40۔ 1 یعنی دنیا میں اس نے اچھا یا برا جو بھی کیا، چھپ کر کیا یا اعلانیہ کیا، قیامت والے دن سامنے آجائے گا اور اس پر اسے پوری جزا دی جائے گی۔
[٢٩] معذور لوگوں کے متعلق اشتراکی نظریہ :۔ یعنی جو کام اس نے خود دنیوی زندگی میں سرانجام دیئے اور جن کاموں کے اثرات چھوڑے سب اس کی سعی میں داخل ہیں اور ان سب کو اعمال کی ترازو میں رکھ کر دیکھا جائے گا۔- بعض کمیونسٹ ذہن کے لوگ (وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى 39ۙ ) 53 ۔ النجم :39) اس مادی دنیا پر منطبق کرکے اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ بوڑھے اور معذور قسم کے لوگ جو کوئی محنت کر ہی نہیں سکتے ان کو مار کر ختم کردینا چاہئے تاکہ وہ معاشرہ پر معاشی بوجھ نہ بنیں۔ جب وہ کما ہی نہیں سکتے تو انہیں کچھ ملنا بھی نہیں چاہیے۔ ظاہر ہے یہ مطلب سیاق وسباق سے قطع نظر کرکے لیا گیا ہے۔ نیز یہ نظریہ اسلام کے نظام صدقات و زکوٰۃ کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام ایسے معذور اور نادار لوگوں کی بھرپور امداد کرکے انہیں زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔ لہذا اشتراکیوں کا یہ نظریہ اسلامی نکتہ نگاہ سے باطل لغو اور فساد فی الارض کے مترادف ہے۔
وان سعیہٗ سوف یریٰ :” یرٰی “ ” رای یریٰ رویۃ “ (ف) سے بھی فعل مجہول ہوسکتا ہے ( اسی کی کوشش دیکھی جائے گی) اور ” اری یری اراء ۃ “ ( افعال) سے بھی ( اس کی کوشش اس کی دکھائی جائے گی) ۔ تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ بنی اسرائیل (١٣، ١٤) اور سورة ٔ کہف (٩ ٤)
وَاَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى، یعنی صرف ہر شخص کی ظاہری سعی کافی نہیں، اللہ تعالیٰ کے دربار میں سعی کی اصل حقیقت بھی دیکھی جائے گی کہ وہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے کی ہے یا دوسری اغراض دنیویہ اس میں شامل ہیں، جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے انما الاعمال بالنیات، یعنی صرف صورت عمل کافی نہیں، عمل میں نیت خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور تعمیل حکم کی ہونا ضروری ہے۔
وَاَنَّ سَعْيَہٗ سَوْفَ يُرٰى ٤٠ ۠- سوف - سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو :- سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ :- شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر :- إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه .- ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔
آیت ٤٠ وَاَنَّ سَعْیَہٗ سَوْفَ یُرٰی ۔ ” اور یہ کہ اس کی سعی عنقریب اسے دکھا دی جائے گی۔ “- سورة الزلزال میں اس مضمون کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے : فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ۔ ” تو جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ‘ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا ۔ “
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :39 یعنی آخرت میں لوگوں کے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی اور یہ دیکھا جائے گا کہ کون کیا کر کے آیا ہے ۔ یہ فقرہ چونکہ پہلے فقرے کے معاً بعد ارشاد ہوا ہے اس لیے اس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ پہلے فقرے کا تعلق آخرت کی جزا و سزا ہی سے ہے اور ان لوگوں کی بات صحیح نہیں ہے جو اسے اس دنیا کے لیے ایک معاشی اصول بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ قرآن مجید کی کسی آیت کا ایسا مطلب لینا صحیح نہیں ہو سکتا جو سیاق و سباق کے بھی خلاف ہو ، اور قرآن کی دوسری تصریحات سے بھی متصادم ہو ۔