Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نذیر کا مفہوم نذیر کہتے کسے ہیں یہ خوف اور ڈر سے آگاہ کرنے والے ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی رسالت بھی ایسی ہی ہے جیسے آپ سے پہلے رسولوں کی رسالت تھی جیسے اور آیت میں ہے آیت ( قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ ۭ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ Ḍ۝ ) 46- الأحقاف:9 ) یعنی میں کوئی نیا رسول تو ہوں نہیں رسالت مجھ سے شروع نہیں ہوئی بلکہ دنیا میں مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول آ چکے ہیں قریب آنے والی کا وقت آئے گا یعنی قیامت قریب آ گئی ۔ نہ تو اسے کوئی دفع کر سکے نہ اس کے آنے کے صحیح وقت معین کا کسی کو علم ہے ۔ نذیر عربی میں اسے کہتے ہیں مثلا ایک جماعت ہے جس میں سے ایک شخص نے کوئی ڈراؤنی چیز دیکھی اور اپنی قوم کو اس سے آگاہ کرتا ہے یعنی ڈر اور خوف سنانے والا جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ 46؀ ) 34- سبأ:46 ) میں تمہیں سخت عذاب سے مطلع کرنے والا ہوں حدیث میں ہے تمہیں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں ۔ یعنی جس طرح کوئی شخص کسی برائی کو دیکھ لے کہ وہ قوم کے قریب پہنچ چکی ہے اور پھر جس حالت میں ہو اسی میں دوڑا بھاگا آجائے اور قوم کو دفعۃً متنبہ کر دے کہ دیکھو وہ بلا آرہی ہے فوراً تدارک کر لو اسی طرح قیامت کے ہولناک عذاب بھی لوگوں کی غفلت کی حالت میں ان سے بالکل قریب ہو گئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان عذابوں سے ہوشیار کر رہے ہیں جیسے اس کے بعد کی سورت میں ہے آیت ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ۝ ) 54- القمر:1 ) قیامت قریب آچکی مسند احمد کی حدیث میں ہے لوگو گناہوں کو چھوٹا اور حقیر جاننے سے بچو سنو چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک قافلہ کسی جگہ اترا سب ادھر ادھر چلے گئے اور لکڑیاں سمیٹ کر تھوڑی تھوڑی لے آئے تو چاہے ہر ایک کے پاس لکڑیاں کم کم ہیں لیکن جب وہ سب جمع کر لی جائیں تو ایک انبار لگ جاتا ہے جس سے دیگیں پک جائیں اسی طرح چھوٹے چھوٹے گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہے اور اچانک اس گنہگار کو پکڑ لیتا ہے اور ہلاک ہو جاتا ہے اور حدیث میں ہے میری اور قیامت کی مثال ایسی ہے پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیان کی انگلی اٹھا کر ان کا فاصلہ دکھایا میری اور قیامت کی مثال دو ساعتوں کی سی ہے میری اور آخرت کے دن کی مثال ٹھیک اسی طرح ہے جس طرح ایک قوم نے کسی شخص کو اطلاع لانے کے لئے بھیجا اس نے دشمن کے لشکر کو بالکل نزدیک کی کمین گاہ میں چھاپہ مارنے کے لئے تیار دیکھا یہاں تک کہ اسے ڈر لگا کہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی کہیں یہ نہ پہنچ جائیں تو وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور وہیں کپڑا ہلا ہلا کر انہیں اشارے سے بتا دیا کہ خبردار ہو جاؤ دشمن سر پر موجود ہے پس میں ایسا ہی ڈرانے والا ہوں ۔ اس حدیث کی شہادت میں اور بھی بہت سی حسن اور صحیح حدیثیں موجود ہیں ۔ پھر مشرکین کے اس فعل پر انکار فرمایا کہ وہ قرآن سنتے ہیں مگر اعراض کرتے ہیں اور بےپرواہی برتتے ہیں بلکہ اس کی رحمت سے تعجب کے ساتھ انکار کر بیٹھتے ہیں اور اس سے مذاق سنتے ہیں مگر اعراض کرتے ہیں اور بےپرواہی برتتے ہیں بلکہ اس کی رحمت سے تعجب کے ساتھ انکار کر بیٹھتے ہیں اور اس سے مذاق اور ہنسی کرنے لگتے ہیں چاہیے یہ تھا کہ مثل ایمان داروں کے اسے سن کر روتے عبرت حاصل کرتے جیسے مومنوں کی حالت بیان فرمائی کہ وہ اس کلام اللہ شریف کو سن کر روتے دھوتے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور خشوع وخضوع میں بڑھ جاتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ( سمد ) گانے کو کہتے ہیں یہ یمنی لغت ہے آپ سے ( سامدون ) کے معنی اعراض کرنے والے اور تکبر کرنے والے بھی مروی ہیں حضرت علی اور حسن فرماتے ہیں غفلت کرنے والے ۔ پھر اپنے بندوں کا حکم دیتا ہے کہ توحید و اخلاص کے پابند رہو خضوع ، خلوص اور توحید کے ماننے والے بن جاؤ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں نے مشرکوں نے اور جن و انس نے سورۃ النجم کے سجدے کے موقعہ پر سجدہ کیا مسند احمد میں ہے کہ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم پڑھی پس آپ نے سجدہ کیا اور ان لوگوں نے بھی جو آپ کے پاس تھے راوی حدیث مطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں میں نے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ نہ کیا یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اسلام کے بعد جس کسی کی زبانی اس سورہ مبارکہ کی تلاوت سنتے سجدہ کرتے یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٩] یعنی کوئی نئی بات نہیں کہتا۔ تمہیں اپنے برے انجام سے بچ جانے کی طرف بلاتا ہے۔ سابقہ تمام انبیاء بھی اپنی قوموں کو یہی کچھ کہتے رہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ہٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰی : یعنی یہ رسول بھی ان ہلاک کی جانے والی قوموں کو ڈرانے والے پہلے رسولوں کی جماعت کا ایک فرد ہے ، جو تمہیں ڈرانے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس کا آنا کوئی انوکھی بات نہیں جو تمہاری سمجھ میں نہ آرہی ہو، جیسا کہ فرمایا :” قل ما کنت بدعا من الرسل “ (الاحقاف : ٩) ” کہہ دے میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں “۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ھٰذَا نَذِيْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى، ہذا کا اشارہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا قرآن کی طرف ہے کہ یہ بھی پچھلے رسولوں اور پچھلی کتابوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نذیر بنا کر بھیجے گئے ہیں جو صراط مستقیم اور دین و دنیا کی فلاح پر مشتمل ہدایات لے کر آئے ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ھٰذَا نَذِيْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰى۝ ٥٦- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ ہٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلٰی ۔ ” یہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک خبردار کرنے والے ہیں ‘ پہلے خبردار کرنے والوں (کے زمرے) میں سے۔ “- نذیر کے معنی ہیں : ڈرانے والا ‘ آگاہ کرنے والا ‘ خبردار ( ) کرنے والا ‘ اور النُّذُر اسی کی جمع ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :49 اصل الفاظ ہیں ھٰذَا نَذِیْرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْاُوْلیٰ ۔ اس فقرے کی تفسیر میں مفسرین کے تین اقوال ہیں ۔ ایک یہ کہ نذیر سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ دوسرے یہ کہ اس سے مراد قرآن ہے ۔ تیسرے یہ کہ اس سے مراد پچھلی ہلاک شدہ قوموں کا انجام ہے جس کا مال اوپر کی آیات میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ سیاق کلام کے لحاظ سے ہمارے نزدیک یہ تیسری تفسیر قابل ترجیح ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani