں) اس حالت میں تو یہ بہت بےڈھنگی تقسیم ہوئی ( کہ اچھی چیز تمہارے حصے میں اور بری چیز خدا کے حصہ میں، نعوذ باللہ منہ، یہ بنا علی العرف فرمایا اور نہ خدا تعالیٰ کے لئے بیٹا تجویز کرنا بھی بےڈھنگی بات ہے) یہ (معبودات مذکورہ اصنام و ملائکہ بعقیدہ مذکورہ) نرے نام ہی نام ہیں ، (یعنی یہ مسمیات خدا ہونے کی حیثیت سے کوئی موجود چیز ہی نہیں بلکہ مثل ان اسماء کے ہیں جن کا کہیں کوئی مصداق نہ ہو) جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے (آپ ہی) ٹھہرا لیا ہے، خدا تعالیٰ نے تو ان (کے معبود ہونے) کی کوئی دلیل (عقلی یا نقلی) بھیجی نہیں (بلکہ) یہ لوگ (اس اعتقاد الوہیتہ غیر اللہ میں) صرف بےاصل خیالات پر اور اپنے نفس کی خواہش پر (جو کہ ان بےاصل خیالات سے پیدا ہوتی ہے) چل رہے ہیں (دونوں میں فرق یہ ہوا کہ ہر عمل سے پہلے ایک عقیدہ ہوتا ہے، اور ایک عزم و ارادہ جو عمل کے لئے محرک ہوتا ہے، پس دونوں سے دونوں کی طرف اشارہ ہے) حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی جانب سے (بواسطہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو حق گو اور وحی الٰہی کے پیرو ہیں آپ سے) ہدایت (امر واقعی کی) آ چکی ہے (یعنی خود اپنے دعوے پر تو کوئی دلیل نہیں رکھتے، اور اس دعوت کی تفصیل پر رسول کے ذریعہ سے دلیل سنتے ہیں، اور پھر نہیں مانتے، یہ گفتگو تھی اللہ کے سوا کسی کے معبود ہونے کے ابطال میں، آگے اس کا بیان ہے کہ تم نے جو بتوں کو اس غرض سے معبود مانا ہے کہ یہ اللہ کے پاس تمہاری شفاعت کریں گے یہ غرض بھی محض دھوکہ اور باطل ہے، سوچو کہ) کیا انسان کو اس کی ہر تمنا مل جاتی ہے (واقعہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ ہر تمنا) سو خدا ہی کے اختیار میں ہیں، آخرت (کی بھی) اور دنیا (کی بھی پس وہ جس کو چاہیں پورا فرما دیں، اور نص قطعی میں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس تمنائے باطل کو پورا کرنا نہیں چاہیں گے نہ دنیا میں ان کی دنیوی حاجات میں شفاعت کریں نہ آخرت میں کہ وہاں عذاب سے نجات کی شفاعت کریں اس لئے یقینا وہ پوری نہ ہوگی) اور (بیچارے بت تو کیا شفاعت کرتے کہ ان میں خود اہلیت ہی شفاعت کی نہیں، اس دربار میں تو جو لوگ اہل ہیں ان کی بھی بلا اجازت حق کچھ نہیں چلتی چنانچہ) بہت سے فرشتے آسمانوں میں موجود ہیں (شاید اس میں اشارہ ہو علو شان کی طرف مگر باوجود اس علو شان کے) ان کی سفارش ذرا بھی کام نہیں آسکتی (بلکہ خود شفاعت ہی نہیں پائی جاسکتی) مگر بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ ٰجس کے لئے چاہیں اجازت دیدیں اور ( اس کے لئے شفاعت کرنے سے) راضی ہوں (یرضیٰ اس لئے بڑھایا تاکہ کبھی مخلوق کا اذن بلا رضا بھی کسی دباؤ یا مصلحت سے ہوجاتا ہے، اللہ جل شانہ کے معاملہ میں اس کا بھی دور کا کوئی احتمال نہیں کہ وہ کسی دباؤ سے مجبور ہو کر راضی ہوجاویں، آگے اس کا بیان ہے کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیدینا کفر ہے کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ( بلکہ اس کے انکار کی وجہ سے کافر ہیں) وہ فرشتوں کو (خدا کی) بیٹی کے نام سے نامزد کرتے ہیں ( ان کی تعبیر بالکفر میں آخرت کی تخصیص سے شاید اس طرف اشارہ ہو کہ یہ سب ضلالتیں آخرت کی بےفکری سے پیدا ہوئی ہیں، ورنہ معتقد آخرت کو اپنی نجات کی ضرور فکر رہتی ہے اور یہاں انثیٰ بمعنے دختر کے ہیں، کما فی قولہ تعالیٰ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بالْاُنْثٰى، اور جب ملائکہ کو خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے کفر ہونے کی تصریح فرما دی تو بتوں کے شریک ٹھہرانے کا کفر ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگیا اس لئے صرف اسی پر اکتفا کیا گیا، آگے اس کا بیان ہے کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی لڑکیاں قرار دینے کا عقیدہ باطل ہے) حالانکہ ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں صرف بےاصل خیالات پر چل رہے ہیں، اور یقینا بےاصل خیالات امر حق (کے اثبات) میں ذرا بھی مفید نہیں ہوتے۔- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت اور آپ کی وحی کے محفوظ ہونے کے دلائل کا تفصیلی ذکر تھا، ان آیات میں اس کے بالمقابل مشرکین عرب کے اس فعل کی مذمت ہے کہ انہوں نے بغیر کسی دلیل کے مختلف بتوں کو اپنا معبود و کارساز بنا رکھا ہے اور فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے ہیں اور بعض روایات میں ہے کہ ان بتوں کو بھی وہ خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔- مشرکین عرب کے بت جن کی وہ پرستش کرتے تھے بیشمار ہیں، مگر ان میں سے تین زیادہ مشہور ہیں، اور ان کی عبادت پر عرب کے بڑے بڑے قبائل لگے ہوئے تھے، لات، عزی، منات، لات قبیلہ ثقیف ( اہل طائف) کا بت تھا، عزی قریش کا اور منات بنی ہلال کا، ان بتوں کے مقامات پر مشرکین نے بڑے بڑے شاندار مکانات بنا رکھے تھے، جن کو کعبہ کی حیثیت دیتے تھے، فتح مکہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کو منہدم کرا دیا (قرطبی ملخصاً )
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى ١٩ ۙ- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- لات - اللَّاتُ والعزّى صنمان، وأصل اللّات اللاه، فحذفوا منه الهاء، وأدخلوا التاء فيه، وأنّثوه تنبيها علی قصوره عن اللہ تعالی، وجعلوه مختصّا بما يتقرّب به إلى اللہ تعالیٰ في زعمهم، وقوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] قال الفرّاء : تقدیره : لا حين، والتاء زائدة فيه كما زيدت في ثمّت وربّت . وقال بعض البصريّين : معناه ليس، وقال أبو بکر العلّاف : أصله ليس، فقلبت الیاء ألفا وأبدل من السین تاء، كما قالوا : نات في ناس . وقال بعضهم : أصله لا، وزید فيه تاء التأنيث تنبيها علی الساعة أو المدّة كأنه قيل : ليست الساعة أو المدّة حين مناص .- ( اللات ) اللات اور العذیٰ ۔ وہ بتوں کے نام ہیں ۔ اللات اصل میں اللہ ہے ۔ ہاء کو حذف کرکے اس کے عوض تاء تانیث لائی گئی ہے ۔ اور اس تانیث سے اللہ تعالیٰ کے مرتبہ سے کم ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہے اور یہ کہ وہ اس کے اپنے زعم میں قرب الہی حاصل کرنے کا خاص ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہیں تھا ۔ میں فراء کے نزدیک لات اصل میں لاحین ہے اور اس میں تاء زائدہ ہے جیسا کہ ثمت اور ربت میں لائی جاتی ہے ۔ بعض نے اہل بصرہ نے کہا ہے ولات بمعنی لیس ہے ۔ ابوبکر العلا کا قول ہے کہ یہ اصل میں لیس ہے یا الف سے اور سین تاء سے تبدیل ہوکر لات بن گیا ہے ۔ جیسا کہ ناس میں ایک لغت نات بھی ہے بعض کا قول ہے کہ لات اصل میں لا ہی ہے ۔ اس میں تاء تانیث کا اضافہ کرکے ایک ساعت یا مدت کے معنی پر تنبیہ کی گئ ہے اور پوری بات یوں ہے ؛لیست الساعۃ اوالمدۃ حین مناص ۔
(١٩۔ ٢٢) بھلا اے مکہ والو تم نے لات و عزی اور تیسرے منات بت کی حالت میں بھی غور کیا ہے کہ یہ تمہارے آخرت میں کام آسکتے ہیں ہرگز نہیں قیامت کے دن یہ تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔- لات، طائف میں قبیلہ ثقیف کا بت تھا وہ اس کو پوجتے تھے اور عزی بطن نخلہ میں غطفان کا ایک درخت تھا وہ اس کی پوجا کرتے تھے اور مناۃ مکہ مکرمہ میں قبیلہ ہزیل اور خزاعہ کا بت تھا وہ اللہ کے علاوہ اس کو پوجا کرتے تھے۔- مکہ والو تم اپنے لیے بیٹے تجویز کرو اور اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز ہوں حالانکہ تم بیٹیوں کو برا سمجھتے ہو اور اپنے لیے ان کا ہونا ناگوار نہیں کرتے یہ تو بہت ہی جاہلانہ نازیبا تقسیم ہوئی۔
آیت ١٩ اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی ۔ ” تو کیا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کے بارے میں غور کیا ہے ؟ “- اب یہاں سے مکی سورتوں کے عمومی مضامین کا آغاز ہو رہا ہے ۔