Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٠] ازفۃ قیامت کا ہی صفاتی نام ہے اور ازف میں وقت کی تنگی کا مفہوم پایا جاتا ہے یعنی یہ نہ سمجھو کہ قیامت یا موت کی گھڑی ابھی بہت دور ہے اور سوچنے سمجھنے کے لیے ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ انسان کو تو ایک پل کی بھی خبر نہیں اور جس کو موت آگئی بس اس کی قیامت تو اسی وقت قائم ہوگئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَزِفَتِ الْاٰزِفَۃُ ” الازفۃ “ کے معنی کے لیے دیکھئے سورة ٔ مومن ( ١٨) کی تفسیر ۔ یعنی یہ رسول تمہیں جس آنے والی قیامت سے ڈراتا ہے وہ بالکل قریب آچکی ہے ، اس لیے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر سنبھل جاؤ ، یہ مت سوچو کہ ابھی بہت وقت پڑا ہے ، کیونکہ کسی کو خبر نہیں کہ اگلا سانس آئے گا یا نہیں اور جس کی موت آگئی اس کی قیامت تو قائم ہوگئی، کیونکہ اس کے ساتھ ہی عمل کی مہلت ختم ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُ ، لَيْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ كَاشِفَةٌ، ازف بمعنے قرب آتا ہے، معنی یہ ہیں کہ قریب آنے والی چیز قریب آپہنچی، جس کو خدا تعالیٰ کے سوا کوئی ہٹانے والا نہیں، مراد اس سے قیامت ہے اس کا قریب آ پہنچنا پوری دنیا کی عمر کے اعتبار سے ہے کہ امت محمدیہ اس کے بالکل آخر میں قیامت کے قریب ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَزِفَتِ الْاٰزِفَۃُ۝ ٥٧- أزف - قال تعالی: أَزِفَتِ الْآزِفَةُ [ النجم 57] أي : دنت القیامة . وأزف وأفد يتقاربان، لکن أزف يقال اعتباراً بضیق وقتها، ويقال : أزف الشخوص، والأَزَفُ : ضيق الوقت، وسمّيت به لقرب کو نها، وعلی ذلک عبّر عنها بالسّاعة، وقیل : أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، فعبّر عنها بالماضي لقربها وضیق وقتها، قال تعالی: وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ [ غافر 18] .- ا زف ) قرآن میں ہے :۔ أَزِفَتِ الْآزِفَةُ ( سورة النجم 57) یعنی قیامت قریب آپہنچی ازف وافد دونوں قریب المعنی ہیں قیامت کو ازف کہنا بلحاظ ضیق وقت کے ہے جیسے کہا جاتا ہے ازف الشخوص ( کوچ کا وقت قریب آپہنچا ) اور ازف کے معنی ضیق وقت کے ہے جیسے کہا جاتا ہے ازف کے معنی ضیق وقت کے ہیں اور قیامت کو ازفۃ کہنا اس کے قرب وقت کے اعتبار سے ہے اور اسی بنا پر اس کو ساعۃ کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ :۔ أَتَى أَمْرُ اللهِ ( سورة النحل 1) خدا کا حکم ( یعنی عذاب گو یا ) آہی پہنچا ۔ میں قیامت کو لفظ ماضی کے ساتھ تعبیر کیا ہے نیز فرمایا ۔ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ ( سورة غافر 18) اور ان کو قریب آنے والے دن سے ڈراو۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ اَزِفَتِ الْاٰزِفَۃُ ۔ ” قریب آچکی ہے وہ آنے والی۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :50 یعنی یہ خیال نہ کرو کہ سوچنے کے لیے ابھی بہت وقت پڑا ہے ، کیا جلدی ہے کہ ان باتوں پر ہم فوراً ہی سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور انہیں ماننے کا بلا تاخیر فیصلہ کر ڈالیں ۔ نہیں ، تم میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کے لیے زندگی کی کتنی مہلت باقی ہے ۔ ہر وقت تم میں سے ہر شخص کی موت بھی آسکتی ہے ، اور قیامت بھی اچانک پیش آسکتی ہے ۔ اس لیے فیصلے کی گھڑی کو دور نہ سمجھو ۔ جس کو بھی اپنی عاقبت کی فکر کرنی ہے وہ ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر سنبھل جائے ۔ کیونکہ ہر سانس کے بعد یہ ممکن ہے کہ دوسرا سانس لینے کی نوبت نہ آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani