تعارف جبرائیل امین علیہ السلام اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معلم حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمایا ہے آیت ( اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ 40ڌ ) 69- الحاقة:40 ) یہ قرآن ایک بزرگ زور آور فرشتے کا قول ہے جو مالک عرش کے ہاں باعزت سب کا مانا ہوا ہے وہاں معتبر ہے یہاں بھی فرمایا وہ قوت والا ہے آیت ( ذو مرۃ ) کی ایک تفسیر تو یہی ہے دوسری یہ ہے کہ وہ خوش شکل ہے حدیث میں بھی ( مرۃ ) کا لفظ آیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں صدقہ مالدار پر اور قوت والے تندرست پر حرام ہے ۔ پھر وہ سیدھے کھڑے ہوگئے یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام ۔ اور وہ بلند آسمان کے کناروں پر تھے جہاں سے صبح چڑھتی ہے جو سورج کے طلوع ہونے کی جگہ ہے ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل کو ان کی اصلی صورت میں صرف دو دفعہ دیکھا ہے ایک مرتبہ آپ کی خواہش پر امین اللہ اپنی صورت میں آپ کو دکھائی دئیے آسمانوں کے تمام کنارے ان کے جسم سے ڈھک گئے تھے ۔ دوبارہ اس وقت جبکہ آپ کو لے کر حضرت جبرائیل اوپر چڑھے تھے ۔ یہ مطلب آیت ( وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى Ċۭ ) 53- النجم:7 ) کا امام ابن جریر نے اس تفسیر میں ایک ایسا قول کہا ہے جو کسی نے نہیں کہا اور خود انہوں نے بھی اس قول کی اضافت دوسرے کی طرف نہیں کی ان کے فرمان کا ماحصل یہ ہے کہ جبرائیل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں آسمانوں کے کناروں پر سیدھے کھڑے ہوئے تھے اور یہ واقعہ معراج کی رات کا ہے امام ابن جریر کی اس تفسیر کی تائید کسی نے نہیں کی گو امام صاحب نے عربیت کی حیثیت سے اسے ثابت کیا ہے اور عربی قواعد سے یہ بھی ہو سکتا ہے لیکن ہے یہ واقعہ کے خلاف اس لئے کہ یہ دیکھنا معراج سے پہلے کا ہے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر تھے آپ کی طرف جبرائیل اترے تھے اور قریب ہو گئے تھے اور اپنی اصلی صورت میں تھے چھ سو پر تھے پھر اسکے بعد دوبارہ سدرۃ المنتہی کے پاس معراج والی رات دیکھا تھا ۔ یہ تو دوسری مرتبہ کا دیکھنا تھا لیکن پہلی مرتبہ کا دیکھنا تو شروع رسالت کے زمانہ کے وقت کا ہے پہلی وحی آیت ( اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ Ǻۚ ) 96- العلق:1 ) کی چند آیتیں آپ پر نازل ہو چکی تھیں پھر وحی بند ہو گئی تھی جس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا خیال بلکہ بڑا ملال تھا یہاں تک کہ کئی دفعہ آپ کا ارادہ ہوا کہ پہاڑ سے گر پڑوں لیکن بروقت آسمان کی طرف سے حضرت جبرائیل کی یہ ندا سنائی دیتی کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور میں جبرائیل ہوں ۔ آپ کا غم غلط ہو جاتا دل پرسکون اور طبیعت میں قرار ہو جاتا واپس چلے آتے ۔ لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد شوق دامنگیر ہوتا اور وحی الہی کی لذت یاد آتی تو نکل کھڑے ہوتے اور پہاڑ پر سے اپنے آپ گرا دینا چاہتے اور اسی طرح حضرت جبرائیل تسکین و تسلی کر دیا کرتے ۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ ابطح میں حضرت جبرائیل اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہو گئے چھ سو پر تھے جسامت کے آسمان کے تمام کنارے ڈھک لئے تھے اب آپ سے قریب آگئے اور اللہ عزوجل کی وحی آپ کو پہنچائی اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فرشتے کی عظمت و جلالت معلوم ہوئی اور جان گئے کہ اللہ کے نزدیک یہ کس قدر بلند مرتبہ ہے ۔ مسند بزار کی ایک روایت امام ابن جریر کے قول کی تائید میں پیش ہو سکتی ہے مگر اس کے راوی صرف حارث بن عبید ہیں جو بصرہ کے رہنے والے شخص ہیں ۔ ابو قدامہ ایادی ان کی کنیت ہے مسلم میں ان سے روایتیں آئی ہیں لیکن امام ابن معین انہیں ضعیف کہتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ کوئی چیز نہیں ، امام احمد فرماتے ہیں یہ مضطرب الحدیث ہیں امام ابو حاتم رازی کا قول ہے کہ ان کی حدیثیں لکھ لی جاتی ہیں لیکن ان سے دلیل نہیں لی جا سکتی ابن حبان فرماتے ہیں یہ بڑے وہمی تھے ان سے احتجاج درست نہیں ، پس یہ حدیث صرف ان ہی کی روایت سے ہے تو علاوہ غریب ہونے کے منکر ہے اور اگر ثابت ہو بھی جائے تو ممکن ہے یہ واقعہ کسی خواب کا ہو اس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں بیٹھا تھا کہ ایک درخت ہے جس میں پرندوں کے آشیانوں کی طرح بیٹھنے کی جگہیں بنی ہوئی ہیں ایک میں تو حضرت جبرائیل بیٹھ گئے اور دوسرے میں میں بیٹھ گیا ۔ پھر وہ درخت بلند ہونے لگا یہاں تک کہ میں آسمان سے بالکل قریب پہنچ گیا میں دائیں بائیں کروٹیں بدلتا تھا اور اگر میں چاہتا تو ہاتھ بڑھا کر آسمان کو چھو لیتا میں نے دیکھا کہ حضرت جبرائیل اس وقت ہیبت الہی سے مثل بورئیے کے پیچھے جا رہے تھے ، اس وقت میں سمجھ گیا کہ اللہ کی جلالت و قدر کے علم میں انہیں مجھ پر فضیلت ہے ۔ آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ مجھ پر کھل گیا میں نے بہت بڑا عظیم الشان نور دیکھا اور پردے کے پاس در و یاقوت کو ہلتے اور حرکت کرتے دیکھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو وحی فرمانی چاہی وہ فرمائی ۔ مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل کو اپنی اصلی صورت میں دیکھا ہے ان کے چھ سو پر تھے ہر ایک ایسا جس میں آسمان کے کنارے پر کر دئیے تھے ان سے زمرد موتی اور مروارید جھڑ رہے تھے ۔ اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ میں آپ کو آپ کی اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں حضرت جبرائیل نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے آپ نے دعا کی تو مشرق کی طرف سے آپ کو کوئی چیز اونچی اٹھتی ہوئی اور پھیلتی ہوئی نظر آئی جسے دیکھ کر آپ بیہوش ہوگئے جبرائیل فوراً آئے اور آپ کو ہوش میں لائے اور آپ کی رخساروں سے لعاب مبارک دور کیا ۔ ابن عساکر میں ہے کہ ابو لہب اور اس کا بیٹا عتبہ شام کے سفر کی تیاریاں کرنے لگے اس کے بیٹے نے کہا سفر میں جانے سے پہلے ایک مرتبہ ذرا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اللہ کو ان کے سامنے گالیاں تو دے آؤں چنانچہ یہ آیا اور کہا اے محمد جو قریب ہوا اور اترا اور دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک آگیا میں تو اس کا منکر ہوں ( چونکہ یہ ناہنجار سخت بے ادب تھا اور بار بار گستاخی سے پیش آتا تھا ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس کے لئے بد دعا نکل گئی کہ باری تعالیٰ اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مقرر کر دے ، یہ جب لوٹ کر اپنے باپ کے پاس آیا اور ساری باتیں کہہ سنائیں تو اس نے کہا بیٹا اب مجھے تو تیری جان کا اندیشہ ہو گیا اس کی دعا رد نہ جائے گی ، اس کے بعد یہ قافلہ یہاں سے روانہ ہوا شام کی سرزمین میں ایک راہب کے عبادت خانے کے پاس پڑاؤ کیا راہب نے ان سے کہا یہاں تو بھیڑئیے اس طرح پھرتے ہیں جیسے بکریوں کے ریوڑ تم یہاں کیوں آگئے؟ ابو لہب یہ سن کر ٹھٹک گیا اور تمام قافلے والوں کو جمع کر کے کہا دیکھو میرے بڑھاپے کا حال تمہیں معلوم ہے اور تم جانتے ہو کہ میرے کیسے کچھ حقوق تم پر ہیں آج میں تم سے ایک عرض کرتا ہوں امید کرتا ہوں کہ تم سب اسے قبول کرو گے بات یہ ہے کہ مدعی نبوت نے میرے جگر گوشے کے لئے بد دعا کی ہے اور مجھے اس کی جان کا خطرہ ہے تم اپنا سب اسباب اس عبادت خانے کے پاس جمع کرو اور اس پر میرے پیارے بچے کو سلاؤ اور تم سب اس کے اردگرد پہرا دو لوگوں نے اسے منظور کر لیا یہ اپنے سب جتن کر کے ہوشیار رہے کہ اچانک شیر آیا اور سب کے منہ سونگھنے لگا جب سب کے منہ سونگھ چکا اور گویا جسے تلاش کر رہا تھا اسے نہ پایا تو پچھلے پیروں ہٹ کر بہت زور سے جست کی اور ایک چھلانگ میں اس مچان پر پہنچ گیا وہاں جا کر اس کا بھی منہ سونگھا اور گویا وہی اس کا مطلوب تھا پھر تو اس نے اس کے پرخچے اڑا دئیے ، چیر پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ، اس وقت ابو لہب کہنے لگا اس کا تو مجھے پہلے ہی یقین تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا کے بعد یہ بچ نہیں سکتا ۔ پھر فرماتا ہے کہ حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہوئے اور زمین کی طرف اترے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اور حضرت جبرائیل کے درمیان صرف دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیکی ہو گئی یہاں لفظ ( او ) جس کی خبر دی جاتی ہے اس کے ثابت کرنے کے لئے آیا ہے اور اس پر جو زیادتی ہو اس کے نفی کے لئے جیسے اور جگہ ہے پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے پس وہ مثل پتھروں کے ہیں آیت ( اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً 74 ) 2- البقرة:74 ) بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت یعنی پتھر سے کم کسی صورت میں نہیں بلکہ اس سے بھی سختی میں بڑھے ہوئے ہیں ایک اور فرمان ہے وہ لوگوں سے ایسا ڈرتے ہیں جیسا کہ اللہ سے آیت ( اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً 77 ) 4- النسآء:77 ) بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ اور جگہ ہے ہم نے انہیں ایک لاکھ کی طرف بھیجا بلکہ زیادہ کی طرف یعنی وہ ایک لاکھ سے کم تو تھے ہی نہیں بلکہ حقیقتًا وہ ایک لاکھ تھے یا اس سے زیادہ ہی زیادہ ۔ پس اپنی خبر کی تحقیق ہے شک و تردد کے لئے نہیں خبر میں اللہ کی طرف سے شک کے ساتھ بیان نہیں ہو سکتا ۔ یہ قریب آنے والے حضرت جبرائیل تھے جیسے ام المومنین عائشہ ، ابن مسعود ، ابو ذر ابو ہریرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا فرمان ہے اور اس بابت کی حدیثیں بھی عنقریب ہم وارد کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل سے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا جن میں سے ایک کا بیان اس آیت ( ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى Ďۙ ) 53- النجم:8 ) میں ہے ۔ حضرت انس والی معراج کی حدیث میں ہے پھر اللہ تعالیٰ رب العزت قریب ہوا اور نیچے آیا اور اسی لئے محدثین نے اس میں کلام کیا ہے اور کئی ایک غرابتیں ثابت کی ہیں اور اگر ثابت ہو جائے کہ یہ صحیح ہے تو بھی دوسرے وقت اور دوسرے واقعہ پر محمول ہو گی اس آیت کی تفسیر نہیں کہی جا سکتی ۔ یہ واقعہ تو اس وقت کا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر تھے نہ کہ معراج والی رات کا ۔ کیونکہ اس کے بیان کے بعد ہی فرمایا ہے ہمارے نبی نے اسے ایک مرتبہ اور بھی سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا ہے پس یہ سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھنا تو واقعہ معراج کا ذکر ہے اور پہلی مرتبہ کا دیکھنا یہ زمین پر تھا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جبرائیل کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداء نبوت کے وقت آپ نے خواب میں حضرت جبرائیل کو دیکھا پھر آپ اپنی ضروری حاجت سے فارغ ہونے کے لئے نکلے تو سنا کہ کوئی آپ کا نام لے کر آپ کو پکار رہا ہے ہر چند دائیں بائیں دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا تین مرتبہ ایسا ہی ہوا ۔ تیسری بار آپ نے اوپر کی طرف دیکھا تو دیکھا کہ حضرت جبرائیل اپنے دونوں پاؤں میں سے ایک کو دوسرے سمیت موڑے ہوئے آسمان کے کناروں کو روکے ہیں ، قریب تھا کہ حضور دہشت زدہ ہو جائیں کہ فرشتے نے کہا میں جبرائیل ہوں میں جبرائیل ہوں ڈرو نہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ضبط نہ ہو سکا ، بھاگ کر لوگوں میں چلے آئے اب جو نظریں ڈالیں تو کچھ دکھائی نہ دیا پھر یہاں سے نکل کر باہر گئے اور آسمان کی طرف نظر ڈالی تو پھر حضرت جبرائیل اسی طرح نظر آئے آپ پھر خوف زدہ لوگوں کے مجمع میں آگئے تو یہاں کچھ بھی نہیں باہر نکل کر پھر جو دیکھا تو وہی سماں نظر آیا پس اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے ( فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى Ḍۚ ) 53- النجم:9 ) آدھی انگلی کو بھی کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں صرف دو ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا تھا ایک اور روایت میں ہے کہ اس وقت حضرت جبرائیل پر دو ریشمی حلے تھے پھر فرمایا اس نے وحی کی اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ حضرت جبرائیل نے اللہ کے بندے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی طرف جبرائیل کی معرفت اپنی وحی نازل فرمائی ۔ دونوں معنی صحیح ہیں حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس وقت کی وحی آیت ( اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًـا فَاٰوٰى Č۠ ) 93- الضحى:6 ) اور آیت ( وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ Ćۭ ) 94- الشرح:4 ) تھی اور حضرات سے مروی ہے کہ اس وقت یہ وحی نازل ہوئی تھی ۔ کہ نبیوں پر جنت حرام ہے جب تک کہ آپ اس میں نہ جائیں اور امتوں پر جنت حرام ہے جب تک کہ پہلے اس کی امت داخل نہ ہو جائے ، ابن عباس فرماتے ہیں آپ نے اپنے دل سے اللہ کو دو دفعہ دیکھا ہے حضرت ابن مسعود نے دیکھنے کو مطلق رکھا ہے یعنی خواہ دل کا دیکھنا ہو خواہ ظاہری آنکھوں کا یہ ممکن ہے کہ اس مطلق کو بھی مقید پر محمول کریں یعنی آپ نے اپنے دل سے دیکھا جن بعض حضرات نے کہا ہے کہ اپنی ان آنکھوں سے دیکھا انہوں نے ایک غریب قول کہا ہے اس لئے کہ صحابہ سے اس بارے میں کوئی چیز صحت کے ساتھ مروی نہیں ، امام بغوی فرماتے ہیں ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جیسے حضرت انس ، حضرت حسن اور حضرت عکرمہ ان کے اس قول میں نظر ہے واللہ اعلم ۔ ترمذی میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں میں نے یہ سن کر کہا پھر یہ آیت کہاں جائے گا جس میں فرمان ہے آیت ( لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ١٠٣ ) 6- الانعام:103 ) اسے کوئی نگاہ نہیں پا سکتی اور وہ سب نگاہوں کو پالیتا ہے آپ نے جواب دیا کہ یہ اس وقت ہے جبکہ وہ اپنے نور کی پوری تجلی کرے ورنہ آپ نے دو دفعہ اپنے رب کو دیکھا ۔ یہ حدیث غریب ہے ترمذی کی اور روایت میں ہے کہ ابن عباس کی ملاقات حضرت کعب سے ہوئی اور انہیں پہچان کر ان سے ایک سوال کیا جو ان پر بہت گراں گذرا ابن عباس نے فرمایا ہمیں بنو ہاشم نے یہ خبر دی ہے تو حضرت کعب نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنا دیدار اور اپنا کلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ کے درمیان تقسیم کر دیا حضرت موسیٰ سے دو مرتبہ باتیں کیں اور آنحضرت کو دو مرتبہ اپنا دیدار کرایا ۔ ایک مرتبہ حضرت مسروق حضرت عائشہ کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ نے فرمایا تو نے تو ایسی بات کہہ دی کہ جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ، میں نے کہا مائی صاحبہ قرآن کریم فرماتا ہے آپ نے اپنے رب کی نشانیاں دیکھیں آپ نے فرمایا کہاں جا رہے ہو ؟ سنو اس سے مراد حضرت جبرائیل کا دیکھنا ہے جو تم سے کہے کہ محمد نے اپنے رب کو دیکھا یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے کسی فرمان کو چھپا لیا یا آپ ان پانچ باتوں میں سے کوئی بات جانتے تھے یعنی قیامت کب قائم ہو گی ؟ بارش کب اور کتنی برسے گی ؟ ماں کے پیٹ میں نر ہے یامادہ ؟ کون کل کیا کرے گا ؟ کون کہاں مرے گا ؟ اس نے بڑی جھوٹ بات کہی اور اللہ پر بہتان باندھا بات یہ ہے کہ آپ نے دو مرتبہ اللہ کے اس جبرائیل امین کو دیکھا تھا آپ نے ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے ایک تو سدرۃ المنتہی کے پاس اور ایک مرتبہ جیاد میں ان کے چھ سو پر تھے اور آسمان کے کل کنارے انہوں نے بھر رکھے تھے نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ کیا تمہیں تعجب معلوم ہوتا ہے کہ خلت حضرت ابراہیم کے لئے تھی اور کلام حضرت موسیٰ کے لئے اور دیدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صحیح مسلم میں حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا وہ سراسر نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟ ایک روایت میں ہے میں نے نور دیکھا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ صحابہ کے اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا میں نے اپنے دل سے اپنے رب کو دو دفعہ دیکھا ہے پھر آپ نے آیت ( مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى 11 ) 53- النجم:11 ) پڑھی ۔ اور روایت میں ہے میں نے اپنی ان آنکھوں سے نہیں دیکھا ہاں دل سے دو دفعہ دیکھا ہے پھر آپ نے آیت ( ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى Ďۙ ) 53- النجم:8 ) پڑھی حضرت عکرمہ سے آیت ( مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى 11 ) 53- النجم:11 ) کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ہاں آپ نے دیکھا اور پھر دیکھا سائل نے پھر حضرت حسن سے بھی سوال کیا تو آپ نے فرمایا اس کے جلال عظمت اور چادر کبریائی کو دیکھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ یہ جواب دینا بھی مروی ہے کہ میں نے نہر دیکھی اور نہر کے پیچھے پردہ دیکھا اور پردے کے پیچھے نور دیکھا اس کے سوا میں نے کچھ نہیں دیکھا یہ حدیث بھی بہت غریب ہے ایک حدیث مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے اس کی اسناد شرط صحیح پر ہے لیکن یہ حدیث حدیث خواب کا مختصر ٹکڑا ہے چنانچہ مطول حدیث میں ہے کہ میرے پاس میرا رب بہت اچھی صورت میں آج کی رات آیا ( راوی کہتا ہے میرے خیال میں ) خواب میں آیا اور فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہو بلند مقام والے فرشتے کس مسئلہ پر گفتگو کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا نہیں پس اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو بازوؤں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک مجھے میرے سینے میں محسوس ہوئی ، پس زمین و آسمان کی ہر چیز مجھے معلوم ہو گئی پھر مجھ سے وہی سوال کیا میں نے کہا اب مجھے معلوم ہو گیا وہ ان نیکیوں کے بارے میں جو گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور جو درجے بڑھاتی ہیں آپس میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں مجھ سے حق جل شانہ نے پوچھا اچھا پھر تم بھی بتاؤ کفارے کی نیکیاں کیا کیا ہیں ؟ میں نے کہا نمازوں کے بعد میں مسجدوں میں رکے رہنا جماعت کے لئے چل کر آنا ۔ جب وضو ناگوار گذرتا ہو اچھی طرح مل مل کر وضو کرنا ۔ جو ایسا کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گذارے گا اور خیر کے ساتھ انتقال ہو گا اور گناہوں سے اس طرح الگ ہو جائے گا جیسے آج دنیا میں آیا ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھو یہ کہو ( اللھم انی اسئلک فعل الخیرات وترک المنکرات وحب المساکین واذا اردت بعبادک فتنۃ ان تقبضنی الیک غیر مفتون ) یعنی یا اللہ میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے برائیوں کے چھوڑنے مسکینوں سے محبت رکھنے کی توفیق طلب کرتا ہوں تو جب اپنے بندوں کو فتنے میں ڈالنا چاہے تو مجھے فتنے میں پڑنے سے پہلے ہی اپنی طرف اٹھا لینا فرمایا اور درجے بڑھانے والے اعمال یہ ہیں کھانا کھلانا سلام پھیلانا لوگوں کی نیند کے وقت رات کو تہجد کی نماز پڑھنا اسی کی مثل روایت سورہ ص مکی کی تفسیر کے خاتمے پر گذر چکی ہے ابن جریر میں یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے جس میں غربت والی زیادتی اور بھی بہت سی ہے اس میں کفارے کے بیان میں ہے کہ جمعہ کی نماز کے لئے پیدل چلنے کے قدم ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار میں نے کہا یا اللہ تو نے حضرت ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا اور حضرت موسیٰ کو اپنا کلیم بنایا اور یہ کیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا اور تیرا بوجھ ہٹا نہیں دیا ؟ اور فلاں اور فلاں احسان تیرے اوپر نہیں کئے؟ اور دیگر ایسے ایسے احسان بتائے کہ تمہارے سامنے ان کے بیان کی مجھے اجازت نہیں ۔ اسی کا بیان ان آیتوں آیت ( ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى Ďۙ ) 53- النجم:8 ) ، میں ہے پس اللہ تعالیٰ نے میری آنکھوں کا نور میرے دل میں پیدا کر دیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دیکھا ۔ اس کی اسناد ضعیف ہے اوپر عتبہ بن ابو لہب کا یہ کہنا کہ میں اس قریب آنے اور نزدیک ہونے والے کو نہیں مانتا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے لئے بد دعا کرنا اور شیر کا اسے پھاڑ کھانا بیان ہو چکا ہے یہ واقعہ زرقا میں یا سراۃ میں ہوا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرما دی تھی کہ یہ اس طرح ہلاک ہوگا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جبرائیل کو دوبارہ دیکھنا بیان ہو رہا ہے جو معراج والی رات کا واقعہ ہے ۔ معراج کی حدیثیں نہایت تفصیل کے ساتھ سورہ سبحٰن کی شروع آیت کی تفسیر میں گذر چکی ہیں جن کے دوبارہ یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں یہ بھی بیان گذر چکا ہے کہ حضرت ابن عباس معراج والی رات دیدار باری تعالیٰ کے ہونے کے قائل ہیں ایک جماعت سلف و خلف کا قول بھی یہی ہے اور صحابہ کی بہت سی جماعتیں اس کے خلاف ہیں اسی طرح تابعین اور دورے بھی اس کے خلاف ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جبرائیل کو پروں سمیت دیکھنا وغیرہ اس قسم کی روایتیں اوپر گذر چکی ہیں حضرت عائشہ سے حضرت مسروق کا پوچھنا اور آپ کا جواب بھی ابھی بیان ہوا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ صدیقہ اپنے اس جواب کے بعد آیت ( لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ١٠٣ ) 6- الانعام:103 ) ، کی تلاوت کی اور آیت ( مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ 79ۙ ) 3-آل عمران:79 ) کی بھی تلاوت فرمائی یعنی کوئی آنکھ اسے نہیں دیکھ سکتی اور وہ سب نگاہوں کو پالیتا ہے کسی انسان سے اللہ کا کلام کرنا ممکن نہیں ہاں وحی سے یا پردے کے پیچھے سے ہو تو اور بات ہے پھر فرمایا جو تم سے کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کل کی بات کا علم تھا اس نے غلط اور جھوٹ کہا پھر آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ 34ۧ ) 31- لقمان:34 ) آخر تک پڑھی ۔ اور فرمایا جو کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کسی بات کو چھپا لیا اس نے بھی جھوٹ کہا اور تہمت باندھی اور پھر آیت ( یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک ) پڑھی یعنی اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو تمہاری جو تمہاری جانب تمہارے رب کی طرف نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دو ۔ ہاں آپ نے حضرت جبرائیل کو ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے مسند احمد میں ہے کہ حضرت مسروق نے حضرت عائشہ کے سامنے سورہ نجم کی آیت ( وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى Ċۭ ) 53- النجم:7 ) اور ( وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى 13ۙ ) 53- النجم:13 ) پڑھیں اس کے جواب میں ام المومنین حضرت عائشہ نے فرمایا اس امت میں سب سے پہلے ان آیتوں کے متعلق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سوال کیا تھا آپ نے فرمایا اس سے مراد میرا حضرت جبرائیل کو دیکھنا ہے آپ نے صرف دو دفعہ اس امین اللہ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے ایک مرتبہ آسمان سے زمین پر آتے ہوئے اس وقت تمام خلاء ان کے جسم سے پر تھا یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن شفیق نے حضرت ابو ذر سے کہا کہ اگر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تو آپ سے ایک بات ضرور پوچھتا حضرت ابو ذر نے کہا کیا پوچھتے؟ کہا یہ کہ آپ نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے ؟ حضرت ابو ذر نے فرمایا یہ سوال تو خود میں نے جناب رسالت مآب سے کیا تھا آپ نے جواب دیا کہ میں نے اسے نور دیکھا وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ، صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث دو سندوں سے مروی ہے دونوں کے الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے ۔ حضرت امام احمد فرماتے ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس حدیث کی کیا توجیہ کروں دل اس پر مطمئن نہیں ابن ابی حاتم میں حضرت ابو ذر سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل سے دیدار کیا ہے آنکھوں سے نہیں امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں عبداللہ بن شفیق اور حضرت ابو ذر کے درمیان انقطاع ہے اور امام ابن جوزی فرماتے ہیں ممکن ہے حضرت ابو ذر کا یہ سوال معراج کے واقعہ سے پہلے کا ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت یہ جواب دیا ہو اگر یہ سوال معراج کے بعد آپ سے کیا جاتا تو ضرور آپ اس کے جواب میں ہاں فرماتے انکار نہ کرتے ۔ لیکن یہ قول سرتاپا ضعیف ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ کا سوال قطعاً معراج کے بعد تھا لیکن آپ کا جواب اس وقت بھی انکار میں ہی رہا ۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ان سے خطاب ان کی عقل کے مطابق کیا گیا یا یہ کہ ان کا یہ خیال غلط ہے چنانچہ ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں یہی لکھا ہے دراصل یہ محض خطا ہے اور بالکل غلطی ہے واللہ اعلم ، حضرت انس اور حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دل سے تو دیکھا ہے لیکن اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہاں حضرت جبرائیل کو اپنی آنکھوں سے ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا ہے ۔ سدرۃ المنتہی پر اس وقت فرشتے بہ کثرت تھے اور نور ربانی اس پر جگمگا رہا تھا اور قسم قسم کے رنگ جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جان سکتا ، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں معراج والی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتہی تک پہنچے جو ساتویں آسمان پر ہے زمین سے جو چیزیں چڑھتی ہیں وہ یہیں تک چڑھتی ہیں پھر یہاں سے اٹھا لی جاتی ہیں اسی طرح جو چیزیں اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں یہیں تک پہنچتی ہیں پھر یہاں سے پہنچائی جاتی ہیں اس وقت اس درخت پر سونے کی ٹڈیاں لدی ہوئی تھیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں تین چیزیں عطا فرمائی گئیں پانچوں وقت کی نمازیں سورہ بقرہ کی خاتمہ کی آیتیں اور آپ کی امت میں سے جو مشرک نہ ہو اس کے گناہوں کی بخشش ( مسلم ) ابو ہریرہ سے یا کسی اور صحابی سے روایت ہے کہ جس طرح کوے کسی درخت کو گھیر لیتے ہیں اسی طرح اس وقت سدرۃ المنتہی پر فرشتے چھا رہے تھے وہاں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو آپ سے کہا گیا کہ جو مانگنا ہو مانگو ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس درخت کی شاخیں مروارید یاقوت اور زبرجد کی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا اور اپنے دل کی آنکھوں سے اللہ کی بھی زیارت کی ۔ ابن زید فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ آپ نے سدرہ پر کیا دیکھا ؟ آپ نے فرمایا اسے سونے کی ٹڈیاں ڈھانکے ہوئے تھیں اور ہر ایک پتے پر ایک ایک فرشتہ کھڑا ہوا اللہ کی تسبیح کر رہا تھا ۔ آپ کی نگاہیں دائیں بائیں نہیں ہوئیں جس چیز کے دیکھنے کا حکم تھا وہیں لگی رہیں ۔ ثابت قدمی اور کامل اطاعت کی یہ پوری دلیل ہے کہ جو حکم تھا وہی بجا لائے جو دئیے گئے وہی لے کر خوش ہوئے اسی کو ایک نظم نے تعریفاً کہا ہے ۔ آپ نے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِنُرِيَكَ مِنْ اٰيٰتِنَا الْكُبْرٰى 23ۚ ) 20-طه:23 ) اس لئے کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں جو ہماری کامل قدرت اور زبردست عظمت پر دلیل بن جائیں ۔ ان دونوں آیتوں کو دلیل بنا کر اہل سنت کا مذہب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات اللہ کا دیدار اپنی آنکھوں سے نہیں کیا کیونکہ ارشاد باری ہے کہ آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں ، اگر خود اللہ کا دیدار ہوا ہوتا تو اسی دیدار کا ذکر ہوتا اور لوگوں پر سے اسے ظاہر کیا جاتا ابن مسعود کا قول گذر چکا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی خواہش پر دوسری دفعہ آسمان پر چڑھتے وقت جبرائیل کو آپ نے ان کی اصلی صورت میں دیکھا ۔ پس جبکہ جبرائیل نے اپنے رب عزوجل کو خبر دی اپنی اصلی صورت میں عود کر گئے اور سجدہ ادا کیا ، پس سدرۃ المنتہی کے پاس دوبارہ دیکھنے سے انہی کا دیکھنا مراد ہے یہ روایت مسند احمد میں ہے اور غریب ہے ۔
(علمہ شدید القوی : بعض لوگ اس سے مراد اللہ تعالیٰ لیتے ہیں مگر یہ درست نہیں، بلکہ اس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اللہ تعالیٰ کی وحی پہنچائی۔ دل یل اس کی یہ ہے کہ دوسری جگہ واضح طور پر یہ صفت جبریل (علیہ السلام) ک بیان ہوئی ہے، فرمایا :(انہ لقول رسول کریم ، ذی قوۃ عند ذی العرش مکین ، مطاع ثم امین) (التکویر : ١٩ تا ٢١)” بلاشبہ یقینا یہ ایک ایسے پغیام پہنچانے اولے کا قول ہے جو بہت معزز ہے۔ بڑی قوت والا ہے، عرش والے کے ہاں بہت متر بےوالا ہے۔ وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، نہایت امانت دار ہے۔ “ ” القوی “ ” قوۃ “ کی جمع ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جبریل (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ - نے ایک نہیں بہت سی قوتیں عطا فرمائی ہیں اور ہر قوت ہی نہایت مضبوط اور زبردست ہے، بھلا جسے اللہ تعالیٰ نہایت مضبوط قوتوں والا فرمائے اس کی قوتوں کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ سید ولد آدم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ان کی اصل صورت میں صرف دو دفعہ دیکھا اور اس دیکھنے سے جو کیفیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گزری اس سے ان کی عظمت وہیبت، حسن و جمال اور قو ت و وسعت کا تھوڑا سا اندازہ ہوتا ہے۔ پھر ہز اورں سالوں کے فاصلے لمحوں میں طے کرنے سے ان کی رفتار کی سرعت و قوت کا معمولی اندازہ ہوتا ہے۔
عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى، یہاں سے سترہویں آیت (لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى) تک تمام آیات میں اس کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ اللہ کا کلام ہے، جو آپ کو اس طرح دیا گیا ہے کہ اس میں کسی التباس وتلبیس یا خطاء اور غلطی کا کوئی امکان نہیں رہتا۔- آیات نجم کی تفسیر میں ائمہ تفسیر کا اختلاف :- ان آیات کے بارے میں ائمہ تفسیر سے دو تفسیریں منقول ہیں، ایک کا حاصل یہ ہے کہ ان سب آیات کو واقعہ معراج کا بیان قرار دے کر حق تعالیٰ سے تعلیم بلا واسطہ اور رویت و قرب حق تعالیٰ کے ذکر پر محمول فرمایا، اور شَدِيْدُ الْقُوٰى، ۙذُوْ مِرَّةٍ ۭ فَاسْتَوٰى اور دَنَا فَتَدَلّٰى سب کو حق تعالیٰ کی صفات و افعال قرار دیا اور آگے جو رویت و مشاہدہ کا ذکر ہے اس سے بھی حق تعالیٰ کی رویت و زیارت مراد لی، صحابہ کرام میں حضرت انس اور ابن عباس سے یہ تفسیر منقول ہے، تفسیر مظہری میں اسی کو اختیار کیا ہے اور بہت سے حضرات صحابہ وتابعین اور ائمہ تفسیر نے ان آیات کو جبرئیل (علیہ السلام) کے ان کی اصلی صورت میں دیکھنے کا بیان قرار دیا ہے اور شَدِيْدُ الْقُوٰى وغیرہ جبرئیل امین کی صفات بتلائی ہیں، اس کی بہت سی وجہ ہیں، تاریخی حیثیت سے بھی سورة نجم بالکل ابتدائی سورتوں میں سے ہے اور حسب تصریح