15۔ 1 مُدَّکِرٍ معنی ہیں عبرت پکڑنے اور نصیحت حاصل کرنے والا (فتح القدیر)
[١٦] کشتی نوح نشانی کے طور پر :۔ یہ کشتی با لآخر جودی پہاڑ پر ٹک گئی۔ آسمان سے بارش بند ہوگئی۔ نیچے سے زمین نے پانی جذب کیا۔ کچھ ہواؤں اور سورج نے پانی خشک کیا۔ چناچہ چالیس دن بعد کشتی پر سوار لوگ اس قابل ہوگئے کہ کشتی سے اتر آئیں۔ مگر کشتی وہیں رہ گئی۔ اس سے جو کام لیا جانا منظور تھا وہ لیا جاچکا تھا۔ یہ مدت ہائے دراز تک وہیں پڑی رہی اور آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنی رہی۔
وَلَقَدْ تَّرَکْنٰـھَآ اٰیَۃً : اس کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ ہود ( ٤٤) اور سورة ٔ عنکبوت (١٥) کی تفسیر ۔- ٢۔ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ :” مذکر “ ” ذکر یذکر “ میں سے باب افتعال کا اسم فاعل ہے ، جو اصل میں ” مذتکر “ ہے، تائے افتعال کو دال سے بدل دیا گیا ، اسی طرح ذال کو بھی دال سے بدل کر اس میں ادغام کردیا گیا ، جیسا کہ سورة ٔ یوسف میں گزار ہے (وَقَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْہُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ ) (یوسف : ٤٥)” اور ان دونوں میں سے جو رہا ہوا تھا اور اسے ایک مدت کے بعد یاد آیا ، اس نے کہا “۔
وَلَقَدْ تَّرَكْنٰہَآ اٰيَۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ١٥- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله :- وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- مدکر - فھل من مدکر۔ ہل سوالیہ ترغیبی ہے یعنی استفہام سے طلب خیر مقصود نہیں ہے بلکہ عبرت اندوزی پر آمادہ کرنا۔ اور نصیحت پذیری کی ترغیب دینا مقصود ہے۔ مدکر۔ اسم فاعل۔ واحد مذکر ادکار ( افتعال) مصدر سے اور ذکر مادہ سے مشتق ہے۔ اصل میں اذکار تھا۔ افتعال کے فاء کلمہ میں جب ذال واقع ہو تو تاء کو دال میں بدل دیتے ہیں پس اذکار سے اذدکار بنا۔ اور اسم فاعل کی صورت مذدکر ہوگئی۔ ت کو دال سے بدل لینے کے علاوہ دو صورتیں یہ بھی جائز ہیں :۔- (1) دال کو ذال سے بدل کر ادغام ہو۔ اس صورت میں مصدر اذکار اور اسم فاعل مذکر ہوگا۔ مذکر نصیحت حاصل کرنے والا۔ عبرت پکڑنے والا۔
آیت ١٥ وَلَقَدْ تَّرَکْنٰہَـآ اٰیَۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ ۔ ” اور ہم نے اسے چھوڑ دیا ایک نشانی کے طور پر - تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا “- یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی مشیت الٰہی سے محفوظ کرلی گئی اور کسی وقت ایک بہت بڑی نشانی کے طور پر دنیا کی نظروں کے سامنے آجائے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح زیر زمین دفن شدہ شداد ّکی جنت ارضی کے بارے میں اب دنیا جان چکی ہے یا بحیرئہ مردار کی تہہ میں قوم لوط (علیہ السلام) کے شہروں کے کھنڈرات دریافت کرلیے گئے ہیں۔
سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :14 یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم نے اس عقوبت کو ایک نشان عبرت بنا کر چھوڑ دیا ۔ لیکن ہمارے نزدیک زیادہ قابل ترجیح معنی یہ ہیں کہ اس کشتی کو نشان عبرت بنا دیا گیا ۔ ایک بلند و بالا پہاڑ پر اس کا موجود ہونا سینکڑوں ہزاروں برس تک لوگوں کو خدا کے غضب سے خبردار کرتا رہا اور انہیں یاد دلاتا رہا کہ اس سر زمین پر خدا کی نافرمانی کرنے والوں کی کیسی شامت آئی تھی اور ایمان لانے والوں کو کس طرح اس سے بچایا گیا تھا ۔ امام بخاری ، ابن ابی حاتم ، عبدالرزاق اور ابن جریر نے قتادہ سے یہ روایات نقل کی ہیں کہ مسلمانوں کی فتح عراق والجزیرہ کے زمانے میں یہ کشتی جودی پر ( اور ایک روایت کے مطابق باقِردیٰ نامی بستی کے قریب ) موجود تھی اور ابتدائی دور کے اہل اسلام نے اس کو دیکھا تھا ۔ موجودہ زمانے میں بھی ہوائی جہازوں سے پرواز کرتے ہوئے بعض لوگوں نے اس علاقے کی ایک چوٹی پر ایک کشتی نما چیز پڑی دیکھی ہے جس پر شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ سفینہ نوح ہے ، اور اسی بنا پر وقتاً فوقتاً اس کی تلاش کے لیے مہمات جاتی رہی ہیں ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 47 ، ہود ، حاشیہ 46 ۔ جلد سوم ، العنکبوت ، حاشیہ 25 ) ۔