١۔ افرء یت الذی تولی :۔ اس سورت کا مضمون رسالت کا اثبات ، شرک اور بت پرستی کی تردید اور مشرکین مکہ کی مذمت ہے۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے پاک ہونے کے گمان اور دعویٰ سے منع فرمایا۔ قریش مکہ اپنے بارے میں کئی طرح کے گمان اور دعوے رکھتے تھے ، جنہوں نے انہیں دھوکے میں مبتلا کر رکھا تھا ۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر ان کے وہ گمان ذکر فرمائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنی برتری کا گمان تھا ، اللہ تعالیٰ کے تمام لوگوں کو مٹی سے ، پھر ماں کے شکم سے پیدا کرنے کا ذکر فرما کر تقویٰ کو معیار فضیلت قرار دیا ۔ ایک کام ان کا یہ تھا کہ انہوں نے عین کعبہ کے اندر ابراہیم ، اسماعیل (علیہ السلام) اور دوسرے بزرگوں کی صورتیں رکھ کر ان کی عبادت کر کے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہمارے یہ وکیل اور سفارشی بڑے زبردست ہیں کہ وہ اپنے نام لیواؤں کو ، خواہ وہ کچھ بھی کرتے رہیں، اپنے دامن میں پناہ دیں گے۔ (دیکھئے : یونس : ١٨) ایک گمان ان کا یہ تھا کہ کفر کے باوجود انہیں جس طرح دنیا میں نعمتیں ملی ہوئی ہیں اسی طرح آخرت میں بھی ملیں گی۔ ( دیکھئے مریم : ٧٧) اسی طرح وہ دوسروں کو یہ کہہ کر اسلام قبول کرنے سے روکنے تھے کہ تم ہماری راہ پر چلتے رہو، تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گے۔ (دیکھئے عنکبوت : ١٢) ان سارے دعوؤں اور گمانوں کا نتیجہ یہ تھا کہ آخرت کے عذاب سے بےخوف ہونے کی وجہ سے ان میں دنیا کی شدید ہوس ، بخل اور کمینگی آچکی تھی ۔ وہ کچھ خرچ کرتے بھی تھے تو نام و نمود کی خاطر ، وہ بھی بس اتنا کہ نام ہوجائے ، اس سے آگے ان کے ہاتھ کھلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے اور اتنا خرچ کر کے بھی وہ اپنی سخاوت اور دریا دلی کی لاف زنی کرتے کہ میں نے یہ کردیا اور وہ کردیا ، جیسا کہ سورة ٔ بلد میں ہے ” یقول اھلکت ما لا لبدا “ (البلد : ٦) ” کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال برباد کر ڈالا “۔ اپنے آباؤ و اجداد، پیشواؤں ، وکیلوں اور سفارشیوں کے بل بوتے پر یہ کہہ کر گناہ کیے جاتے ہیں کہ ہمارے گناہ وہ اٹھا لیں گے ، جیسے نصرانیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے تمام گناہوں کے کفارہ میں مسیح (علیہ السلام) سولی پر چڑھ گئے ہیں ، ہم ان کے نام لیواء ہیں ، ہمارے سارے گناہ انہوں نے اپنے ذمے لے کر بخشوا لیے ہیں اور جیسا کہ آج کل مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ حسین (رض) نے شہادت پا کر اپنے نام لیواؤں کے سارے گناہ بخشوا لیے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ایسے تمام گمانوں اور دعوؤں کی تردید فرمائی ہے۔- ٢۔ واعطی قلیلاً واکذی :” اکدی “ کذیۃ سے ہے جس کا معنی چٹان ہے۔ کوئی شخص کنواں وغیرہ کھودنے لگے اور آگے چٹان یا پتھر آجانے کی وجہ سے کھودنے سے رک جائے تو کہا جاتا ہے :” اکدی الرجل “ یہاں ” الذی “ سے کوئی خاص شخص مراد نہیں ، بلکہ مقصود مشرک آدمی کی نفسیات اور طرز عمل کا تذکرہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے ، اگر کبھی دیتے بھی ہیں تو نام کے لیے ، وہ بھی تھوڑا سا ، پھر ان کے سامنے کنجوسی کی چٹان آجاتی ہے اور وہ رک جاتے ہیں ۔ خصوصاً جب انہیں اس سے شہرت یا دنیوی مفاد حاصل ہوتا دکھائی نہ دیتا ہو ۔ فرمایا : کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے قبول کرنے سے منہ موڑ لیا کچھ تھوڑا سا مال خرچ کیا اور رک گیا ۔ شاہ عبد القادر نے فرمایا :” یعنی تھوڑا سا ایمان لانے لگا ، پھر رک گیا “ ( موضح) اس معنی میں مراد وہ مشرک ہیں جنہوں نے کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا قرآن کی تعریف کی ، مگر اس کے بعد ایمان لانے سے رک گئے۔
