Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الا تزر وازرۃ وزر اخری :” الاتزر “ اصل میں ” ان لا تزر “ ہے : ” ان “ تفسیر یہ ہے یا ” انہ “ کی تخفیف ہے ۔ یہاں سے ابراہیم اور موسیٰ (علیہما السلام) کے صحیفوں میں سے چند احکام نقل فرمائے ہیں ، ان میں سے پہلا یہ ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی ( جان) کسی دوسری (جان) کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ انعام ( ١٦٤) بنی اسرائیل ( ١٥) اور فاطر (١٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

صحف موسیٰ و ابراہیم (علیہما السلام) کی خاص ہدایات وتعلیمات :- انبیائے سابقین میں سے جب کسی کا قول یا کوئی تعلیم قرآن میں ذکر کی جاتی ہے تو اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ اس امت کے لئے بھی وہ واجب العمل ہے، جب تک اس کے خلاف کوئی نص شرعی نہ ہو، آگے اٹھارہ آیتوں میں ان خاص تعلیمات کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ و ابراہیم (علیہما السلام) کے صحیفوں میں تھیں، ان میں عملی احکام جن کا تعلق سابقہ آیات کے ساتھ ہے وہ صرف دو ہیں، باقی تعلیمات عبرت و نصیحت اور حق تعالیٰ کی آیات قدرت سے متعلق ہیں، وہ دو یہ ہیں :۔- اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى اور وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى، وزر کے معنی دراصل بوجھ کے ہیں اور پہلی آیت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا اپنے سوا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا بوجھ سے مراد گناہ کا بوجھ اور اس کا عذاب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز ایک شخص کا عذاب دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا، نہ کسی کو اس کا اختیار ہوگا کہ وہ دوسرے کا عذاب اپنے سر لے لے، قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں اس کا بیان اس طرح آیا ہے (وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ) یعنی اگر کوئی گناہوں کے بوجھ سے لدا ہوا شخص لوگوں سے درخواست کرے گا کہ میرا کچھ بوجھ تم اٹھا لو تو کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ اس کے بوجھ کا کوئی حصہ اٹھا سکے۔- ایک کے گناہ میں دوسرا نہیں پکڑا جائے گا :- اس آیت میں اس شخص کے خیال کی بھی تردید ہوگئی جس کا ذکر شان نزول میں آیا ہے کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا یا ہونے والا تھا، اس کے ساتھی نے ملامت کی اور اس کی ضمانت لی کہ قیامت میں تجھ پر کوئی عذاب ہوا تو وہ میں اپنے سر پر لے کر تجھے بچا دوں گا، اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایسے معاملہ کا اللہ کے یہاں کوئی امکان نہیں کہ کسی کے گناہ میں کسی دوسرے کو پکڑ لیا جائے۔- اور ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ جس میت پر اس کے گھر والے ناجائز نوحہ و بکا کرتے ہیں تو ان کے اس فعل سے میت کو عذاب ہوتا ہے (کما ورد فی الصحیحین عن ابن عمر) تو یہ اس شخص کے بارے میں جو خود بھی میت پر نوحہ خوانی، گریہ زاری کا عادی ہو، یا جس نے اپنے وارثوں کو اس کی وصیت کی ہو کہ میرے بعد نوحہ و بکا کا انتظام کیا جائے (مظہری) اس صورت میں اس پر عذاب خود اس کے اپنے عمل کا ہوا، دوسروں کے عمل کا نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝ ٣٨ ۙ- وزر - الوَزَرُ : الملجأ الذي يلتجأ إليه من الجبل .- قال تعالی: كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة 11] والوِزْرُ : الثّقلُ تشبيها بِوَزْرِ الجبلِ ، ويعبّر بذلک عن الإثم کما يعبّر عنه بالثقل . قال تعالی:- لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ- [ النحل 25] ، کقوله : وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت 13] وحمل وِزْر الغیرِ في الحقیقة هو علی نحو ما أشار إليه صلّى اللہ عليه وسلم بقوله : «من سنّ سنّة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجره شيء، ومن سنّ سنّة سيّئة کان له وِزْرُهَا ووِزْرُ من عمل بها» أي : مثل وِزْرِ مَن عمل بها . وقوله تعالی: وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى[ الأنعام 164] أي : لا يحمل وِزْرَهُ من حيث يتعرّى المحمول عنه، وقوله : وَوَضَعْنا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ [ الشرح 2- 3] ، أي : ما کنت فيه من أمر الجاهليّة، فأعفیت بما خصصت به عن تعاطي ما کان عليه قومک، والوَزِيرُ : المتحمِّلُ ثقل أميره وشغله، والوِزَارَةُ علی بناء الصّناعة . وأَوْزَارُ الحربِ واحدها وِزْرٌ: آلتُها من السّلاح، والمُوَازَرَةُ : المعاونةُ. يقال : وَازَرْتُ فلاناً مُوَازَرَةً : أعنته علی أمره . قال تعالی: وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه 29] ، وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه 87] .- ( و ز ر ) الوزر - ۔ پہاڑ میں جائے پناہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة 11] بیشک کہیں پناہ نہیں اس روز پروردگار ہی کے پاس جانا ہے ۔ الوزر ۔ کے معنی بار گراں کے ہیں اور یہ معنی وزر سے لیا گیا ہے جس کے معنی پہاڑ میں جائے پناہ کے ہیں اور جس طرح مجازا اس کے معنی بوجھ کے آتے ہیں اسی طرح وزر بمعنی گناہ بھی آتا ہے ۔ ( اسی کی جمع اوزار ہے ) جیسے فرمایا : ۔ لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل 25]( اے پیغمبر ان کو بکنے دو ) یہ قیامت کے دن اپنے ( اعمال کے ) پورے سے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی ( اٹھائیں گے ) جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت 13] اور یہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی ۔ اور دوسروں کو بوجھ اٹھانے کے حقیقت کیطرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا من سن سنتہ حسنتہ کان لہ اجرھا واجر من عمل بھا من غیران ینقض من اجرہ شیئ ومن سن سنتہ سیئتہ کان لہ وزرھا ووزر من عمل بھا کی جس شخص نے اچھا طریقہ جاری کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا بھی اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بدوں اس کے کہ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی ہو اور جس نے بری رسم جاری کی اس کا بوجھ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے ۔ تویہاں ان لوگوں کے اجر یا بوجھ سے ان کی مثل اجر یا بوجھ مراد ہے۔ اور آیت کریمہ : ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : ۔ وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى[ الأنعام 164] اور کوئی شخص کسی ( کے گناہ ) کا بوجھ نہیں اٹھائیگا ۔ سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ محمول عنہ یعنی وہ دوسرا اس گناہ سے بری ہوجائے لہذا ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے اور آیت : ۔ وَوَضَعْنا عَنْكَوِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ [ الشرح 2- 3] اور تم پر سے بوجھ بھی اتار دیا ۔ میں وزر سے مراد وہ لغزشیں ہیں جو جاہلی معاشرہ کے رواج کے مطابق قبل از نبوت آنحضرت سے سر زد ہوئی تھیں ۔ الوزیر وہ ہے جو امیر کا بوجھ اور اس کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہو ۔ اور اس کے اس عہدہ کو وزارۃ کہا جاتا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه 29] اور میرے گھر والوں میں سے ( ایک کو ) میرا وزیر ( یعنی مدد گار امقر ر فرمایا ۔ ارزار الحرب اس کا مفرد ورر ہے اور اس سے مراد اسلحہ جنگ ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه 87] بلکہ ہم لوگوں کے زیوروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے ۔ میں زیورات کے بوجھ مراد ہیں ۔ الموزراۃ ( مفاعلۃ ) کے معنی ایک دوسرے کی مدد کرنے کے ہیں اور وازرت فلانا موازرۃ کے معنی ہیں میں نے اس کی مدد کی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ہر ایک اپنے ہی افعال کا جواب دہ ہے - قول باری ہے (الا تزروازرۃ وزراخری، کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا) یہ اس قول باری کی طرح ہے (ومن یکسب اثما فانما یکسبہ علی نفسہ اور جو شخص گناہ کماتا ہے وہ اسے اپنی ذات پر کماتا ہے)- نیز ارشاد ہے (ولا تکسب کل نفس الا علیھا، اور ہر شخص جو کمائی کرتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہوتا ہے)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور وہ مضمون یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کا گناہ اپنے اوپر نہیں لے سکتا یا یہ کہ کسی کو دوسرے کے بدلے عذاب نہیں دیا جاسکتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ۔ ” کہ نہیں اٹھائے گی کوئی جان کسی دوسری جان کے بوجھ کو۔ “- قیامت کے دن ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کے لیے خود جواب دہ ہوگا۔ وہاں کوئی کسی کی مدد کو نہیں آئے گا ‘ جیسا کہ سورة مریم کی اس آیت میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے : وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا ۔ کہ اس دن ہر شخص اکیلا حاضر ہوگا۔ ماں باپ ‘ اولاد ‘ عزیز و اقارب میں سے کوئی اس کے ساتھ نہیں ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :37 اس آیت سے تین بڑے اصول مستنبط ہوتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہر شخص خود اپنے فعل کا ذمہ دار ہے ۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کے فعل کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جا سکتی الا یہ کہ اس فعل کے صدور میں اس کا اپنا کوئی حصہ ہو ۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص اگر چاہے بھی تو کسی دوسرے شخص کے فعل کی ذمہ داری اپنے اوپر نہیں لے سکتا ، نہ اصل مجرم کو اس بنا پر چھوڑا جا سکتا ہے کہ اس کی جگہ سزا بھگتنے کے لیے کوئی اور آدمی اپنے آپ کو پیش کر رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

20: چنانچہ آج بھی بائبل کی کتاب حزقیل میں یہ اصول وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ (دیکھئے حزقی ایل :20)۔