Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی اس کے مطلب اور معانی کو سمجھنا، اس سے عبرت و نصیحت حاصل کرنا اور اسے زبانی یاد کرنا ہم نے آسان کردیا، اسی طرح یہ دنیا کی واحد کتاب ہے، جو لفظ بہ لفظ یاد کرلی جاتی ہے ورنہ چھوٹی سی کتاب کو بھی اس طرح یاد کرلینا اور اسے یاد رکھنا نہایت مشکل ہے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧] قرآن کی خوبیاں اور آسان زبان :۔ یہ اللہ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے اپنے کلام کو آسان اور سہل بنادیا ہے۔ اس میں دی گئی مثالیں تشبیہات مناظر قدرت، دلائل اور انداز بیان سادہ اور عام فہم ہیں اس لیے کہ اس کے اولین مخاطب امی لوگ تھے۔ لکھے پڑھے عالم فاضل لوگ نہیں تھے۔ یہ کسی فلسفے یا منطق کی کتاب بھی نہیں جس کی عبارت پیچیدہ اور مغلق ہو۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بتادیا کہ ہم نے اس کتاب میں کوئی پیچیدگی نہیں رکھی۔ (٨: ١١) نیز اس میں محض خیالی فلسفے نہیں بلکہ ایسی ہدایات دی گئی ہیں جن سے انسان کی عملی زندگی کا تعلق ہوتا ہے اور ہر شخص اسے سمجھ سکتا ہے اور ہدایت حاصل کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں شعر نہ ہونے کے باوجود اس میں موزونیت اور تاثیر شعر سے زیادہ ہے اسی وجہ سے اس کو حفظ کرنا آسان ہے اور ہر چھوٹا بڑا عربی عجمی اسے تھوڑی سی محنت سے حفظ کرلیتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن کے حافظ ہر دور میں لاکھوں کی تعداد میں رہے ہیں۔ پھر اس کی ایک اور حیثیت یہ ہے کہ اس کے اولین مخاطب تو امی ہیں۔ لیکن خطاب کرنے والی وہ ہستی ہے جو سب سے بڑھ کر علیم و حکیم ہے جس سے اس میں دو گونہ خوبیاں پیدا ہوگئیں ایک یہ کہ مبتدی اور منتہی دونوں اس کلام سے ایک جیسے مستفید ہوتے ہیں اور اپنی اپنی علمی سطح کے مطابق اس سے استفادہ اور ہدایت حاصل کرسکتے ہیں اور دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کے آسان انداز بیان اختیار کرنے کے باوجود اس کلام میں لاتعداد اسرار اور حکمتیں پوشیدہ ہیں جو باربار پڑھنے اور غور کرنے سے منکشف ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ نے خود لا تنقضی عجائبہ کہہ کر ان باتوں کی طرف اشارہ فرما دیا : یعنی قرآن ایسی کتاب ہے جس کے عجائب ختم ہونے میں آہی نہیں سکتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ ۔۔۔۔۔ یعنی ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے ، اس کے الفاظ آسان ہیں ، معنی بھی آسان ہے ، نہ پڑھنے میں دقت ہے نہ سمجھنے میں ، تو کیا کوئی ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرے اور نافرمانی سے باز آجائے ؟ اس میں قرآن مجید پڑھنے ، پڑھانے ، سمجھنے ، سمجھانے اور اس سے نصیحت حاصل کرنے کی ترغیب ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں میں بہت سے لوگ وہ ہیں جن کا کہنا ہے کہ قرآن و حدیث کو سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں ، یہ بڑے بڑے عالم و فاضل لوگوں کا کام ہے ، جو چودہ یا اکیس علوم پڑھے ہوئے ہوں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ساری عمر متعدد مشکل سے مشکل علوم و فنون پڑھتے رہتے ہیں ، مگر قرآن کے قریب نہیں جاتے ، اپنے چودہ یا اکیس علوم پورے کرتے کرتے ہی دنیا سے گزر جاتے ہیں ۔ کئی تو ایسے ظالم ہیں ، جو کہتے ہیں کہ عالم آدمی کے لیے قرآن کا ترجمہ پڑھنا ممنوع ہے، کیونکہ اس سے گمراہی کا خطرہ ہے۔ حالانکہ قرآن مجید عربی مبین میں اترا اور لوگوں کی ہدایت کے لیے اترا ، ہر عام و خاص اور عالم و جاہل عرب نے اسے سنا ، سمجھا، اس پر عمل کیا اور آگے پہنچایا ۔ ہماری زبان اردو میں قرآن مجید کے تقریباًستر (٧٠) فیصد الفاظ موجود ہیں ، تھوڑی سی توجہ کے ساتھ ہر آدمی قرآن کا ترجمہ سمجھ سکتا ہے۔ مگر جن لوگوں نے قرآن و حدیث کے مقابلے میں نیا دین بنا لیا اور توحید کے مقابلے میں شرک اور سنت کے مقابلے میں بدعت کو اختیار کرلیا ہے ، ان کی پوری کوشش ہے کہ لوگ اس قرآن مجید اور حدی سے آگاہ نہ ہوجائیں ، ورنہ وہ ان کے نیچے سے نکل جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دے اور مسلمانوں کو قرآن و سنت کی طرف پلٹنے کی توفیق عطاء فرمائے۔- ٢۔ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسان کیے جانے کا ایک کرشمہ اور معجزہ یہ ہے کہ یہ سہولت کے ساتھ حفظ ہوجاتا ہے۔ دنیا میں کوئی کتاب نہیں جس کے ہزاروں لاکھوں حافظ ہر زمانے میں پائے گئے ہوں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا غیبی تصرف ہے کہ اس نے اپنی کتاب کی حاظت کے لیے مسلمانوں کے دلوں میں اس کے حفظ کا شوق رکھ دیا ہے ، گناہ گار سے گناہ گار مسلمانوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ قرآن کا حافظ ہے۔ کمیونسٹوں نے اپنے زیر تسلط ملکوں میں قرآن کو مٹانے کی کوشش جتنی کرسکتے تھے کی ، مگر مسلمانوں نے اپنے گھروں کی تہہ خانوں میں کمیونسٹ جاسوسوں سے چھپ کر حفظ قرآن کا سلسلہ جاری رکھا ، جس کی برکت یہ ہوئی کہ کمیونسٹ قرآن کو مٹانے میں بری طرح ناکام ہوئے۔ اس وقت بھی دنیا میں قرآن کے حافظ لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ( والحمد للہ) مزید دیکھئے سورة ٔ عنکبوت (٤٩) کی تفسیر ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ للذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ، للذکر، ذکر کے معنی یاد کرنے اور حفظ کرنے کے بھی آتے ہیں اور کسی کلام سے نصیحت و عبرت حاصل کرنے کے بھی، یہ دونوں معنی یہاں مراد ہو سکتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے قرآن کریم کو حفظ کرنے کے لئے آسان کردیا، یہ بات اس سے پہلے کسی کتاب کو حاصل نہیں ہوئی کہ پوری کتاب تورات یا انجیل یا زبور لوگوں کو برزباں یاد ہو اور یہ حق تعالیٰ ہی کی تفسیر اور آسانی کا اثر ہے کہ مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے بچے پورے قرآن کو ایسا حفظ کرلیتے ہیں کہ ایک زیر زبر کا فرق نہیں آتا، چودہ سو برس سے ہر زمانہ ہر طبقے ہر خطے میں ہزاروں لاکھوں حافظوں کے سینوں میں یہ اللہ کی کتاب محفوظ ہے۔- اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ قرآن کریم نے اپنے مضامین عبرت و نصیحت کو ایسا آسان کر کے بیان کیا ہے کہ جس طرح بڑے سے بڑا عالم و ماہر، فلسفی اور حکیم اس سے فائدہ اٹھاتا ہے، اسی طرح ہر عالم جاہل جس کو علوم سے کوئی مناسبت نہ ہو وہ بھی عبرت و نصیحت کے مضامین قرآنی کو سمجھ کر اس سے متاثر ہوتا ہے۔- حفظ کرنے کیلئے قرآن کو آسان کیا گیا ہے نہ کہ اجہتاد اور استباط احکام کیلئے :- اس آیت میں یسرنا کے ساتھ للذکر کی قید لگا کر یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ قرآن کو حفظ کرنے اور اس کے مضامین سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی حد تک اس کو آسان کردیا گیا ہے، جس سے ہر عالم و جاہل، چھوٹا اور بڑا یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن کریم سے مسائل اور احکام کا استنباط بھی ایسا ہی آسان ہو، وہ اپنی جگہ ایک مستقل اور مشکل فن ہے جس میں عمریں صرف کرنے والے علماء راسخین کو ہی حصہ ملتا ہے ہر ایک کا وہ میدان نہیں۔- اس سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوگئی جو قرآن کریم کے اس جملے کا سہارا لے کر قرآن کی مکمل تعلیم، اس کے اصول و قواعد سے حاصل کئے بغیر مجہتد بننا اور اپنی رائے سے احکام و مسائل کا استخراج کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کھلی گمراہی کا راستہ ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝ ١٧- يسر - اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] وتَيَسَّرَ كذا واسْتَيْسَرَ أي تسهّل، قال : فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] ، فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ- [ المزمل 20] أي : تسهّل وتهيّأ، ومنه : أَيْسَرَتِ المرأةُ ، وتَيَسَّرَتْ في كذا . أي : سهَّلته وهيّأته، قال تعالی: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر 17] ، فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ- [ مریم 97] واليُسْرَى: السّهل، وقوله : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل 7] ، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل 10] فهذا۔ وإن کان قد أعاره لفظ التَّيْسِيرِ- فهو علی حسب ما قال عزّ وجلّ : فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] . واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً- [ الأحزاب 14] والمَيْسَرَةُ واليَسَارُ عبارةٌ عن الغنی. قال تعالی: فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ- [ البقرة 280] واليَسَارُ أختُ الیمین، وقیل : اليِسَارُ بالکسر، واليَسَرَاتُ : القوائمُ الخِفافُ ، ومن اليُسْرِ المَيْسِرُ.- ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔ تیسر کذا واستیسرکے معنی آسان ہو نیکے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] اگر رستے میں روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو کردو ۔ فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ [ المزمل 20] تو جتنا آسانی سے ہو سکے پڑھ لیا کرو ۔ اسی سے الیسرت المرءۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی عورت کے سہولت سے بچہ جننے کے ہیں ۔ یسرت کذا کے معنی کسی کام آسان اور سہل کردینے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر 17] اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ۔ فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ مریم 97] اے پیغمبر یہ قران تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ہے ۔ الیسری اسم بمعنی یسر قرآن پاک میں ہے : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل 7] اس کو ہم آسان طریقے کی توفیقی دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل 10] اسے سختی میں پہنچا ئنگے ۔ میں عسریٰ کے ساتھ تیسیر کا لفظ بطور تحکم لایا گیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] میں عذاب کے متعلق بشارت کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن پاک میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے قرآن کریم کو حفظ و قرات اور کتابت کے لیے یا یہ کہ قرات کے لیے آسان کردیا ہے سو کیا کوئی علم قرآنی کا طالب ہے کہ اس کی رہنمائی کی جائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ ۔ ” اور ہم نے قرآن کو آسان کردیا ہے نصیحت اخذ کرنے کے لیے ‘ تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا “- یہ اس سورت کی ترجیعی (بار بار دہرائی جانے والی ) آیت ہے اور اس میں ایک چیلنج کا سا انداز پایاجاتا ہے۔ مضمون کی اہمیت کے پیش نظر پوری سورت میں اس آیت کو چار مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اعلان کو پڑھ لینے یا سن لینے کے بعد ایک بندے پر گویا اتمامِ حجت ہوجاتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ قرآن کو سمجھنے اور اس سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے استطاعت بھر کوشش شروع کردے۔ خصوصی طور پر پڑھے لکھے خواتین و حضرات پر تو گویا فرض ہے کہ وہ عربی سیکھیں اور قرآن کے معانی و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ باقی علوم حاصل کرسکتے ہیں تو قرآن کا علم باقاعدہ حاصل نہ کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ان کا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا ۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس قدر اہم اور بنیادی فرض کے بارے میں لوگوں کو بتایا ہی نہیں جاتا۔ لیلۃ القدر میں نوافل پڑھنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ‘ مختلف اذکار و وظائف کے ثواب کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے ‘ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق قرآن کے مطالب و مفاہیم کا سمجھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔- عربی سیکھنے کے حوالے سے ہمارے لیے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ یہ ایک زندہ زبان ہے۔ دنیا کے ایک بہت بڑے علاقے میں بولی جاتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ آج کوئی بین الاقوامی فورم ایسا نہیں جہاں پر عربی ترجمہ پیش کرنے کا انتظام نہ ہو۔ ہم مسلمانوں کو اپنی الہامی کتاب کی زبان کو سیکھنے کے لیے یہودیوں اور ہندوئوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اگر یہ قومیں اپنی مردہ زبانوں (عبرانی اور سنسکرت) کو زندہ کرسکتی ہیں تو ہم اپنی زندہ زبان کو کیوں نہیں سیکھ سکتے ؟ بہرحال آج نوجوان نسل میں یہ احساس اجاگر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :15 بعض لوگوں نے یَسَّرْنَا الْقُراٰنَ کے الفاظ سے یہ غلط مطلب نکال لیا ہے کہ قرآن ایک آسان کتاب ہے ، اسے سمجھنے کے لیے کسی علم کی ضرورت نہیں ، حتیٰ کہ عربی زبان تک سے واقفیت کے بغیر جو شخص چاہے اس کی تفسیر کر سکتا ہے اور حدیث و فقہ سے بے نیاز ہو کر اس کی آیات سے جو احکام چاہے مستنبط کر سکتا ہے ۔ حالانکہ جس سیاق و سباق میں یہ الفاظ آئے ہیں اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد کا مدعا لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ نصیحت کا ایک ذریعہ تو ہیں وہ عبرتناک عذاب جو سرکش قوموں پر نازل ہوئے ، اور دوسرا ذریعہ ہے یہ قرآن جو دلائل اور وعظ و تلقین سے تم کو سیدھا راستہ بتا رہا ہے ۔ اس ذریعہ کے مقابلے میں نصیحت کا یہ ذریعہ زیادہ آسان ہے ۔ پھر کیوں تم اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور عذاب ہی دیکھنے پر اصرار کیے جاتے ہو؟ یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اپنے نبی کے ذریعہ سے یہ کتاب بھیج کر وہ تمہیں خبردار کر رہا ہے کہ جن راہوں پر تم لوگ جا رہے ہو وہ کس تباہی کی طرف جاتی ہیں اور تمہاری خیر کس راہ میں ہے ۔ نصیحت کا یہ طریقہ اسی لیے تو اختیار کیا گیا ہے کہ تباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے تمہیں اس سے بچا لیا جائے ۔ اب اس سے زیادہ نادان اور کون ہو گا جو سیدھی طرح سمجھانے سے نہ مانے اور گڑھے میں گر کر ہی یہ تسلیم کرے کہ واقعی یہ گڑھا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani