Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 یہ مشرکین اور مکذبین کی توبیخ کے لئے حکم دیا۔ یعنی جب ان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ قرآن کو ماننے کی بجائے، اس کا مذاق و استخفاف کرتے ہیں اور ہمارے پیغمبر کے وعظ و نصیحت کا کوئی اثر ان پر نہیں ہو رہا ہے، تو اے مسلمانو تم اللہ کی بارگاہ میں جھک کر اور اس کی عبادت و اطاعت کا مظاہرہ کرکے قرآن کی تعظیم و توقیر کا اہتمام کرو۔ چناچہ اس حکم کی تعمیل میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور صحابہ نے سجدہ کیا، حتی کہ اس وقت مجلس میں موجود کفار نے بھی سجدہ کیا۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] مسلمانوں کے ساتھ کافروں کا بھی سجدہ ریز ہونا :۔ یہ سورت ابتدائی مکی سورتوں سے ہے اور یہ پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی نیز یہی وہ پہلی سورت ہے جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجمع عام میں اور بعض روایات کے مطابق حرم میں کافروں اور مسلمانوں کے مشترکہ مجمع میں سنایا۔ قرآن کی اثر آفرینی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ( فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوْا 62؀ڙ السجدہ ) 53 ۔ النجم :62) پڑھا تو مسلمانوں کے ساتھ کافر بھی بےاختیار سجدہ ریز ہوگئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جو سجدہ والی سورت نازل ہوئی وہ سورة النجم تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورة میں سجدہ کیا اور آپ کے پیچھے جتنے لوگ بیٹھے تھے (خواہ مسلمان تھے یا مشرک) سب نے سجدہ کیا بجز ایک شخص امیہ بن خلف کے، اس نے مٹھی بھر مٹی لی (منہ سے قریب کی) پھر اس پر سجدہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کے بعد یہ شخص کفر کی حالت میں (بدر کے دن) مارا گیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر)- اسی موقعہ سے متعلق مشہور ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیات پڑھیں ( اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى وَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى) 19؀ۙ ) 53 ۔ النجم :19-20) تو شیطان نے آپ کی آواز جیسی آواز میں آگے یہ الفاظ پڑھ دئیے۔ (تِلْکَ الغَرَانِیْقُ العُلٰی وَإنَّ شَفَاعَتُھُنَّ لَتُرْجٰی) (یہ تینوں بلند مرتبہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت متوقع ہے) اور بعض کے نزدیک یہ واقعہ یوں ہوا کہ جب قریشیوں نے بھی مسلمان کے ساتھ مل کر سجدہ کرلیا تو بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ہم سے یہ کیا حماقت سرزد ہوگئی تب انہوں نے یہ الفاظ اپنی طرف سے گھڑے اور کہہ دیا کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ الفاظ سنے تھے اور سمجھے کہ اب وہ بھی ہمارے دین کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہم نے ان کے ساتھ مل کر سجدہ کیا تھا۔ یہ واقعہ جو کچھ بھی تھا، یہ خبر یا افواہ اتنی مشہور ہوئی کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں نے، جنہوں نے رجب ٥ نبوی میں ہجرت کی تھی۔ جب ایسی صلح یا سمجھوتے کی خبر سنی تو شوال ٥ نبوی میں مکہ واپس آگئے۔ مگر مکہ آکر انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو سب کچھ ایک افسانہ تھا۔ چناچہ وہ دوبارہ ہجرت کرکے حبشہ کی طرف واپس چلے گئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ فَاسْجُدُوْا ِﷲِ وَاعْبُدُوْا : یعنی رسول کے اس ڈرانے کا حق یہ ہے کہ تم اپنا تمام تر تکبر اور غفلت ترک کر کے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤ اور اپنے بنائے ہوئے تمام شریکوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت کور۔- ٢۔ یہ سورت مکہ میں نازل ہونے والی ابتدائی سورتوں میں سے ہے اور پہلی سورت ہے جس میں سجدہ کی آیت نازل ہوئی ۔ اس کی تاثیر اور زور بیان کا یہ عالم ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے عام مجمع میں پڑھا ، جس میں مسلمانوں کے ساتھ مشرکین بھی موجود تھے تو مسلمانوں کے ساتھ مشرکین بھی بےاختیار سجدے میں گرگئے۔ صحیح بخاری میں اس کے متعلق دو احادیث آئی ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کرتے ہیں :(ال سورة انزلت فیھا سجدۃ والنجم قال فسجد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و سجدہ من خلفہ ٗ الا رجلاً رایتہٗ اخذ کفا میں تراب سجدہ علیہ قرایتہٗ بعد ذک قتل کافرا و ھو امیۃ بن خلف) (بخاری ، التفسیر ، سورة النجم ، باب :( فاسجد واللہ واعبدوا : ٤٨٦٣)” پہلی سورت جس میں سجدہ کی آیت نازئی ہو ” والنجم “ تھی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ کیا اور آپ کے پیچھے جتنے لوگ تھے سب نے سجدہ کیا ، سوائے ایک آدمی کے ۔ میں نے اسے دیکھا کہ اس نے مٹی کی ایک مٹھی پکڑی اور اس پر سجدہ کرلیا ۔ پھر میں نے بعد میں دیکھا کہ وہ کافر ہونے کی حالت میں قتل ہوا اور وہ امیہ بنی خلف تھا “۔ عبد اللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں :” سجد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالنجم وسجد معہٗ المسلمون والمشرکون والجن الانس “ ( بخاری ، التفسیر ، سورة لحم ، باب ( فاسجدواللہ واعبدوا : ٤٨٦٢)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة ٔ نجم میں سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلمانوں ، مشرکوں اور جن و انس نے سجدہ کیا۔ “- عبید اللہ بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے ابو واقد لیثی (رض) سے پوچھا :” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید الاضحی اور عید الفطر میں کیا قرأت کرتے تھے ؟ “ انہوں نے کہا : ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں میں ” ق والقرآن المجید “ اور ” اقتریت الساعۃ واشق القمر “ کی قرأت کیا کرتے تھے۔ “ (مسلم ، صلاۃ العیدین ، باب ما یقرأ بہ فی صلاۃ العیدین : ٨٩١)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوْا، یعنی پچھلی آیات جو غور کرنے والے انسان کو عبرت و موعظت کا سبق دیتی ہیں اس کا مقتضی یہ ہے کہ تم سب اللہ کے سامنے خشوع و تواضع کے ساتھ جھکو اور سجدہ کرو اور صرف اسی کی عبادت کرو۔ - صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ سورة نجم کی اس آیت پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ سب مسلمانوں اور مشرکوں نے اور تمام جن و انس نے سجدہ کیا اور بخاری و مسلم ہی کی دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة نجم کی تلاوت فرمائی اور اس میں سجدہ تلاوت ادا کیا اور آپ کے ساتھ سب حاضرین مجلس (مؤمنین و مشرکین) نے سجدہ کیا بجز ایک قریشی بوڑھے کے جس نے زمین سے ایک مٹھی خاک اٹھا کر پیشانی سے لگا لی اور کہا کہ مجھے یہی کافی ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ پھر میں نے اس شخص کو حالت کفر میں مقتول پڑا ہوا دیکھا ہے، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع میں مسلمانوں کو تو سجدہ کرنا تھا ہی، جو مشرکین اس وقت حاضر تھے اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی کچھ ایسی حالت غالب کردی کہ سب سجدہ کرنے پر مجبور ہوگئے، گو اس وقت ان کا سجدہ بوجہ کفر کے کچھ ثواب نہ رکھتا تھا، مگر وہ بھی اپنا ایک اثر یہ چھوڑ گیا کہ بعد میں ان سب کو اسلام و ایمان کی توفیق ہوگئی، صرف ایک آدمی کفر پر مرا جس نے سجدہ سے گریز کیا تھا۔- اور صحیحین کی ایک حدیث میں جو حضرت زید بن ثابت کی روایت سے ہے یہ مذکور ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سورة نجم پوری پڑھی، مگر آپ نے سجدہ نہیں کیا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ سجدہ واجب یا لازم نہیں، کیونکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ آپ اس وقت باوضو نہ ہوں، یا کوئی دوسرا عذر سجدہ کرنے سے مانع ہو، ایسی حالت میں فوری سجدہ کرنا ضروری نہیں، بعد میں بھی ہوسکتا ہے، واللہ سبحانہ، و تعالیٰ اعلم۔- تمت - سورة النجم بعونہ وحمدہ سبحانہ و تعالیٰ- لیلة الجمعة لغرة الربیع الثانی س 1391 ھ - فی اسبوع واحد ویتلوہ تفسیر سورة القمر - انشاء اللہ تعالیٰ وھو ولی التوفیق

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاسْجُدُوْا لِلہِ وَاعْبُدُوْا۝ ٦٢ ۧ۞- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللہ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا ۔ ” پس سجدہ کرو اللہ کے لیے اور اسی کی بندگی کرو “- روایات میں آتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلی مرتبہ یہ سورت حرم کعبہ میں قریش کے ایک بڑے مجمع کے سامنے تلاوت فرمائی تھی۔ اس مجمع میں اہل ایمان بھی تھے اور مشرکین کے خواص و عوام بھی۔ اس کلام کی شدت تاثیر کا یہ عالم تھا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے سنانا شروع کیا تو مخالفین کو اس پر شور مچانے کی ہمت نہ ہوئی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ آخری آیت تلاوت فرمانے کے بعد سجدہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مسلم و کافر سبھی سجدہ میں گرگئے۔ بعد میں مشرکین کو سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ ہم نے کیا کیا۔ آخر کار انہوں نے اپنے سجدے کے جواز میں یہ بات بتائی کہ ہم نے تو لات ‘ عزیٰ اور منات کے ذکر (آیت ١٩ اور ٢٠) کے بعد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ کلمات بھی سنے تھے : تلک الغرانِقَۃ العُلٰی ‘ وان شفَاعتُھُن لتُرٰجی (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں ‘ اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے) ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کلمات سننے کے بعد ہم نے سمجھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری دیویوں کو بھی تسلیم کرلیا ہے ‘ لہٰذا اب ان کے ساتھ ہمارا جھگڑا ختم ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس پوری سورت کے سیاق وسباق میں ان فقروں کی کوئی جگہ ممکن ہی نہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے کانوں نے سنے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرکین کے سجدہ میں گر جانے کا واقعہ کلام الٰہی کی غیر معمولی تاثیر اور خصوصی طور پر اس سورت کے ُ پرجلال اندازِ خطابت کے باعث پیش آیا تھا۔ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ ہم کلام اللہ کے ادبی جمال ‘ اس کی فصاحت و بلاغت کی لطافتوں اور خطابت کی چاشنی کا صحیح ادراک نہیں کرسکتے۔ مگر اس کے اوّلین مخاطبین تو اہل زبان تھے۔ پھر نزول قرآن کے زمانے کے عرب معاشرے میں سخن گوئی اور سخن فہمی کا مجموعی ذوق بھی عروج پر تھا۔ وہ لوگ قرآن مجید کے ادبی و لسانی محاسن کو خوب سمجھتے تھے ‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے بڑے بڑے شعراء ‘ ادباء اور خطباء قرآن مجید کے اعجازِ بیان کے سامنے سرنگوں ہوچکے تھے۔ ظاہر ہے اچھے کلام کی تاثیر سے تو کسی کو بھی انکار نہیں۔ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ لَحِکْمَۃً ) (١) (١) صحیح البخاری ‘ کتاب الادب ‘ باب ما یجوز من الشعر والرجز والحداء … وسنن الترمذی ‘ ابواب الادب ‘ باب ما جاء ان من الشعر حکمۃ۔ ” یقینا بہت سے اشعار حکمت پر مبنی ہوتے ہیں “۔ نیز فرمایا : (اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْرًا) (٢) (٢) صحیح البخاری ‘ کتاب الطب ‘ باب ان من البیان سحراً ۔ و صحیح مسلم ‘ کتاب الجمعۃ ‘ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ۔ ” یقینابہت سے خطبات جادو کی سی تاثیر رکھتے ہیں “۔ زورِ خطابت اور تاثیر کے اعتبار سے اگرچہ قرآن مجید کی ہر آیت ہی لاجواب ہے مگر سورة النجم اس حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔- مندرجہ بالا حقائق کے تناظر میں مذکورہ واقعہ کی توجیہہ یہ ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کی تلاوت شروع کی تو تمام حاضرین مجمع دم بخود ہو کر سننے میں محو ہوگئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ ان کی روحوں کی گہرائیوں تک اترتا گیا۔ خصوصاً مشرکین کی کیفیت تو ایسی تھی کہ تلاوت کے اختتام تک وہ گویا مبہوت ہوچکے تھے ۔ چناچہ اختتامِ تلاوت پر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مجمع میں موجود - اہل ِ ایمان سجدہ میں گئے تو فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ کے حکم کی تاثیر ‘ ہیبت اور جلالت کی تاب نہ لاتے ہوئے سب کے سب مشرکین بھی بےاختیار سجدے میں گرگئے ۔ گویا وہ اسی طرح سجدے میں گرا دیے گئے (واللہ اعلم ) جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں آئے ہوئے جادوگر سجدوں میں گرا دیے گئے تھے : وَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیْنَ ۔ (الاعراف) ۔ واضح رہے کہ سورة الاعراف کی اس آیت میں فعل مجہول (اُ لْــقِیَ ) استعمال ہوا ہے۔ یعنی ایسے لگا جیسے انہیں کسی نے پکڑ کر سجدے میں گرا دیاہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّجْم حاشیہ نمبر :55 امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور اکثر اہل علم کے نزدیک اس آیت پر سجدہ کرنا لازم ہے ۔ امام مالک اگرچہ خود اس کی تلاوت کر کے سجدے کا التزام فرماتے تھے ( جیسا کہ قاضی ابو بکر ابن العربی نے احکام القرآن میں نقل کیا ہے ) مگر ان کا مسلک یہ تھا کہ یہاں سجدہ کرنا لازم نہیں ہے ۔ ان کی اس رائے کی بنا حضرت زید بن ثابت کی یہ روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ نجم پڑھی اور حضور نے سجدہ نہ کیا ( بخاری ، مسلم ، احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی ، ) ۔ لیکن یہ حدیث اس آیت پر سجدہ لازم ہونے کی نفی نہیں کرتی ، کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ حضور نے اس وقت کسی وجہ سے سجدہ نہ فرمایا ہو اور بعد میں کر لیا ہو ۔ دوسری روایات اس باب میں صریح ہیں کہ اس آیت پر التزاماً سجدہ کیا گیا ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، ابن عباس اور مطلب بن ابی وداعہ کی متفق علیہ روایات یہ ہیں کہ حضور نے جب پہلی مرتبہ حرم میں یہ سورت تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلم و کافر سب سجدے میں گر گئے ( بخاری ، احمد ، نسائی ) ابن عمر کی روایت ہے کہ حضور نے نماز میں سورہ نجم پڑھ کر سجدہ کیا اور دیر تک سجدے میں پڑے رہے ( بیہقی ، ابن مردویہ ) سبرۃ الجہنی کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے فجر کی نماز میں سورہ نجم پڑھ کر سجدہ کیا اور پھر اٹھ کر سورہ زلزال پڑھی اور رکوع کیا ( سعید بن منصور ) ۔ خود امام مالک نے بھی مؤطا ، باب ماجاء فی سجود القرآن میں حضرت عمر کا یہ فعل نقل کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

26: یہ سجدے کی آیت ہے، جو کوئی شخص عربی میں یہ آیت پڑھے یا سنے اس پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