[١٩] ذکر سے مراد قرآن کریم بھی ہوسکتا ہے اور معبود ان باطل کے مقابلہ میں خالص اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے دعوت حق اور وعظ و نصیحت بھی یعنی جو شخص میرا ذکر سننا گوارا ہی نہیں کرتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے سمجھانے پر اپنا وقت ضائع نہ کیجئے۔ ایسے لوگوں کا منتہائے مقصود صرف دنیوی مفادات ہی ہوتے ہیں جبکہ یہ تعلیم اخروی فلاح کی طرف بلاتی ہے۔ جس پر نہ ان کا ایمان ہے اور نہ انہیں اس کی ضرورت ہے۔ لہذا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کی طرف کیوں توجہ دیں گے ؟۔
(فاعرض عن من تولی عن ذکرنا : یہاں یہ کہنے کے بجائے کہ ” فاغرض عنھم “ (سو ان سے منہ پھیر لے) یہ فرمایا :(فاعرض عن من تولی عن ذکرنا) (سو اس سے منہ پھیر لے جس نے ہماری نصیحت سے منہ موڑا) تاکہ ان مشرکین سے اعراض کی وجہ بھی سامنے آجائے کہ جو شخص ہماری وحی کے ذریعے سے آنے والی نصیحت کی طرف وتجہ دینے کے لئے تیار ہی نہیں، بلکہ جان بوجھ کر اس سے منہ موڑے ہوئے ہے اور دنیا کی زندگی کے سوا اس نے کچھ جاہا ہی نہیں ہے، آپ بھی اس کے پیچھے نہ پڑیں اور نہ ہی اس کی خاطر وقت ضائع کریں۔
خلاصہ تفسیر - (جب اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ اور جَاۗءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰى سے مشرکین عرب کا معاند ہونا معلوم ہوگیا کہ باجود نزول قرآن اور ہدایت کے یہ اپنے گمان اور ہویٰ پر چلتے ہیں، اور معاند سے قبول حق کی امید نہیں ہوتی) تو آپ ایسے شخص سے اپنا خیال ہٹا لیجئے جو ہماری نصیحت کا خیال نہ کرے اور بجز دنیوی زندگی کے اس کو کوئی (اخروی مطلب) مقصود نہ ہو ( جس کی وجہ عدم ایمان بالآخرة ہے جو لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ سے اوپر مفہوم ہوا ہے اور) ان لوگوں کے فہم کی رسائی کی حد بس یہی (دنیوی زندگی) ہے ( جب ان کی بدفہمی اور بےفکری کی نوبت یہاں تک پہنچی ہے تو ان کی فکر نہ کیجئے، ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کیجئے بس) تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ ہی اس کو بھی خوب جانتا ہے جو راہ راست پر ہے ( اس سے تو اس کا علم ثابت ہوا) اور ( اس سے قدرت ثابت ہے کہ) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے (جب وہ علم اور قدرت دونوں کا کامل ہے اور اس کے قانون اور احکام پر عمل کرنے کے اعتبار سے لوگوں کی دو قسمیں ہیں گمراہ اور ہدایت پر عمل کرنے والے تو) انجام کار یہ ہے کہ برا کام کرنے والوں کو ان کے (برے) کام کے عوض میں (خاص طور کی) جزاء دے گا اور نیک کام کرنے والوں کو ان کے نیک کاموں کے عوض میں (خاص طور کی) جزا دے گا ( اس کا مقتضا یہ ہے کہ اسی کے حوالہ کیجئے آگے ان لوگوں کا بیان ہے جو نیکوں کار محسنین ہیں) وہ لوگ ایسے ہیں کہ کبیرہ گناہوں سے اور ( ان میں) بےحیائی کی باتوں سے (بالخصوص زیادہ) بچتے ہیں مگر ہلکے ہلکے گناہ (کبھی کبھار ہوجائیں تو جس نیکو کاری کا یہاں ذکر ہے اس میں ان سے خلل نہیں آتا، مطلب استثناء کا یہ ہے کہ الذین احسنوا یعنی محسنین جن کی اس آیت میں مدح کی گئی ہے اور ان کے محبوب عنداللہ ہونے کا اظہار کیا گیا ہے اس کا مصداق بننے کے لئے کبیرہ گناہوں سے بچنا تو شرط ہے، لیکن صغائر کا کبھی کبھی صدور اس محبوبیت کے منافی نہیں، البتہ صغیرہ گناہوں میں بھی یہ شرط ہے کہ ان کی عادت نہ ڈال لے اور ان پر اصرار نہ کرے، کبھی اتفاقی طور پر ہوجائے ورنہ اصرار اور عادت سے صغیر گناہ بھی کبیرہ ہوجاتا ہے اور استثناء کا یہ مطلب نہیں کہ صغائر کی اجازت ہے اور کبائر سے اجتناب کی شرط کا یہ مطلب ہے کہ محسنین کو ان کے نیک عمل کی اچھی جزا ملنا کبائر سے اجتناب پر موقوف ہے، کیونکہ مرتکب کبائر بھی جو حسنہ کرے گا اس کی جزا پاوے گا، لقولہ تعالیٰ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ ، جس پر عنوان احسنوا دلالت کرتا ہے خوب سمجھ لو اور اوپر جو بدکاروں کو سزا دینے کا بیان آیا اس سے گناہ گاروں کو ناامید کرنے کا وہم ہوسکتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا کہ ایمان و توبہ سے ہمت ہار دیں اور محسنین کو جرائے حسنہ دینے کے وعدہ سے ان کے عجب و غرور میں مبتلا ہونے کا ایہام اور خطرہ تھا، آگے ان دونوں ایہاموں کو رد کیا گیا ہے) بلاشبہ آپ کے رب کی مغفرت بڑی وسیع ہے (گناہ گاروں کو تدارک گناہ سے ہمت نہ ہارنی چاہئے، وہ اگر چاہے تو بجز کفر و شرک کے اور سیئات کو محض فضل سے معاف