کفار کی بدترین روایات اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ قوم ہود نے بھی اللہ کے رسولوں کو جھوٹا کہا اور بالکل قوم نوح کی طرح سرکشی پر اتر آئے تو ان پر سخت ٹھنڈی مہلک ہوا بھیجی گئی وہ دن ان کے لئے سراسر منحوس تھا برابر ان پر ہوائیں چلتی رہیں اور انہیں تہ و بالا کرتی رہیں ، دنیوی اور اخروی عذاب میں گرفتار کر لئے گئے ہوا کا جھونکا آتا ان میں سے کسی کو اٹھا کر لے جاتا یہاں تک کہ زمین والوں کی حد نظر سے وہ بالا ہو جاتا پھر اسے زمین پر اوندھے منہ پھینک دیتا سر کچل جاتا بھیجا نکل پڑتا ، سر الگ دھڑ الگ ایسا معلوم ہوتا گویا کھجور کے درخت کے بن سرے ٹنڈ ہیں دیکھو میرا عذاب کیسا ہوا ؟ میں نے قرآن کو آسان کر دیا جو چاہے نصیحت و عبرت حاصل کرلے ۔
۔ کَذَّبَتْ عَادٌ فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ ۔۔۔: ان آیات کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ‘ حم السجدہ ( ١٥، ١٦) کی تفسیر۔
خلاصہ تفسیر - عاد نے (بھی اپنے پیغمبر کی) تکذیب کی سو (اس کا قصہ سنو کہ) میرا عذاب اور ڈرانا کیسا ہوا، (اور وہ قصہ یہ ہے کہ) ہم نے ان پر ایک سخت ہوا بھیجی ایک مسلسل نحوست کے دن میں (یعنی یہ زمانہ ان کے حق میں ہمیشہ کے لئے اس لئے منحوس رہا کہ اس روز جو عذاب آیا وہ عذاب برزخ سے متصل ہوگیا، پھر عذاب آخرت اس سے متصل ہوگیا، جو ان سے کبھی منقطع نہ ہوگا اور) وہ ہوا لوگوں کو اس طرح (ان کی جگہ سے) اکھاڑ اکھاڑ کر پھینکتی تھی کہ گویا وہ اکھڑی ہوئی کھجوروں کے تنے ہیں (اس تشبیہ میں علاوہ ان کے پھینکے جانے کے اشارہ ان کے طول قامت کی طرف بھی ہے) سو (دیکھو) میرا عذاب اور ڈرانا کیسا (ہولناک) ہوا اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کردیا ہے سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے، ثمود نے (بھی) پیغمبروں کی تکذیب کی (کیونکہ ایک پیغمبر کی تکذیب مستلزم ہے سب پیغمبروں کی تکذیب کو) اور کہنے لگے کیا ہم ایسے شخص کا اتباع کریں گے جو ہماری جنس کا آدمی ہے اور (چشم و خدم سے) اکیلا ہے (یعنی یا تو فرشتہ ہوتا تو ہم دین میں اتباع کرتے یا صاحب خدم و حشم ہوتا تو دنیوی امور میں اتباع کرتے جبکہ بشر ہے اور وہ بھی اکیلا، نہ تو اتباع فی الدنیا کو کوئی امر مقتضی ہے نہ اتباع فی الدین کو اور اگر ہم اس حالت میں اتباع کریں) تو اس صورت میں ہم بڑی غلطی اور (بلکہ) جنون میں پڑجاویں کیا ہم سب میں سے (منتخب ہو کر) اسی (شخص) پر وحی نازل ہوئی ہے (ہرگز ایسا نہیں) بلکہ یہ بڑا جھوٹا اور شیخی باز ہے (شیخی یعنی تکبر کے مارے ایسی باتیں بڑائی کی کرتا ہے، کہ لوگ مجھ کو سردار قرار دے لیں، حق تعالیٰ نے صالح (علیہ السلام) سے فرمایا کہ تم ان کے بکنے پر رنج مت کرو) ان کو عنقریب (مرتے ہی) معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا شیخی باز کون تھا (یعنی یہی لوگ تھے کہ انکار نبوت میں کاذب تھے اور اتباع نبی سے بوجہ شیخی کے عار کرتے تھے، اور یہ لوگ جو اونٹنی کا معجزہ طلب کرتے تھے تو) ہم (ان کی درخواست کے موافق پتھر میں سے) اونٹنی کو نکالنے والے ہیں، ان کی آزمائش (ایمان) کے لئے سو ان (کی حرکتوں) کو دیکھتے بھالتے رہنا اور صبر سے بیٹھے رہنا اور ان لوگوں کو (جب اونٹنی پیدا ہو تو) یہ بتلا دینا کہ پانی (کنویں کا) بانٹ دیا گیا ہے، (یعنی تمہارے مویشی اور اونٹنی کی باری مقرر ہوگئی ہے) ہر ایک باری پر باری والا حاضر ہوا کرے (یعنی اونٹنی اپنی باری میں پانی پیوے اور مویشی اپنی باری میں، چناچہ اونٹنی پیدا ہوئی اور صالح (علیہ السلام) نے اسی طرح فرما دیا) سو (اس باری سے وہ لوگ تنگ آگئے اور) انہوں نے (اس کے قتل کرنے کی غرض سے) اپنے رفیق (قدار) کو بلایا سو اس نے (اونٹنی پر) وار کیا اور (اس کو) مار ڈالا سو (دیکھو) میرا عذاب اور ڈرانا