(١) ذومرۃ : طاقت، توانائی اور مضبوطی والا۔ ” مرۃ “ کا لفظ اصل میں رسی کو بٹنے اور بل دے کر مضبوط کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اس پر تنوین تعظیم کیلئے ہے ، اس لئے ترجمہ ” بڑی طاقت والا “ کیا گیا ہے۔ اس طاقت میں عملی اور علمی دونوں طاقتیں شامل ہیں۔” شدید القوی “ کے بعد ” ذومرۃ “ کے ساتھ ان کی طاقت اور توانائی کو مزید اجاگر فرمایا ہے۔ بعض مفسرین نے ” شدید القوی “ سے عملی قوتیں اور ” ذومرۃ “ سے علمی اور عقلی قوتیں مراد لی ہیں، مگر دونوں لفظ ہر قسم کی قوتوں پر ساتعملا ہوتے ہیں، اس لئے تاکید مراد لینا راجح معلوم ہوتا ہے۔- (٢) ” فاستوی “ برابر ہوا، بلند ہوا۔” افق “ دور سے نظر آنے والی وہ جگہ جہاں زمین و آسمان ملتے ہوئے نظر آتے ہیں اور آسمان نیلے گنبد کی طرح بلند ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ” افق اعلیٰ “ مشرقی کنارا، جہاں سے سورج طلوع کے وقت بلند ہوتا ہے۔ اسی کو دوسری جگہ ” الافق المبین “ فرمایا، جیسا کہ فرمایا :(ولقد راہ بالافق المبین) (الکتویر : ٢٣)” اور بلاشبہ یقیناً اس نے اس (جبریل) کو (آسمان کے) روشن کنارے پر دیکھا ہے۔ “- (٣) فتدلی : یہ ”’ لو “ سے مشتق ہے، سورة یوسف میں ہے۔ (فاذدلی دلوہ) (یوسف : ١٩)” تو اس نے اپنا ڈول لٹکایا۔ “” تدلی “ لٹک آیا، یعنی فضا میں رہتے ہوئے کچھ نیچے آگیا۔ ” قاب “ مقدار۔ ” او ادنی “ یا زیادہ قریب۔ یعنی اگر آدمی اس فاصلے کو دیکھے تو اسے یہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم نظر آئے۔ بعض اہل علم نے فرمایا، یہاں ” او “ ” بل “ کے معنی میں ہے، یعنی دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم، یحساب کہی ونس علیہ السام کے متعلق فرمایا :(وارسلنہ الی مائۃ الف او یریدون) (الصافات :138)” اور ہم نے اسے ایک لاکھ کی طرف بھیجا، بلکہ وہ زیادہ ہوں گے۔ “- (٤) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زندگی میں جبریل (علیہ السلام) کو دو بار ان کی اصل صورت میں دیکھا ہے۔ ان آیات میں پہلی بار دیکھنے کا ذکر ہے، جبریل (علیہ السلام) آسمان کے مشرقی کنارے پر نمودار ہوئے، تو زمین و آسمان کا درمیانی فاصلہ ان سے پر ہوگیا ، جیسا کہ جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ (پہلی وحی کے بعد) وحی کے وقفے کے متعلق بیان فرما رہے تھے :(فینا انا مشی اذ سمعت صوتاً من السمآء فرفعت بصری قبل السمآء فاذا الملک الذی جاء نبی بجراء فاعد علی کرسی بین السمآء والارض فجئت منہ حتی ھویت الی الارض فجنت اھلی ففک زملونی زماونی فرما ونی فانزل اللہ تعالیٰ (یا یھا المدثر، قم فانذر) (الی فاھجر) ثم حمی الوحی و تتابع) (بخاری، التفسیر، سورة المدثر ، باب :(والرجز فاھجر) (: ٣٩٢٦)” ایک دفعہ میں چلا جا رہا تھا، اچانک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی تو میں نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھئای تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، تو میں اس سے ڈر گیا، یہاں تک کہ میں زمین پر گرگیا، پھر میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا اور کہا، مجھے چادر اوڑھا دو ، مجھے چادر اوڑھا دو ، تو انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :(یایھا المدثر، قم فانذر ، وربک فکبر ، وثیابک فطھر، والرجز فاھجر) پھر وحی گرما گرم ہوگئی اور پے در پے آنے لگی۔ “- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جبریل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دیکھنے کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے : (حدثنا الشیانی قال سمعت زرا عن عبداللہ (فکان قاب قوسین او ادنی، فاوحی الی عبدہ ما اوحی ) قال حدثنا ابن مسعود انہ رای جبریل لعہ ست مائۃ جناح) (بخاری، التفسیر، سورة النجم، باب :(فکان قاب قوسین او ادلی؛3856)” زر (بن حبیشن) نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے (فکان قاب قوسین او ادنی ، فاوحی الی عبدہ ما اوحی) کی تفسیر روایت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل کو دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے۔ “ - ان آیات کا مقصد کفار کے اس الزام کی تردید ہے جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لگاتے تھے کہ کوئی عجمی آدمی اسے قرآن کی باتیں سکھا جاتا ہے اور یہ ہمیں سنا کر کہتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ کسی عجمی شخص نے نہیں، بلکہ ایک نہایت مضبوط قوتوں اور بڑی طاقتو الے فرشتے نے اسے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ چناچہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ وہ شدید القوی فرشتہ مشرق افق پر بلند ہوا، اس وقت وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کسری پر بیٹھا ہوا تھا پھر وہ فضا ہی میں نیچے اترتا ہوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتنا قریب ہوا کہ آپ سے دو کمانوں سے بھی کم فاصلے پر آگیا۔
ذُوْ مِرَّةٍ ۭ فَاسْتَوٰى وَهُوَ بالْاُفُقِ الْاَعْلٰى، مرہ کے معنی قوت کے ہیں، یہ بھی جبرئیل امین کی دوسری صفت قوت و طاقت کی زیادتی بیان کرنے کے لئے ہے، تاکہ کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ وحی لانے والے فرشتے کے کام میں کوئی شیطان دخیل ہوسکتا ہے، کیونکہ جبرئیل امین اتنے قوی ہیں کہ شیطان ان کے پاس بھی نہیں پھٹک سکتا اور فاستویٰ کے معنی " برابر ہو گئے " مراد یہ ہے کہ اول جب جبرئیل امین کو دیکھا تو وہ آسمان سے اتر رہے تھے، اترنے کے بعد افق بلند پر مستوی ہو کر بیٹھ گئے، افق کے ساتھ اعلیٰ کی قید میں یہ حکمت ہے کہ افق کا وہ حصہ جو زمین کے ساتھ ملا ہوا نظر آتا ہے وہ عموماً نظروں سے مخفی رہتا ہے اس لئے افق بلند پر جبرئیل امین کو دکھلا یا گیا۔
ذُوْ مِرَّۃٍ ٠ ۭ فَاسْتَوٰى ٦ ۙ- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251]- والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد - ( ذ و ) ذو - ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف - کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں - اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے - مرر - المُرُورُ : المضيّ والاجتیاز بالشیء . قال تعالی: وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ- [ المطففین 30] ، وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] تنبيها أنّهم إذا دفعوا إلى التّفوّه باللغو کنّوا عنه، وإذا سمعوه تصامموا عنه، وإذا شاهدوه أعرضوا عنه، وقوله : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا - [يونس 12] فقوله : مَرَّ هاهنا کقوله : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء 83] وأمْرَرْتُ الحبلَ : إذا فتلته، والمَرِيرُ والمُمَرُّ :- المفتولُ ، ومنه : فلان ذو مِرَّةٍ ، كأنه محکم الفتل . قال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى- [ النجم 6] . ويقال : مَرَّ الشیءُ ، وأَمَرَّ : إذا صار مُرّاً ، ومنه - ( م ر ر ) المرور - ( م ر ر ) المرور کے معنی کسی چیز کے پاس سے گزر جانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین 30] اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو باہم آنکھوں سے اشارہ کرتے ۔ وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفانہ انداز سے گزرجاتے ہیں ۔ نیز آیت کریمہ میں اس بات پر بھی متنبہ کیا ہے کہ اگر انہیں بیہودہ بات کہنے پر مجبوری بھی کیا جائے تو کنایہ سے بات کرتے ہیں اور لغوبات سن کر اس سے بہرے بن جاتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں تو اعراض کرلیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا[يونس 12] پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کردیتے ہیں ( تو بےلحاظ ہوجاتا اور ) اس طرح گزرجاتا ہے کہ گویا تکلیف پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں تھا ۔ میں مربمعنی اعرض ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء 83] اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو روگردان ہوجاتا اور پہلو پھیر لیتا ہے ۔ امررت الحبل کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ اور بٹی ہوئی رسی کو مریر یاممر کہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرکہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی طاقت ور اور توانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] طاقتور نے ۔ مرالشئی وامر کسی چیز کا تلخ ہونا ۔ اسی سے محاورہ ہے۔ فلان مایمر سو مایحلی کہ فلاں نہ تو کڑوا ہے اور نہ میٹھا ۔ یعنی نہ تو اس سے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی نقصان ۔ اور آیت کریمہ حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً فَمَرَّتْ بِهِ [ الأعراف 189]( تو ) اسے ہلکا ساحمل رہ جاتا ہے ۔ اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے ۔ میں مرت بمعنی استمرت ہے ۔ یعنی وہ اسے اٹھائے چلتی پھرتی رہتی ہے ۔ مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے
(٦۔ ٩) پھر جبریل امین اپنی اصلی حالت پر نمودار ہوئے یا یہ کہ بہترین شکل و صورت میں نمودار ہوئے اس حالت میں کہ وہ افق شرقی پر تھے یا یہ کہ ساتویں آسمان کے کنارہ پر تھے پھر جبریل امین رسول اکرم کے قریب آئے یا یہ کہ حضور اکرم پروردگار کے قریب ہوئے۔- اور پھر اور نزدیک ہوئے کہ قرب کی وجہ سے دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ آدھے کمان سے کم فاصلہ رہ گیا۔
آیت ٦ ذُوْ مِرَّۃٍط فَاسْتَوٰی ۔ ” جو بڑا زور آور ہے۔ وہ سیدھا ہوا۔ “
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :6 اصل میں لفظ ذُوْ مِرَّۃٍ استعمال فرمایا گیا ہے ۔ ابن عباس اور قتادہ اس کو خوبصورت اور شاندار کے معنی میں لیتے ہیں ۔ مجاہد ، حسن بصری ، ابن زید اور سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس کے معنی طاقتور کے ہیں ۔ سعید بن مُسَیَّب کے نزدیک اس سے مراد صاحب حکمت ہے ۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رشاد ہے : لا تحل الصدقۃ لغنی ولا لذی مِرَّۃٍ سَوِیٍّ ۔ اس ارشاد میں ذو مرہ کو آپ نے تندرست اور صحیح القویٰ کے معنی میں استعمال فرمایا ہے ۔ عربی محاورے میں یہ لفظ نہایت صائب الرائے اور عاقل و دانا کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں جبریل علیہ السلام کے لیے یہ جامع لفظ اسی لیے منتخب فرمایا ہے کہ ان میں عقلی اور جسمانی ، دونوں طرح کی قوتوں کا کمال لیا جاتا ہے ۔ اردو زبان میں کوئی لفظ ان تمام معنوں کا جامع نہیں ہے ۔ اس وجہ سے ہم نے ترجمے میں اس کے صرف ایک معنی کو اختیار کیا ہے ، کیونکہ جسمانی قوتوں کے کمال کا ذکر اس سے پہلے کے فقرے میں آ چکا ہے ۔
3: اس سے مراد حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر تشریف لاتے تھے۔ اُن کی اطاعت کا خاص طور سے ذکر فرماکر اس بات کی تردید کی گئی ہے جو کافروں کے دل میں آسکتی تھی کہ اگر کوئی فرشتہ ہی وحی لاتا ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ درمیان میں کوئی شیطانی تصرف نہیں ہوا ؟ آیت نے بتادیا کہ وحی لانے والافرشتہ اتنا طاقت ور ہے کہ کوئی دوسرا اسے اپنے مشن سے نہیں ہٹاسکتا۔