حضرت عبداللہ بن مسعود سب سے پہلی سورت جس کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اعلاناً پڑھا ہے یہی سورت ہے اور ظاہر یہی ہے کہ واقعہ معراج اس سے موخر ہے لیکن اس میں کلام کیا جاسکتا ہے اصل وجہ یہ ہے کہ حدیث مرفوع میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان آیات کی تفسیر رویت جبرئیل سے منقول ہے، جس کے الفاظ مسند احمد میں یہ ہیں :- عن الشعبی عن مسروق قال کنت عند عائشة فقلت الیس اللہ یقول (ولقد راہ بالافق، المبین و لقد راہ نزلة اخری) فقالت انا اول ھذہ الامة سالت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عنھا فقال انما ذاک جبرئیل لم یرہ فی صورتہ التی خلق علیھا الا مرتین راہ منھبطا من السمآء الی الارض سادا عظم خلقہ ما بین السمآء والارض، اخرجاہ فی الصحیحین من حدیث الشعبی (ابن کثیر)- " شعبی حضرت مسروق سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ایک روز حضرت صدیقہ عائشہ کے پاس تھے (رویت باری تعالیٰ کے مسئلہ میں گفتگو تھی) مسروق کہتے ہیں کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ولقد راہ بالافق المبین، و لقد راہ نزلة اخری) حضرت صدیقہ نے فرمایا کہ پوری امت میں سب سے پہلے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا ہے آپ نے فرمایا کہ جس کے دیکھنے کا آیت میں ذکر ہے وہ جبرئیل (علیہ السلام) ہیں جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے آیت میں جس رویت کا ذکر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جبرئیل امین کو آسمان سے زمین کی طرف اترتے ہوئے دیکھا کہ ان کے جثے نے زمین و آسمان کے درمیان کی فضا کو بھر دیا تھا "۔- صحیح مسلم میں بھی یہ روایت تقریباً انہی الفاظ سے منقول ہے اور فتح الباری کتاب التفسیر میں حافظ نے ابن مردویہ سے یہی روایت اسی سند کے ساتھ نقل کی ہے، جس میں صدیقہ کے الفاظ یہ ہیں :- انا اول من سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن ھذا، فقلت یا رسول اللہ ھل رایت ربک ؟ فقال لا انما رایت جبرئیل منھبطا (فتح الباری، ص 493 ج 8 )- " یعنی صدیقہ عائشہ فرماتی ہیں کہ اس آیت کے متعلق سب سے پہلے میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے جبرئیل کو اترتے ہوئے دیکھا ہے "۔- اور صحیح بخاری میں شیبانی سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت زر سے اس آیت کا مطلب پوچھا (فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى، الی عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى) انہوں نے جواب دیا کہ ہم سے حضرت عبداللہ بن مسعود نے حدیث بیان کی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل امین کو اس حالت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے اور ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود سے آیت (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى) کی تفسیر میں یہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل امین کو دیکھا اس حالت میں کہ وہ رفرف کے لباس میں تھے اور زمین و آسمان کی درمیانی فضاء کو ان کے وجود نے بھر رکھا تھا۔- ابن کثیر کی تحقیق :- یہ سب روایات حدیث ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کر کے فرمایا ہے کہ سورة نجم کی آیات مذکورہ میں رویت اور قرب سے مراد جبرئیل کی رویت اور قرب ہے، یہ قول صحابہ کرام میں سے حضرت ام المومنین عائشہ اور عبداللہ بن مسعود، ابوذر غفاری، ابوہریرہ (رض) اجمعین کا ہے، اسی لئے ابن کثیر نے آیات مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا کہ :۔- ان آیات میں جس رویت اور قرب کا ذکر ہے وہ رویت و قرب جبرئیل امین کی مراد ہے جبکہ ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلی مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا، پھر دوسری مرتبہ شب معراج میں سدرة المنتہیٰ کے قریب دیکھا اور یہ پہلی رویت نبوت کے بالکل ابتدائی زمانہ میں ہوئی، جبکہ جبرئیل (علیہ السلام) پہلی مرتبہ سورة اقراء کی ابتدائی آیتوں کی وحی لے کر آئے، اس کے بعد وحی میں فترت یعنی وقفہ پیش آیا جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت غم اور تکلیف تھی، بارہا یہ خیالات دل میں آئے کہ پہاڑ سے گر کر جان دیدیں مگر جب کبھی ایسی صورت ہوئی تو جبرئیل امین غائبانہ ہوا سے آواز دیتے کہ اے محمد آپ اللہ کے رسول ہیں برحق ہیں اور میں جبرئیل ہوں، ان کی آواز سے آپ کا دل ٹھہر جاتا اور سکون ہوجاتا تھا، جب کبھی ایسا خیال آیا اسی وقت جبرئیل نے اس آواز کے ذریعہ تسلی دی مگر یہ تسلیاں غائبانہ تھیں، یہاں تک کہ ایک روز جبرئیل امین بطحا کے کھلے میدان میں اپنی اصلی صورت میں اس طرح ظاہر ہوئے کہ ان کے چھ سو بازو تھے اور پورے افق کو گھیر رکھا تھا، پھر جبرئیل امین آپ کے قریب آئے اور آپ کو وحی الٰہی پہنچائی، اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جبرئیل امین کی عظمت اور اللہ کے نزدیک جلالت قدر کی حقیقت روشن ہوئی (ابن کثیر)- خلاصہ یہ ہے کہ امام ابن کثیر نے خود تفسیر مرفوع اور صحابہ کرام کے اقوال کی بنا پر سورة نجم کی آیات مذکورہ کی تفسیر یہی قرار دی ہے کہ اس میں رویت اور قرب جبرئیل کا مراد ہے اور یہ پہلی رویت ہے جو اسی عالم میں مکہ مکرمہ کے افق پر ہوئی، بعض روایات میں اس رویت کی یہ تفصیل آئی ہے کہ جبرئیل امین کو پہلی مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غشی طاری ہوگئی، تو پھر جبرئیل امین آدمی کی صورت میں آپ کے قریب آئے اور بہت قریب آگئے۔