شان نزول - در منثور میں بروایت ابن جریر یہ نقل کیا ہے کہ کوئی شخص اسلام لے آیا تھا، اس کے کسی ساتھی نے اس کو ملامت کی کہ تو نے اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑ دیا ؟ اس نے کہا کہ میں اللہ کے عذاب سے ڈرتا ہوں وہ بولا کہ تو مجھے کچھ دیدے تو میں آخرت کا تیرا عذاب اپنے سر پر رکھ لوں گا، تو عذاب سے بچ جائے گا، چناچہ اس نے کچھ دیدیا، اس نے اور مانگا تو کچھ کشا کشی کے بعد کچھ اور بھی دے دیا اور بقیہ کی دستاویز مع گواہوں کے لکھ دی، روح المعانی میں اس شخص کا نام ولید بن مغیرہ لکھا ہے، جس کا اسلام کی طرف میلان ہوگیا تھا، اس کے دوست نے ملامت کی اور عذاب کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔- خلاصہ تفسیر - (آپ نے نیکوں کی صفات تو سن لیں) تو بھلا آپ نے ایسے شخص کو بھی دیکھا جس نے (دین حق سے) روگردانی کی (یعنی اسلام سے ہٹ گیا) اور تھوڑا مال دیا اور (پھر) بند کردیا (یعنی جس شخص سے مال دینے کا وعدہ اپنے مطلب کے واسطے کیا تھا، وہ بھی پورا نہ دیا اور اسی سے مفہوم ہوا کہ ایسا شخص دوسروں کی نفع رسانی کے لئے کیا خرچ کرے گا جب اپنے ہی مطلب کے لئے پورا خرچ نہ کرسکا جس کا حاصل اس کا بخیل ہونا ہے) کیا اس شخص کے پاس ( کسی صحیح ذریعہ سے) علم غیب ہے کہ اس کو دیکھ رہا ہے ( جس کے ذریعہ سے معلوم ہوگیا کہ فلاں شخص میری طرف سے میرے گناہوں کا عذاب اپنے سر لے کر مجھے عذاب سے بچا دے گا) کیا اس کو اس مضمون کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں ہے (اور حسب روایت در منثور در تفسیر سورة اعلیٰ موسیٰ (علیہ السلام) کے یہ دس صحیفے علاوہ توریت کے ہیں) اور نیز ابراہیم (علیہ السلام) کے (صحیفوں میں ہے وسیاتی فی سورة الاعلیٰ ) جنہوں نے احکام کی پوری بجا آوری کی (اور وہ مضمون) یہ (ہے) کہ کوئی شخص کسی کا گناہ اپنے اوپر (ایسے طور سے) نہیں لے سکتا ( کہ گناہ کرنے والا بری ہوجاوے، پھر یہ شخص کیسے سمجھ گیا کہ میرا سارا گناہ یہ شخص اپنے سر رکھ لے گا) اور یہ (مضمون ہے) کہ انسان کو (ایمان کے بارے میں) صرف اپنی ہی کمائی ملے گی (یعنی کسی دوسرے کا ایمان اس کے کام نہ آوے گا، پس اگر اس ملامت کرنے والے شخص کے پاس ایمان ہوتا تب بھی اس شخص کے کام نہ آتا، چہ جائے کہ وہاں بھی ایمان ندارد ہے) اور یہ (مضمون ہے) کہ انسان کی سعی بہت جلد دیکھی جائے گی پھر اس کو پورا بدلہ دیا جاوے گا (باوجود اس کے یہ شخص اپنی فلاح کی سعی سے کیسے غافل ہوگیا) اور یہ (مضمون ہے) کہ (سب کو) آپ کے پروردگار ہی کے پاس پہنچنا ہے (پھر وہ شخص کیسے نڈر ہوگیا) اور یہ (مضمون ہے) کہ وہی ہنساتا اور رلاتا ہے اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور جلاتا ہے اور یہ کہ وہی دونوں قسم یعنی نر اور مادہ کو نطفہ سے بناتا ہے جب (وہ رحم میں) ڈالا جاتا ہے (یعنی مالک تمام تصرفات کا خدا ہی ہے، دوسرا نہیں، پھر وہ شخص کیسے سمجھ گیا کہ قیامت کے روز یہ تصرف کہ مجھ کو عذاب سے بچا لے کسی دوسرے کے قبضہ میں ہوجاوے گا) اور یہ (مضمون ہے) کہ دوبارہ پیدا کرنا (حسب وعدہ) اس کے ذمہ ہے (یعنی ایسا ضروری ہونے والا ہے جیسے کسی کے ذمہ ہو تو اس شخص کے نڈر ہونے کی وجہ یہ بھی نہ ہونا چاہئے کہ قیامت نہ آوے گی) اور یہ (مضمون ہے) کہ وہی غنی کرتا ہے (یعنی سرمایہ دیتا ہے) اور سرمایہ (دے کر محفوظ اور) باقی رکھتا ہے اور یہ کہ وہی مالک ہے ستارہ شعریٰ کا بھی (جس کی عبادت جاہلیت میں بعض لوگ کرتے تھے، یعنی ان تصرفات و اشیاء کا مالک بھی وہی ہے جیسے پہلے تصرفات کا مالک وہی ہے اور اوپر کے تصرفات خود انسان کے وجود میں ہیں اور بعد کے تصرفات متعلقات انسان میں ہیں، چناچہ مال اور ستارہ دونوں خارج ہیں اور شاید ان دو کے ذکر میں اشارہ ہو کہ جس کو تم اپنا مددگار سمجھتے ہو اس کے رب بھی ہم ہی ہیں، پھر دوسرے کو قیامت میں اس شخص کے گمان کے موافق کیا تصرف پہنچ سکتا ہے) اور یہ (مضمون ہے) کہ اس نے قدیم قوم عاد کو (اس کے کفر کی وجہ سے) ہلاک کیا اور ثمود کو بھی کہ ( ان میں سے) کسی کو باقی نہ چھوڑا اور ان سے پہلے قوم نوح (علیہ السلام) کو (ہلاک کیا) بیشک وہ سب سے بڑھ کر ظالم اور شریر تھے (کہ ساڑھے نو سو برس کی دعوت میں بھی راہ پر نہ آئے) اور (قوم لوط (علیہ السلام) کی) الٹی ہوئی بستیوں کو بھی پھینک مارا تھا، پھر ان بستیوں کو گھیر لیا جس چیز نے کہ گھیر لیا (یعنی اوپر سے پتھر برسنا شروع ہوئے، پس یہ شخص اگر ان قصوں میں غور کرتا تو عذاب کفر سے ڈرتا اور بےفکر نہ ہوتا، آگے ان سب مضامین پر تفریع فرماتے ہیں کہ اے انسان جب ایسے ایسے مضامین سے تجھ کو آگاہ کیا جاتا ہے جو بوجہ ہدایت ہونے کے ہر مضمون بجائے خود ایک نعمت ربانی ہے) تو تو اپنے رب کی کون کونسی نعمت میں شک (و انکار) کرتا رہے گا (اور ان مضامین کی تصدیق کر کے منتفع نہ ہوگا) یہ (پیغمبر) بھی پہلے پیغمبروں کی طرح ایک پیغمبر ہیں (ان کو مان لو کیونکہ) وہ جلدی آنے والی چیز قریب آپہنچی ہے (مراد قیامت ہے اور جب وہ آوے گی تو) کوئی غیر اللہ اس کا ہٹانے والا نہیں (پس کسی کے بھروسہ بےفکری کی گنجائش ہی نہیں) سو کیا (ایسی خوف کی باتیں سن کر بھی) تم لوگ اس کلام (الٰہی) سے تعجب کرتے اور (استہزاءً ) ہنستے ہو اور (خوف عذاب سے) روتے نہیں ہو اور تم (اطاعت سے) تکبر کرتے ہو سو (اس کبر و غفلت سے باز آؤ اور حسب تعلیم ان پیغمبر کے) اللہ کی اطاعت کرو اور (اس کی بلا شرکت) عبادت کرو (تاکہ تم کو نجات ہو )- معارف و مسائل - اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰى، تولی کے لفظی معنی منہ پھیر لینے کے ہیں، مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ پھیرے۔
اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰى ٣٣ ۙ- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔
(٣٣۔ ٣٤) بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اصحاب محمد میں جو غرباء ہیں ان پر خرچ کرنے سے منہ موڑا اور اللہ تعالیٰ کے رستہ میں بہت تھوڑا مال دیا اور پھر وہ بھی بند کردیا۔- شان نزول : اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰى (الخ)- اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم جہاد میں تشریف لے چلے تو ایک شخص اس راہ سے آیا کہ اسے کوئی سوار کرالے پر اس کے سوار ہونے کے لیے کوئی چیز نہ ملی اتنے میں اس کا دوست ملا تو اس شخص نے اپنے دوست سے کہا کہ مجھے بھی کچھ دو ، وہ کہنے لگا میں اپنی یہ سواری دیتا ہوں اس شرط پر کہ میرے گناہوں کا بوجھ تو اٹھا لے تو اس نے اپنے دوست سے کہا کہ منظور ہے اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔- اور ابن جریر نے ابن زید سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص مشرف بااسلام ہوگیا تو اسے بعض عار دلانے والے ملے اور کہنے لگا کہ کیا تو نے بزرگوں کے دین کو چھوڑ دیا اور ان کو گمراہ قرار دیا اور تو سمجھتا ہے کہ وہ دوزخ میں ہیں۔ یہ مسلمان کہنے لگا کہ میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ تو وہ شخص کہنے لگا کہ مجھے کچھ دو تو جو بھی تم پر عذاب ہوگا میں اسے اپنے ذمہ لے لیتا ہوں تو اس نے کچھ دے دیا وہ کہنے لگا اور دو تو اس نے دینے میں تنگی کی یہاں تک کہ اسے کچھ اور دے دیا اور اس معاہدہ پر ایک دستاویز لکھوا کر گواہ لے لیے اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی یعنی تو بھلا آپ نے ایسے شخص کو بھی دیکھا جس نے روگردانی کی۔ (الخ)
آیت ٣٣ اَفَرَئَ یْتَ الَّذِیْ تَوَلّٰی ۔ ” پھر (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے پیٹھ موڑ لی ؟ “