١۔ الم لم ینبا بما فی صحف موسیٰ ۔۔۔۔۔ یعنی اگر وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں اور اس کے پاس علم غیب بھی نہیں تو کیا پہلے انبیاء کی کتابوں میں جو بنیادی اصول کھلے ہیں وہ بھی کسی نے اسے نہیں بتائے ؟ ان انبیاء میں سے ابراہیم اور موسیٰ (علیہ السلام) کا خاص طور پر ذکر اس لیے فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر چلنے کا وہ دعویٰ رکھتے تھے اور ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد احکام کی بنیادی کتاب موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی تورات ہی تھی جس پر بعد کے تمام انبیاء عمل کرتے تھے اور جو اس وقت بھی موجود تھی اور قریش یہودیوں سے اس کے متعلق پوچھتے رہتے تھے۔- ٢۔ و ابراہیم الذی وفی :” فی “ جس نے پورا کیا ، یہ ذکر نہیں فرمایا کہ کیا پورا کیا ، تا کہ وہ عام رہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اور بندوں سے کیا ہوا ہر عہد پورا کیا ( دیکھئے توبہ : ١١٤) اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا اسے پورا کیا اور جن باتوں کے ساتھ امتحان لیا سب پوری کردکھائیں۔ (دیکھئے بقرہ : ١٢٤)” الذی وفی “ ( جس نے پورا کیا) پر مفسر ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں : ” میرے خیال میں ” الذی “ موصول دونوں میں سے ہر ایک کی صفت ہے۔ ( واللہ اعلم) ” ای کل واحد منھما “ یعنی ابراہیم اور موسیٰ (علیہما السلام) میں سے ہر ایک نے عہد پورا کیا ۔
اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰى وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ ، اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک خاص صفت وَفّٰی بیان فرمائی گئی، وفا کے معنی کسی وعدہ یا معاہدے کو پورا کردینے کے آتے ہیں۔- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خاص صفت ایفائے عہد کی کچھ تفصیل :- مراد یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جو اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے اور اس کا پیغام مخلوق کو پہنچا دیں گے، انہوں نے اس معاہدہ کو ہر حیثیت سے پورا کر دکھایا، جس میں ان کو بہت سخت آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا، وفی کی یہی تفسیر ابن جریر، ابن کثیر وغیرہ نے اختیار کی ہے۔- بعض روایات حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خاص خاص اعمال کو لفظ وفی کا سبب بنایا گیا ہے وہ اس کے منافی نہیں، کیونکہ اصل وفاء عہد عام ہے، تمام احکام الٰہیہ کی تعمیل و اطاعت جس میں اپنے اعمال بھی داخل ہیں، اور فرائض رسالت و نبوت کے ذریعہ عام خلق اللہ کی اصلاح بھی، انہیں اعمال میں یہ عمل بھی ہیں جن کا ذکر ان روایات حدیث میں ہے۔- مثلاً ابن ابی حاتم نے حضرت ابو امامہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ ) اور پھر ان سے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ و فی کا مطلب کیا ہے ؟ ابوامامہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ :۔- وفی عمل یومہ باربع رکعات فی اول النھار (ابن کثیر)- " یعنی انہوں نے اپنے دن کے اعمال کی تکمیل اس طرح کردی کہ شروع دن میں چار رکعت (نماز اشراق کی) پڑھ لیں "۔- اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو ترمذی نے حضرت ابوذر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔- ابن ادم ارکع لی اربع رکعات من اول النھار اکفک اخرہ (ابن کیثر)- " یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے تو شروع دن میں میرے لئے چار رکعتیں پڑھ لیا کر تو میں آخر دن تک تیرے سب کاموں کی کفالت کروں گا "۔- اور ابن ابی حاتم ہی نے ایک روایت حضرت معاذ بن انس سے یہ نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہیں بتلاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو الذی و فی کا خطاب کیوں دیا، پھر فرمایا کہ وجہ یہ ہے کہ وہ روزانہ صبح شام ہونے کے وقت یہ پڑھا کرتے تھے (فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ، وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ ) ابن کثیر
اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰى ٣٦ ۙ- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6] .- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - صحف - الصَّحِيفَةُ : المبسوط من الشیء، کصحیفة الوجه، والصَّحِيفَةُ : التي يكتب فيها، وجمعها :- صَحَائِفُ وصُحُفٌ. قال تعالی: صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی 19] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة 2- 3] ، قيل : أريد بها القرآن، وجعله صحفا فيها كتب من أجل تضمّنه لزیادة ما في كتب اللہ المتقدّمة . والْمُصْحَفُ : ما جعل جامعا لِلصُّحُفِ المکتوبة، وجمعه : مَصَاحِفُ ، والتَّصْحِيفُ : قراءة المصحف وروایته علی غير ما هو لاشتباه حروفه، والصَّحْفَةُ مثل قصعة عریضة .- ( ص ح ف ) الصحیفۃ - کے معنی پھیلی ہوئی چیز کے ہیں جیسے صحیفۃ الوجہ ( چہرے کا پھیلاؤ ) اور وہ چیز جس میں کچھ لکھا جاتا ہے اسے بھی صحیفہ کہتے ہیں ۔ اس کی جمع صحائف وصحف آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی 19] یعنی ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة 2- 3] پاک اوراق پڑھتے ہیں جس میں مستحکم ( آیتیں ) لکھی ہوئی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ صحف سے قرآن پاک مراد ہے اور اس کو صحفا اور فیھا کتب اس لئے کہا ہے کہ قرآن میں کتب سابقہ کی بنسبت بہت سے زائد احکام اور نصوص پر مشتمل ہے ۔ المصحف متعدد صحیفوں کا مجموعہ اس کی جمع مصاحف آتی ہے اور التصحیف کے معنی اشتباہ حروف کی وجہ سے کسی صحیفہ کی قرآت یا روایت میں غلطی کرنے کے ہیں ۔ اور صحفۃ ( چوڑی رکابی ) چوڑے پیالے کی طرح کا ایک برتن ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .
(٣٦۔ ٣٧) کیا اس کو بذریعہ قرآن حکیم اس مضمون کی خبر نہیں پہنچی جو موسیٰ کے صحیفوں اور نیز ابراہیم کے صحیفوں میں تھی جنہوں نے احکام کی پوری تعمیل کی اور رسالت کامل طور پر پہنچا دی یا یہ کہ جو خواب میں نے دیکھا تھا اس کی پوری بجا آوری کی۔
آیت ٣٦ اَمْ لَمْ یُـنَـبَّـاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰی ۔ ” کیا اسے خبر نہیں پہنچی اس بارے میں جو کچھ موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں تھا ؟ “