Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال کی شرعی حیثیت اور منکرین حدیث :۔ ان آیات کے اولین مخاطب تو کفار مکہ ہیں۔ مگر یہ آیتیں چونکہ آپ کے اقوال کو وحی اور واجب الاتباع قرار دیتی ہیں لہذا منکرین حدیث ان کو مقید بھی کرتے ہیں اور ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب نے یوں کہا کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر جاکر اپنی کسی زوجہ سے یہ کہتے کہ میرا جوتا لاؤ تو کیا یہ بھی وحی ہوتی تھی ؟ اور اکثر منکرین اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو کچھ وحی کی جاتی رہی وہ سب قرآن میں آگئی ہے۔ اسی پر کفار کو اعتراض اور اسی پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا تکرار اور جھگڑا رہتا تھا۔ اور آپ کی قرآن کے علاوہ دوسری باتیں جو بحیثیت انسان کے ہیں وہ قابل اتباع نہیں ہیں اس طرح یہ حضرات چونکہ تمام ذخیرہ حدیث کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو دین سے خارج اور ناقابل اتباع بلکہ واضح الفاظ میں بےکار ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا ہم اس پر ذرا تفصیل سے بات کریں گے۔ ان لوگوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے اقوال کو صرف دو حصوں تقسیم میں کردیا۔ حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے کتاب اللہ کے معلم، مفسر اور شارح بھی تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کو جو تعلیم، تفسیر اور تشریح فرمائی وہ بھی دین ہی سے متعلق تھی۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال دو کے بجائے تین حصوں میں تقسیم ہوئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف بولتے ہی نہ تھے، کچھ کرتے بھی تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال بھی اسی طرح واجب الاتباع تھے جیسے اقوال۔ اس طرح تین کے بجائے اور بھی زیادہ حصے ہوگئے۔ مختصراً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے درج ذیل پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے معلوم ہوجائے گا کہ دین میں سنت کی کیا ضرورت اور کیا مقام ہے :- ١۔ تشریعی امور : قرآن میں نماز کا حکم تو تقریباً سات سو بار آیا ہے مگر اس کی تفصیل کہیں بھی نہیں کہ اسے کیسے ادا کیا جائے۔ کتنی نمازیں ہوں۔ ان کے صحیح اوقات کیا ہیں۔ ہر نماز میں رکعات کی تعداد کتنی ہے اور اس کی ترکیب کیا ہے ؟ اسی طرح حج کیسے ادا کیا جائے، زکوٰۃ کتنی وصول کی جائے ؟ قضایا کا فیصلہ کیونکر کیا جائے۔ ہر قضیہ کے لیے شہادتوں کا نصاب اور طریق کار کیا ہے۔ یا نکاح میں عورت کی رضامندی کا حق اور اس کی اہمیت، خلع کا حق، صلح و جنگ کے قواعد کی تفصیلات وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں کہ انسان سنت یا آپ کے اقوال و افعال سے بےنیاز ہو کر انہیں بجا لا ہی نہیں سکتا۔ گویا قرآن کو ماننے اور جاننے کا واحد ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ پھر یہ تمام مندرجہ امور ایسے ہیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے کبھی مشورہ نہیں کیا حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشورہ کا تاکیدی حکم تھا کیونکہ یہ امور انسانی بصیرت سے تعلق نہیں رکھتے۔ عام انسان تو کیا ایک نبی بھی ایسے امور کا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ ایسے تمام امور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی بتائے اور سکھائے جاتے تھے خواہ یہ وحی بذریعہ القاء ہو یا جبرئیل کے بصورت انسان سامنے آکر بتانے کی شکل میں ہو۔ گویا ایسے تمام امور بھی بذریعہ وحی طے پاتے تھے جسے عرف عام میں وحی خفی کہا جاتا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسی تمام تفصیلات قرآن میں مذکور نہیں۔- ٢۔ تدبیری امور : ایسے امور میں آپ کو صحابہ سے مشورہ لینے کا حکم دیا گیا تھا۔ مثلاً جنگ کے لیے کون سا مقام مناسب رہے گا، قیدیوں سے کیا سلوک کیا جائے ؟ نظام حکومت کو کیسے چلایا جائے گویا ایسے امور ہیں جن کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی ہے اور تجربہ سے بھی۔ ایسے امور میں وحی کی ضرورت نہیں ہوتی الا یہ کہ مشورہ کے بعد فیصلہ میں کوئی غلطی رہ جائے۔ ایسی صورت میں اس فیصلہ کی اصلاح بذریعہ وحی کردی جاتی تھی۔ جیسے جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ کے بعد فیصلہ کے متعلق وحی قرآن میں نازل ہوئی۔- ٣۔ اجتہادی امور : سے مراد ایسے دینی امور ہیں جن میں کسی پیش آمدہ مسئلہ کا حل سابقہ وحی کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔ گویہ معاملہ ہر ماہر علوم دین کی ذاتی بصیرت سے یکساں تعلق رکھتا ہے تاہم آپ اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک عورت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر مسئلہ پوچھا کہ میرے باپ پر حج فرض تھا اور مرگیا ہے۔ کیا میں اب اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بھلا دیکھو اگر اس کے ذمہ قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں ؟ اس عورت نے کہا : ضرور کرتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو پھر اللہ اس ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے آپ کے ایسے اجتہادات اور استنباطات کی فہرست بھی طویل ہے تاہم اس سلسلہ میں بھی جب کبھی کوئی لغزش ہوئی تو اس کی بذریعہ وحی جلی یا خفی اصلاح کردی گئی۔- اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے سیدنا ابوہریرہ (رض) نے یوں روایت کیا کہ ایک آدمی نے پوچھا : یارسول اللہ بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں۔ درآنحالیکہ میں صبر کرنے والا، ثواب کی نیت رکھنے والا، آگے بڑھنے والا، پیٹھ نہ پھیرنے والا ہوں۔ تو کیا اللہ میرے سب گناہ معاف کردے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں وہ شخص چلا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے پھر آواز دے کر بلایا اور فرمایا مگر قرضہ معاف نہ ہوگا۔ جبریل نے ابھی مجھے اس طرح بتایا ہے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب ماوعدہ اللہ تعالیٰ للمجاہد فی الجنۃ)- یعنی سائل کے سوال پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو جنت کی بشارت دے دی۔ کیونکہ شہادت ایسا افضل عمل ہے کہ خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی شہید جنت کا حقدار بن جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی وقت وحی بھیج کر اس میں ترمیم فرما دی۔- ٤۔ طبعی امور : جس میں انسان کی روز مرہ کی بول چال، خوراک، پوشاک اور دوسرے معاملات آجاتے ہیں اور ان امور کا تعلق تمام لوگوں سے یکساں ہے۔ ایسے امور میں انسان اور ایسے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نسبتاً وحی سے آزاد تھے۔ لیکن وہ کون سا پہلو ہے جس میں وحی نے ایسے معاملات پر پابندی نہ لگائی ہو۔ مثلاً انسان اس بات میں تو آزاد ہے کہ وہ چاہے تو گوشت کھائے چاہے تو سبزی کھائے اور چاہے تو دال کھائے لیکن وہ صرف حلال اور پاکیزہ چیزیں ہی کھا سکتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی ہدایت ہے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھے، اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے، اپنے آگے سے کھائے، برتن کو صاف کرے اور بعد میں دعا پڑھے۔ اسی طرح وہ اپنے لباس کے انتخاب کی حد تک تو آزاد ہے لیکن لباس کا ساتر ہونا اور ستر ڈھانکنا ضروری ہے اور عورتوں کے لیے پردہ بھی۔ عورت مردوں جیسا لباس نہ پہنے، نہ مرد عورتوں جیسا لباس پہنیں۔ وہ اپنے اہل خانہ سے گفتگو میں آزاد ہے لیکن اپنی بیوی سے حسن سلوک اور حسن معاشرت کا وہ پابند ہے وہ اپنا کاروبار اختیار کرنے میں آزاد ہے لیکن حرام کاروبار نہیں کرسکتا نہ جائز کاروبار میں ناجائز طریقوں سے مال کما سکتا ہے۔ ناپ تول میں کمی بیشی نہیں کرسکتا۔ کسی دوسرے سے فریب سے مال نہیں بٹور سکتا۔ نہ ہی سود اور اس کے مختلف طریقوں سے مال اکٹھا کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آخر وہ کون سا پہلو ہے جس میں وہ وحی سے بےنیاز ہے۔- ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ تشریعی امور کا انحصار کلیتاً وحی پر ہے اور قرآن میں احکام چونکہ مجملاً مذکور ہوئے ہیں اور ان کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی نہیں لہذا یہ احکام سنت کے بغیر انجام پا ہی نہیں سکتے۔ باقی تینوں قسم کے امور میں انسان نسبتاً آزاد ہے مگر ان تینوں پہلوؤں پر بھی وحی نے پابندیاں لگائی ہیں اور ہدایات بھی دی ہیں جن میں اکثر کا ذکر قرآن میں نہیں تو پھر آخر سنت نبوی سے انکار کیسے ممکن ہے اور کیسے کہا جاسکتا ہے کہ (وَمَا یَنْطِقُ ) کا تعلق صرف قرآن ہی سے ہے ؟ اور اس نظریہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت کا منکر ہو وہ قرآن کا بھی منکر ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ان ھو الا وحی یوحی :” ھو “ سے مراد یا تو قرآن مجید اور دین ہے جس کے متعلق مشرکین کہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنے پاس سے بنا لیا ہے، جیسا کہ فرمایا :(ام یقولون افترہ بل ھو الحق من ربک) (السجدۃ : ٣)” یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے۔ بلکہ وہ تیرے رب کی طرف سے حق ہی ہے۔ “ اس لئے قرآن اور دین کے متعلق فرمایا کہ وہ وحی کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری جگہ فرمایا :(فانھم لایکذبونک ولکن الظلمین بایت اللہ یجحدون) (الانعام : ٣٣)” تو بلاشبہ وہ تجھے جھوٹا نہیں کہتے اور لیکن وہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ “ یا اس ” ھو “ سے مراد ” ینطق “ کے ضمن میں پایا جانے والا ” منطوق بہ “ ہے، یعنی وہ بات جو وہ بولتا ہے وحی کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی طرف کی جاتی ہے۔- یہاں ایک سوال ہے کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر بات وحی کے بعد ہی کرتے تھے ؟ اگر ہاں کہا جائے تو ان متعدد باتوں کے متعلق کیا کہا جائے گا جن کی اللہ تعالیٰ نے اصلاح فرمائی ؟ مثلاً فرمایا :(عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) (التوبۃ : ٣٣) ” اللہ نے تجھے معاف کردیا، تو نے انہیں کیوں اجازت دی۔ “ اور فرمایا :(ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی ینحن فی الارض ) (الانفال : ٦٨)” کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے۔ “ اور فرمایا :(مان کان للنبی و الذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین) (التوبہ : ١١٣)” اس نبی اور ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش کی دعا کریں۔ “ اور فرمایا :(یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک) (التحریم ١)” اے نبی تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لئے حلال کیا ہے ؟ “ عالوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحباہ (رض) کے ساتھ مشورے کا حکم دیا، فرمایا :(وشاورھم فی الامر) (آل عمران : ١٥٩)” اور کام میں ان سے مشورہ کر۔ “ جب کہ وحی کے بعد نہ مشورے کی ضرورت ہے نہ اجازت کی ۔ جواب اس سوال کا یہ ہے کہ یہاں ان باتوں کو وحی قرار دیا جا رہا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے سامنے قرآن مجید یا شریعت کے حکم کے طور پرب یان فرماتے تھے۔ مفسر ابن کثیر (رح) نے فرمایا :” ان ھو الا وحی یوحی “ ای انما یقول ما امر بہ یبلغہ الی النسا کاملاً موفراً من غیر زیادۃ ولا نقصان “” یعنی ” ان ھو الا وحی یوحی “ کام طلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی بات کہتے تھے جس کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا تھا کہ کسی کمی یا زیادتی کے بغیر پوری پوری لوگوں تک پہنچا دیں۔ “- اس وحی میں قرآن مجدید بھی شامل ہے اور حدیث بھی۔ عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما باین کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کچھ سنتا اسے حفظک رنے کے ارادے سے لکھ لیتا تھا، تو قریش نے مجھے منع کیا اور کہا کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو بھی سنتے ہو لکھ لیتے ہو، حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لایک بشر ہیں، جو کبھی غصے میں بات کرتے ہیں اور کبھی خوشی میں، تو میں نے لکھنا ترک کردیا۔ پھر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دہن مبارک کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :(اکتب فو الذی نفسی بیدہ مایخرج منہ الا حق ) (ابو داؤد، العلم، باب کتابۃ العلم : ٠٣٦٣٦ وقال الالبانی صحیح)” لکھو، کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس (منہ) سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(انی لا اقول الا حقا)” میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ “ نکلتا۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(انی لا اقول الا حقا)” میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ “ تو آپ کے کسی صحابی نے کہا :” یا رسول اللہ آپ تو ہم سے خوش طبعی بھی کرلیتے ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(انی لا اقول الاحقا)” بلاشبہ میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا۔ “ (مسند احمد : ٢ ٣٣٠، ح : ٨٣٨١) مسند احمد کے محقق نے فرمایا۔” اسنادہ قوی “ کہ اس کی سند قوی ہے۔- (٢) اس مقام پر مفسر عبدالرحمن کیلانی نے ” تیسیرا القرآن “ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال و افعال کی حیثیت کے متعلق بہت مفید بحث لکھی ہے جس میں منکرین حدیث کے مغالطوں کا جواب بھی آگیا ہے۔ فوائد کے پیش نظر وہ بحث یہاں درج کی جاتی ہے :” ان آیات کے اولین مخاطب تو کافر مکہ ہیں، مگر یہ آیتیں چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال کو وحی اور واجب الاتباع قرار دیتی ہیں، لہٰذا منکرین حدیث ان کو مقید بھی کرتے ہیں اور ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب نے یوں کہا کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر جا کر اپنی کسی زوج سے یہ کہتے ہیں کہ ” میرا جوتا لاؤ “ تو کیا یہ بھی وحی ہوتی تھی ؟ اور اکثر منکرین اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو کچھ وحی کی جاتی رہی وہ سب قرآن میں آگئی ہے۔ اسی پر کفار کو اعتراض اور اسی پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا تکرار اور جھگڑا رہتا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرآن کے علاوہ دوسری باتیں جو بحیثیت انسان کے ہیں، وہ قابل اتباع نہیں ہیں۔ اس طرح یہ حضرات چونکہ تمام ذخیرہ حدیث کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو دین سے خارج اور ناقابل اتباع بلکہ واضح الفاظ میں بےکار ثابت کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ہم اس پر ذرا تفصیل سے بات کریں گے۔ ان لوگوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے اقوال کو صرف دو حصوں میں قسیم کردیا، حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے کتاب اللہ کے معلم، مفسر اور شارع بھی تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی جو تعلیم، تفسیر اور تشطریح فرمائی وہ بھی دین ہی سے متعلق تھی۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال دو کے بجائے تین حصوں میں تقسیم ہوئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف بولتے ہی نہ تھے، کچھ کرتے بھی تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال بھی اسی طرح واجب الاتباع تھے جیسے اقوال۔ اس طرح تین کے بجائے اور بھی زیادہ حصے ہوگئے۔ مختصراً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے درج ذیل پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے معلوم ہوجائے گا کہ دین میں سنت کی کیا ضرورت اور کیا مقام ہے :- (١) تشریعی امور : قرآن میں نماز کا حکم تو بہت دفعہ آیا ہے مگر اس کی تفصیل کہیں بھی نہیں کہ اسے کیسے ادا کیا جائے، کتنی نمازیں ہوں، ان کے صحیح اوقات کیا ہیں، ہر نماز میں رکعات کی تعداد کتنی ہے اور اس کی ترکیب کیا ہے ؟ اسی طرح حج کیسے ادا کیا جائے، زکوۃ کتنی وصول کی جائے ؟ قضا یا کا فیصلہ کیونکر کیا جائے۔ ہر قضیہ کیلئے شہادتوں کا نصاب اور طریق کار کیا ہے، یا نکاح میں عورت کی رضا مندی کا حق اور اس کی اہمیت، خلع کا حق، صلح و جنگ کے قواعد کی تفصیلات وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں کہ انسان سنت یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال و افعال سے بےنیاز ہو کر انہیں بجا لا ہی نہیں سکتا۔ گویا قرآن کو ماننے اور جاننے کا واحد ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ پھر یہ تمام مندرجہ امور ایسے ہیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے کبھی مشورہ نہیں جاننے کا واحد ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ پھر یہ تمام مندرجہ امور ایسے ہیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے کبیھ مشورہ نہیں کیا، حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشروے کا تاکیدی حکم تھا، کیونکہ یہ امور انسانی بصیرت سے تعلق نہیں رکھتے۔ عام انسان تو کیا ایک نبی بھی ایسے امور کا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں۔ ایسے تمام امور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی بتائے اور سکھائیج اتے تھے۔ خواہ یہ وحی بذریعہ القا ہو یا جبرئیل (علیہ السلام) کے بصورت انسان سامنے آکر بتانے کی شکل میں ہو۔ گویا ایسے تمام امور بھی بذریعہ وحی طے پاتے تھے جسے عرف عام میں ” وحی خفی “ کہا جاتا ہیا ور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسے تمام تفصیلات قرآن میں مذکور نہیں۔- (٢) تدبیری امور : ایسے امور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ سے مشورہ لینے کا حکم دیا گیا تھا، مثلاً جنگ کے لئے کون سا مقام مناسب رہے گا، قیدیوں سے کیا سلوک کیا اجئے، نظام حکومت کیسے چلایا جائے ؟ گویا یہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی ہے اور تجربہ سے بھی۔ ایسے امور میں وحی کی ضرورت نہیں ہوتی، الایہ کہ مشورہ کے بعد فیصلہ میں کوئی غلطی رہ جائے۔ ایسی صورت میں اس فیصلہ کی اصلاح بذریعہ وحی کردی جاتی ہے، جیسے غزوہ بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ کے بعد فیصلہ کے متعلق وحی قرآن میں نازل ہوئی۔- (٣) اجتہادی امور : اس سے مراد ایسے دینی امور ہیں جن میں کسی پیش آمد ہ مسئلہ کا حل سابقہ وحی کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔ گویہ معاملہ ہر ماہ علوم دین کی ذاتی بصیرت سے یکساں تعلق رکھتا ہے، تاہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک عورت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر مسئلہ پوچھا کہ میرے باپ پر حج فرض تھا اور وہ مرگیا ہے، کیا میں اب اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” بھلا دیکھو اگر اس کے ذمے قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتی ؟ “ اس عورت نے ” ضرور کرتی۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تو پھر اللہ اس ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔ “ (بخاری، جزاء الصید، باب الحج والنذور …: ١٨٥٣) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایسے اجتہادات اور اسنباطات کی فہرست بھی طویل ہے، تاہم اس سلسلے میں بھی جب کبھی کوئی لغزش ہوئی تو اس کی بذریعہ وحی جلی یا خفی اصلاح کردی گئی۔- اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے سیدنا ابوقتادہ (رض) نے یوں روایت کیا کہ ایک آدمی نے پوچھا :” یا رسول اللہ بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، درآں حالیہ میں صبر کرنے والا، ثواب کی نیت رکھنے والا، آگے بڑھنے والا، پیٹھ نہ پھیرنے والا ہوں، تو کیا اللہم یرے سب گناہ معاف کر دے گا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ہاں “ وہ شخص چلا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے پھر آواز دے کر بلایا اور فرمایا :” مگر قرضہ معاف نہ ہوگا، جبریل نے ابھی مجھے اس طرح بتایا ہے ۔ “ (نسائی، الجھاد، باب من قاتل فی سبیل اللہ تعالیٰ و علیۃ دین : ٣١٥٨۔ مسلم : ١٨٨٥) یعنی سائل کے سوال پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو جنت کی بشارت دے دی، کیونک شہادت ایسا افضل عمل ہے کہ خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی شہید جنت کا حق دار بن جاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی وقت وحی بھیج کر اس میں ترمیم فرما دی۔- (٤) طبعی امور : جس میں انسان کی روز مرہ کی بول چال، خوراک، پوشاک اور دوسرے معاملات آجاتے ہیں اور ان امور کا تعلق تمام لوگوں سے یکساں ہے۔ ایسے امور میں انسان اور ایسے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نسبتاً وحی سے آزاد تھے لیکن وہ کون سا پہلو ہے جس میں وحی نے ایسے معاملات پر پابندی نہ لگائی ہو ؟ مثلاً انسان اس بات میں تو آزاد ہے کہ وہ چاہے تو گوشت کھائے چاہے تو سبزی کھائیا ور چاہے تو دال کھائے، لیکن وہ حلال اور پاکیزہ چیزیں ہی کھا سکتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی ہدیات ہے کہ کھانے سے پہلے ” بسم اللہ ‘ ‘ پڑھے، اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے، اپنے آگے سے کھائے، برتن کو صاف کرے اور بعد میں دعا پڑھے۔ اسی طرح وہ اپنے لباس کے انتخاب کی حد تک تو آزاد ہے لیکن لباس کا ساتر ہونا اور ستر ڈھانکنا ضروری ہے اور عورتوں کے لئے پردہ بھی۔ عورت مردوں جیسا لباس نہ پہنے، نہ مرد عورتوں جیسا لباس پہنیں۔ وہ اپنے اہل خانہ سے گفتگو میں آزاد ہے لیکن اپنی بیوی سے حسن سلوک اور حسن معاشرت کا پابند ہے۔ وہ اپنا ک اور بار اختیار کرنے میں آزاد ہے لیکن حرام ک اور بار نہیں کرسکتا، نہ جائز ک اور بار میں ناجائز طریقوں سے مال کما سکتا ہے۔ ماپ تول میں کمی بیشی نہیں کرسکتا۔ کسی دوسرے سے فریب سے مال نہیں بٹور سکتا۔ نہ ہی سود اور اس کے مختلف طریقوں سے مال اکٹھا کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ آخر وہ کون سا پہلو ہے جس میں وہ وحی سے بےنیاز ہے۔- ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ تشریعی امور کا انحصار کلیتاً وحی پر ہے اور قرآن میں احکام چونکہ مجملاً مذکور ہوئے ہیں اور ان کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی نہیں، لہٰذا یہ احکام سنت کے بغیر انجام پا ہی نہیں سکتے۔ باقی تینوں قسم کے امور میں انسان نسبتاً آزاد ہے مگر ان تینوں پہلوؤں پر بھی وحی نے پابندیاں لگائی ہیں اور ہدایات بھی دی ہیں جن میں اکثر کا ذکر قرآن میں نہیں تو پھر آخر سنت نبوی سے انکار کیسے ممکن ہے اور کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ” وما ینطق “ کا تعلق صرف قرآن ہی سے ہے ؟ اور اس نظریے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت کا منکر ہو وہ قرآن کا بھی منکر ہوتا ہے۔ “ (تیسیرا القرآن)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى۝ ٤ ۙ- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤۔ ٥) ان کا یہ ارشاد یعنی قرآن کریم اللہ کی طرف سے ایک وحی ہے جو بذریعہ جبریل امین ان کے پاس بھیجی جاتی ہے کہ وہ ان کے پاس آتا ہے اور ان کو پڑھ کر سناتا ہے آپ کو اس وحی کی جبریل امین تعلیم کرتے جو بدن کے اعتبار سے بڑے طاقتور ہیں اور یہ طاقت و قوت ان کی پیدایشی ہے۔- اور ان کی طاقت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے جب انہوں نے لوط کی بستیوں کے نیچے ہاتھ دیا اور ان کو سیاہ پانی پر سے اکھاڑ کر آسمان پر لے جاکر پھر زمین پر الٹا چھوڑ دیا۔- اور اسکی سختی کا اندازہ اس سے کیجیے جبکہ انہوں نے انطاکیہ کے دروازہ کی چوکھٹ پکڑ کر ایک چیخ ماری جس سے اس میں جو بھی مخلوق تھی سب مرگئی۔- اور کہا گیا ہے کہ ان کی سختی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ جس وقت ابلیس ملعون بیت المقدس کی ایک چوکھٹ پر اپنا پر مارا تو انہوں نے اس کو اٹھا کر منتہائے ہند پر پھینک دیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی ۔ ” یہ تو صرف وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ “- اگلی آیات میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا ذکر ہے جنہوں نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کلام کی تعلیم دی۔ یہ مضمون دوسری مرتبہ ٣٠ ویں پارے کی سورة التَّکوِیر میں آیا ہے۔ دونوں عبارتوں میں ایک خوبصورت مماثلت یہ ہے کہ وہاں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر صَاحِبُـکُمْ کے لفظ سے کیا گیا ہے :- وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ ۔ وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ ۔ وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ ۔ وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ ۔ (التکویر)- ” اور (مکے والو) تمہارے یہ رفیق دیوانے نہیں ہیں۔ بیشک انہوں نے اس (جبرائیل) کو کھلے افق پر دیکھا ہے۔ اور وہ غیب کے معاملے میں بخیل نہیں ہیں۔ اور یہ ہرگز کسی شیطان رجیم کا قول نہیں ہے۔ “- حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب وحی لے کر آتے تو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نظر نہیں آتے تھے اور نہ ہی وحی کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کانوں سے سن سکتے تھے ۔ فرشتے اور وحی دونوں کا تعلق چونکہ عالم امر سے ہے اس لیے ان کا نزول بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت کے اس حصے پر ہوتا تھا جو عالم امر سے متعلق تھا ‘ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح مبارک ۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ انسانی روح کا مسکن چونکہ قلب انسانی ہے اس لیے وحی کا نزول براہ راست حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر ہوتا تھا : ؎ - نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو - رُوح سنے اور روح سنائے - تاہم حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس انسانی شکل میں آنا بھی ثابت ہے۔ روایات میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب انسانی شکل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے تو عموماً خوبصورت نوجوان صحابی حضرت دحیہ کلبی (رض) کی شکل میں آتے جو بہت عظیم انسان تھے۔ اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ انسانی شکل میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو گفتگو ہوتی وہ ” وحی متلو “ یعنی قرآن میں شامل نہیں ہے۔ مثلاً ” حدیث جبریل (علیہ السلام) “ میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکالمے کی تفصیل درج ہے۔ اس موقع پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) انسانی شکل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دین کے بارے میں چند بنیادی سوالات پوچھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سوالات کے جوابات دیے ۔ ان کے چلے جانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو بتایا کہ یہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے جو تم لوگوں کو تمہارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔ اس حدیث کا مضمون اس قدر اہم ہے کہ محدثین نے اسے ” اُمُّ السُّنَّہ “ قرار دیا ہے ‘ لیکن اس حدیث کے مندرجات قرآن میں شامل نہیں۔- البتہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل میں بھی دیکھا ہے۔ پہلی مرتبہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں آغاز نبوت کے زمانے میں دیکھا تھا۔ یہ واقعہ ” فترتِ وحی “ کے دنوں میں پیش آیا۔ (پہلی وحی کے بعد وحی کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے منقطع رہا ‘ اس وقفے کو ” فترتِ وحی “ کہا جاتا ہے۔ ) ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غارِ حرا سے اتر رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آواز سنی ” یامحمد “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ادھر ادھر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سمجھا کہ شاید مجھے دھوکہ ہوا ہے ‘ لیکن دوسرے ہی لمحے وہی آواز پھر سنائی دی۔ اس مرتبہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی انسان دکھائی نہ دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ خوف محسوس ہوا۔ تیسری مرتبہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر وہی آواز سنی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمان کی طرف دیکھا۔ اوپر دیکھنے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اپنی اصلی ملکوتی شکل میں اس طرح نظر آئے کہ پورا افق بھرا ہوا تھا۔- دوسری مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو معراج کے موقع پر سدرۃ المنتہیٰ کے قریب دیکھا۔ آئندہ آیات میں اسی مشاہدے کا ذکر ہے ۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفر معراج پر لے جانے کے لیے آئے تو وہ انسانی شکل میں تھے اور آپ (علیہ السلام) کے لیے جو سواری (براق) وہ لے کر آئے تھے وہ بھی کوئی محسوس و مرئی قسم کی مخلوق تھی۔ لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے تو وہاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اصل ملکوتی شکل میں ظاہر ہوئے ۔ اس مقام پر انہوں نے آگے جانے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں یہاں سے آگے بڑھوں گا تو میرے َپر جل جائیں گے : ؎- اگر یک سر ِموئے برتر قدم فروغِ تجلی بسوزد پرم - اس مضمون کے حوالے سے یہاں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی اصل ملکوتی شکل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کرانے اور پھر اس ملاقات کا قرآن مجید میں ذکر کرنے کا مقصد نزول وحی کے سلسلے کے درمیانی رابطے ( ) کی سند فراہم کرنا ہے۔ اس نکتہ لطیف کو ” اصولِ حدیث “ کے حوالے سے سمجھنا چاہیے۔ محدثین نے احادیث کی صحت ( ) کی تحقیق کے لیے جو اصول وضع کیے ہیں ان میں ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ جس شخص کی کسی دوسری شخصیت سے روایت منقول ہے اس کی اس شخصیت سے شعور کی عمر اور شعور کی کیفیت میں ملاقات بھی ثابت ہونا ضروری ہے ۔ اگر ایسی ملاقات ثابت نہ ہو سکے تو متعلقہ راوی کی روایت قابل قبول نہیں سمجھی جاتی۔ مثلاً اگر ایک تابعی (رح) (رح) کی کسی صحابی (رض) سے کوئی روایت منقول ہے مگر حقائق ثابت کرتے ہیں کہ جب وہ صحابی (رض) فوت ہوئے تو متعلقہ تابعی کی عمر صرف چھ سال تھی ‘ یعنی اس وقت ان کی عمر ایسی نہ تھی کہ وہ بات کو سمجھ کر کسی دوسرے کو بتاسکتے ‘ تو ایسی صورت میں متعلقہ تابعی کی وہ روایت محدثین کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی۔ چناچہ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحت ( ) کے لیے اگر متعلقہ راویوں کی ملاقات کا ثابت ہونا ضروری ہے تو ایسا ہی ثبوت اللہ تعالیٰ کی حدیث (اللہ تعالیٰ نے قرآن کو سورة الزمر کی آیت ٢٣ میں اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ قراردیا ہے) کی روایت کے حوالے سے بھی دستیاب ہونا چاہیے ۔ - ۔ چناچہ قرآن مجید کی روایت کی تصدیق و توثیق یوں ہوگی : قرآن کیا ہے ؟ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ سے اس کا کلام کس نے سنا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے سنا۔ جبرائیل (علیہ السلام) سے کس نے سنا ؟ جبرائیل (علیہ السلام) سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا ۔ تو کیا جبرائیل (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات ثابت ہے ؟ جی ہاں ان کے درمیان دو مرتبہ کی ملاقات قرآن سے ثابت ہے ۔ - ۔ چناچہ وحی کی ” روایت “ کا درمیانی رابطہ ( ) ثابت کرنے کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے اصل ملکوتی شکل میں ملاقات کی ” سند “ انتہائی اہم ہے جو یہ آیات فراہم کر رہی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :4 مطلب یہ ہے کہ جن باتوں کی وجہ سے تم اس پر یہ الزام لگاتے ہو کہ وہ گمراہ یا بد راہ ہو گیا ہے ، وہ اس نے اپنے دل سے نہیں گھڑ لی ہیں ، نہ ان کی محرک اس کی اپنی خواہش نفس ہے ، بلکہ وہ خدا کی طرف سے اس پر وحی کے ذریعہ سے نازل کی گئی ہیں اور کی جا رہی ہیں ۔ اس کا خود نبی بننے کو جی نہیں چاہا تھا کہ اپنی یہ خواہش پوری کرنے کے لیے اس نے دعوائے نبوت کر دیا ہو ، بلکہ خدا نے جب وحی کے ذریعہ سے اس کو اس منصب پر مامور کیا تب وہ تمہارے درمیان تبلیغ رسالت کے لیے اٹھا اور اس نے تم سے کہا کہ میں تمہارے لیے خدا کا نبی ہوں ۔ اسی طرح اسلام کی یہ دعوت ، توحید کی یہ تعلیم ، آخرت اور حشر و نشر اور جزائے اعمال کی یہ خبریں ، کائنات و انسان کے متعلق یہ حقائق ، اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے یہ اصول ، جو وہ پیش کر رہا ہے ، یہ سب کچھ بھی اس کا اپنا بنایا ہوا کوئی فلسفہ نہیں ہے بلکہ خدا نے وحی کے ذریعہ سے اس کو ان باتوں کا علم عطا کیا ہے ۔ اسی طرح یہ قرآن جو وہ تمہیں سناتا ہے ، یہ بھی اس کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہے ، بلکہ یہ خدا کا کلام ہے جو وحی کے ذریعہ سے اس پر نازل ہوتا ہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ آپ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے بلکہ جو کچھ آپ کہتے ہیں وہ ایک وحی ہے جو آپ پر نازل کی جاتی ہے ، آپ کی زبان مبارک سے نکلنے والی کن کن باتوں سے متعلق ہے ؟ آیا اس کا اطلاق ان ساری باتوں پر ہوتا ہے جو آپ بولتے تھے ، یا بعض باتوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور بعض باتوں پر نہیں ہوتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے اس پر تو اس ارشاد کا اطلاق بدرجہ اَولیٰ ہوتا ہے ۔ رہیں وہ دوسری باتیں جو قرآن کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوتی تھیں تو وہ لا محالہ تین ہی قسموں کی ہو سکتی تھیں ۔ ایک قِسم کی باتیں وہ جو آپ تبلیغ دین اور دعوت الیٰ اللہ کے لیے کرتے تھے ، یا قرآن مجید کے مضامین اس کی تعلیمات اور اس کے احکام و ہدایات کی تشریح کے طور پر کرتے تھے ، یا قرآن ہی کے مقصد و مدعا کو پورا کرنے کے لیے وعظ و نصیحت فرماتے اور لوگوں کو تعلیم دیتے تھے ۔ ان کے متعلق ظاہر ہے کہ یہ شبہ کرنے کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ باتیں معاذاللہ ، آپ اپنے دل سے گھڑتے تھے ۔ ان امور میں تو آپ کی حیثیت در حقیقت قرآن کے سرکاری ترجمان ، اور اللہ تعالیٰ کے نمائندہ مجاز کی تھی ۔ یہ باتیں اگرچہ اس طرح لفظاً لفظاً آپ پر نازل نہیں کی جاتی تھیں جس طرح قرآن آپ پر نازل کیا جاتا تھا ، مگر یہ لازماً تھیں اسی علم پر مبنی جو وحی کے ذریعہ سے آپ کو دیا گیا تھا ان میں اور قرآن میں فرق صرف یہ تھا کہ قرآن کے الفاظ اور معانی سب کچھ اللہ کی طرف سے تھے ، اور ان دوسری باتوں میں معانی و مطالب وہ تھے جو اللہ نے آپ کو سکھائے تھے اور ان کو ادا آپ اپنے الفاظ میں کرتے تھے ۔ اسی فرق کی بنا پر قرآن کو وحی جَلی ، اور آپ کے ان دوسرے ارشادات کو وحی خَفِی کہا جاتا ہے ۔ دوسری قِسم کی باتیں وہ تھیں جو آپ اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد اور اقامت دین کی خدمات کے سلسلے میں کرتے تھے ۔ اس کام میں آپ کو مسلمانوں کی جماعت کے قائد و رہنما کی حیثیت سے مختلف نوعیت کے بے شمار فرائض انجام دینے ہوتے تھے جن میں بسا اوقات آپ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ بھی لیا ہے ، اپنی رائے چھوڑ کر ان کی رائے بھی مانی ہے ، ان کے دریافت کرنے پر کبھی کبھی یہ صراحت بھی فرمائی ہے کہ یہ بات میں خدا کے حکم سے نہیں بلکہ اپنی رائے کے طور پر کہہ رہا ہوں ، اور متعدد بار ایسا بھی ہوا ہے کہ آپ نے اپنے اجتہاد سے کوئی بات کی ہے اور بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خلاف ہدایت آ گئی ہے ۔ اس نوعیت کی جتنی باتیں بھی آپ نے کی ہیں ، ان میں سے بھی کوئی ایسی نہ تھی اور قطعاً نہ ہو سکتی تھی جو خواہش نفس پر مبنی ہو ۔ رہا یہ سوال کہ کیا وہ وحی پر مبنی تھیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بجز ان باتوں کے جن میں آپ نے خود تصریح فرمائی ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے نہیں ہیں ، یا جن میں آپ نے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا ہے اور ان کی رائے قبول فرمائی ہے ، یا جن میں آپ سے کوئی قول و فعل صادر ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف ہدایت نازل فرما دی ہے ، باقی تمام باتیں اسی طرح وحی خفی پر مبنی تھیں جس طرح پہلی نوعیت کی باتیں ۔ اس لیے کہ دعوت اسلامی کے قائد و رہنما اور جماعت مومنین کے سردار اور حکومت اسلامی کے فرمانروا کا جو منصب آپ کو حاصل تھا وہ آپ کا خود ساختہ یا لوگوں کا عطا کردہ نہ تھا بلکہ اس پر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوئے تھے ، اور اس منصب کے فرائض کی ادائیگی میں آپ جو کچھ کہتے اور کرتے تھے اسمیں آپ کی حیثیت مرضی الٰہی کے نمائندے کی تھی ۔ اس معاملے میں آپ نے جو باتیں اپنے اجتہاد سے کی ہیں ان میں بھی آپ کا اجتہاد اللہ کو پسند تھا اور علم کی اس روشنی سے ماخوذ تھا جو اللہ نے آپ کو دی تھی ۔ اسی لیے جہاں آپ کا اجتہاد ذرا بھی اللہ کی پسند سے ہٹا ہے وہاں فوراً وحی جلی سے اس کی اصلاح کر دی گئی ہے ۔ آپ کے بعض اجتہادات کی یہ اصلاح بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے باقی تمام اجتہادات عین مرضی الٰہی کے مطابق تھے ۔ تیسری قِسم کی باتیں وہ تھیں جو آپ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے زندگی کے عام معاملات میں کرتے تھے ، جن کا تعلق فرائض نبوت سے نہ تھا ، جو آپ نبی ہونے سے پہلے بھی کرتے تھے اور نبی ہونے کے بعد بھی کرتے رہے ۔ اس نوعیت کی باتوں کے متعلق سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے بارے میں کفار سے کوئی جھگڑا نہ تھا ۔ کفار نے ان کی بنا پر آپ کو گمراہ اور بد راہ نہیں کہا تھا بلکہ پہلی دو قِسم کی باتوں پر وہ یہ الزام لگاتے تھے ۔ اس لیے وہ سرے سے زیر بحث ہی نہ تھیں کہ اللہ تعالیٰ انکے بارے میں یہ آیت ارشاد فرماتا ۔ لیکن اس مقام پر ان کے خارج از بحث ہونے کے باوجود یہ امر واقعہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کوئی بات اپنی زندگی کے اس نجی پہلو میں بھی کبھی خلاف حق نہیں نکلتی تھی ، بلکہ ہر وقت ہر حال میں آپ کے اقوال و افعال ان حدود کے اندر محدود رہتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ایک پیغمبرانہ اور متقیانہ زندگی کے لیے آپ کو بتا دی تھیں ۔ اس لیے در حقیقت وحی کا نور ان میں بھی کار فرما تھا ۔ یہی بات ہے جو بعض صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوئی ہے ۔ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر حضور نے فرمایا لا اقول اِلّا حقّاً ، میں کبھی حق کے سوا کوئی بات نہیں کہتا ۔ کسی صحابی نے عرض کیا فانّک تُداعبُنا یا رسول اللہ ، یا رسول اللہ ، کبھی کبھی آپ ہم لوگوں سے ہنسی مذاق بھی تو کر لیتے ہیں ۔ فرمایا انی لا اقول الا حقّا ، فی الواقع میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ۔ مسند احمد اور ابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں جو کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنتا تھا وہ لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے محفوظ کر لوں ۔ قریش کے لوگوں نے مجھے اس سے منع کیا اور کہنے لگے تم ہر بات لکھتے چلے جاتے ہو ، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہیں ، کبھی غصے میں بھی کوئی بات فرما دیتے ہیں ۔ اس پر میں نے لکھنا چھوڑ دیا ۔ بعد میں اس بات کا ذکر میں نے حضور سے کیا تو آپ نے فرمایا : اکتب فو الذی نفسی بیدہ ما خرج منّی الّا الحق ، تم لکھے جاؤ ، اس ذات کی قَسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میری زبان سے کبھی کوئی بات حق کے سوا نہیں نکلی ہے ۔ ( اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب تفہیمات ، حصہ اوّل ، مضمون رسالت اور اس کے احکام ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani