4۔ 1 یعنی گذشتہ امتوں کی ہلاکت کی، جب انہوں نے جھٹلایا۔
وَلَقَدْ جَآئَ ھُمْ مِّنَ اْلاَ نْبَآئِ ۔۔۔:” نبائ “ کسی اہم خبر کو کہتے ہیں ، ” الانبائ “ اس کی جمع ہے۔ ” مزدجر “” زجر یز جز زجرا “ ( ن) روکنا ، منع کرنا ، ڈانٹنا) سے بات افتعال کا مصدر میمی ہے ، جس کا معنی ” باز آنا “ ہے۔ کہا جاتا ہے :” زجرتہ فازدجر “ میں نے اسے منع کیا تو وہ باز آگیا ۔ “ یہ اصل میں ” مزتجر “ ( بروزن مفتعل) تھا ، ” زائ “ کی وجہ سے باب افتعال کی ” تائ “ کو دال سے بدل دیا تو ’ ’ مزدجر “ ہوگیا ۔ تنوین اس میں تعظیم کے لیے ہے۔ یعنی قرآن کی صورت میں ان کے پاس رسولوں کو جھٹلانے والی اقوام کی خبروں میں سے ایسی اہم خبریں یقینا پہنچی ہیں جن میں آدمی کے لیے ہوائے نفس کی پیرو ی اور رسولوں کی تکذیب سے باز آنے کا مکمل سامان موجود ہے۔ اگلی آیات میں ان میں سے چند خبروں کا ذکر فرمایا ہے۔
وَلَقَدْ جَاۗءَہُمْ مِّنَ الْاَنْۢبَاۗءِ مَا فِيْہِ مُزْدَجَرٌ ٤ ۙ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - زجر - الزَّجْرُ : طرد بصوت، يقال : زَجَرْتُهُ فَانْزَجَرَ ، قال : فَإِنَّما هِيَ زَجْرَةٌ واحِدَةٌ [ النازعات 13] ، ثمّ يستعمل في الطّرد تارة، وفي الصّوت أخری. وقوله : فَالزَّاجِراتِ زَجْراً [ الصافات 2] ، أي : الملائكة التي تَزْجُرُ السّحاب، وقوله : ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ [ القمر 4] ، أي : طرد ومنع عن ارتکاب المآثم . وقال : وَقالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ [ القمر 9] ، أي : طرد، واستعمال الزّجر فيه لصیاحهم بالمطرود، نحو أن يقال : اعزب وتنحّ ووراءک .- ( زج ر ) الزجر ۔ اصل میں آواز کے ساتھ دھتکارنے کو کہتے ہیں زجرتہ میں نے اسے جھڑکا ، روکا ۔ انزجر ( جھڑکنے پر ) کسی کام سے رک جانا ۔ یہ زجر کا مطاوع بن کر استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّما هِيَ زَجْرَةٌ واحِدَةٌ [ النازعات 13] اور قیامت تو ایک ڈانٹ ہے ۔ پھر کبھی یہ صرف دھتکار دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی آواز کیلئے اور آیت کریمہ : فَالزَّاجِراتِ زَجْراً [ الصافات 2] سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بادلوں کو ڈانٹ کر چلاتے ہیں اور آیت :۔ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ [ القمر 4] جس میں ( کافی ) تنبیہ ہے ۔ میں مزدجر سے ایسی باتیں مراد ہیں جو ارتکاب معاصی سے روکتی اور سختی سے منع کرتی ہیں اور آیت ؛۔ وَازْدُجِرَ [ القمر 9] اور اسے جھڑکیاں دی گئیں ۔ کے معنی ہیں ڈانٹ کر نکال دیا گیا یہاں زجر کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ مار بھگانے کے وقت تہدید آمیز کلمات استعمال کئے جاتے ہیں ۔ جیسے جا چلا جا دور ہوجا وغیرہ ۔
(٤۔ ٥) اور ان کہ والوں کے پاس قرآن کریم کے ذریعے گزشتہ قوموں کی خبریں پہنچ چکی ہیں کہ جھٹلانے پر وہ کس طرح ہلاک ہوئے جن میں کافی تنبیہ اور ممانعت ہے اور قرآن کریم اللہ کی طرف سے حکمت سے بھروپور ہے جس سے کافی دانش مندی حاصل ہوسکتی ہے۔
آیت ٤ وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ مِّنَ الْاَنْبَـآئِ مَا فِیْہِ مُزْدَجَرٌ ۔ ” اور ان کے پاس وہ خبریں آچکی ہیں جن میں تنبیہہ ہے۔ “ - گزشتہ اقوام کے اپنے پیغمبروں کو جھٹلانے اور پھر اس کے نتیجے میں عذاب الٰہی کے ذریعے تباہ ہوجانے کی خبریں (انباء الرسل) ان لوگوں کو تفصیل سے بتائی جا چکی ہیں۔ ان خبروں میں مشرکین مکہ کے لیے یقینا کافی تنبیہہ و تہدید اور سامانِ عبرت موجود ہے۔