Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 کہ یہ ایمان لاتے ہیں یا نہیں وہی اونٹنی ہے جو اللہ نے خود ان کے کہنے پر پتھر کی ایک چٹان ظاہر فرمائی تھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّا مُرْسِلُوا النَّاقَۃِ فِتْنَۃً لَّھُمْ ۔۔۔۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ ہود ( ٦٤) اور سورة ٔ شعراء (١٥٥) کی تفسیر۔ ” فازتقبھم “” رقب یرقب “ (ن) سے باب افتعال ہے۔ ” واصطبر “ ” صبر یصبر صبرا “ (ض) سے بال افتعال ہے ، ” تائ “ کو ” طائ “ سے بدل دیا ۔ حروف کے اضافے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوگیا ہے ، ان کا حوصلے سے انتظار کرو اور اچھی طرح صبر کر ۔ یعنی اس آزمائش میں یہ لوگ کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں حوصلے کے ساتھ اس کا انتاظر کر اور بہت اچھے طریقے سے صبر کر ۔ آزمائش اس لیے تھی کہ ان کا امتحان مقصود تھا کہ اس نشانی کو دیکھ کر وہ پیغمبر پر ایمان لاتے ہیں یا اسے نقصان پہنچا کر عذاب کے مستحق بنتے ہیں ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّا مُرْسِلُوا النَّاقَۃِ فِتْنَۃً لَّہُمْ فَارْتَقِبْہُمْ وَاصْطَبِرْ۝ ٢٧ ۡ- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - رقیب - والرَّقِيبُ : الحافظ، وذلک إمّا لمراعاته رقبة المحفوظ، وإما لرفعه رقبته، قال تعالی: وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ [هود 93]- ( ر ق ب ) الرقبۃ - اسی سے نگران کو رقیب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ وہ شخص کی گردن پر نظر رکھتا ہے جس کی نگرانی منظو رہوتی ہے اور یا اس لئے ک وہ نگرانی کے لئے بار بار اپنی گردن اٹھا کر دیکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ [هود 93] تم بھی منتظر رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ۔- واصطبر - : واؤ عاطفہ۔ اصطبر فعل امر واحد مذکر حاضر تو صبر کر۔ اصطبار ( افتعال) یہ اصل میں اصتبار تھا۔ ت کو ط سے بدل دیا گیا۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

چناچہ اللہ تعالیٰ نے صالح سے فرمایا کہ ہم پتھر میں سے اونٹنی کو نکالنے والے ہیں آپ اپنی قوم کی آزمائش کے لیے اونٹنی کے نکلنے کا انتظار کیجیے اور ان کی تکالیف پہنچانے اور اونٹنی کے قتل کرنے پر صبر سے بیٹھے رہنا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ اِنَّا مُرْسِلُوا النَّاقَۃِ فِتْنَۃً لَّـہُمْ فَارْتَقِبْہُمْ وَاصْطَبِرْ ۔ ” ہم بھیجے دیتے ہیں اونٹنی کو ان کی آزمائش کے لیے ‘ تو آپ (علیہ السلام) انتظار کیجیے ان کے بارے میں اور صبر کیجیے۔ “- یہ خطاب حضرت صالح (علیہ السلام) سے ہے کہ ہم ان کے مطالبے کے مطابق اونٹنی بطور معجزہ ان کے سامنے لا رہے ہیں ‘ جو ان کے لیے بہت بڑی آزمائش بن جائے گی۔ لیکن ابھی چونکہ ان کی مہلت باقی ہے اس لیے آپ (علیہ السلام) صبر کے ساتھ ان کے بارے میں اللہ کے فیصلے کا انتظار کیجیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani