منافق و کافر کا نفسیاتی تجزیہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کر رہا ہے جو اللہ کی فرمانبرداری سے منہ موڑ لیں سچ نہ کہیں نہ نماز ادا کریں بلکہ جھٹلائیں اعراض کریں راہ اللہ بہت ہی کم خرچ کریں دل کو نصیحت قبول کرنے والا نہ بنائیں کبھی کچھ کہنا مان لیا پھر رسیاں کاٹ کر الگ ہو گئے عرب اکدیٰ اس وقت کہتے ہیں مثلًا کچھ لوگ کنواں کھود رہے ہوں درمیان میں کوئی سخت چٹان آجائے اور وہ دستبردار ہو جائیں فرماتا ہے کیا اس کے پاس علم غیب ہے جس سے اس نے جان لیا کہ اگر میں راہ للہ اپنا زر و مال دوں گا تو خالی ہاتھ رہ جاؤں گا ؟ یعنی دراصل یوں نہیں بلکہ یہ صدقے نیکی اور بھلائی سے ازروئے بخل ، طمع ، خود غرضی ، نامردی و بےدلی کے رک رہا ہے ، حدیث میں ہے اے بلال خرچ کر اور عرش والے سے فقیر بنا دینے کا ڈر نہ رکھ خود قرآن میں ہے آیت ( وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ 39 ) 34- سبأ:39 ) تم جو کچھ خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بدلہ دے گا اور وہی بہترین رازق ہے ۔ وفی کے معنی ایک تو یہ کئے گئے ہیں کہ انہیں حکم کیا گیا تھا وہ سب انہوں نے پہنچا دیا دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ جو حکم ملا اسے بجا لائے ۔ ٹھیک یہ ہے کہ یہ دونوں ہی معنی درست ہیں جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ ١٢٤ ) 2- البقرة:124 ) ، ابراہیم کو جب کبھی جس کسی آزمائش کے ساتھ اس کے رب نے آزمایا آپ نے کامیابی کے ساتھ اس میں نمبر ملا لئے یعنی ہر حکم کو بجا لائے ہر منع سے رکے رہے رب کی رسالت پوری طرح پہنچا دی پس اللہ نے انہیں امام بنا کر دوسروں کا ان کا تابعدار بنا دیا جیسے ارشاد ہوا ہے آیت ( ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا وما کان من المشرکین ) پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرک نہ تھا ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ ہر روز وہ دن نکلتے ہی چار رکعت ادا کیا کرتے تھے یہی ان کی وفا داری تھی ترمذی میں ایک حدیث قدسی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت ابراہیم کے لئے لفظ وفی اس لئے فرمایا کہ وہ ہر صبح شام ان کلمات کو پڑھا کرتے تھے آیت ( فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ 17 ) 30- الروم:17 ) یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ختم کی ۔ پھر صغیرہ یا کبیرہ کیا تو اس کا وبال خود اس پر ہے اس کا یہ بوجھ کوئی اور نہ اٹھائے گا ۔ جیسے قرآن کریم میں ہے آیت ( وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى ۭ اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۭ وَمَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ 18 ) 35- فاطر:18 ) ، اگر کوئی بوجھل اپنے بوجھ کی طرف کسی کو بلائے گا تو اس میں سے کچھ نہ اٹھایا جائے گا اگرچہ وہ قرابتدار ہو ان صحیفوں میں یہ بھی تھا کہ انسان کے لئے صرف وہی ہے جو اس نے حاصل کیا یعنی جس طرح اس پر دوسرے کا بوجھ نہیں لادا جائے گا دوسروں کی بداعمالیوں میں یہ بھی نہیں پکڑا جائے گا اور اسی طرح دوسرے کی نیکی بھی اسے کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ حضرت امام شافعی اور ان کے متعبین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ قرآن خوانی کا ثواب مردوں کا پہنچایا جائے تو نہیں پہنچتا اس لئے کہ نہ تو یہ ان کا عمل ہے نہ کسب یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس کا جواز بیان کیا نہ اپنی امت کو اس پر رغبت دلائی نہ انہیں اس پر آمادہ کیا نہ تو کسی صریح فرمان کے ذریعہ سے نہ کسی اشارے کنائیے سے ٹھیک اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے قرآن پڑھ کر اس کے ثواب کا ہدیہ میت کے لئے بھیجا ہو اگر یہ نیکی ہوتی اور مطابق شرع عمل ہوتا تو ہم سے بہت زیادہ سبقت نیکیوں کی طرف کرنے والے صحابہ کرام تھے رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ نیکیوں کے کام قرآن حدیث کے صاف فرمان صحیح ثابت ہوتے ہیں کسی قسم کے رائے اور قیاس کا ان میں کوئی دخل نہیں ہاں دعا اور صدقہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اس پر اجماع ہے اور شارع علیہ السلام کے الفاظ سے ثابت ہے جو حدیث صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کے مرنے پر اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں لیکن تین چیزیں نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے یا وہ صدقہ جو اس کے انتقال کے بعد بھی جاری رہے یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے ، اس کا یہ مطلب ہے کہ درحقیقت یہ تینوں چیزیں بھی خود میت کی سعی اس کی کوشش اور اس کا عمل ہیں ، یعنی کسی اور کے عمل کا اجر اسے نہیں پہنچ رہا ، صحیح حدیث میں ہے کہ سب سے بہتر انسان کا کھانا وہ ہے جو اس نے اپنے ہاتھوں سے حاصل کیا ہو اس کی اپنی کمائی ہو اور انسان کی اولاد بھی اسی کی کمائی اور اسی کی حاصل کردہ چیز ہے پس ثابت ہوا کہ نیک اولاد جو اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے دعا کرتی ہے وہ دراصل اسی کا عمل ہے اسی طرح صدقہ جاریہ مثلاً وقف وغیرہ کہ وہ بھی اسی کے عمل کا اثر ہے اور اسی کا کیا ہوا وقف ہے ۔ خود قرآن فرماتا ہے آیت ( اِنَّا نَحْنُ نُـحْيِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ ڳ وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ 12ۧ ) 36-يس:12 ) ، یعنی ہم مردوں کا زندہ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں جو آگے بھیج چکے اور جو نشان ان کے پیچھے رہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اپنے پیچھے چھوڑے ہوئے نشانات نیک کا ثواب انہیں پہنچتا رہتا ہے ، رہا وہ علم جسے اس نے لوگوں میں پھیلایا اور اس کے انتقال کے بعد بھی لوگ اس پر عامل اور کاربند رہے وہ بھی اصل اسی کی سعی اور اسی کا عمل ہے جو اس کے تابعداری کریں ان سب کے برابر اجر کے اسے اجر ملتا ہے درآنحالیکہ ان کے اجر گھٹتے نہیں پھر فرماتا ہے اس کی کوشش قیامت کے دن جانچی جائے گی اس دن اس کا عمل دیکھا جائے گا جیسے فرمایا ( وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٠٥ۚ ) 9- التوبہ:105 ) ، یعنی کہدے کہ تم عمل کئے جاؤ گے پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال سے خبردار کرے گا یعنی ہر نیکی کی جزا اور ہر بدی کی سزا دے گا یہاں بھی فرمایا پھر اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔
34۔ 1 یعنی تھوڑا سا دیکر ہاتھ روک لیا۔ یا تھوڑی سی اطاعت کی اور پیچھ ہٹ گیا، یعنی کوئی کام شروع کرے لیکن اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچائے۔
[٢٥] روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو آیات ولید بن مغیرہ کے متعلق نازل ہوئیں۔ ابو جہل سے پہلے ولید بن مغیرہ ہی سرداران قریش کا رئیس تھا اور اس کے سمجھ دار ہونے میں کچھ شک نہیں تھا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے کافی حد تک متاثر ہوچکا تھا اور قریب تھا کہ ایمان لے آئے۔ اس کے ایک مشرک دوست کو جب اس صورت حال کا پتہ چلا تو اسے کہنے لگا : جس آخرت سے تم ڈرتے ہو اس کا میں ذمہ لیتا ہوں کہ اگر تمہیں عذاب ہوا تو تمہاری سزا میں اپنے سر لے لوں گا بشرطیکہ تم مجھے اتنا اتنا مال دے دو ۔ چناچہ ولید بن مغیرہ اس کے چکمے میں آگیا۔ اس کی بات کو قبول کرتے ہوئے طے شدہ مال کی ایک قسط اسے ادا بھی کردی لیکن بعد میں اس نے کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر مزید مال دینے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
وَاَعْطٰى قَلِيْلًا وَّاَكْدٰى، اکدی، کُدیَہ سے مشتق ہے، کدیہ اس سخت پتھر کو کہا جاتا ہے جو کوئی کنواں یا بنیاد کھودتے ہوئے زمین میں نکل آوے اور کھدائی کے لئے رکاوٹ بن جاوے، اس لئے اکدی کے معنی یہ ہوئے کہ پہلے کچھ دیا پھر دینے سے رک گیا، آیت کے شان نزول میں جو ایک واقعہ اوپر بیان ہوچکا ہے اس کے مطابق تو معنی ظاہر ہیں اور اس سے قطع نظر کی جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کیا پھر چھوڑ دیا، یا شروع میں کچھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرف مائل ہوا، کچھ کرنے لگا پھر چھوڑ بیٹھا، اس لفظ کی یہ تفسیر حضرت مجاہد، سعید بن جبیر، قتادہ وغیرہ سے منقول ہے (ابن کثیر)
وَاَعْطٰى قَلِيْلًا وَّاَكْدٰى ٣٤- عطا - العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء :- الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39]- ( ع ط و ) العطوا - ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - كدى- الكُدْيَةُ : صلابة في الأرض . يقال : حفر فَأَكْدَى: إذا وصل إلى كُدْيَةٍ ، واستعیر ذلک للطالب المخفق، والمعطي المقلّ. قال تعالی: أَعْطى قَلِيلًا وَأَكْدى[ النجم 34] .- ( ک د ی ) الکدیۃ کر معنی سخت زمین کے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ حفر فا کدٰ ی ۔ وہ گڑھا کھودتا ہوا سخت زمین تک جا پہنچا اور مزید کھدائی سے رک گیا اور استعارہ کے طور پر اکدیٰ کا لفظ تھوڑا سادے کر ہاتھ روک لینے اور نا کام ہونے پر بولا جاتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعْطى قَلِيلًا وَأَكْدى[ النجم 34] تھوڑا سا دیا اور پھر ہاتھ روک لیا ۔
آیت ٣٤ وَاَعْطٰی قَلِیْلًا وَّاَکْدٰی (رض) ” تھوڑا سا دیا اور پھر سخت ہوگیا۔ “- عام مفسرین کی رائے یہ ہے کہ ان آیات میں ولید بن مغیرہ کا تذکرہ ہے۔ مجھے بھی اس رائے سے اتفاق ہے۔ تاریخ میں اس شخص کے بارے میں جو معلومات ملتی ہیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر ایمان لانے کے قریب پہنچ چکا تھا ‘ مگر پھر اچانک اسے اپنی چودھراہٹ یاد آگئی۔ حق جوئی کی خواہش پر عصبیت کا جذبہ غالب آگیا اور یوں اس نے اپنی سوچ دوبارہ بدل لی۔ یہاں اس کے اسی رویے کا ذکر ہے۔ سورة المدثر میں اس شخص کا تذکرہ قدرے تفصیل سے آیا ہے۔
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :34 اشارہ ہے وَلید بن مغیرہ کی طرف جو قریش کے بڑے سرداروں میں سے ایک تھا ۔ ابن جریر طبری کی روایت ہے کہ یہ شخص پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا ۔ مگر جب اس کے ایک مشرک دوست کو معلوم ہوا کہ وہ مسلمان ہونے کا ارادہ کر رہا ہے تو اس نے کہا کہ تم دین آبائی کو نہ چھوڑو ، اگر تمہیں عذاب آخرت کا خطرہ ہے تو مجھے اتنی رقم دے دو ، میں ذمہ لیتا ہوں کہ تمہارے بدلے وہاں کا عذاب میں بھکت لوں گا ۔ ولید نے یہ بات مان لی اور خدا کی راہ پر آتے آتے اس سے پھر گیا ، مگر جو رقم اس نے اپنے مشرک دوست کو دینی طے کی تھی وہ بھی بس تھوڑی سی دی اور باقی روک لی ۔ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود کفار مکہ کو یہ بتانا تھا کہ آخرت سے بے فکری اور دین کی حقیقت سے بے خبری نے ان کو کیسی جہالتوں اور حماقتوں میں مبتلا کر رکھا ہے ۔
18: ان آیتوں کا پس منظر حافظ ابن جریر وغیرہ نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک کافر شخص قرآن کریم کی کچھ آیتیں سن کر اسلام لانے کی طرف مائل ہوگیا تھا۔ اس کے ایک دوست نے کہا کہ تم اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا میں آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ دوست نے کہا کہ اگر تم مجھے کچھ پیسے دو تو میں یہ ذمہ داری لیتا ہوں کہ اگر آخرت میں تمہیں عذاب ہونے لگا تو وہ میں اپنے سر لے کر تمہیں بچا لوں گا۔ چنانچہ اس شخص نے کچھ پیسے دے دئیے۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے مزید پیسے مانگے تو اور دے دئیے، لیکن پھر دینا بند کردیا۔ اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک دستاویز لکھ کر دے دی۔ یہ آیات ان دونوں کی حماقت بتا رہی ہیں کہ اول تو جو شخص یہ کہہ رہا تھا کہ میں تمہیں آخرت کے عذاب سے بچا لوں گا، کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ اس پر قادر ہوگا؟ دوسرے اللہ تعالیٰ یہ عام قاعدہ بیان فرما رہے ہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ یہ بات آج پہلی بار نہیں کہی جا رہی، بلکہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام پر جو صحیفے نازل ہوئے تھے، ان میں بھی لکھ دی گئی تھی۔