کیسا ہوا (جس کا بیان آگے آتا ہے وہ یہ کہ) ہم نے ان پر ایک ہی نعرہ (فرشتہ کا) مسلط کیا سو وہ (اس سے) ایسے ہوگئے جیسے کانٹوں کی باڑ لگانے والے (کی باڑ) کا چورا (یعنی کھیت یا مویشی وغیرہ کی حفاظت کے لئے جیسے کانٹوں وغیرہ کی باڑ لگا دیتے ہیں اور چند روز بعد سب چورا چورا ہوجاتا ہے اسی طرح وہ ہلاک و تباہ ہوگئے، عرب کے لوگ اس مشبہ بہ کو یعنی کھیت کے گرد کی باڑ کو شب و روز دیکھتے تھے تو وہ اس تشبیہ کو خوب سمجھتے تھے) اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کردیا ہے سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے قوم لوط نے (بھی پیغمبروں کی تکذیب کی (کیونکہ ایک نبی کی تکذیب مستلزم ہے سب کی تکذیب کو) ہم نے ان پر پتھروں کا مینہ برسایا بجز متعلقین لوط (علیہ السلام) کے (یعنی بجز مومنین کے) کہ ان کو اخیر شب میں (بستی سے باہر کر کے عذاب سے) بچا لیا اپنی جانب سے فضل کر کے جو شکر کرتا ہے (یعنی ایمان لاتا ہے) ہم اس کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (کہ قہر سے بچا لیتے ہیں) اور (قبل عذاب آنے کے) لوط (علیہ السلام) نے ان کو ہماری دارو گیر سے ڈرایا تھا، سو انہوں نے اس ڈرانے میں جھگڑے پیدا کئے (یعنی یقین نہ لائے) اور (جب لوط (علیہ السلام) کے پاس ہمارے فرشتے بشکل مہمان آئے اور ان لوگوں کو حسین لڑکوں کا آنا معلوم ہوا تو یہاں آ کر) ان لوگوں نے لوط (علیہ السلام) سے ان کے مہمانوں کو بری نیت سے لینا چاہا (جس سے لوط (علیہ السلام) اول گھبرائے مگر وہ فرشتے تھے) سو ہم نے (ان فرشتوں کو حکم دے کر) ان کی آنکھیں چوپٹ کردیں (یعنی جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنے پر ان کی آنکھوں پر پھیر دیئے جس سے اندھے بھٹ ہوگئے، کذا فی الدر عن قتادة اور بزبان قال یا حال ان سے کہا گیا کہ) لو میرے عذاب اور ڈرانے کا مزہ چکھو (پہلے تو یہ واقعہ طمس یعنی اندھے کرنے کا پیش آیا) اور (پھر) صبح سویرے ہی ان پر دائمی عذاب آپہنچا (اور ارشاد ہوا) کہ لو میرے ڈرانے اور عذاب کا مزہ چکھو (یہی جملہ پہلے اندھے ہونے کے عذاب پر کہا گیا تھا یہاں ہلاکت کے عذاب پر ہے، اس لئے کوئی تکرار نہیں) اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کردیا ہے سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے اور (فرعون اور) فرعون والوں کے پاس بھی ڈرانے کی بہت سی چیزیں پہنچیں (مراد موسیٰ (علیہ السلام) کے ارشادات اور معجزات ہیں کہ ارشادات سے تشریعی طور پر اور معجزات سے تکوینی طور پر ان کو ڈرایا گیا مگر) ان لوگوں نے ہماری تمام (ان) نشانیوں (کو جو ان کے پاس آئی تھیں وہ آیات تسعہ (نو آیتیں) مشہور ہیں) جھٹلایا (یعنی ان کے مدلول و مقتضا توحید الٰہی اور نبوت موسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا، ورنہ واقعات کے وقوع کی تکذیب تو ہو نہیں سکتی) سو ہم نے ان کو زبردست صاحب قدرت کا پکڑنا پکڑا (یعنی جب ہم نے ان کو قہر اور غلبہ سے پکڑا تو اس پکڑ کو کوئی دفع نہیں کرسکا، پس عزیز مقتدر سے مراد اللہ تعالیٰ ہے )- معارف و مسائل - بعض لغات کی تشریح : - سُعُر، یہ لفظ آیات مذکورہ میں دو جگہ آیا ہے، اول قوم ثمود کے ذکر میں ان کا اپنا قول ہے، اس میں سعر کا لفظ جنون کے معنی میں آیا ہے، دوسری جگہ یہی لفظ آگے آنے والی آیات میں حق تعالیٰ کی طرف سے عذاب مجرمین کے ذکر میں آیا ہے، فِيْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ ، یہاں سعر کے معنی جہنم کی آگ کے ہیں، حسب تصریح اہل لغت لفظ سعر ان دونوں معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔- رَاوَدُوْهُ عَنْ ضَيْفِهٖ ، مراودت کے معنی کسی کو اپنی نفسانی شہوت پورا کرنے کے لئے بہلانا پھسلانا ہے، مراد یہ ہے کہ قوم لوط (علیہ السلام) چونکہ اپنی خباثت سے لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کے خوگر تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے امتحان ہی کے لئے فرشتوں کو حسین امرد لڑکوں کی صورت میں بھیجا تھا، یہ شیاطین ان کو اپنی خواہش کا نشانہ بنانے کے لئے لوط (علیہ السلام) کے مکان پر چڑھ آئے، لوط (علیہ السلام) نے دروازہ بند کرلیا تو یہ دروازہ توڑ کر یا اوپر سے چھلانگ کر اندار آنے لگے، حضرت لوط (علیہ السلام) پریشان ہوئے تو اس وقت فرشتوں نے اپنا راز ظاہر کیا کہ آپ کچھ فکر نہ کریں، یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، ہم اللہ کے فرشتے ان کو عذاب دینے ہی کے لئے آئے ہیں۔- سورة قمر کو قرب قیامت کے ذکر سے شروع کیا گیا، تاکہ کفار و مشرکین جو دنیا کی ہوا وہوس میں مبتلا اور آخرت سے غافل ہیں وہ ہوش میں آئیں، پہلے قیامت کے عذاب کا بیان کیا گیا، اس کے بعد دنیا میں بھی ان کے انجام بد کو بتلانے کے لئے پانچ مشہور عالم اقوام کے حالات اور انبیاء (علیہم السلام) کی مخالفت پر ان کے انجام بد اور دنیا میں بھی طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہونا بیان کیا گیا ہے۔- سب سے پہلے قوم نوح (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا، کیونکہ یہی سب سے پہلی دنیا کی قوم ہے جو عذاب الٰہی میں پکڑی گئی، یہ قصہ سابقہ آیات میں آ چکا ہے، مذکور الصد آیات میں چار اقوام کا ذکر ہے، عاد، ثمود، قوم لوط، قوم فرعون ان کے واقعات اور مفصل قصے قرآن کریم کے متعدد مقامات میں بیان ہوئے ہیں، یہاں ان کا اجمالی ذکر ہے۔- یہ پانچوں اقوام دنیا کی قوی ترین اور قابو یافتہ قومیں تھیں، جن کو کسی طاقت سے رام کرنا کسی کے لئے آسان نہ تھا، آیات مذکورہ میں ان پر اللہ کا عذاب آنا دکھلایا گیا اور ہر ایک قوم کے انجام پر قرآن کریم نے ایک جملہ ارشاد فرمایا (فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ ) یعنی اتنی بڑی قوی اور بھاری تعداد والی قوم پر جب اللہ کا عذاب آیا تو دیکھو کہ وہ کس طرح اس عذاب کے سامنے مکھیوں، مچھروں کی طرح مارے گئے اور اس کے ساتھ ہی مومنین و کفار کی عام نصیحت کے لئے اس جملے کو بار بار دھرایا گیا، وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ للذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ، یعنی اللہ کے اس عذاب عظیم سے بچنے کا راستہ قرآن ہے اور قرآن کو نصیحت و عبرت حاصل کرنے کی حد تک ہم نے بہت آسان کردیا ہے، بڑا بدنصیب اور محروم ہے جو اس سے فائدہ نہ اٹھائے، آگے آنے والی آیات میں زمانہ نبوت کے موجودین کو خطاب کر کے یہ بتلایا گیا ہے کہ اس زمانے کے منکرین و کفار دولت و ثروت، تعداد، طاقت قوت میں عاد وثمود اور قوم فرعون وغیرہ سے کچھ زیادہ نہیں ہیں، پھر یہ کیسے بےفکر بیٹھے ہیں۔
كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ ١٨- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا
(١٨۔ ٢١) اور قوم عاد نے بھی ہود کو جھٹلایا سو محمد سنیے کہ ان پر میرا عذاب اور ڈرانا کیسا ہوا۔- جس وقت ان کو ہود نے ڈرایا اور پھر بھی ایمان نہیں لائے۔ تو ہم نے ان پر ایک تند ٹھنڈی ہوا یعنی دبور بھیجی ایسے دن میں جو ان کے حق میں خواہ بڑا ہوا یا چھوٹا ہمیشہ کے لیے منحوس رہا وہ ہوا قوم ہود کو ان کی جگہ اس طرح اکھاڑ اکھاڑ کر پھینکتی تھی کہ گویا وہ اکھڑی ہوئی کھجور کے تنے ہیں کہ ان کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے۔ سو دیکھیے کہ ان پر میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا ہولناک ہوا۔ جس وقت ان کو ہود نے ڈرایا مگر وہ پھر بھی ایمان نہیں لائے۔
آیت ١٨ کَذَّبَتْ عَادٌ فَـکَیْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ ۔ ” جھٹلایا تھا قوم عاد نے بھی ‘ تو کیسا رہا میرا عذاب اور میرا خبردار کرنا ؟ “