کردیتا ہے تو تدارک سے کیوں معاف نہ کرے گا اور اسی طرح محسنین کو عجب اور فخر نہ کرنا چاہئے، کیونکہ حسنات میں بعض اوقات ایسے مخفی نقائص مل جاتے ہیں، جس کے سبب وہ قابل قبول نہیں رہتے اور عامل کو اس طرف التفات نہ ہونے سے ان کی اطلاع بھی نہیں ہوتی اور حق تعالیٰ کو تو علم ہوتا ہے جب وہ حسنہ مقبول نہیں تو ان کا کرنے والا محسن اور محبوب نہیں، پھر عجب و غرور کیسا، اور یہ بات کہ تمہاری کسی حالت کی خود تم کو اطلاع نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کو اطلاع ہو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے بلکہ ابتداء ہی سے اس کا وقوع ہو رہا ہے، چنانچہ) وہ تم کو (اور تمہارے احوال کو اس وقت سے) خوب جانتا ہے، جب تم کو (یعنی تمہارے جد امجد آدم (علیہ السلام) کو) زمین (کی خاک) سے پیدا کیا تھا (جن کے ضمن میں بواسطہ تم بھی مٹی سے مخلق ہوئے) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے (اور ان دونوں حالتوں میں تم کو خود اپنا کوئی علم نہ تھا اور ہم کو علم تھا پس اسی طرح اب بھی تمہارا خود اپنے سے ناواقف ہونا اور ہمارا عالم و واقف ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں، جب یہ بات ہے) تو تم اپنے کو مقدس مت سمجھا کرو (کیونکہ) تقویٰ والوں کو وہی خوب جانتا ہے ( کہ فلاں متقی ہے فلاں نہیں، گو صورةً افعال تقویٰ کے دونوں سے صادر ہوتے ہوں) ۔- معارف و مسائل - فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى ڏ عَنْ ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ اِلَّا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا۔ ذٰلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ ، یعنی آپ ایسے لوگوں سے اپنا خیال ہٹا لیجئے جو ہماری یاد سے رخ پھیر لیں اور دنیوی زندگی کے سوا ان کا کوئی مقصد نہ ہو، یہی ان کا انتہائی علم و ہنر ہے۔- ضروری تنبیہ :- قرآن کریم نے یہ ان کفار کا حال بیان کیا ہے جو آخرت و قیامت کے منکر ہیں، افسوس ہے کہ انگریزوں کی تعلیم اور دنیا کی ہواؤ ہوس نے آج کل ہم مسلمانوں کا یہی حال بنادیا ہے کہ ہمارے سارے علوم و فنون اور علمی ترقی کی ساری کوششیں صرف معاشیات کے گرد گھومنے لگیں، معادیات (معاملات آخرت) کا بھول کر بھی دہیان نہیں آتا۔ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لیتے ہیں، اور آپ کی شفاعت کی امید لگائے ہوئے ہیں، مگر حالت یہ ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی حالت والوں سے رخ پھیر لینے کی ہدایت کرتا ہے، نعوذ باللہ منہ۔
فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰى ٠ۥۙ عَنْ ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ اِلَّا الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا ٢٩ ۭ- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ- [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى- [ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ- وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ- [ الحج 11] ، وقوله : وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل 122] ، وتارة عن الأقرب، فيقابل بالأقصی نحو : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى- [ الأنفال 42] ، وجمع الدّنيا الدّني، نحو الکبری والکبر، والصّغری والصّغر . وقوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ- [ المائدة 108] ، أي : أقرب لنفوسهم أن تتحرّى العدالة في إقامة الشهادة، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب 51] ، وقوله تعالی: لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة 220] ، متناول للأحوال التي في النشأة الأولی، وما يكون في النشأة الآخرة، ويقال : دَانَيْتُ بين الأمرین، وأَدْنَيْتُ أحدهما من الآخر . قال تعالی: يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ- [ الأحزاب 59] ، وأَدْنَتِ الفرسُ : دنا نتاجها .- وخصّ الدّنيء بالحقیر القدر، ويقابل به السّيّئ، يقال : دنیء بيّن الدّناءة . وما روي «إذا أکلتم فدنّوا» «2» من الدّون، أي : کلوا ممّا يليكم .- دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی ۔ اور آیت کریمہ ؛وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل 122] اور ہم نے ان کو دینا بھی خوبی دی تھی اور آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی اقرب آنا ہے اوراقصی کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] جس وقت تم ( مدینے کے ) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر ۔ الدنیا کی جمع الدنیٰ آتی ہے جیسے الکبریٰ کی جمع الکبر والصغریٰ کی جمع الصغر۔ اور آیت کریمہ ؛ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ [ المائدة 108] اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح شہادت ادا کریں ۔ میں ادنیٰ بمعنی اقرب ہے یعنی یہ اقرب ہے ۔ کہ شہادت ادا کرنے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھیں ۔ اور آیت کریمہ : ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب 51] یہ ( اجازت ) اس لئے ہے کہ ان کی آنکھیں ضدی ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة 220] تا کہ تم سوچو ( یعنی ) دنای اور آخرت کی باتوں ) میں غور کرو ) دنیا اور آخرت کے تمام احوال کی شامل ہے کہا جاتا ہے ادنیت بین الامرین وادنیت احدھما من الاخر ۔ یعنی دوچیزوں کو باہم قریب کرنا ۔ یا ایک چیز کو دوسری کے قریب کرتا ۔ قرآن میں ہے : يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب 59] کہ باہر نکلاکریں تو اپنی چادریں اپنے اوپر ڈٖال لیا کریں َ ادنت الفرس ۔ گھوڑی کے وضع حمل کا وقت قریب آپہنچا ۔ الدنی خاص ک حقیر اور ذیل آدمی کو کہا جاتا ہے اور یہ سیئ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے کہا کاتا ہے :۔ ھودنی یعنی نہایت رزیل ہے ۔ اور حومروی ہے تو یہ دون سے ہیے یعنی جب کھانا کھاؤ تو اپنے سامنے سے کھاؤ ۔
اے محمد آپ ایسے شخص سے اپنی توجہ ہٹا لیجیے جو ہماری توحید اور ہماری کتاب کا خیال نہ کرے اور اپنی کوششوں سے سوائے دنیوی زندگی کے اسے کوئی مقصود نہ ہو، یعنی ابو جہل۔
آیت ٢٩ فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰی عَنْ ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ اِلَّا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا ۔ ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ اعراض کر لیجیے ہر اس شخص سے جس نے روگردانی کی ہے ہمارے ذکر سے ‘ اور دنیا کی زندگی کے سوا جسے کچھ مطلوب نہیں ہے۔ “- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ایسے شخص کو نظر انداز کردیں اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں جو صرف اور صرف دنیا کا طالب ہے اور اپنے اس مطلوب کی دھن میں اس نے ہماری یاد سے پیٹھ موڑ لی ہے۔ ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے جس کی وضاحت سورة بنی اسرائیل کی ان آیات میں کردی گئی ہے :- مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہٗ فِیْہَا مَا نَشَآئُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَہَنَّمَج یَصْلٰٹہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا ۔ وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَّشْکُوْرًا ۔ - ” جو کوئی عاجلہ (دنیا) کا طلب گار بنتا ہے ہم اس کو جلدی دے دیتے ہیں اس میں سے جو کچھ ہم چاہتے ہیں ‘ جس کے لیے چاہتے ہیں ‘ پھر ہم مقرر کردیتے ہیں اس کے لیے جہنم۔ وہ داخل ہوگا اس میں ملامت زدہ ‘ دھتکارا ہوا۔ اور جو کوئی آخرت کا طلب گار ہو ‘ اور اس کے لیے اس کے شایانِ شان کوشش کرے اور وہ مومن بھی ہو تو یہی لوگ ہوں گے جن کی کوشش کی قدر افزائی کی جائے گی۔ “
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :24 ذکر کا لفظ یہاں کئی معنی دے رہا ہے اس سے مراد قرآن بھی ہو سکتا ہے ، محض نصیحت بھی مراد ہوسکتی ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خدا کا ذکر سننا ہی جسے گوارا نہیں ہے ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :25 یعنی اس کے پیچھے نہ پڑو اور اسے سمجھانے پر اپنا وقت ضائع نہ کرو ۔ کیونکہ ایسا شخص کسی ایسی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو گا جس کی بنیاد خدا پرستی پر ہو ، جو دنیا کے مادی فائدوں سے بلند تر مقاصد اور اقدار کی طرف بلاتی ہو ، اور جس میں اصل مطلوب آخرت کی ابدی فلاح و کامرانی کو قرار دیا جا رہا ہو ۔ اس قسم کے مادہ پرست اور خدا بیزار انسان پر اپنی محنت صرف کرنے کے بجائے توجہ ان لوگوں کی طرف کرو جو خدا کا ذکر سننے کے لیے تیار ہوں اور دنیا پرستی کے مرض میں مبتلا نہ ہوں ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :26 یہ جملہ معترضہ ہے جو سلسلہ کلام کو بیچ میں توڑ کر پچھلی بات کی تشریح کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے ۔