- دوسری رویت کا تذکرہ آگے سورة نجم ہی کی آیت وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى میں آیا ہے، جو شب معراج میں ہوئی، مذکور الصدر وجوہ کی بناء پر عامہ مفسرین حضرات نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے، ابن کثیر کا مضمون تو ابھی اوپر گزرا ہے، قرطبی، ابو حیان، امام رازی وغیرہ عموماً اسی تفسیر کو ترجیح دے رہے ہیں، سیدی حضرت حکیم الامت نے بھی اسی کو اختیار فرمایا ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر کے عنوان میں بیان ہوچکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سورة نجم کی ابتدائی آیات میں حق تعالیٰ کی رویت کا ذکر نہیں ہے بلکہ رویت جبرئیل (علیہ السلام) مذکور ہے، نووی نے شرح مسلم میں اور حافظ نے فتح الباری میں بھی یہی تفسیر اختیار فرمائی ہے۔
عَلَّمَہٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى ٥ ۙ- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ - قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔
آیت ٥ عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی ۔ ” انہیں سکھایا ہے اس نے جو زبردست قوت والا ہے۔ “- ” شَدِیْدُ الْقُوٰی “ سے یہاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں ‘ یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ قرآن جبرائیل (علیہ السلام) نے سکھایا ہے جو زبردست قوت والا ہے۔
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :5 یعنی کوئی انسان اس کو سکھانے والا نہیں ہے ، جیسا کہ تم گمان کرتے ہو ، بلکہ یہ علم اس کو ایک فوق البشر ذریعہ سے حاصل ہو رہا ہے ۔ زبردست قوت والے سے مراد بعض لوگوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ، لیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عائشہ حضرت ابو ہریرہ ، قتادہ ، مجاہد ، اور ربیع بن انس سے یہی منقول ہے ۔ ابن جریر ، ابن کثیر ، رازی اور آلوسی وغیرہ حضرات نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے ۔ شاہ ولی اللہ صاحب اور مولانا اشرف علی صاحب نے بھی اپنے ترجموں میں اسی کی پیروی کی ہے ۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ خود قرآن مجید کی دوسری تصریحات سے بھی یہی ثابت ہے ۔ سورۃ تکویر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اِنَّہ لَقَولُ رَسُوْلٍ کَرِیمٍ ، ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ ، مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمیْنٍ ، وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ ، وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ ( آیت 19 ۔ 23 ) ۔ در حقیقت یہ ایک بزرگ فرشتے کا بیان ہے جو زبردست قوت والا ہے ، مالک عرش کے ہاں بڑا درجہ رکھتا ہے ، اس کا حکم مانا جاتا ہے اور وہاں وہ معتبر ہے ۔ تمہارا رفیق کچھ دیوانہ نہیں ہے ، وہ اس فرشتے کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھ چکا ہے ۔ پھر سورہ بقرہ کی آیت 97 میں اس فرشتے کا نام بھی بیان کر دیا گیا ہے جس کے ذریعہ سے یہ تعلیم حضور کے قلب پر نازل کی گئی تھی: قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنّہ نَزَّلَہ عَلیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ ۔ ان تمام آیات کو اگر سورہ نجم کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ یہاں زبردست قوت والے معلم سے مراد جبریل امین ہی ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ ۔ اس مسئلے پر مفصل بحث آ گے آ رہی ہے ۔ اس مقام پر بعض حضرات جبریل امین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معلم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ، اس کے معنی تو یہ ہوں گے کہ وہ استاد ہیں اور حضور شاگرد ، اور اس سے حضور پر جبریل کی فضیلت لازم آئے گی لیکن یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جبریل اپنے کسی ذاتی علم سے حضور کو تعلیم نہیں دیتے تھے جس سے آپ پر ان کی فضیلت لازم آئے ، بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے آپ تک علم پہنچانے کا ذریعہ بنایا تھا اور وہ محض واسطہ تعلیم ہونے کی حیثیت سے مجازاً آپ کے معلم تھے ۔ اس سے ان کی افضلیت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پانچ وقت نمازیں فرض ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے صحیح اوقات بتانے کے لیے جبریل علیہ السلام کو آپ کے پاس بھیجا اور انہوں نے دو روز تک پانچوں وقت کی نمازیں آپ کو پڑھائیں ۔ یہ قصہ بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی اور مُؤطا وغیرہ کتب حدیث میں صحیح سندوں کے ساتھ بیان ہوا ہے اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ مقتدی تھے اور جبریل نے امام بن کر آپ کو نماز پڑھائی تھی ۔ لیکن اس طرح محض تعلیم کی غرض سے ان کا امام بنایا جانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ آپ سے افضل تھے ۔