Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 یعنی اس نے جھوٹ بھی بولا تو بہت بڑا۔ کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ بھلا ہم میں سے صرف اسی پر وحی آنی تھی ؟ یا اس کے ذریعے سے ہم پر اپنی بڑائی جتانا اس کا مقصد تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠] قوم ثمود کے سیدنا صالح کو جھٹلانے کی تین وجوہ :۔ یعنی قوم ثمود نے تین وجوہ کی بنا پر سیدنا صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا تھا ایک یہ کہ وہ ہم ہی جیسا ایک انسان ہے۔ کھاتا ہے، پیتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ کوئی مافوق الفطرت بات اس میں ہم نہیں دیکھتے۔ دوسری یہ کہ وہ اکیلا ہے اس کے ساتھ نہ کوئی جتھا ہے نہ فوج نہ یارو مددگار اور نہ جاہ و حشم، پھر آخر ہم کس بنا پر اس کی اطاعت کرسکتے ہیں۔ اور اگر ہم اس کی اطاعت کرنے لگیں تو ہم جیسا احمق اور پاگل کون ہوگا۔ اور تیسری وجہ یہ کہ اگر اللہ کو اپنا کوئی رسول بنانا ہی تھا تو کیا اسے یہی شخص پسند آیا تھا ؟ جس کے پاس نہ مال و دولت ہے اور نہ جاہ و حشم، پھر آخرت ہم کس بنا پر اس کی اطاعت کرسکتے ہیں۔ اور اگر ہم اس کی اطاعت کرنے لگیں تو ہم جیسا احمق اور پاگل کون ہوگا۔ بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ اس نے اللہ کی طرف سے رسالت کا محض ایک ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ اور حقیقتاً یہ کوئی بڑا آدمی یا لیڈر بننا چاہتا ہے۔ اور یہ بالکل اسی قسم کے اعتراضات تھے جو قریش مکہ رسول اللہ پر کر رہے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ءَ اُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْہِ مِنْۢ بَيْنِنَا بَلْ ہُوَكَذَّابٌ اَشِرٌ۝ ٢٥- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - أشر - الأَشَرُ : شدّة البطر، وقد أَشِرَ يَأْشَرُ أَشَراً ، قال تعالی: سَيَعْلَمُونَ غَداً مَنِ الْكَذَّابُ الْأَشِرُ [ القمر 26] ، فالأشر أبلغ من البطر، والبطر أبلغ من الفرح، فإنّ الفرح۔ وإن کان في - أغلب أحواله مذموما لقوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ [ القصص 76]- فقد يحمد تارة إذا کان علی قدر ما يجب، وفي الموضع الذي يجب، كما قال تعالی: فَبِذلِكَ فَلْيَفْرَحُوا [يونس 58] وذلک أنّ الفرح قد يكون من سرور بحسب قضية العقل، والأَشَرُ لا يكون إلا فرحا بحسب قضية الهوى، ويقال : ناقة مِئْشِيرأي : نشیطة علی طریق التشبيه، أو ضامر من قولهم : أشرت الخشبة- ( ا ش ر ) الاشر بہت زیادہ اترانا اشریا شر اشرا ( س) ( الاشر بہت زیادہ اترانے والا ) قرآن میں ہے : سَيَعْلَمُونَ غَدًا مَنِ الْكَذَّابُ الْأَشِرُ ( سورة القمر 26) ان کو کل ہی معلوم ہوجائیگا کہ کون جھوٹا خود پسند ہے ۔ بس اشر ۔ بطر سے ابلغ ہے اور بطر میں فرح سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اور فرح اگر چہ عام حالات میں مذموم ہوتا ہے جس طرح کہ قرآن میں ہے : إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ ( سورة القصص 76) کہ خدا اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن ایسے موقع پر جب خوشی کا اظہار ضروری ہو اور وہ اظہار بھی جب ضرورت ہو تو فرحت ممدوح ہوجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا ( سورة يونس 58) تو چاہیے کہ لوگ اس سے خوش ہوں ۔ کیونکہ کبھی سرور کی وجہ سے فرحت کا حصول تقاضائے عقل کے مطابق ہوتا ہے مگر اشر اس فرحت کو کہتے ہیں جو مبنی پر ہوائے نفس ہو اور اسی سے بطور تشبیہ ناقۃ مئشیر کا محاورہ ہے جس کی معنی چست اونٹنی کے ہیں ۔ اور اس کے معنی دبلی اونٹنی بھی آتے ہیں اس صورت میں یہ اشرت الخشیۃ سے ماخوذ ہوگا جسکے معنی لکڑی چیرنا کے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥۔ ٢٦) کیا ہم سب میں سے اسی شخص کو نبوت کے لیے منتخب کیا گیا ہے حالانکہ ہم اس سے زیادہ شریف اور بزرگ ہیں بلکہ یہ یعنی صالح معاز اللہ بڑا جھوٹا اور شیخی باز ہے یہ سن کر صالح نے فرمایا کہ قیامت کے دن تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا اور شیخی باز کون ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ ئَ اُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِنْ م بَیْنِنَا ” کیا یہ ذکر ہمارے مابین اسی پر القا کیا گیا ہے ؟ “- اگر ہم مان بھی لیں کہ یہ سچ کہہ رہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے وحی کے لیے آخر اسی شخص کا انتخاب کیوں کیا ؟ اس منصب کے لیے اس کی نظر ہمارے کسی بڑے سردار پر کیوں نہیں پڑی ؟- بَلْ ہُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ ۔ ” بلکہ یہ انتہائی جھوٹا اور شیخی خورا ہے۔ “- لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے اور صرف اپنی بڑائی جتلانے اور شیخی بگھارنے کے لیے اس نے یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقَمَر حاشیہ نمبر :18 اصل میں لفظ اَشِر استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ایسا خود پسند اور بر خود غلط شخص جس کے دماغ میں اپنی بڑائی کا سودا سما گیا ہو اور اس بنا پر وہ ڈینگیں مارتا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani