Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 یعنی جس طرح کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا ذمے دار نہیں ہوگا، اسی طرح اسے آخرت میں اجر بھی انہی چیزوں کا ملے گا، جن میں اس کی اپنی محنت ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٨] قانون جزا وسزا کی دفعات :۔ ان صحیفوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جزا و سزا کا قانون پوری طرح بتادیا تھا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں اس قانون کی خبر نہیں پہنچی۔ اور اس قانون کی دفعات یہ تھیں جو ان دو آیات میں مذکور ہیں (١) جزا و سزا کا قانون ناقابل انتقال ہے۔ نہ تو یہ ممکن ہے زید بکر کے گناہ اپنے ذمہ لے لے اور اس طرح بکر چھوٹ جائے جیسا کہ مشرکوں نے معاہدہ کیا تھا۔ بلکہ ہر ایک کو اپنے اپنے جرائم کی سزا بھگتنا ہوگی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود زید کی سزا بکر کو دے ڈالے اور زید بچ جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ظلم کی کوئی شکل ممکن نہیں اور (٢) ہر شخص کو اپنے کیے کی جزا و سزا ضرور ملے گی اور اتنی ہی ملے گی جتنا اس نے خود عمل کیا۔ اس سے زیادہ نہیں۔ تاہم کتاب و سنت سے یہ بھی ثابت ہے کہ انسان کے سارے اعمال کا تعلق اس کی زندگی تک محدود نہیں رہتا۔ بلکہ کچھ اعمال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات انسان کی زندگی کے بعد بھی باقی رہتے ہیں اور ان کی سزا یا جزا اسے بعد میں ملتی رہتی ہے۔ اور اس کے اعمال نامہ میں اس کا اجر وثواب لکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔- ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہوجاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ کا دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک بخت اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔ (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ)- ٢۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو آدمی ظلم سے ناحق مارا جاتا ہے اس کے گناہ کا ایک حصہ سیدنا آدم کے بیٹے (پہلے قاتل، قابیل) پر ڈالا جاتا ہے اور دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : اس کے خون کے گناہ کا ایک حصہ۔ کیونکہ روئے زمین پر ناحق خون کی رسم اس نے قائم کی (بخاری، کتاب الاعتصام، باب اثم من دعا الی۔۔ سن سنۃ سیئۃ)- ٣۔ منذر بن جریر کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اسلام میں کوئی نیک طرح ڈالی اس کے لیے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد عمل کریں ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا ثواب کچھ کم ہو اور جس نے اسلام میں کوئی بری طرح ڈالی اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بوجھ کچھ کم ہو (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علی الصدقۃ)- ٤۔ جن اعمال کا بدلہ موت کے بعد ملتا رہتا ہے :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے اور رونے پیٹنے سے عذاب ہوتا ہے۔ اور امام بخاری نے عنوان باب میں یہ صراحت کردی کہ جب نوحہ کرنا میت کے خاندان کی رسم ہو (بخاری، کتاب الجنائز۔ باب قول النبی یعذب المیت ببعض بکاء اھلہ علیہ اذا کان النوح من سنتہٖ ) یعنی جب نوحہ کرنا میت کے خاندان کی رسم ہو اور اس نے اس سے منع نہ کیا ہو تو وہ عذاب کا مستحق ہوگیا۔- مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے کچھ اچھے یا برے عمل ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات اس کے مرنے کے بعد بھی قائم رہتے ہیں اور ان کا اسے ثواب یا عذاب ملتا رہتا ہے۔ اب درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ٥ـ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے دوران قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی : اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے تو ایسے وقت جب کہ میرا باپ بہت بوڑھا ہوچکا ہے۔ وہ اونٹنی پر جم کر بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں (بخاری، کتاب المناسک، باب وجوب الحج)- ٦۔ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی : میری ماں نے حج کرنے کی منت مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے مرگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں کرسکتی ہو۔ بھلا دیکھو اگر تمہاری ماں پر قرضہ ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتی اور اللہ تو ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔ (بخاری، کتاب المناسک ابو اب العمرۃ باب الحج والنذور عن المیت)- ٧۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کیا کہ میری ماں ناگہاں مرگئی اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ بات کرسکتی تو ضرور صدقہ دیتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اسے ثواب ملے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں اور دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے یہ پوچھا تھا کہ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو مجھے ثواب ملے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب وصول ثواب الصدقات الی المیت)- ٨ ایصال ثواب کا مسئلہ :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میرا باپ مرگیا اور مال چھوڑ گیا اور اس نے وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب وصول ثواب الصدقات الی المیت)- مذکورہ بالا چار احادیث میں ایسے اعمال کا ذکر ہے جن سے میت کا کوئی تعلق نہیں، بلکہ اس کے لواحقین نے سرانجام دیئے ہیں۔ انہی احادیث سے مشہور و معروف مسئلہ ایصال ثواب مستنبط کیا جاتا ہے جیسا کہ امام مسلم کے عنوان باب سے بھی واضح ہوتا ہے۔ ان احادیث سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں :- ١۔ یہ چاروں احادیث مال و دولت سے تعلق رکھتی ہیں :- ٢۔ جن معاملات کا تعلق فرض یا واجب سے ہو ان کو ادا کرنا میت کے لواحقین پر واجب ہے مثلاً میت کے قرض کی ادائیگی، حج اس پر فرض ہو اور وہ نہ کرسکا ہو تو اس کی ادائیگی، اگر کوئی منت مانی ہو تو اس کی ادائیگی اور روزوں کے یا دوسرے کفارے وغیرہ اور وہ دوسرے کے کرنے سے ادا ہوجاتے ہیں۔- ٣۔ اور اگر ان معاملات کا تعلق محض نفلی صدقات سے ہو تو میت کی طرف سے صدقہ کرنا مستحب ہے واجب نہیں اور اس کا ثواب میت کو پہنچ جاتا ہے جیسے میت کو ثواب پہنچانے کے لیے اس کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنا وغیرہ۔- ٤۔ ایسے نفلی صدقات کا ثواب میت کو بھی پہنچتا ہے اور صدقہ کرنے والے کو بھی یعنی دونوں کو ملتا ہے۔- خ بدعت کی تعریف :۔ واضح رہے کہ علماء کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ ایصال ثواب صرف مالی اور واجب عبادت میں ہی ہوسکتا ہے۔ بدنی اور نفلی عبادات میں نہیں۔ کیونکہ نیابت صرف مالی معاملات میں ہی ہوسکتی ہے بدنی میں نہیں۔ وہ اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ مثلاً الف نے ب کا کچھ قرضہ دینا ہے اور الف کی جگہ اگر کوئی دوسرا شخص مثلاً ج ب کو الف کا قرض ادا کردیتا ہے تو اس کا قرض ادا ہوگیا لیکن اگر الف کو مثلاً بھوک لگی ہے تو اس کی یہ بھوک تب ہی دور ہوسکتی ہے جب وہ خود کھانا کھائے کسی دوسرے کے کھانا کھانے سے الف کی بھوک کبھی دور نہیں ہوسکتی۔ لہذا ایصال ثواب کا تعلق بھی انہی معاملات سے ہوسکتا ہے جن میں نیابت ہوسکتی ہے۔ اور بعض علماء کے نزدیک روزوں کی قضا بھی دی جاسکتی ہے اور کفارہ بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ گویا یہ بھی حج کی طرح مالی عبادت بھی ہے اور بدنی بھی۔ البتہ نمازوں کی نہ قضا دی جاسکتی ہے نہ ہی ان کا کوئی کفارہ ہے۔ اور یہ ہے بھی خالص بدنی عبادت، رہا ایصال ثواب کا مسئلہ تو اس کا تعلق مالی عبادت یعنی صدقہ اور قربانی وغیرہ تک محدود ہے۔ نمازوں یا نفلی روزوں یا نفلی حج وعمرہ سے ایصال ثواب کا تصور درست نہیں۔ اسی طرح قرآن خوانی کی رسم یا رسم قل یا تیجہ یا پانچواں یا دسواں یا چالیسواں یہ سب رسوم باطل اور بدعت ہیں۔ ان کے جواز میں عموماً یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ یہ سب بھلائی کے کام ہیں۔ ان میں یا قرآن خوانی ہوتی ہے یا میت کی طرف سے کچھ صدقہ کیا جاتا ہے۔ لہذا ان کا بھی ثواب میت کو پہنچنا چاہئے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بدعت کے سارے کام ہی بھلائی کے کام سمجھ کر شروع کیے جاتے ہیں۔ آج تک کسی نے کوئی کام برا سمجھ کر بدعت نہیں نکالی۔ دیکھنا صرف یہ چاہئے کہ دور نبوی یا دور صحابہ میں وہ کام ہوا ہے یا نہیں ؟ نیز یہ کہ کیا اس دور میں یہ کام کرنے میں کوئی رکاوٹ موجود تھی ؟ پھر جب اس دور میں کوئی رکاوٹ بھی موجود نہ ہو اور اس کے باوجود صحابہ نے وہ کام نہ کیا ہو اس کو اگر کار ثواب یا دین کا حصہ بنا لیا جائے تو وہ یقیناً بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور اس کا انجام جہنم ہے۔- خ بدعت کی اقسام :۔ پھر بعض لوگوں نے تو اس بدعت کی بھی وہی پانچ قسمیں بنا ڈالی ہیں جو تکالیف شرعیہ کی ہیں۔ یعنی کچھ بدعتیں واجب ہیں، کچھ مستحب، کچھ مباح کچھ مکروہ اور کچھ حرام اور بعض لوگوں نے صرف دو قسمیں بنائی ہیں۔ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدعت کی کوئی تقسیم بیان نہیں فرمائی اور علی الاطلاق فرمایا کہ ہر طرح کی بدعت گمراہی ہے۔ یہ حضرات بدعت حسنہ یا واجب بدعت کی مثال یہ دیتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کو جمع نہیں کیا تھا بعد میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے جمع کیا اور بدعت مستحب کی مثال تراویح کی نماز باجماعت ہے۔ جو سیدنا عمر نے شروع کرائی تھی اور تراویح کی جماعت دیکھ کر فرمایا تھا کہ نعم البدعۃ ھذہٖ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو کام دور صحابہ میں اجماع سے طے پا گیا اس پر بدعت کا اطلاق ہوتا ہی نہیں اور اس کی تفصیل یہ ہے قرآن کو جمع کرنا گمراہی کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا جیسے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور ایسی ضرورت کو استصلاح کہتے ہیں بدعت حسنہ یا بدعت واجبہ کا نام نہیں دیا جاسکتا اور تراویح کی جماعت کی اصل دور نبوی میں ثابت ہے۔ نماز تراویح بھی اور اس کی جماعت بھی آپ نے تین دن کرائی تھی۔ اور سیدنا عمر نے اسے بدعت کا نام دیا تو یہ لغوی معنی کے لحاظ سے تھا شرعی اصطلاح کے لحاظ سے نہ تھا۔ بدعت کی شرعی تعریف یہ ہے۔ مَنْ اَحْدَثَ فِی اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہ، فَھُوَرَدّ (مسلم، کتاب الاقضیہ۔ باب نقض الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور) (یعنی جس کسی نے ہمارے اس دین کے کام میں کوئی نئی بات نکالی جس کی اصل اس میں موجود نہ تھی وہ مردود ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد مبارک میں اپنے ساتھ اپنے صحابہ کو بھی شریک کیا۔ لہذا بدعت کا اطلاق اس کام پر ہوگا جس کا وجود دور صحابہ میں نہ ملتا ہو اور اس کام کے کرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو اور اسے دین اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے۔- بعض اہل بدعت یہ مغالطہ بھی دیتے ہیں کہ دو رنبوی یا دور صحابہ میں مسجدوں میں نہ کلاک لگائے جاتے تھے نہ قالین یا میٹ یا بلب یا ٹیوبیں یا صفیں بچھائی جاتی تھیں اور یہ کام دین کا اور ثواب کا کام سمجھ کر کیے جاتے ہیں تو کیا یہ بدعت ہوں گے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان چیزوں کا تعلق ایجادات سے ہے شریعت سے نہیں اور یہ چیزیں اس دور میں موجود ہی نہ تھیں۔ اور بدعت کی تعریف یہ ہے کہ جو چیز اس دور میں ہوسکتی ہو مگر اس کے باوجود آپ نے یا صحابہ نے نہ کی ہو وہ بدعت ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وان لیس للانسان الا ما سعی : یعنی جس طرح کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ اس پر نہیں ڈالا جائے گا اسی طرح اسے اجر و ثواب بھی انہی اعمال کا ملے گا جو اس نے خود کیے ہیں ۔ یہاں ایک سوال ہے کہ قرآن و حدی سے ثابت ہے کہ آدمی کو دوسروں کے نیک اعمال سے فائدہ پہنچتا ہے ، مثلاً گناہ گاروں کے لیے انبیاء ، فرشتوں اور صالحین کی شفاعت ، مردوں کے لیے زندوں کی دعا دیکھئے (مومن ٨، حشر : ١) اور باپ کے عمل سے اولاد کے درجوں کا بلند ہونا تو قرآن سے ثابت ہے (دیکھئے طور : ٢١) اور میت کی طرف سے صدقہ ، صیام اور حج وغیرہ کا نافع ہونا حدیث سے ثابت ہے ، تو اس آیت کے ساتھ اس کی مطابقت کیسے ہوگی ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسی شخص کے لیے نافع ہوگا جو ایمان لے آیا ، کافر کو ان میں سے کوئی چیز نفع نہیں دے گی ۔ ایمان کے بعد ان چیزوں کا نافع ہونا اس کی اپنی سعی یعنی ایمان ہی کی برکت اور اسی کا نتیجہ ہے ، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو طالب سے کہا تھا :(ای علم قل لا الہ الا اللہ ، کلمۃ احاج لک بھا عند اللہ) (بخاری ، مناقب الانصار ، باب قصۃ ابی طالب : ٣٨٨٤)” اے چچا تو ” لا الٰہ الا اللہ “ کہہ لے ، میں اس کلمے کے ساتھ تیری خاطر اللہ تعالیٰ کے پاس جھگڑوں گا “۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا :(یوم لا ینفع مال ولا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم) ( الشعرائ : ٨٨، ٨٩) ” جس دن نہ کوئی مال فائدہ دے گا اور نہ بیٹے ۔ مگر جو اللہ کے پاس سلامتی و الا دل لے کر آیا “۔ کفر و شرک سے سلامت دلے والے کو وہاں اس کے بیٹے بھی کام آئیں گے جو اس کے بعد اعمال صالحہ کرتے رہے اور اس کے لیے دعا کرتے رہے اور اس کا مال بھی جو صدقہ جاریہ کی صورت میں اس کے نامہ ٔ اعمال میں ثبت ہوتا رہا ۔ بلند درجے والے مومن والدین کے ساتھ ان کی اسی اولاد کو ملایا جائے گا جو ایمان کی نعمت رکھتے ہوں گے ، خواہ کسی بھی درجے کا ہو۔ دیکھئے سورة ٔ طور (٢١) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسرا حکم ہے (وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى) اس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح کوئی دوسرے کا عذاب اپنے سر نہیں لے سکتا، اسی طرح کسی کو یہ بھی حق نہیں کہ کسی دوسرے کے عمل کے بدلے خود عمل کرے لے اور وہ اس عمل سے سبکدوش ہوجائے، مثلاً ایک شخص دوسرے کی طرف سے نماز فرض ادا کر دے یا دوسرے کی طرف سے فرض روزہ رکھ لے اور وہ دوسرا اپنے فرض نماز و روزے سے سبکدوش ہوجائے، یا یہ کہ ایک شخص دوسرے کی طرف سے ایمان قبول کرلے اور اس سے اس کو مومن قرار دیا جائے۔- آیت مذکورہ کی اس تفسیر پر کوئی فقہی اشکال اور شبہ عائد نہیں ہوتا، کیونکہ زیادہ سے زیادہ شبہ حج اور زکوٰة کے مسئلہ میں یہ ہوسکتا ہے کہ ضرورت کے وقت شرعاً ایک شخص دوسرے کی طرف سے حج بدل کرسکتا ہے یا دوسرے کی زکوٰة اس کی اجازت سے ادا کرسکتا ہے، مگر غور کیا جائے تو یہ اشکال اس لئے صحیح نہیں کہ کسی کو اپنی جگہ حج بدل کے لئے بھیج دینا اور اس کے مصارف خود ادا کرنا، یا کسی شخص کو اپنی طرف سے زکوٰة ادا کردینے کے لئے مامور کردینا بھی در حقیقت اس شخص کے اپنے عمل اور سعی کا جز ہے، اس لئے لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى کے منافی نہیں۔- ایصال ثواب کا مسئلہ :- جبکہ اوپر یہ معلوم ہوچکا کہ آیت مذکورہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے فرائض ایمان و نماز و روزہ کو ادا کر کے دوسرے کو سبکدوش نہیں کرسکتا، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک شخص کے نفلی عمل کا کوئی فائدہ اور ثواب دوسرے شخص کو نہ پہنچ سکے، ایک شخص کی دعا اور صدقہ کا ثواب دوسرے شخص کو پہنچنا نصوص شرعیہ سے ثابت اور تمام امت کے نزدیک اجماعی مسئلہ ہے (ابن کثیر)- صرف اس مسئلہ میں امام شافعی کا اختلاف ہے کہ تلاوت قرآن کا ثواب کسی دوسرے کو بخشا اور پہنچایا جاسکتا ہے یا نہیں، امام شافعی اس کا انکار کرتے ہیں اور آیت مذکورہ کا مفہوم عام لے کر اس سے استدلال فرماتے ہیں، جمہور ائمہ اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جس طرح دعا اور صدقہ کا ثواب دوسرے کو پہنچایا جاسکتا ہے اسی طرح تلاوت قرآن اور ہر نفلی عبادت کا ثواب دوسرے شخص کو بخشا جاسکتا ہے اور وہ اس کو ملے گا، قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ احادیث کثیرہ اس پر شاہد ہیں کہ مومن کو دوسرے شخص کی طرف سے عمل صالح کا ثواب پہنچتا ہے، تفسیر مظہری میں اس جگہ ان احادیث کو جمع کردیا ہے جن سے ایصال ثواب کا فائدہ دوسرے کو پہنچنا ثابت ہوتا ہے۔- اوپر صحف موسیٰ و ابراہیم (علیہما السلام) کے حوالے سے جو دو مسئلے بیان کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ ایک شخص کے گناہ کا عذاب کسی دوسرے کو نہیں پہنچے گا اور ایک کے گناہ میں دوسرا کوئی نہ پکڑا جائے گا، دوسرا یہ کہ ہر شخص پر جن اعمال کی شرعی ذمہ داری ہے اس سے سبکدوشی خود اسی کے اپنے عمل سے ہوگی، دوسرے کا عمل اس کو سبکدوش نہ کرے گا۔- یہ دونوں حکم اگرچہ دوسرے انبیاء کی شریعتوں میں بھی تھے مگر حضرت موسیٰ و ابراہیم (علیہما السلام) کی خصوصیات شاید اس بناء پر کی گئی کہ ان کے زمانہ میں یہ جاہلانہ رسم جاری ہوگئی تھی کہ باپ کے بدلے میں بیٹے کو اور بیٹے کے بدلے میں باپ کو یا بھائی بہن وغیرہ کو قتل کردیا جاتا تھا، ان دونوں بزرگوں کی شریعتوں نے اس رسم جاہلیت کو مٹایا تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝ ٣٩ ۙ- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- سعی - السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] .- وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر :- 234-- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد - «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات .- ( س ع ی ) السعی - تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (وان لیس للانسان الا ماسعی، اور انسان کو صرف اپنی ہی کمائی ملے گی) یہ بھی مذکورہ بالا آیتوں کے ہم معنی ہے۔ اس آیت سے ایک آزاد اور عاقل بالغ شخص کے تصرفات پر پابندی لگانے کے ابطال کے سلسلے میں انسان کا اپنے غیر پر تصرف کے جواز کے امتناع پر استدلال کیا جاتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٩۔ ٤٠) اور انسان نے دنیا میں جو نیکی اور برائی کی ہے آخرت میں صرف اس کو اسی کی کمائی ملے گی اور یہ کہ انسان کے اعمال اس کی میزان میں بہت جلدی دیکھے جائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ وَاَنْ لَّــیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ۔ ” اور یہ کہ انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہی کچھ جس کی اس نے سعی کی ہوگی۔ “- انسان کو جو کچھ کرنا ہوگا اپنی محنت اور کوشش کے بل پر کرنا ہوگا ‘ خواہشوں اور تمنائوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ قبل ازیں آیت ٢٤ میں سوال کیا گیا تھا کہ ” کیا انسان کو وہی کچھ مل جائے گا جس کی وہ تمنا کرے گا ؟ “ یہ آیت گویا مذکورہ سوال کا جواب ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :38 اس ارشاد سے بھی تین اہم اصول نکلتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی پائے گا اپنے عمل کا پھل پائے گا ۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کے عمل کا پھل دوسرا نہیں پا سکتا الا یہ کہ اس عمل میں اس کا اپنا کوئی حصہ ہو ۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص سعی و عمل کے بغیر کچھ نہیں پا سکتا ۔ ان تین اصولوں کو بعض لوگ دنیا کے معاشی معاملات پر غلط طریقے سے منطبق کر کے ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی محنت کی کمائی ( ) کے سوا کسی چیز کا جائز مالک نہیں ہو سکتا ۔ لیکن یہ بات قرآن مجید ہی کے دیے ہوئے متعدد قوانین اور احکام سے ٹکراتی ہے ۔ مثلاً قانون وراثت ، جس کی رو سے ایک شخص کے ترکے میں سے بہت سے افراد حصہ پاتے ہیں اور اس کے جائز وارث قرار پاتے ہیں درآں حال یہ کہ یہ میراث ان کی اپنی محنت کی کمائی نہیں ہوتی ، بلکہ ایک شیر خوار بچے کے متعلق تو کسی کھینچ تان سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں اس کی محنت کا بھی کوئی حصہ تھا ۔ اسی طرح احکام زکوٰۃ و صدقات ، جن کی رو سے ایک آدمی کا مال دوسروں کو محض ان کے شرعی و اخلاقی استحقاق کی بنا پر ملتا ہے اور وہ اس کے جائز مالک ہوتے ہیں ، حالانکہ اس مال کے پیدا کرنے میں ان کی محنت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ۔ اس لیے قرآن کی کسی ایک آیت کو لے کر اس سے ایسے نتائج نکالنا جو خود قرآن ہی کی دوسری تعلیمات سے متصادم ہوتے ہوں ، قرآن کے منشا کے بالکل خلاف ہے ۔ بعض دوسرے لوگ ان اصولوں کو آخرت سے متعلق مان کر یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ آیا ان اصولوں کی رو سے ایک شخص کا عمل دوسرے شخص کے لیے کسی صورت میں بھی نافع ہو سکتا ہے ؟ اور کیا ایک شخص اگر دوسرے شخص کے لیے یا اس کے بدلے کوئی عمل کرے تو وہ اس کی طرف سے قبول کیا جا سکتا ہے ؟ اور کیا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص اپنے عمل کے اجر کو دوسرے کی طرف منتقل کر سکے ؟ ان سوالات کا جواب اگر نفی میں ہو تو ایصال ثواب اور حج بدل وغیرہ سب ناجائز ہو جاتے ہیں ، بلکہ دوسرے کے حق میں دعائے استغفار بھی بے معنی ہو جاتی ہے ، کیونکہ یہ دعا بھی اس شخص کا اپنا عمل نہیں ہے جس کے حق میں دعا کی جائے ۔ مگر یہ انتہائی نقطہ نظر معتزلہ کے سوا اہل اسلام میں سے کسی نے اختیار نہیں کیا ہے ۔ صرف وہ اس آیت کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ ایک شخص کی سعی دوسرے کے لیے کسی حال میں بھی نافع نہیں ہو سکتی ۔ بخلاف اس کے اہل سنت ایک شخص کے لیے دوسرے کی دعا کے نافع ہونے کو تو بالاتفاق مانتے ہیں کیونکہ وہ قرآن سے ثابت ہے ، البتہ ایصال ثواب اور نیابۃً دوسرے کی طرف سے کسی نیک کام کے نافع ہونے میں ان کے درمیان اصولاً نہیں بلکہ صرف تفصیلات میں اختلاف ہے ۔ ( 1 ) ۔ ایصال ثواب یہ ہے کہ ایک شخص کوئی نیک عمل کر کے اللہ سے دعا کرے کہ اس کا اجر و ثواب کسی دوسرے شخص کو عطا فرما دیا جائے ۔ اس مسئلے میں امام مالک اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ خالص بدنی عبادات ، مثلاً نماز ، روزہ اور تلاوت قرآن وغیرہ کا ثواب دوسرے کو نہیں پہنچ سکتا ، البتہ مالی عبادات ، مثلاً صدقہ ، یا مالی و بدنی مرکب عبادات ، مثلاً حج کا ثواب دوسرے کو پہنچ سکتا ہے ، کیونکہ اصل یہ ہے کہ ایک شخص کا عمل دوسرے کے لیے نافع نہ ہو ، مگر چونکہ احادیث صحیحہ کی رو سے صدقہ کا ثواب پہنچایا جا سکتا ہے اور حج بدل بھی کیا جا سکتا ہے ، اس لیے ہم اسی نوعیت کی عبادات تک ایصال ثواب کی صحت تسلیم کرتے ہیں ۔ بخلاف اس کے حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ انسان اپنے ہر نیک عمل کا ثواب دوسرے کو ہبہ کر سکتا ہے خواہ وہ نماز ہو یا روزہ یا تلاوت قرآن یا ذکر یا صدقہ یا حج و عمرہ ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آدمی جس طرح مزدوری کر کے مالک سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی اجرت میرے بجائے فلاں شخص کو دے دی جائے ، اسی طرح وہ کوئی نیک عمل کر کے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کر سکتا ہے کہ اس کا اجر میری طرف سے فلاں شخص کو عطا کر دیا جائے ۔ اس میں بعض اقسام کی نیکیوں کو مستثنیٰ کرنے اور بعض دوسری اقسام کی نیکیوں تک اسے محدود رکھنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے ۔ یہی بات بکثرت احادیث سے بھی ثابت ہے : بخاری ، مسلم ، مسند احمد ، ابن ماجہ ، طبرانی ( فی الاوسط ) مستدرک اور ابن ابی شیبہ میں حضرت عائشہ ، حضرت ابو ہریرہ حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت ابو رافع ، حضرت ابو طلحہ انصاری ، اور حذیفہ بن اُسید الغفاری کی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے لے کر ایک اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربان کیا اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے ۔ مسلم ، بخاری ، مسند احمد ، ابوداؤد اور نسائی میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کو موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرنے کے لیے کہتیں ۔ اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لیے اجر ہے ؟ فرمایا ہاں ۔ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی ۔ ان کے چچا ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دیے ۔ حضرت عمرو بن العاص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں کیا کروں ۔ حضور نے فرمایا اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کر لیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزہ رکھو یا صدقہ کرو ، وہ ان کے لیے نافع ہو گا ۔ مسند احمد ، ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت حسن بصری کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ اسی مضمون کی متعدد دوسری روایات بھی حضرت عائشہ ، حضرت ابوہریرہ اور حضرت بن عباس سے بخاری ، مسلم مسند احمد ، نسائی ترمذی ، ابوداؤد او ابن ماجہ وغیرہ میں موجود ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے اور اسے میت کے لیے نافع بتایا ہے ۔ دار قطنی میں ہے کہ ایک شخص نے حضور سے عرض کیا میں اپنے والدین کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا ہوں ، ان کے مرنے کے بعد کیسے کروں؟ فرمایا یہ بھی ان کی خدمت ہی ہے کہ ان کے مرنے کے بعد تو اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے لیے بھی روزے رکھ ۔ ایک دوسری روایت دار قطنی میں حضرت علی سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا جس شخص کا قبرستان پر گزر ہو اور وہ گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ کر اس کا اجر مرنے والوں کو بخش دے تو جتنے مردے ہیں اتنا ہی اجر عطا کر دیا جائے گا ۔ یہ کثیر روایات جو ایک دوسری کی تائید کر رہی ہیں ، اس امر کی تصریح کرتی ہیں کہ ایصال ثواب نہ صرف ممکن ہے ، بلکہ ہر طرح کی عبادت اور نیکیوں کے ثواب کا ایصال ہو سکتا ہے اور اس میں کسی خاص نوعیت کے اعمال کی تخصیص نہیں ہے ۔ مگر اس سلسلے میں چار باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں: ایک یہ کہ ایصال اسی عمل کے ثواب کا ہو سکتا ہے جو خالصۃً اللہ کے لیے اور قواعد شریعت کے مطابق کیا گیا ہو ، ورنہ ظاہر ہے کہ غیر اللہ کے لیے یا شریعت کے خلاف جو عمل کیا جائے اس پر خود عمل کرنے والے ہی کو کسی قسم کا ثواب نہیں مل سکتا ، کجا کہ وہ کسی دوسرے کی طرف منتقل ہو سکے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں صالحین کی حیثیت سے مہمان ہیں ان کو تو ثواب کا ہدیہ یقیناً پہنچے گا مگر جو وہاں مجرم کی حیثیت سے حوالات میں بند ہیں انہیں کوئی ثواب پہنچنا متوقع نہیں ہے ۔ اللہ کے مہمانوں کو ہدیہ تو پہنچ سکتا ہے ، مگر امید نہیں کہ اللہ کے مجرم کو تحفہ پہنچ سکے ۔ اس کے لیے اگر کوئی شخص کسی غلط فہمی کی بنا پر ایصال ثواب کرے گا تو اس کا ثواب ضائع نہ ہو گا بلکہ مجرم کو پہنچنے کے بجائے اصل عامل ہی کی طرف پلٹ آئے گا ۔ جیسے منی آرڈر اگر مرسل الیہ کو نہ پہنچے تو مرسل کو واپس مل جاتا ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایصال ثواب تو ممکن ہے مگر ایصال عذاب ممکن نہیں ہے ۔ یعنی یہ تو ہو سکتا ہے کہ آدمی نیکی کر کے کسی دوسرے کے لیے اجر بخش دے اور وہ اس کو پہنچ جائے ، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آدمی گناہ کر کے اس کا عذاب کسی کو بخشے اور وہ اسے پہنچ جائے ۔ اور چوتھی بات یہ ہے کہ نیک عمل کے دو فائدے ہیں ۔ ایک اس کے وہ نتائج جو عمل کرنے والے کی اپنی روح اور اس کے اخلاق پر مترتب ہوتے ہیں اور جن کی بنا پر وہ اللہ کے ہاں بھی جزا کا مستحق ہوتا ہے ۔ دوسرے اس کا وہ اجر جو اللہ تعالیٰ بطور انعام اسے دیتا ہے ۔ ایصال ثواب کا تعلق پہلی چیز سے نہیں ہے بلکہ صرف دوسری چیز سے ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ورزش کر کے کشتی کے فن میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس سے جو طاقت اور مہارت اس میں پیدا ہوتی ہے وہ بہرحال اس کی ذات ہی کے لیے مخصوص ہے ۔ دوسرے کی طرف وہ منتقل نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح اگر وہ کسی دربار کا ملازم ہے اور پہلوان کی حیثیت سے اس کے لیے ایک تنخواہ مقرر ہے تو وہ بھی اسی کو ملے گی ، کسی اور کو نہ دے دی جائے گی ۔ البتہ جو انعامات اس کی کارکردگی پر خوش ہو کر اس کا سرپرست اسے دے اس کے حق میں وہ درخواست کر سکتا ہے کہ وہ اس کے استاد ، یا ماں باپ ، یا دوسرے محسنوں کو اس کی طرف سے دے دیے جائیں ۔ ایسا ہی معاملہ اعمال حسنہ کا ہے کہ ان کے روحانی فوائد قابل انتقال نہیں ہیں ، اور ان کی جزا بھی کسی کو منتقل نہیں ہو سکتی ، مگر ان کے اجر و ثواب کے متعلق وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر سکتا ہے کہ وہ اس کے کسی عزیز قریب یا اس کے کسی محسن کو عطا کر دیا جائے ۔ اسی لیے اس کو ایصال جزا نہیں بلکہ ایصال ثواب کہا جاتا ہے ۔ ( 2 ) ۔ ایک شخص کی سعی کے کسی اور شخص کے لیے نافع ہونے کی دوسری شکل یہ ہے کہ آدمی یا تو دوسرے کی خواہش اور ایماء کی بنا پر اس کے لیے کوئی نیک عمل کرے ، یا اس کی خواہش اور ایماء کے بغیر اس کی طرف سے کوئی ایسا عمل کرے جو دراصل واجب تو اس کے ذمہ تھا مگر وہ خود اسے ادا نہ کر سکا ۔ اس کے بارے میں فقہاء حنفیہ کہتے ہیں کہ عبادات کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک خالص بدنی ، جیسے نماز ۔ دوسری خالص مالی ، جیسے زکوٰۃ ۔ اور تیسری مالی و بدنی مرکب ، جیسے حج ۔ ان میں سے پہلی قسم میں نیابت نہیں چل سکتی ، مثلاً ایک شخص کی طرف سے دوسرا شخص نیابۃً نماز نہیں پڑھ سکتا ۔ دوسری قسم میں نیابت ہو سکتی ہے ، مثلاً بیوی کے زیورات کی زکوٰۃ شوہر دے سکتا ہے ۔ تیسری قسم میں نیابت صرف اس حالت میں ہو سکتی ہے جبکہ اصل شخص جس کی طرف سے کوئی فعل کیا جا رہا ہے ، اپنا فریضہ خود ادا کرنے سے عارضی طور پر نہیں بلکہ مستقل طور پر عاجز ہو ، مثلاً حج بدل ایسے شخص کی طرف سے ہو سکتا ہے جو خود حج کے لیے جانے پر قادر نہ ہو اور نہ یہ امید ہو کہ وہ کبھی اس کے قابل ہو سکے گا ۔ مالکہ اور شافیہ بھی اس کے قائل ہیں ۔ البتہ امام مالک حج بدل کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ اگر باپ نے وصیت کی ہو کہ اس کا بیٹا اس کے بعد اس کی طرف سے حج کرے تو وہ حج بدل کر سکتا ہے ورنہ نہیں ۔ مگر احادیث اس معاملہ میں بالکل صاف ہیں کہ باپ کا ایما یا وصیت ہو یا نہ ہو ، بیٹا اس کی طرف سے حج بدل کر سکتا ہے ۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ قبیلہ خُثعم کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے باپ کو فریضہ حج کا حکم ایسی حالت میں پہنچا ہے کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے ، اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ نہیں سکتا ۔ آپ نے فرمایا فحُجّی عنہ ، تو اس کی طرف سے تو حج کر لے ( بخاری ، مسلم ، احمد ، ترمذی ، نسائی ، ) ۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایت حضرت علی نے بھی بیان کی ہے ( احمد ، ترمذی ) ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر قبیلہ خثعم ہی کے ایک مرد کا ذکر کرتے ہیں کہ اس نے بھی اپنے بوڑھے باپ کے متعلق یہی سوال کیا تھا ۔ حضور نے پوچھا کیا تو اس کا سب سے بڑا لڑکا ہے ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں ۔ فرمایا : ارایت لو کان علیٰ ابیک دین فقضیتہ عنہ اکان یجزی ذٰلک عنہ؟ تیرا کیا خیال ہے ، اگر تیرے باپ پر قرض ہو اور تو اس کو ادا کر دے تو وہ اس کی طرف سے ادا ہو جائے گا ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں ۔ فرمایا: فَاحْجُجْ عنہ ۔ بس اسی طرح تو اس کی طرف سے حج بھی کر لے ۔ ( احمد ۔ نسائی ) ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے آ کر عرض کیا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر وہ اس سے پہلے ہی مر گئی ، اب کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری ماں پر اگر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا نہ کر سکتی تھی؟ اسی طرح تم لوگ اللہ کا حق بھی ادا کرو ، اور اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے ساتھ کیے ہوئے عہد پورے کیے جائیں ( بخاری ۔ نسائی ) ۔ بخاری اور مسند احمد میں ایک دوسری روایت یہ ہے کہ ایک مرد نے آ کر اپنی بہن کے بارے میں وہی سوال کیا جو اوپر مذکور ہوا ہے اور حضور نے اس کو بھی یہی جواب دیا ۔ ان روایات سے مالی و بدنی مرکب عبادات میں نیابت کا واضح ثبوت ملتا ہے ۔ رہیں خالص بدنی عبادات تو بعض احادیث ایسی ہیں جن سے اس نوعیت کی عبادات میں بھی نیابت کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔ مثلاً ابن عباس کی یہ روایت کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے حضور سے پوچھا میری ماں نے روزے کی نذر مانی تھی اور وہ پوری کیے بغیر مر گئی ، کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھ سکتی ہوں؟ حضور نے فرمایا اس کی طرف سے روزہ رکھ لے ( بخاری ، مسلم ، احمد ، نسائی ۔ ابوداؤد ) ۔ اور حضرت بریدہ کی یہ روایت کہ ایک عورت نے اپنی ماں کے متعلق پوچھا کہ اس کے ذمہ ایک مہینے ( یا دوسری روایت کے مطابق دو مہینے ) کے روزے تھے ، کیا میں یہ روزے ادا کر دوں؟ آپ نے اس کو بھی اس کی اجازت دے دی ( مسلم ، احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ) ۔ اور حضرت عائشہ کی روایت کہ حضور نے فرمایا من مات و علیہ صیام صام عنہ ولیہ ، جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ کچھ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اسکا ولی وہ روزے رکھ لے ( بخاری ، مسلم ، احمد ۔ بزار کی روایت میں حضور کے الفاظ یہ ہیں کہ فلیصم عنہ ولیہ ان شاء ۔ یعنی اس کا ولی اگر چاہے تو اس کی طرف سے یہ روزے رکھ لے ) ۔ انہی احادیث کی بنا پر اصحاب الحدیث اور امام اَوزاعی اور ظاہریہ اس کے قائل ہیں کہ بدنی عبادات میں بھی نیابت جائز ہے ۔ مگر امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، اور امام شافعی اور امام زید بن علی کا فتویٰ یہ ہے کہ میت کی طرف سے روزہ نہیں رکھا جا سکتا ہے جبکہ مرنے والے نے اس کی نذر مانی ہو اور وہ اسے پورا نہ کر سکا ہو ۔ مانعین کا استدلال یہ ہے کہ جن احادیث سے اس کے جواز کا ثبوت ملتا ہے ان کے راویوں نے خود اس کے خلاف فتویٰ دیا ہے ۔ ابن عباس کا فتویٰ نسائی نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ لا یصل احد عن احدٍ ولا یصم احد عن احد ، کوئی شخص کسی کی طرف سے نماز پڑھے اور نہ روزہ رکھے ۔ اور حضرت عائشہ کا فتویٰ عبدالرزاق کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ لا تصوموا عن موتٰکم و اطعموا عنہم ، اپنے مردوں کی طرف سے روزہ نہ رکھو بلکہ کھانا کھلاؤ ۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی عبدالرزاق نے یہی بات نقل کی ہے کہ میت کی طرف سے روزہ نہ رکھا جائے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداءً بدنی عبادات میں نیابت کی اجازت تھی ، مگر آخری حکم یہی قرار پایا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔ ورنہ کس طرح ممکن تھا کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ احادیث نقل کی ہیں وہ خود ان کے خلاف فتویٰ دیتے ۔ اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نیابۃً کسی فریضہ کی ادائیگی صرف ان ہی لوگوں کے حق میں مفید ہو سکتی ہے جو خود ادائے فرض کے خواہش مند ہوں اور معذوری کی وجہ سے قاصر رہ گئے ہوں ۔ لیکن اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود قصداً حج سے مجتنب رہا اور اس کے دل میں اس فرض کا احساس تک نہ تھا ، اس کے لیے خواہ کتنے ہی حج بدل کیے جائیں ، وہ اس کے حق میں مفید نہیں ہو سکتے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص نے کسی کا قرض جان بوجھ کر مار کھایا اور مرتے دم تک اس کا کوئی ارادہ قرض ادا کرنے کا نہ تھا ۔ اس کی طرف سے خواہ بعد میں پائی پائی ادا کر دی جائے ، اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ قرض مارنے والا ہی شمار ہو گا ۔ دوسرے کے ادا کرنے سے سبکدوش صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو اپنی زندگی میں ادائے قرض کا خواہش مند ہو اور کسی مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کر سکا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

21: یعنی انسان کو صرف اپنے عمل کے ثواب کا حق پہنچتا ہے، کسی اور کے عمل کا ثواب لینے کا حق نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اس کو اس کے استحقاق کے بغیر کسی اور عمل کا ثواب عطا فرمادیں تو یہ ان کی رحمت ہے جس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی، چنانچہ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ کسی دوسرے شخص کو ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے، اور متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے وہ ثواب مردے کو پہنچاتے ہیں، کیونکہ عام طور سے کوئی شخص دوسرے کو اسی وقت ایصال ثواب کرتا ہے جب اس نے اس کے ساتھ کوئی نیکی کی ہو یا اور نیک اعمال کئے ہوں۔