19۔ 1 کہتے ہیں یہ بدھ کی شام تھی، جب اس تند، یخ اور شاں شاں کرتی ہوئی ہوا کا آغاز ہوا، پھر مسلسل 7 راتیں اور 8 دن چلتی رہی۔ یہ ہوا گھروں اور قلعوں میں بند انسانوں کو بھی وہاں سے اٹھاتی اور اس طرح زور سے انہیں زمین پر پٹختی کہ ان کے سر ان کے دھڑوں سے الگ ہوجاتے۔ یہ دن ان کے لیے عذاب کے اعتبار سے منحوس ثابت ہوا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بدھ کے دن میں یا کسی اور دن میں نحوست ہے، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ مستمر کا مطلب، یہ عذاب اس وقت تک جاری رہا جب تک سب ہلاک نہیں ہوگئے۔
[١٨] کیا کوئی دن بذات خود نحس یا سعد ہوتا ہے ؟:۔ کہتے ہیں کہ یہ دن ماہ شوال کا آخری بدھ تھا جس سے بعض ضعیف الاعتقاد لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہر مہینہ کا آخری بدھ منحوس دن ہوتا ہے پھر بعض ضعیف اور موضوع روایات کی بنا پر اس عقیدہ پر کئی حاشیے چڑھائے گئے کہ اس دن سفر نہ کرنا چاہئے۔ کاروبار نہ کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ ایسی سب باتیں خرافات ہیں اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔- ١۔ اس مقام پر (فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ ) کا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ سورة حٰم السجدہ کی آیت نمبر ١٦ میں (فِيْٓ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ 16) 41 ۔ فصلت :16) کے الفاظ مذکور ہیں۔ اور سورة الحاقہ میں یہ صراحت ہے کہ یہ عذاب ان پر مسلسل آٹھ دن اور سات راتیں رہا تھا۔ یعنی بدھ سے عذاب شروع ہوا اور اگلے بدھ تک رہا۔ اس لحاظ سے ہفتہ کے سب ایام ہی نحس ہوئے اور سعد ایک بھی نہ رہا۔ اور اس بات کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔- ٢۔ ایک ہی دن ایک قوم کے حق میں منحوس ہوتا ہے اور وہی دن دوسری قوم کے حق میں سعد ہوتا ہے۔ مثلاً یہی دن سیدنا ہود (علیہ السلام) اور آپ کے پیروکاروں کے حق میں سعد تھا۔ جنہیں اللہ نے اس مصیبت سے بچا لیا تھا یا مثلاً دس محرم کا دن فرعون اور آل فرعون کے لیے منحوس تھا مگر یہ دن سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے لیے سعد اور انتہائی خوشی کا دن تھا۔- ٣۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی دن ایسا پیدا نہیں کیا جو سب کے لیے نحس ہو یا سعد ہو۔ یہ نجومی اور سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات تسلیم کرنے والوں کی تقسیم ہے کہ فلاں دن نحس ہے اور فلاں سعد۔ شریعت ایسی تقسیم کو شرک قرار دیتی ہے۔
اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَيْہِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْ يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ ١٩ ۙ- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔- الرِّيحُ معروف،- وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] . وأمّا قوله :- يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ.- وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ :- تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ :- مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء .- ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من - المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح .- الریح کے معنی معروف ہیں - ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير - سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔- المراوحتہ - کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔- صَرْصَراً- ، والْإِصْرَارُ : كلّ عزم شددت عليه، يقال : هذا منّي صِرِّي وأَصِرِّي وصِرَّى وأَصِرَّى وصُرِّي وصُرَّى أي : جدّ وعزیمة، والصَّرُورَةُ من الرّجال والنساء : الذي لم يحجّ ، والّذي لا يريد التّزوّج، وقوله : رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت 16] ، لفظه من الصَّرِّ ، وذلک يرجع إلى الشّدّ لما في البرودة من التّعقّد، والصَّرَّةُ : الجماعة المنضمّ بعضهم إلى بعض كأنّهم صُرُّوا، أي : جُمِعُوا في وعاء . قال تعالی: فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات 29] ، وقیل : الصَّرَّةُ الصّيحةُ- الاصرار : پختہ عزم کو کہتے ہیں محاورہ ہے ھذا منی صری واصری وصری وصری وصری وصریٰ ۔ وہ مرد یا عورت جو جج نہ کرے وہ شخص جسے نکاح کی کو اہش نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت 16] زور کی ہوا ( چلائی ) میں صر صر کا لفظ صر سے ہے گویا سخت سرد ہونے کی وجہ سے اس میں پستگی پائی جاتی ہے الصرۃ جماعت جس کے افراد باہم ملے جلے ہوں گویا وہ کسی تھیلی میں باندھ دیئے گئے ہیں قرآن میں ہے فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات 29] ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی چلاتی آئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ صرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ۔- نحس - قوله تعالی: يُرْسَلُ عَلَيْكُما شُواظٌ مِنْ نارٍ وَنُحاسٌ [ الرحمن 35] فَالنُّحَاس : اللَّهِيبُ بلا دخانٍ ، وذلک تشبيه في اللَّون بالنُّحاس، والنَّحْسُ : ضدّ السَّعْد، قال اللہ تعالی: فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ- [ القمر 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي أَيَّامٍ نَحِساتٍ [ فصلت 16] وقُرئ ( نَحَسَات) بالفتح . قيل : مشؤوماتٍ وقیل : شدیداتِ البَرْد - وأصل النَّحْس أن يحمرَّ الأفق فيصير کالنُّحاس . أي : لَهَبٍ بلا دخان، فصار ذلک مثلا للشُّؤْم .- ( ن ح س ) النحاس ۔ دھواں بغیر شعلہ آگ کی لپٹ ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ يُرْسَلُ عَلَيْكُما شُواظٌ مِنْ نارٍ وَنُحاسٌ [ الرحمن 35] تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑ دیا جائے گا ۔ تو یہاں نحاس کے معنی آگ کی لپٹ کے ہیں اور لپٹ کا رنگ چونکہ تانبے جیسا ہوتا ہے لہذا تشبیھا نحاس کے معنی تانبا بھی آجاتے ہیں ۔ النحس ( منحوس ) یہ سعد کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] سخت منحوس دن میں ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي أَيَّامٍ نَحِساتٍ [ فصلت 16] ہم نے ان پر نحوست کے دنوں میں زور کی ہوا چلائی ۔ اور ایک قرات میں نحساتبفتح الخاء ہے جس کے معنی بعض نے منحوس اور بعض نے سخت سردی والے دنوں کے لئے ہیں ۔ اصل میں نجس کے معنی افق آسمان کے سرخ ہو کر نحاس کی طرح ہوجائے کے ہیں ۔ اور یہ نحوست کے لئے ضرب المثل ہے
آیت ١٩ اِنَّــآ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا ” ہم نے ان پر مسلط کردی ایک ُ تند و تیز ہوا “- فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ ۔ ” ایک مسلسل نحوست کے دن میں۔ “
سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :16 یعنی ایک ایسے دن جس کی نحوست کئی روز تک مسلسل جاری رہی ۔ سورہ حٰم لسجدہ ، آیت 16 میں فِیْ اَیَّامٍ نَّحِسٰتٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اور سورہ الحاقہ آیت 7 میں فرمایا گیا ہے کہ ہوا کا یہ طوفان مسلسل سات رات اور آٹھ دن جاری رہا ۔ مشہور یہ ہے کہ جس دن یہ عذاب شروع ہوا وہ بدھ کا دن تھا ۔ اسی سے لوگوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ بدھ کا دن منحوس ہے اور کوئی کام اس دن شروع نہ کرنا چاہیے ۔ بعض نہایت ضعیف احادیث بھی اس سلسلے میں نقل کی گئی ہیں جن سے اس دن کی نحوست کا عقیدہ عوام کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے ۔ مثلاً اب مردویہ اور خطیب بغدادی کی یہ روایت کہ اخر اربعاء فی الشھر یوم نحس مستمر ( مہینے کا آخری بدھ منحوس ہے جس کی نحوست مسلسل جاری رہتی ہے ) ۔ ابن جوزی اسے موضوع کہتے ہیں ۔ ابن رجب نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ حافظ سخاوی کہتے ہیں کہ جتنے طریقوں سے یہ منقول ہوئی ہے وہ سب واہی ہیں ۔ اسی طرح طبرانی کی اس روایت کو بھی محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے کہ یوم الاربعاء یوم نحس مستمر ( بدھ کا دن پیہم نحوست کا دن ہے ۔ ) بعض اور روایات میں یہ باتیں بھی مروی ہیں کہ بدھ کو سفر نہ کیا جائے ، لین دین نہ کیا جائے ، ناخن نہ کٹوائے جائیں ، مریض کی عیادت نہ کی جائے ، اور یہ کہ جذام اور برص اسی روز شروع ہوتے ہیں ۔ مگر یہ تمام روایات ضعیف ہیں اور ان پر کسی عقیدے کی بنا نہیں رکھی جا سکتی ۔ محقق مناوِی کہتے ہیں : توقی الاربعاء علی جھۃ الطیرۃ و ظن اعتقاد المنجمین حرام شدید التحریم ، اذا الایام کلھا لِلہ تعالیٰ ، لا تنفع ولا تضر بذاتھا ، بد فالی کے خیال سے بدھ کے دن کو منحوس سمجھ کر چھوڑنا اور نجومیوں کے سے اعتقادات اس باب میں رکھنا حرام ، سخت حرام ہے ، کیونکہ سارے دن اللہ کے ہیں ، کوئی دن بذات خود نہ نفع پہنچانے والا ہے نہ نقصان علامہ آلوسی کہتے ہیں سارے دن یکساں ہیں ، بدھ کی کوئی تخصیص نہیں ۔ رات دن میں کوئی گھڑی ایسی نہیں ہے جو کسی کے لیے اچھی اور کسی دوسرے کے لیے بری نہ ہو ۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کسی کے لیے موافق اور کسی کے لیے ناموافق حالات پیدا کرتا رہتا ہے ۔
6: تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ اعراف : 65