Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 یا شک کرے گا اور ان کو جھٹلائے گا، جب کہ وہ اتنی عام اور واضح ہیں کہ ان کا انکار ممکن ہے اور نہ چھپانا ہی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٧] ظالم قوموں کی تباہی بھی بنی نوع انسان کے لئے نعمت ہے :۔ اللہ کی بنی نوع انسان پر سب بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ ظالم اور سرکش قوموں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دے۔ تاکہ باقی لوگوں کو ان کے ظلم و ستم سے نجات ملے اور وہ بھی دنیا میں چین سے زندگی بسر کرسکیں۔ گویا سب ظالم قوموں کی تباہی بھی اللہ کی نعمتیں تھیں اور انسانیت پر احسانات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کا ذکر ایک دوسرے مقام پر بڑے واشگاف الفاظ میں یوں بیان فرمایا : (وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ٢٥١۔ ) 2 ۔ البقرة :251)- [٣٨] تَتَمَارٰی کے معنی شک کرنا بھی ہے اور جھگڑا کرنا بھی۔ یعنی تاریخ سے اتنی مثالیں پیش کرنے کے بعد بھی تجھے اس بات میں کچھ شک رہ جاتا ہے کہ جس قوم نے بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے اکڑ دکھائی اسے آخر تباہی سے دو چار ہونا پڑا ؟ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جیسے وہ لوگ اپنے نبیوں سے جھگڑا کرتے رہے کیا تو بھی انہیں باتوں میں جھگڑا کرے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکَ تَتَمَارٰی ” تمری یتماری تماریا “ (تفاعل) شک کرنا ۔ ” الائ “” الی “ ( جو اصل میں ” الی “ تھا) کی جمع ہے ، نعمتیں ، جیسا کہ ” معی “ کی جمع ” امعائ “ ہے ، انتڑیاں ۔ یہاں سوال ہے کہ ان اقوام کی ہلاکت کے ذکر میں کون سی نعمت بیان ہوئی ہے جس میں شک کی گنجائش ہی نہیں ۔ استاد محمد عبدہٗ لکھتے ہیں : ” سیاق کلام کی بناء پر یہاں نعمت سے مراد ظالم و سرکش قوم کی تباہی ہے ، معلوم ہوا کہ کسی ظالم و سرکش قوم کو تباہ کرنا بھی انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے “ ( اشرف الحوشی) ایک جواب اس کا یہ ہے کہ ظلم اور سرکشی کے انجام سے آگاہ کردینا بھی بہت بڑا انعام ہے، جیسا کہ سورة ٔ رحمن میں مجرموں کے لیے جہنم کا عذاب بیان کرنے کے بعد فرمایا :(فبای الاء ربکما تکذبن) (الرحمن : ٤٥) ” تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے “۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكَ تَتَـمَارٰى، تماری کے معنی جھگڑا اور مخالفت کرنا ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ یہ خطاب ہر انسان کو ہے، کہ سابقہ آیات اور صحف موسیٰ و ابراہیم (علیہما السلام) میں آئی ہوئی آیات ربانی میں کوئی ذرا بھی غور و فکر کرے تو اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی وحی اور تعلیمات کے حق ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی اور اقوام سابقہ کی ہلاکت و عذاب کے واقعات سن کر مخالفت سے باز آجانے کا اچھا موقع ملتا ہے جو حق تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، اس کے باوجود تم اللہ تعالیٰ کی کس کس نعمت میں جھگڑا اور خلاف کرتے رہو گے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكَ تَتَـمَارٰى۝ ٥٥- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- الاء - جمع ہے الی کی۔ جس کے معنی نعمت کے ہیں۔ الاء نعمتیں۔ احسانات۔- مری - المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] ، فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هؤُلاءِ [هود 109] ، فَلا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقائِهِ [ السجدة 23] ، أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ [ فصلت 54] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] ، بِما کانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر 63] ، أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم 12] ، فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] وأصله من : مَرَيْتُ النّاقةَ : إذا مسحت ضرعها للحلب .- ( م ر ی) المریۃ - کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص - قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں بما کانوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر 63] جس میں لوگ شک کرتے تھے ۔ أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم 12] کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو ۔ فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف 22] تو تم ان کے معاملے میں گفتگو نہ کرنا ۔ مگر سرسری سی گفتگو ۔ دراصل مریت الناقۃ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں اونٹنی کے تھنوں کو سہلانا تاکہ دودھ دے دے ۔ ( مریم ) علیماالسلام ۔ یہ عجمی لفظ ہے اور حضرت عیسیٰ اعلیہ السلام کی والدہ کا نام ( قرآن نے مریم بتایا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٥۔ ٥٨) اے انسان تو اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرتا رہے گا کہ یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں رسول اکرم بھی پہلے رسولوں کی طرح جن کو ہم نے ان کی قوموں کی طرف بھیجا ایک ڈرانے والے رسول ہیں یا یہ کہ یہ بھی پہلے رسولوں کی طرح ایک رسول ہیں۔ جن کے بارے میں لوح محفوظ میں یہ چیز لکھی ہوئی ہے کہ ان کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا ہے قیامت قریب آپہنچی ہے کوئی غیر اللہ اس کے قیام اور اس کے وقت کو ہٹانے والا نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکَ تَتَمَارٰی ۔ ” تو تم اپنے رب کی کون کون سی قدرتوں کے بارے میں شک کرو گے ؟ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :47 بعض مفسرین کے نزدیک یہ فقرہ بھی صحف ابراہیم اور صحف موسیٰ کی عبادت کا ایک حصہ ہے ۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ فَغَشّٰھَا مَا غَشّٰی پر وہ عبارت ختم ہو گئی ، یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے ۔ سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے پہلا قول ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ بعد کی یہ عبارت کہ یہ ایک تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے ، اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اس سے پہلے کی تمام عبارت پچھلی تنبیہات میں سے ہے جو حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کے صحیفوں میں ارشاد ہوئی تھیں ۔ سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :48 اصل میں لفظ تَتَمَاریٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی شک کرنے کے بھی ہیں اور جھگڑنے کے بھی خطاب ہر سامع سے ہے ۔ جو شخص بھی اس کلام کو سن رہا ہو اس کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جھٹلانے اور ان کے بارے میں پیغمبروں سے جھگڑا کرنے کا جو انجام انسانی تاریخ میں ہو چکا ہے ، کیا اس کے بعد بھی تو اسی حماقت کا ارتکاب کرے گا ؟ پچھلی قوموں نے یہی تو شک کیا تھا کہ جن نعمتوں سے ہم اس دنیا میں مستفید ہو رہے ہیں یہ خدائے واحد کی نعمتیں ہیں ، یا کوئی اور بھی ان کے مہیا کرنے میں شریک ہے ، یا یہ کسی کی فراہم کی ہوئی نہیں ہیں بلکہ آپ سے آپ فراہم ہو گئی ہیں ۔ اسی شک کی بنا پر انہوں نے انبیاء علیہم السلام سے جھگڑا کیا تھا ۔ انبیاء ان سے کہتے تھے کہ یہ ساری نعمتیں تمہیں خدا نے ، اور اکیلے ایک ہی خدا نے عطا کی ہیں ، اس لیے اسی کا تمہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اسی کی تم کو بندگی بجا لانی چاہیے ۔ مگر وہ لوگ اس کو نہیں مانتے تھے اور اسی بات پر انبیاء سے جھگڑتے تھے ۔ اب کیا تجھے تاریخ میں یہ نظر نہیں آتا کہ یہ قومیں اپنے اس شک اور اس جھگڑے کا کیا انجام دیکھ چکی ہیں؟ کیا تو بھی وہی شک اور وہی جھگڑا کرے گا جو دوسروں کے لیے تباہ کن ثابت ہو چکا ہے ؟ اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ عاد اور ثمود اور قوم نوح کے لوگ حضرت ابراہیم سے پہلے گزر چکے تھے اور قوم لوط خود حضرت ابراہیم کے زمانے میں مبتلائے عذاب ہوئی تھی ۔ اس لیے اس عبارت کے صحف ابراہیم کا ایک حصہ ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

25: یعنی اے انسان اللہ تعالیٰ نے تجھے ان عذابوں سے بچا کر جن نعمتوں میں رکھا ہوا ہے، پھر تیری ہدایت کے لئے یہ قرآن کریم جن مختلف طریقوں سے تجھے متنبہ کررہا ہے اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس محبت سے تجھے سمجھاکر تجھے عذاب سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں، ان عظیم نعمتوں میں سے کس کس نعمت میں شک کرے گا۔