22۔ 1 ضِیْزیٰ ، حق و صواب سے ہٹی ہوئی۔
[١٣] گویا مشرکین عرب دوہرا ظلم ڈھاتے تھے۔ ایک تو اللہ کی اولاد قرار دیتے تھے اور انہیں اللہ کا شریک سمجھتے تھے۔ دوسرے شریک بھی ایسے جنہیں اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے جبکہ اپنے لیے وہ بیٹیوں کو قطعاً پسند نہ کرتے۔ بلکہ انہیں زندہ درگور کردیتے تھے۔
(تلک اذاً قسمۃ ضیزی :):” ضیزی “” ضاز یصیز صیزاً “ (ض) سے ” فعلی “ (فاء کے ضمہ کے ساتھ) کے وزن پر ہے جو ” افعل “ (اسم تفصیل) کی مونث ہے۔ اس کا معنی ” شدید الضیز “ (سخت ناانصافی والی ہے) ۔ ” ضاد “ کے ضمہ کو ” یائ “ کی موافقت کے لئے کسرہ سے بدل دیا گیا۔ یعنی ایک تو اللہ کے لئے اولاد بتانا، پھر اپنے لئے لڑکے اور اللہ تعالیٰ کے لئے لڑکیاں پسند کرنا ، یہ تو بہت ہی سخت ناانصافی کی تقسیم ہے۔
قِسْمَةٌ ضِيْزٰى، صنوز سے مشتق ہے، جس کے معنی ظلم کرنے اور حق تلفی کرنے کے ہیں، اسی لئے ابن عباس نے قِسْمَةٌ ضِيْزٰى کے معنی ظالمانہ تقسیم کے کئے ہیں۔
تِلْكَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِيْزٰى ٢٢- قسم تقسیم کرنا - الْقَسْمُ : إفراز النّصيب، يقال : قَسَمْتُ كذا قَسْماً وقِسْمَةً ، وقِسْمَةُ المیراث، وقِسْمَةُ الغنیمة :- تفریقهما علی أربابهما، قال : لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر 44] ، وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْماءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ [ القمر 28] - ( ق س م ) القسم والقسمہ ( ض ) کے معنی کسی چیز کے حصے کرنے اور بانٹ دینے کے ہیں مثلا قسمۃ المیراث تر کہ کو دا وارثوں کے در میان تقسیم کرنا قسمۃ الغنیمۃ مال غنیمت تقسیم کرنا قسمہ الغنیمۃ مال غنیمت تقسیم کرنا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر 44] ہر ایک دروازے کے لئے ان میں سے جماعتیں تقسیم کردی گئیں ہیں ۔ وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْماءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ [ القمر 28] جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔- ضيز - قال تعالی: تِلْكَ إِذاً قِسْمَةٌ ضِيزى[ النجم 22] ، أي : ناقصة . أصله : فُعْلَى، فکسرت الضّاد للیاء، وقیل : ليس في کلامهم فُعْلَى - ( ض ی ز ) آیت کریمہ : تِلْكَ إِذاً قِسْمَةٌ ضِيزى[ النجم 22] میں ضیزیٰ کے معنی ناقص اور بےانصافی کے ہیں ۔ یہ اصل میں ضیزیٰ بروزن فعلٰی ہے ۔ یاء کی مناسبت سے ضاد کو مکسور کردیا گیا ہے ۔ ( کیونکہ ) بقول بعض کلام عرب میں فعلٰی کے وزن پر اسم صفت نہیں آتا ۔
آیت ٢٢ تِلْکَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی ۔ ” یہ تو بہت بھونڈی تقسیم ہے “