وَہُوَبِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى ٧ ۭ- أفق - قال تعالی: سَنُرِيهِمْ آياتِنا فِي الْآفاقِ [ فصلت 53] أي : في النواحي، والواحد : أُفُق وأفق ويقال في النسبة إليه : أُفُقِيّ ، وقد أَفَقَ فلان : إذا ذهب في الآفاق، وقیل : الآفِقُ للذي يبلغ النهاية في الکرم تشبيها بالأفق الذاهب في الآفاق .- ( ا ف ق ) الافق ۔ کنارہ جمع آفاق ۔ قرآن میں ہے : سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ [ فصلت : 53] ہم عنقریب ان کو اطراف ( عالم میں بھی ۔۔ نشانیاں دکھائینگے آفاق کے معنی اطراف کے ہیں اس کا واحد افق وافق ہے اور نسبت کے وقت افقی کہا جاتا ہے اور افق فلان کے معنی آفاق ( اطراف عالم ) میں جانے کے ہیں اور افق کے اطراف میں انتہائی بعد اور وسعت سے تشبیہ کے طور پر اٰفق کا لفظ انتہائی سخی پر بولا جاتا ہے ۔ - علي - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] - ( ع ل و ) العلو - العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت - واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔
آیت ٧ وَہُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی ۔ ” اور وہ افق اعلیٰ پر تھا۔ “- یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو افق پر اپنی اصلی شکل میں دیکھا۔
سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :7 اُفق سے مراد ہے آسمان کا مشرقی کنارا جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے اور دن کی روشنی پھیلتی ہے ۔ اسی کو سورۃ تکویر کی آیت 23 میں اُفق مبین کہا گیا ہے ۔ دونوں آیتیں صراحت کرتی ہیں کہ پہلی مرتبہ جبریل علیہ السلام جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نظر آئے اس وقت وہ آسمان کے مشرقی کنارے سے نمودار ہوئے تھے ۔ اور متعدد و معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ اپنی اصلی صورت میں تھے جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ آ گے چل کر ہم وہ تمام روایات نقل کریں گے جن میں یہ بات بیان کی گئی ہے ۔
4: کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جو فرشتہ وحی لاتا ہے وہ انسان ہی کی شکل میں آتا ہے، اس لئے آپ کو یہ کیسے پتہ چلا کہ وہ فرشتہ ہی ہے، ان آیتوں میں اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فرشتے کو کم از کم دو مرتبہ اپنی اصل صورت میں بھی دیکھا ہے، ان میں سے ایک واقعے کا اس آیت میں تذکرہ فرمایا گیا ہے، اور وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) سے یہ فرمائش کی تھی کہ وہ اپنی اصلی صورت میں آپ کے سامنے آئیں، چنانچہ وہ اپنی اصلی صورت میں افق پر ظاہر ہوئے، اور آپ نے انہیں دیکھا۔